پھانسی گھاٹ
ملک کی سیاسی اور عسکری لیڈرشپ کے لیے اپنی ساکھ بچانا مشکل ہو گیا اور ملکی بقا خطرے میں پڑی تو فوری اقدام لازم ہو گیا۔
ٹیلی ویژن کے ایک چینل پر جنگل کا منظر تھا۔ ڈیڑھ دو سو ہرن دوڑے چلے جا رہے تھے کیونکہ ان کے تعاقب میں ایک بھوکا درندہ تھا۔ کچھ دیر تک درندہ کبھی ہرنوں کے دائیں اور کبھی بائیں طرف سے ان کا پیچھا کرتا رہا لیکن کسی ہرن کو پنجہ نہ مارا کیونکہ وہ سب اکٹھے ہو کر بھاگ رہے تھے۔
پھر ایک ہرن پھرتی دکھانے کے لیے یا غلطی سے تھوڑا الگ ہو کر چوکڑیاں بھرنے لگا۔ اب درندہ بھی صرف اس ہرن کا پیچھا کرنے لگا۔ ہرن نے تیزی دکھائی تو درندے نے بھی تیزی دکھائی اور ہرن کو جا لیا۔ درندہ اپنے شکار کو جھاڑیوں میں لے جا کر اس کی چیرپھاڑ کرنے لگا اور دور جاتے ہوئے ہرنوں سے لاتعلق ہو کر ضیافت اڑانے لگا۔ اسے صرف ایک شکار کی بھوک ہو گی۔ کچھ دور پہنچ کر ہرنوں کا غول بھی رفتار کم کر کے اطمینان سے چلنے لگا۔ اب وہ بے خوف معلوم ہوتے تھے۔
جنگلوں میں کئی قسم کے درندے اور ان کے شکار پائے جاتے ہیں۔ جنگلی جانوروں کی اپنی اپنی خوراک ہوتی ہے۔ کسی کی خوراک گوشت تو کسی کی پھل یا درختوں جھاڑیوں پر اگنے والی مختلف اجناس، پھول پتے، بیج ٹہنیاں وغیرہ ہوتی ہیں۔ جس طرح بڑی مچھلی کا گزارا چھوٹی مچھلی کھا کر ہوتا ہے اسی طرح طاقتور گوشت خور جانوروں کی خوراک چھوٹے اور کمزور جانور ہوتی ہے لیکن کوئی درندہ یا چوپایہ اپنے ہم جنس کا شکار نہیں کرتا۔ ایک انسان ہے جو پانی، ہوا اور زمین میں پیدا ہونے اور رہنے والی قریباً ہر چیز گوشت سبزی پھل بیج وغیرہ کھا جاتا ہے۔ قرون اولیٰ کا اور غیر مہذب انسان البتہ اپنے ہم جنسوں کی دعوت بھی اڑانے سے دریغ نہیں کرتا تھا لیکن تہذیب یافتہ ہو جانے پر وہ صرف دوسرے انسانوں کو مارنے اور قتل کر دینے پر اکتفا کرتا ہے اور مرے ہوئے ہم جنس کا گوشت کھانا یا خون پینا پسند نہیں کرتا۔
غلبہ پانے، زر اور زمین حاصل کرنے یا پھر مذہب و عقیدہ کی بنیاد پر بے شمار جنگیں ہوئیں جن میں ان گنت انسان لقمہ اجل بنے لیکن خود کو مسلمان کہنے والوں نے گزشتہ کئی سال کے دوران پاکستان میں ہزارہا معصوم مسلمانوں کو مسجدوں، اسکولوں، اسپتالوں، بازاروں، جنازہ گاہوں میں بموں، بندوقوں اور خودکش حملوں سے شہید کیا اور یہ سلسلہ 16 دسمبر 2014ء تک جاری تھا جس روز آرمی پبلک اسکول پشاور میں گھسنے والے طالبان دہشت گردوں نے وحشیانہ فائرنگ کرتے ہوئے 132 کمسن معصوم بچوں کا قتل عام کیا اور اسکول اسٹاف کو بھی گولیوں کا نشانہ بنایا۔
ملک میں گزشتہ کئی سال سے مقدمات میں موت کی سزا پانے والوں کے لیے سابق صدر زرداری نے زندگی بخش حکم کا اجرا 2008ء میں کیا لہٰذا گزشتہ چھ سال سے قتل اور دہشت گردی کے ملزمان جیلوں میں زندگی کے مزے لوٹ رہے تھے۔ اس پابندی کے خاتمے کا سبب دہشت گردوں کا اسکول پر وحشیانہ حملہ بنا جس کے بعد تمام دنیا اور ملک کے اندر ماتمی فضا پیدا ہوئی اور پاکستان کے طول و عرض میں فضا سوگوار ہونے سے احتجاجوں اور معصوم شہیدوں کی یاد میں شمعیں روشن کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
ملک کی سیاسی اور عسکری لیڈرشپ کے لیے اپنی ساکھ بچانا مشکل ہو گیا اور ملکی بقا خطرے میں پڑی تو فوری اقدام لازم ہو گیا۔ سزائے موت پانے والوں پر موت کی سزا پر پابندی کے خاتمے کی خبر بجلی بن کر گری لیکن پاکستان کے محب وطن شہریوں کے لیے یہ اقدام اور فیصلہ وقتی حوصلے کا سبب بنا کیونکہ 132 بچوں کی شہادت اور حکومت کی بزدلی پر ہر بچہ بوڑھا جوان سراپا احتجاج بن کر سڑکوں پر آنے کے لیے تیار ہو رہا تھا۔
گزشتہ جمعہ اور ہفتے کی رات مجرموں کو پھانسیاں دینے کی ابتداء جی ایچ کیو پر دہشت گرد حملہ کرنے والے دو لعنتیوں سے ہوئی جو سزا یافتہ قریباً سات ہزار اسی قسم کے درندوں کو انجام تک پہنچانے پر مکمل ہو گی اور یہ سلسلہ جو زرداری نے چھ سال قبل روکا تھا قانون کے مطابق چلتا رہے گا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک سال قبل پریس کلب جانا ہوا تو ارشد انصاری صدر لاہور پریس کلب کو کچھ مایوس اور افسردہ پا کر میں نے کہا تھا کہ دہشت گردوں کے خلاف چھ ماہ کے اندر فیصلہ کن ایکشن کرنا پڑے گا۔ چھ ماہ گزر گئے تو کئی دوسرے احباب نے جن سے میں نے اپنا تجزیہ شیئر کیا تھا میرا مذاق اڑایا تو میرے پاس منیر نیازی کے الفاظ میں یہی جواب تھا کہ
کسی سے بات کرنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
لیکن شاید وزیر اعظم نواز شریف کو محسوس ہوتا تھا کہ ابھی شہادتوں کا ٹارگٹ پورا نہیں ہوا۔ خدا بھلا کرے چیف آف آرمی اسٹاف کا جن کے بھائی شبیر شریف نشان حیدر تھے اور والد میجر شریف تھے اور راحیل شریف کے والد ہمارے بزرگ لیکن زندہ دل دوست تھے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ جرم اور دہشت گردی کا علاج صرف سزا ہے اور اگر مجرم کو سزا کا خوف نہ ہو تو خطرناک جرائم بڑھتے ہیں۔ سزاؤں کا نہ ہونا ہی پاکستان میں جرائم میں زیادتی کا سبب ہے۔
سانحہ پشاور جس میں 132 کمسن طالبان علم جو جہنمی طالبان کے ہاتھوں گولیوں کے بوچھاڑ سے شہید ہوئے اس نے ساری خوابیدہ حکومت کے لاڈلوں کو جگا دیا اور پاکستانیوں کو سراپا احتجاج ہونے پر مجبور کر کے پہلے رلایا اور پھر نعرۂ تکبیر بلند کرتے ہوئے ایک پیج پر لا کھڑا کیا اور اس عزم کے ساتھ کہ اب اس سرزمین کو دہشت گردوں سے پاک کر کے دم لیں گے ایک دیرینہ ضرورت تھی۔ شہید بچے، ان کے استاد اور اسکول کے دوسرے ملازم تو اب امر ہو گئے لیکن قوم کو جگا گئے۔ لوگ اسکول کی پرنسپل کو بھی کبھی نہ بھولیں گے۔
جو فوج کی مدد سے اسکول سے نکل کر محفوظ جگہ منتقل ہونے سے دل کی آواز پر انکار کر کے پھر اسکول میں اپنے بچوں کو موت کے منہ سے نکالنے کے لیے جا گھسیں کہ وہ بزدل اور خود غرض نہ تھیں۔ پرنسپل صاحبہ کو دہشت گردوں نے جلا کر شہید کر دیا۔ ان کے لیے ملک کا سب سے بڑا بہادری کا ایواڈ منتظر ہے اور ملک کے شہیدوں کی روحیں منتظر ہیں کہ پھانسی گھاٹ پر کب تمام مجرم اور دہشت گرد لائے جاتے ہیں۔
پھر ایک ہرن پھرتی دکھانے کے لیے یا غلطی سے تھوڑا الگ ہو کر چوکڑیاں بھرنے لگا۔ اب درندہ بھی صرف اس ہرن کا پیچھا کرنے لگا۔ ہرن نے تیزی دکھائی تو درندے نے بھی تیزی دکھائی اور ہرن کو جا لیا۔ درندہ اپنے شکار کو جھاڑیوں میں لے جا کر اس کی چیرپھاڑ کرنے لگا اور دور جاتے ہوئے ہرنوں سے لاتعلق ہو کر ضیافت اڑانے لگا۔ اسے صرف ایک شکار کی بھوک ہو گی۔ کچھ دور پہنچ کر ہرنوں کا غول بھی رفتار کم کر کے اطمینان سے چلنے لگا۔ اب وہ بے خوف معلوم ہوتے تھے۔
جنگلوں میں کئی قسم کے درندے اور ان کے شکار پائے جاتے ہیں۔ جنگلی جانوروں کی اپنی اپنی خوراک ہوتی ہے۔ کسی کی خوراک گوشت تو کسی کی پھل یا درختوں جھاڑیوں پر اگنے والی مختلف اجناس، پھول پتے، بیج ٹہنیاں وغیرہ ہوتی ہیں۔ جس طرح بڑی مچھلی کا گزارا چھوٹی مچھلی کھا کر ہوتا ہے اسی طرح طاقتور گوشت خور جانوروں کی خوراک چھوٹے اور کمزور جانور ہوتی ہے لیکن کوئی درندہ یا چوپایہ اپنے ہم جنس کا شکار نہیں کرتا۔ ایک انسان ہے جو پانی، ہوا اور زمین میں پیدا ہونے اور رہنے والی قریباً ہر چیز گوشت سبزی پھل بیج وغیرہ کھا جاتا ہے۔ قرون اولیٰ کا اور غیر مہذب انسان البتہ اپنے ہم جنسوں کی دعوت بھی اڑانے سے دریغ نہیں کرتا تھا لیکن تہذیب یافتہ ہو جانے پر وہ صرف دوسرے انسانوں کو مارنے اور قتل کر دینے پر اکتفا کرتا ہے اور مرے ہوئے ہم جنس کا گوشت کھانا یا خون پینا پسند نہیں کرتا۔
غلبہ پانے، زر اور زمین حاصل کرنے یا پھر مذہب و عقیدہ کی بنیاد پر بے شمار جنگیں ہوئیں جن میں ان گنت انسان لقمہ اجل بنے لیکن خود کو مسلمان کہنے والوں نے گزشتہ کئی سال کے دوران پاکستان میں ہزارہا معصوم مسلمانوں کو مسجدوں، اسکولوں، اسپتالوں، بازاروں، جنازہ گاہوں میں بموں، بندوقوں اور خودکش حملوں سے شہید کیا اور یہ سلسلہ 16 دسمبر 2014ء تک جاری تھا جس روز آرمی پبلک اسکول پشاور میں گھسنے والے طالبان دہشت گردوں نے وحشیانہ فائرنگ کرتے ہوئے 132 کمسن معصوم بچوں کا قتل عام کیا اور اسکول اسٹاف کو بھی گولیوں کا نشانہ بنایا۔
ملک میں گزشتہ کئی سال سے مقدمات میں موت کی سزا پانے والوں کے لیے سابق صدر زرداری نے زندگی بخش حکم کا اجرا 2008ء میں کیا لہٰذا گزشتہ چھ سال سے قتل اور دہشت گردی کے ملزمان جیلوں میں زندگی کے مزے لوٹ رہے تھے۔ اس پابندی کے خاتمے کا سبب دہشت گردوں کا اسکول پر وحشیانہ حملہ بنا جس کے بعد تمام دنیا اور ملک کے اندر ماتمی فضا پیدا ہوئی اور پاکستان کے طول و عرض میں فضا سوگوار ہونے سے احتجاجوں اور معصوم شہیدوں کی یاد میں شمعیں روشن کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
ملک کی سیاسی اور عسکری لیڈرشپ کے لیے اپنی ساکھ بچانا مشکل ہو گیا اور ملکی بقا خطرے میں پڑی تو فوری اقدام لازم ہو گیا۔ سزائے موت پانے والوں پر موت کی سزا پر پابندی کے خاتمے کی خبر بجلی بن کر گری لیکن پاکستان کے محب وطن شہریوں کے لیے یہ اقدام اور فیصلہ وقتی حوصلے کا سبب بنا کیونکہ 132 بچوں کی شہادت اور حکومت کی بزدلی پر ہر بچہ بوڑھا جوان سراپا احتجاج بن کر سڑکوں پر آنے کے لیے تیار ہو رہا تھا۔
گزشتہ جمعہ اور ہفتے کی رات مجرموں کو پھانسیاں دینے کی ابتداء جی ایچ کیو پر دہشت گرد حملہ کرنے والے دو لعنتیوں سے ہوئی جو سزا یافتہ قریباً سات ہزار اسی قسم کے درندوں کو انجام تک پہنچانے پر مکمل ہو گی اور یہ سلسلہ جو زرداری نے چھ سال قبل روکا تھا قانون کے مطابق چلتا رہے گا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک سال قبل پریس کلب جانا ہوا تو ارشد انصاری صدر لاہور پریس کلب کو کچھ مایوس اور افسردہ پا کر میں نے کہا تھا کہ دہشت گردوں کے خلاف چھ ماہ کے اندر فیصلہ کن ایکشن کرنا پڑے گا۔ چھ ماہ گزر گئے تو کئی دوسرے احباب نے جن سے میں نے اپنا تجزیہ شیئر کیا تھا میرا مذاق اڑایا تو میرے پاس منیر نیازی کے الفاظ میں یہی جواب تھا کہ
کسی سے بات کرنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
لیکن شاید وزیر اعظم نواز شریف کو محسوس ہوتا تھا کہ ابھی شہادتوں کا ٹارگٹ پورا نہیں ہوا۔ خدا بھلا کرے چیف آف آرمی اسٹاف کا جن کے بھائی شبیر شریف نشان حیدر تھے اور والد میجر شریف تھے اور راحیل شریف کے والد ہمارے بزرگ لیکن زندہ دل دوست تھے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ جرم اور دہشت گردی کا علاج صرف سزا ہے اور اگر مجرم کو سزا کا خوف نہ ہو تو خطرناک جرائم بڑھتے ہیں۔ سزاؤں کا نہ ہونا ہی پاکستان میں جرائم میں زیادتی کا سبب ہے۔
سانحہ پشاور جس میں 132 کمسن طالبان علم جو جہنمی طالبان کے ہاتھوں گولیوں کے بوچھاڑ سے شہید ہوئے اس نے ساری خوابیدہ حکومت کے لاڈلوں کو جگا دیا اور پاکستانیوں کو سراپا احتجاج ہونے پر مجبور کر کے پہلے رلایا اور پھر نعرۂ تکبیر بلند کرتے ہوئے ایک پیج پر لا کھڑا کیا اور اس عزم کے ساتھ کہ اب اس سرزمین کو دہشت گردوں سے پاک کر کے دم لیں گے ایک دیرینہ ضرورت تھی۔ شہید بچے، ان کے استاد اور اسکول کے دوسرے ملازم تو اب امر ہو گئے لیکن قوم کو جگا گئے۔ لوگ اسکول کی پرنسپل کو بھی کبھی نہ بھولیں گے۔
جو فوج کی مدد سے اسکول سے نکل کر محفوظ جگہ منتقل ہونے سے دل کی آواز پر انکار کر کے پھر اسکول میں اپنے بچوں کو موت کے منہ سے نکالنے کے لیے جا گھسیں کہ وہ بزدل اور خود غرض نہ تھیں۔ پرنسپل صاحبہ کو دہشت گردوں نے جلا کر شہید کر دیا۔ ان کے لیے ملک کا سب سے بڑا بہادری کا ایواڈ منتظر ہے اور ملک کے شہیدوں کی روحیں منتظر ہیں کہ پھانسی گھاٹ پر کب تمام مجرم اور دہشت گرد لائے جاتے ہیں۔