1971 ایک نئی سُرخ ریاست بننے کا خطرہ دیکھ کر۔۔۔
سانحۂ مشرقی پاکستان کے پس منظر میں ایک چونکا دینے والا تجزیہ
KARACHI:
یکم مارچ 1971ء وہ اہم دن تھا جب میں آخری بار ڈھاکا یونیورسٹی میں اپنی کلاس لینے گیا تھا۔ میں شعبہ اردو کے کامن روم میں بیٹھا تھا کہ ایسٹ پاکستان اسٹوڈنٹس یونین سے تعلق رکھنے والا ایک سرگرم کارکن ہاتھ میں ڈنڈا لیے اور سر پر پٹی باندھے اچانک آن پہنچا اور اس نے ہم سے کہا کہ صدر پاکستان جنرل یحییٰ خان نے قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کردیا ہے اور اس کے ردعمل میں بڑا ہنگامہ ہونے والا ہے۔
عوامی لیگ والے غیربنگالیوں کے خلاف فساد کے منصوبے بنا رہے ہیں۔ اس کارکن کا کہنا تھا کہ صورت حال بائیں بازو کے کارکنوں کے کنٹرول سے باہر ہوسکتی ہے لہٰذا اردو بولنے والے طلبا و طالبات فوری طور پر یونیورسٹی سے گھروں کو چلے جائیں۔
میرا ایک اور ساتھی جو ہاسٹل میں رہتا تھا، کشیدہ صورت حال کے پیش نظر یونیورسٹی سے میرے ساتھ ہی میرے گھر چلا آیا۔ وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ میرے والد جو ریلوے میں ملازم تھے ہنگامہ بڑھتا دیکھ کر دفتر بند کرکے گھر آچکے تھے۔ چند گھنٹوں میں ڈھاکا ہنگاموں اور توڑ پھوڑ کی آماج گاہ بن گیا۔ میں بہت پُرجوش تھا کہ ریاستی جبر کے خلاف عوامی تحریک شروع ہورہی تھی۔ لیکن شام ہوتے ہی میں اپنے ساتھی ہارون الرشید کو اس کے ہاسٹل پہنچانے نکلا تو شہر کی فضا بدلی ہوئی نظر آئی۔ میری توقعات کے برعکس ریاست سے زیادہ اردو بولنے والی آبادی کے خلاف نفرت کو ہوا دے کر تحریک کی انقلابی کیفیت کو دبانے کی کوشش کی جارہی تھی اور ایسا لگتا تھا کہ بائیں بازو کی دھڑے بندی کا عوامی لیگ کی قیادت بھرپور فائدہ اُٹھانا چاہتی تھی۔
آج پاکستان میں بائیں بازو کے حلقے کچھ بھی کہیں یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ سابق مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے حالات جس پس منظر میں پیدا ہوئے انھیں بائیں بازو کے زبردست ابھار ہی سے منسوب کیا جاسکتا ہے۔ دراصل 1968ء میں ایوب خان کی آمریت کے خلاف چلنے والی تحریک میں بائیں بازو کا غالب رنگ اور قیادت پاکستان اور بھارت کے حکم رانوں کے علاوہ سام راجی قوتوں کو بھی ایک آنکھ نہ بھائی۔ سابق مشرقی پاکستان میں جگہ جگہ جلاؤ گھیراؤ کی تحریکیں، کارخانوں پر قبضے اور کسان کانفرنسوں نے انقلاب دشمنوں کی نیند اُڑادی تھی۔
شیخ مجیب الرحمن کو قومی ہیرو قرار دینے والے بھول جاتے ہیں کہ ایوب خان نے اپنے اقتدار کو طول دینے اور عوامی تحریک کو دبانے کے لیے گول میز کانفرنس طلب کی تو اپوزیشن جماعتوں خاص طور سے مولانا عبدالحمید خان بھاشانی کی جانب سے اس کے بائیکاٹ کے اعلان نے حکم راں طبقے کو سخت پریشانی میں مبتلا کردیا تھا اور ایسے مشکل وقت میں ان کی مدد کو آنے والا کوئی اور نہیں عوامی لیگ کا راہ نما شیخ مجیب الرحمن تھا۔
اگرتلہ سازش کیس میں قید شیخ مجیب کو پیرول پر رہا کرکے کانفرنس میں شریک کرایا گیا، جس کے بعد افسرشاہی نے مشرقی پاکستان میں بائیں بازو کے چڑھتے ہوئے طوفان کو روکنے کی غرض سے شیخ مجیب کو ایک چھے نکاتی پروگرام تیار کرکے دیا۔ جس وقت شیخ مجیب چھے نکات کی مہم چلارہا تھا۔ اس وقت مولانا بھاشانی مغربی پاکستان کو خیرباد کہہ رہے تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ مشرقی پاکستان میں زور پکڑتی طبقاتی تحریک سے حکم راں طبقہ سخت خائف تھا۔ اور اُسے خدشہ تھا کہ اس تحریک کے اثرات یقیناً مغربی پاکستان پر بھی پڑیں گے اور اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مغربی پاکستان میں بھی مزدور کسان تحریکیں زور پکڑنے لگی تھیں۔ پاکستان کے حکم رانوں کو یہ نئی صورت کسی قیمت پر قبول نہیں تھی۔ وہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی برداشت کرسکتے تھے، لیکن ''عوامی انقلاب'' کا تصور نہیں کرسکتے تھے۔
کم و بیش یہی صورت حال بھارتی حکومت کو مغربی بنگال میں درپیش تھی، جہاں کسان تحریک نکسل باڑی ایک بڑی سیاسی قوت بن کر بھارتی ریاست کے لیے چیلینج بنتی جارہی تھی اور مغربی اور مشرقی بنگال کی ہنگامہ خیز صورت حال خطے میں ایک نئی سرخ ریاست کے ظہور پر منتج ہونے جارہی تھی، جو پاکستانی حکم رانوں، بھارتی توسیع پسندوں، سام راجی قوتوں کسی کے لیے قابلِ قبول نہیں تھی۔ دوسری طرف بھارتی عمل داری میں مغربی بنگال کے ضلع دارجلنگ کے ایک چھوٹے سے گاؤں نکسل باڑی سے شروع ہونے والی کسان تحریک روز بروز زور پکڑتی جارہی تھی۔ ''چارومجمدار'' کی قیادت میں بھارتی نکسلائٹس کے مشرقی پاکستان میں کمیونسٹوں کے ساتھ رابطے اور تعلقات تھے اور دونوں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے تھے۔
یہ صورت حال بھارتی حکم رانوں کے لیے بھی پریشانی کا باعث تھی۔ اس بات کا حقیقی خطرہ پیدا ہونے لگا تھا کہ مغربی اور مشرقی بنگال اور بعض دیگر علاقوں کو ملا کر ایک نئی سرخ ریاست پیدا ہوسکتی ہے۔ الغرض بھارتی اور پاکستانی حکم رانوں کے مشترکہ طبقاتی مفاد نے دونوں کو اپنے اپنے بنگال میں ''شورش'' کو دبانے پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون و اشتراک پر آمادہ کیا۔
عام انتخاب سے قبل مشرقی پاکستان میں تباہ کُن سیلاب آیا۔ ہر طرف لاشیں بکھری پڑی تھیں ۔ گاؤں کے گاؤں اجڑگئے۔ مولانا بھاشانی نے مطالبہ کیا کہ عام انتخابات کا موقع نہیں، لہٰذا انھیں ملتوی کرکے ہنگامی بنیادوں پر امدادی سرگرمیاں شروع کی جائیں، لیکن کسی نے ایک نہ سنی۔ انتخابات ہوئے ''نیپ'' نے ان کا بائیکاٹ کیا اور عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان سے قومی اسمبلی کی ایک کو چھوڑ کر بقیہ تمام نشستوں پر کام یابی حاصل کرلی، لیکن مغربی پاکستان میں عوامی لیگ کو کوئی نشست نہ مل سکی۔ اس طرح انتخابات نے ملک کو رائے دہندگان کے اعتبار سے تقسیم کردیا۔
پاکستان کی فوجی قیادت عوامی لیگ کے ساتھ براہ راست مذاکرات کرتی رہی۔ مغربی پاکستان کی اکثریتی جماعت پیپلز پارٹی کے ذوالفقار علی بھٹو اپنی راہ بنانے کی فکر میں رہے۔ فوجی صدر یحییٰ خان نے اسمبلی کا اجلاس ملتوی کردیا۔ بظاہر اسمبلی سے باہر معاملات طے کرنے کی راہ اختیار کی گئی۔
یحییٰ اور مجیب کے باقاعدہ مذاکرات شروع ہوئے جو کئی دنوں تک جارہی رہے، لیکن اس دوران عوامی دباؤ اتنا بڑھ چکا تھا کہ شیخ مجیب کسی بڑی مصلحت کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ علاوہ ازیں مغربی بنگال اور مشرقی پاکستان میں ''نکسلائٹس'' کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں دونوں ملکوں کے حکم رانوں کے لیے مشترکہ تشویش کا باعث تھیں۔
بعض تجزیہ نگاروں کے خیال میں بھارتی اور پاکستانی حکومتوں کے مابین یہ امر طے شدہ تھا کہ اگر پاکستان اپنے مشرقی صوبے میں صورت حال کو کنٹرول نہ کرسکا تو بھارت اپنی قوت استعمال کرے گا۔ بہرصورت ''بائیں بازو'' کو مضبوط ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ یحییٰ خان کو مرضی کی رعایت نہ ملی اور اس نے فوجی کارروائی کا فیصلہ کیا، جو مشرقی پاکستان میں شورش پر قابو پانے کی آخری پاکستانی کوشش تھی۔
قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کیے جانے کے بعد ڈھاکا میں لاقانونیت اور ماردھاڑ عام تھی۔ عوامی لیگ کے کارکنوں نے شہر میں غنڈا راج قائم کردیا۔ اس دوران شیخ مجیب الرحمن اور صدر یحییٰ کے درمیان مذاکرات بھی ہوتے رہے۔ ابتر ہوتے حالات کے پیش نظر گھر چھوڑ کر بھاگنے والے غیربنگالیوں کی لوٹ مار کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ اس مقصد کے لئے عوامی لیگی کارکنوں نے ڈھاکہ ایئرپورٹ کے راستے پر ایک چیک پوسٹ قائم کررکھی تھی۔
جہاں پناہ کی تلاش میں کراچی جانے والوں کی تلاشی لی جاتی۔ عورتوں سے زیورات اور مردوں سے نقدی جمع کرانے والے عوامی لیگ کے سیاسی کارکن ہی تھے۔ البتہ اس پورے عرصے میں بائیں بازو کے کارکنوں کی جانب سے غیربنگالیوں کو تحفظ فراہم کرنے کی کاوشیں بھی تاریخ کا حصہ ہیں۔ ان دنوں میں مختلف شہروں میں ''بہاریوں'' کے کیمپوں میں مولانا بھاشانی کے دورے اور کم زوروں سے یک جہتی کے اظہار کو بھلایا نہیں جاسکتا۔
قومی اسمبلی کے التوا کے اعلان کے بعد احتجاج کی تحریک ڈھاکا سمیت پورے صوبے میں پھیل گئی اور صورت حال آہستہ آہستہ دائیں بازو کے مفاہمت پسند راہ نما شیخ مجیب الرحمن کے ہاتھ سے نکل کر بائیں بازو کے ان عناصر کے ہاتھوں میں جاتی دکھائی دینے لگی جن کے قریبی رابطے مغربی بنگال کی ماؤنواز نکسلائٹ تحریک سے تھے۔ یہ صورت حال بھارتی اور پاکستانی حکم رانوں کے لیے یکساں طور پر پریشانی کا باعث تھی، لہٰذا شیخ مجیب الرحمن کی قیادت کو مستحکم کرنے کی ایک اور کوشش کی گئی۔
صدر پاکستان یحییٰ خان اور پیپلزپارٹی کے قائد ذوالفقار علی بھٹو دونوں ڈھاکا پہنچ گئے اور شیخ مجیب کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کردیا گیا، جو تقریباً ایک ہفتے جاری رہے۔ اس دوران بائیں بازو کی عوام میں بڑھتی ہوئی مقبولیت اور مختلف اضلاع میں ان کی بڑھتی ہوئی قوت نے شیخ مجیب الرحمن کو کسی بڑی موقع پرستی اور مفاہمت سے روک دیا اور تیزی سے سرخ ہوتے مشرقی بنگال کو قابو کرنے کے لیے حکم رانوں کے پاس قوت کے استعمال کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا۔
واضح رہے کہ پاکستانی حکم رانوں کو امریکی سام راج کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ1965ء کی جنگ کے دوران پاکستان کو فوجی سازو سامان کی ترسیل پر جو پابندی عاید کی گئی تھی وہ1970 کے اواخر میں اچانک اُٹھالی گئی۔ نومبر 1970ء کے خوف ناک طوفان کے دوران ذرائع ابلاغ نے اطلاع دی کہ امداد کے بہانے امریکا نے اپنا فوجی اور سازوسامان ملک کے مشرقی حصے میں اتار دیا ہے۔ اس موقع پر بائیں بازو کی پارٹیوں نے قوم کو امریکی سازش سے ہوشیار کیا۔
یہ ایک اہم اور تاریخی واقعہ ہے کہ ایک امریکی ہیلی کاپٹر طوفان زدہ علاقے میں بطور امداد دودھ لے کر اترا تو انقلابی عوام نے اس پر لاٹھیوں ڈنڈوں سے ہلّہ بول دیا۔یہاں بائیں بازو کے مختلف دھڑوں کا نظریاتی حوالے سے جائزہ لینا دل چسپی سے خالی نہ ہوگا۔ پروفیسر مظفر کی کمیونسٹ پارٹی آف ایسٹ پاکستان جو روس نواز تھی، مکمل طور پر عوامی لیگ کی حامی تھی، لہٰذا اس کا الگ سے کوئی کردار نہ تھا۔ دوسری طرف ایسٹ پاکستان کمیونسٹ پارٹی تھی جو خروشچیف ترمیم پسند ٹولے کی مخالفت کی بنا پر وجود میں آئی تھی۔ اس کی قیادت محمد طٰحہ کے ہاتھ میں تھی۔
یہ کمیونسٹ پارٹی عوامی سطح پر نیشنل عوامی پارٹی (بھاشانی) کی حمایت کرتی تھی۔ 1968 میں بائیں بازو کے زبردست ابھار میں اس پارٹی کو کلیدی اہمیت حاصل تھی۔ لیکن اسی دور میں قومی سوال پر بحث و تمحیص نے پارٹی میں موجود دھڑے بندی کو واضح کیا۔ چینی کمیونسٹ پارٹی میں لن بیاؤ کے اثرورسوخ نے خطے کی دیگر پارٹیوں کے ساتھ ساتھ سابق مشرقی پاکستان کی ماؤ نواز پارٹی کو بھی متاثر کیا۔ متین علاؤالدین گروپ نے آزاد بنگال کا نعرہ لگایا، تو دوسری طرف طٰحہ گروپ نے اسے طبقاتی جدوجہد کو تقسیم کرنے کا ذریعہ بتایا۔ بعدازاں جب محمد طٰحہ نے پارٹی لائن میں کسی حد تک توازن پیدا کرنے کی کوشش کی تو پُلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا تھا۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مشرقی پاکستان میں ہر گزرنے والے دن کے ساتھ بائیں بازو کی تحریک مضبوط سے مضبوط تر ہورہی تھی اور اسی طرح بھارتی مغربی بنگال میں سرگرم نکسل باڑی تحریک کے اثرات بھی گہرے ہو رہے تھے۔ دونوں ملکوں کے درمیان طویل اور کم زور سرحد مغربی اور مشرقی بنگال کے انقلابیوں کے درمیان فعال رابطے میں مددگار تھی۔ اس شان دار دھماکاخیز صورت حال میں کمیونسٹ پارٹی (ماؤ نواز) قومی سوال پر واضح موقف اختیار کرنے میں ناکام رہی، جس کے نتیجے میں دھڑے بندی کا شکار ہوئی۔
لن بیاؤ ٹولے کے میکانکی طرز فکر نے مغربی بنگال مشرقی پاکستان اور خطے کی تمام ترقی پسند تحریکوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی نے اپنے ریاستی مفاد کے تحت نہ صرف پاکستان کی حکومت اور اس کی کارروائی کی حمایت کی، بل کہ مقامی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت کو اس فیصلے کی اطاعت پر راغب کیا۔ یہاں تک کہ مشرقی پاکستان کمیونسٹ پارٹی (مارکسی لیننی) نے جب مُکتی باہنی اور پاکستانی فوج دونوں سے لڑنے کا فیصلہ کیا تو اسے بھی قبول نہیں کیا گیا اور پارٹی میں ایک اور دراڑ پڑگئی۔
چینی پارٹی کی من و عن اطاعت کی روش صرف پاکستان ہی میں نہیں بل کہ بھارتی مغربی بنگال میں بھی دھڑے بندی کا باعث بنی۔ ہر چند کہ چینی لائن کی غلطی کا بعدازاں خود اس وقت کے وزیرِاعظم چواین لائی نے اعتراف کیا۔ انہوں نے دسمبر 1971ء میں میکس ویل(MAXWELL) کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا،''بنگالی مسئلے کے دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ بھارتی توسیع پسند اس مسئلے کو اپنے عزائم کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ مشرقی پاکستان میں بنگالی عوام کی حقیقی قومی تحریک بھی جاری ہے (There is a geniune Bengali nationalist movement in east pakistan")''
بہرحال سکہ بند کمیونسٹوں کو ڈور کا سرا نہ مل سکا۔ البتہ ایک نوجوان راہ نما سراج سکدر جو ایسٹ پاکستان اسٹوڈنٹس یونین (مینن گروپ) کے ممتاز راہ نما تھے، نے قیادت کے مجہول انداز کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ زمانہ طالب علمی کے ختم ہوتے ہی انہوں نے کسی پارٹی میں شمولیت کے بجائے ڈھاکا میں ''ماؤ اسٹڈی سینٹر'' قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ سینٹر دوسال تک چلتا رہا۔
بعدازاں حکومت نے اسے بند کرادیا۔ اسی سینٹر کے توسط سے سراج سکدر نے کمیونسٹ قیادت پر ترمیم پسندی کا الزام عاید کرتے ہوئے سیاسی، معاشرتی سماجی اقتصادی صورت حال کا مکمل تجزیہ Thesis of working class movement of east bengalپیش کیا۔ اس تجزیے میں چیئرمین ماؤ کی تعلیمات کی روشنی میں سماجی ترقی کی راہ میں حائل اہم تضادات کا جائزہ لیا گیا اور فوری بنیادی تضاد کے طور پر قومی مسئلے کی نشان دہی کرتے ہوئے قومی آزادی کے لیے عوامی جنگ کی حکمت عملی تجویز کی گئی۔
سراج سکدر نے 1970ء میں باقاعدہ علیحدہ پارٹی تشکیل دی، جس کا نام ''مشرقی بنگال پرولتاریہ پارٹی ''ایسٹ بنگال سربو ہارا پارٹی'' رکھا گیا۔ انہوں نے اپنی فوج تشکیل دی اور ''جنگ آزادی'' میں بھرپور حصہ لیا، لیکن انھوں نے طبقاتی جدوجہد، سام راج دشمنی اور بھارتی توسیع پسندی کی مخالفت سے کسی مرحلے پر منہ نہیں موڑا۔ یہی وجہ ہے کہ ''جنگ آزادی'' میں بھرپور شرکت کے باوجود عوامی لیگ اور خاص طور سے اس کے قائد شیخ مجیب الرحمٰن نے سراج سکدر اور ان کی پارٹی کو کبھی قبول نہیں کیا۔
پرانے کمیونسٹ گروپوں کی ناکامی اور وقت کے ساتھ ان کی تحلیل نے مجموعی طور پر بائیں بازو کی سیاست کو کم زور کیا اور پوربو بنگلا سربوہارا پارٹی اپنی تمام تر فعالیت کے باوجود مختصر عرصے میں صورت حال پر قدرت ظاہر کرنے کی لیاقت حاصل نہ کرسکی۔ بہرحال اس جماعت نے بنگلادیش کے قیام کے بعد بھی اپنی جدوجہد موثر انداز میں جاری رکھی۔ اور حقیقت یہ ہے کہ بنگلادیش کی رجعتی حکومت کو یہ جماعت اپنے لیے خطرہ محسوس ہوتی رہی۔ کامریڈ سراج سکدر کی سربو ہارا پارٹی عوامی لیگ کی حکومت کو ہندوستان کے ہاتھوں کٹھ پتلی قرار دیتی تھی۔ اس پارٹی کی انقلابی سرگرمیوں نے شیخ مجیب الرحمن کی حکومت میں سراسیمگی پیدا کردی تھی۔
سربو ہارا پارٹی کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے بزرگ سیاسی راہ نما مولانابھاشانی نے 1973ء کے اواخر میں ایک بیان جاری کیا، جس میں انہوں نے سراج سکدر کو مبارک باد دی، لیکن اس جرأت مند اور عظیم انقلابی راہ نما کو شیخ مجیب الرحمٰن کے حکم پر دوران حراست بدترین تشدد کرکے 2 جنوری1975ء کو ہلاک کردیا گیا۔
اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ مشرقی پاکستان میں معروضی حقائق انقلابی جنگ کے موافق تھے، لیکن پوربوبنگلاسربوہارا پارٹی کی قیادت موضوعی کیفیت کو ضروری اہمیت دینے میں ناکام رہی۔ کامریڈ سراج سکدر نے انقلابی جنگ کا فیصلہ موضوعی کیفیت کے موزوں ہونے سے قبل یعنی وقت سے پہلے کیا۔
ایسٹ پاکستان کمیونسٹ پارٹی قومی سوال کا سائنسی حل تلاش کرنے میں ناکام رہی۔ متین علاؤالدین گروپ نے پہلے آزادی پھر طبقاتی جدوجہد کا گم راہ کن نعرہ لگایا اور پارٹی میں نیا دھڑا بنایا، جب کہ طٰحہ قیادت ''صرف طبقاتی جدوجہد'' کے نعرے کی میکانکی انداز میں تشریح کرتی رہی اور لن بیاوسٹ ٹولے کے اثرات سے آزاد ہونے میں ڈاکٹر طٰحہ نے بہت دیر کردی۔
ہر چند کہ آخر میں انہوں نے حق سے الگ ہوکر جدوجہد میں ایک متوازن انداز اختیار کیا اور بیک وقت مکتی باہنی اور پاکستانی افواج دونوں سے لڑنے کی بات کی، لیکن اب بہت دیر ہوچکی تھی۔ اگر پارٹی قیادت بروقت درست فیصلہ کرتی تو شاید سراج سکدر کو ''بغاوت'' کی ضرورت پیش نہ آتی اور متین علاؤالدین کے ترمیم پسندانہ لائن کی بھی گنجائش پید ا نہ ہوتی۔
یکم مارچ 1971ء وہ اہم دن تھا جب میں آخری بار ڈھاکا یونیورسٹی میں اپنی کلاس لینے گیا تھا۔ میں شعبہ اردو کے کامن روم میں بیٹھا تھا کہ ایسٹ پاکستان اسٹوڈنٹس یونین سے تعلق رکھنے والا ایک سرگرم کارکن ہاتھ میں ڈنڈا لیے اور سر پر پٹی باندھے اچانک آن پہنچا اور اس نے ہم سے کہا کہ صدر پاکستان جنرل یحییٰ خان نے قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کردیا ہے اور اس کے ردعمل میں بڑا ہنگامہ ہونے والا ہے۔
عوامی لیگ والے غیربنگالیوں کے خلاف فساد کے منصوبے بنا رہے ہیں۔ اس کارکن کا کہنا تھا کہ صورت حال بائیں بازو کے کارکنوں کے کنٹرول سے باہر ہوسکتی ہے لہٰذا اردو بولنے والے طلبا و طالبات فوری طور پر یونیورسٹی سے گھروں کو چلے جائیں۔
میرا ایک اور ساتھی جو ہاسٹل میں رہتا تھا، کشیدہ صورت حال کے پیش نظر یونیورسٹی سے میرے ساتھ ہی میرے گھر چلا آیا۔ وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ میرے والد جو ریلوے میں ملازم تھے ہنگامہ بڑھتا دیکھ کر دفتر بند کرکے گھر آچکے تھے۔ چند گھنٹوں میں ڈھاکا ہنگاموں اور توڑ پھوڑ کی آماج گاہ بن گیا۔ میں بہت پُرجوش تھا کہ ریاستی جبر کے خلاف عوامی تحریک شروع ہورہی تھی۔ لیکن شام ہوتے ہی میں اپنے ساتھی ہارون الرشید کو اس کے ہاسٹل پہنچانے نکلا تو شہر کی فضا بدلی ہوئی نظر آئی۔ میری توقعات کے برعکس ریاست سے زیادہ اردو بولنے والی آبادی کے خلاف نفرت کو ہوا دے کر تحریک کی انقلابی کیفیت کو دبانے کی کوشش کی جارہی تھی اور ایسا لگتا تھا کہ بائیں بازو کی دھڑے بندی کا عوامی لیگ کی قیادت بھرپور فائدہ اُٹھانا چاہتی تھی۔
آج پاکستان میں بائیں بازو کے حلقے کچھ بھی کہیں یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ سابق مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے حالات جس پس منظر میں پیدا ہوئے انھیں بائیں بازو کے زبردست ابھار ہی سے منسوب کیا جاسکتا ہے۔ دراصل 1968ء میں ایوب خان کی آمریت کے خلاف چلنے والی تحریک میں بائیں بازو کا غالب رنگ اور قیادت پاکستان اور بھارت کے حکم رانوں کے علاوہ سام راجی قوتوں کو بھی ایک آنکھ نہ بھائی۔ سابق مشرقی پاکستان میں جگہ جگہ جلاؤ گھیراؤ کی تحریکیں، کارخانوں پر قبضے اور کسان کانفرنسوں نے انقلاب دشمنوں کی نیند اُڑادی تھی۔
شیخ مجیب الرحمن کو قومی ہیرو قرار دینے والے بھول جاتے ہیں کہ ایوب خان نے اپنے اقتدار کو طول دینے اور عوامی تحریک کو دبانے کے لیے گول میز کانفرنس طلب کی تو اپوزیشن جماعتوں خاص طور سے مولانا عبدالحمید خان بھاشانی کی جانب سے اس کے بائیکاٹ کے اعلان نے حکم راں طبقے کو سخت پریشانی میں مبتلا کردیا تھا اور ایسے مشکل وقت میں ان کی مدد کو آنے والا کوئی اور نہیں عوامی لیگ کا راہ نما شیخ مجیب الرحمن تھا۔
اگرتلہ سازش کیس میں قید شیخ مجیب کو پیرول پر رہا کرکے کانفرنس میں شریک کرایا گیا، جس کے بعد افسرشاہی نے مشرقی پاکستان میں بائیں بازو کے چڑھتے ہوئے طوفان کو روکنے کی غرض سے شیخ مجیب کو ایک چھے نکاتی پروگرام تیار کرکے دیا۔ جس وقت شیخ مجیب چھے نکات کی مہم چلارہا تھا۔ اس وقت مولانا بھاشانی مغربی پاکستان کو خیرباد کہہ رہے تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ مشرقی پاکستان میں زور پکڑتی طبقاتی تحریک سے حکم راں طبقہ سخت خائف تھا۔ اور اُسے خدشہ تھا کہ اس تحریک کے اثرات یقیناً مغربی پاکستان پر بھی پڑیں گے اور اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مغربی پاکستان میں بھی مزدور کسان تحریکیں زور پکڑنے لگی تھیں۔ پاکستان کے حکم رانوں کو یہ نئی صورت کسی قیمت پر قبول نہیں تھی۔ وہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی برداشت کرسکتے تھے، لیکن ''عوامی انقلاب'' کا تصور نہیں کرسکتے تھے۔
کم و بیش یہی صورت حال بھارتی حکومت کو مغربی بنگال میں درپیش تھی، جہاں کسان تحریک نکسل باڑی ایک بڑی سیاسی قوت بن کر بھارتی ریاست کے لیے چیلینج بنتی جارہی تھی اور مغربی اور مشرقی بنگال کی ہنگامہ خیز صورت حال خطے میں ایک نئی سرخ ریاست کے ظہور پر منتج ہونے جارہی تھی، جو پاکستانی حکم رانوں، بھارتی توسیع پسندوں، سام راجی قوتوں کسی کے لیے قابلِ قبول نہیں تھی۔ دوسری طرف بھارتی عمل داری میں مغربی بنگال کے ضلع دارجلنگ کے ایک چھوٹے سے گاؤں نکسل باڑی سے شروع ہونے والی کسان تحریک روز بروز زور پکڑتی جارہی تھی۔ ''چارومجمدار'' کی قیادت میں بھارتی نکسلائٹس کے مشرقی پاکستان میں کمیونسٹوں کے ساتھ رابطے اور تعلقات تھے اور دونوں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے تھے۔
یہ صورت حال بھارتی حکم رانوں کے لیے بھی پریشانی کا باعث تھی۔ اس بات کا حقیقی خطرہ پیدا ہونے لگا تھا کہ مغربی اور مشرقی بنگال اور بعض دیگر علاقوں کو ملا کر ایک نئی سرخ ریاست پیدا ہوسکتی ہے۔ الغرض بھارتی اور پاکستانی حکم رانوں کے مشترکہ طبقاتی مفاد نے دونوں کو اپنے اپنے بنگال میں ''شورش'' کو دبانے پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون و اشتراک پر آمادہ کیا۔
عام انتخاب سے قبل مشرقی پاکستان میں تباہ کُن سیلاب آیا۔ ہر طرف لاشیں بکھری پڑی تھیں ۔ گاؤں کے گاؤں اجڑگئے۔ مولانا بھاشانی نے مطالبہ کیا کہ عام انتخابات کا موقع نہیں، لہٰذا انھیں ملتوی کرکے ہنگامی بنیادوں پر امدادی سرگرمیاں شروع کی جائیں، لیکن کسی نے ایک نہ سنی۔ انتخابات ہوئے ''نیپ'' نے ان کا بائیکاٹ کیا اور عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان سے قومی اسمبلی کی ایک کو چھوڑ کر بقیہ تمام نشستوں پر کام یابی حاصل کرلی، لیکن مغربی پاکستان میں عوامی لیگ کو کوئی نشست نہ مل سکی۔ اس طرح انتخابات نے ملک کو رائے دہندگان کے اعتبار سے تقسیم کردیا۔
پاکستان کی فوجی قیادت عوامی لیگ کے ساتھ براہ راست مذاکرات کرتی رہی۔ مغربی پاکستان کی اکثریتی جماعت پیپلز پارٹی کے ذوالفقار علی بھٹو اپنی راہ بنانے کی فکر میں رہے۔ فوجی صدر یحییٰ خان نے اسمبلی کا اجلاس ملتوی کردیا۔ بظاہر اسمبلی سے باہر معاملات طے کرنے کی راہ اختیار کی گئی۔
یحییٰ اور مجیب کے باقاعدہ مذاکرات شروع ہوئے جو کئی دنوں تک جارہی رہے، لیکن اس دوران عوامی دباؤ اتنا بڑھ چکا تھا کہ شیخ مجیب کسی بڑی مصلحت کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ علاوہ ازیں مغربی بنگال اور مشرقی پاکستان میں ''نکسلائٹس'' کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں دونوں ملکوں کے حکم رانوں کے لیے مشترکہ تشویش کا باعث تھیں۔
بعض تجزیہ نگاروں کے خیال میں بھارتی اور پاکستانی حکومتوں کے مابین یہ امر طے شدہ تھا کہ اگر پاکستان اپنے مشرقی صوبے میں صورت حال کو کنٹرول نہ کرسکا تو بھارت اپنی قوت استعمال کرے گا۔ بہرصورت ''بائیں بازو'' کو مضبوط ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ یحییٰ خان کو مرضی کی رعایت نہ ملی اور اس نے فوجی کارروائی کا فیصلہ کیا، جو مشرقی پاکستان میں شورش پر قابو پانے کی آخری پاکستانی کوشش تھی۔
قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کیے جانے کے بعد ڈھاکا میں لاقانونیت اور ماردھاڑ عام تھی۔ عوامی لیگ کے کارکنوں نے شہر میں غنڈا راج قائم کردیا۔ اس دوران شیخ مجیب الرحمن اور صدر یحییٰ کے درمیان مذاکرات بھی ہوتے رہے۔ ابتر ہوتے حالات کے پیش نظر گھر چھوڑ کر بھاگنے والے غیربنگالیوں کی لوٹ مار کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ اس مقصد کے لئے عوامی لیگی کارکنوں نے ڈھاکہ ایئرپورٹ کے راستے پر ایک چیک پوسٹ قائم کررکھی تھی۔
جہاں پناہ کی تلاش میں کراچی جانے والوں کی تلاشی لی جاتی۔ عورتوں سے زیورات اور مردوں سے نقدی جمع کرانے والے عوامی لیگ کے سیاسی کارکن ہی تھے۔ البتہ اس پورے عرصے میں بائیں بازو کے کارکنوں کی جانب سے غیربنگالیوں کو تحفظ فراہم کرنے کی کاوشیں بھی تاریخ کا حصہ ہیں۔ ان دنوں میں مختلف شہروں میں ''بہاریوں'' کے کیمپوں میں مولانا بھاشانی کے دورے اور کم زوروں سے یک جہتی کے اظہار کو بھلایا نہیں جاسکتا۔
قومی اسمبلی کے التوا کے اعلان کے بعد احتجاج کی تحریک ڈھاکا سمیت پورے صوبے میں پھیل گئی اور صورت حال آہستہ آہستہ دائیں بازو کے مفاہمت پسند راہ نما شیخ مجیب الرحمن کے ہاتھ سے نکل کر بائیں بازو کے ان عناصر کے ہاتھوں میں جاتی دکھائی دینے لگی جن کے قریبی رابطے مغربی بنگال کی ماؤنواز نکسلائٹ تحریک سے تھے۔ یہ صورت حال بھارتی اور پاکستانی حکم رانوں کے لیے یکساں طور پر پریشانی کا باعث تھی، لہٰذا شیخ مجیب الرحمن کی قیادت کو مستحکم کرنے کی ایک اور کوشش کی گئی۔
صدر پاکستان یحییٰ خان اور پیپلزپارٹی کے قائد ذوالفقار علی بھٹو دونوں ڈھاکا پہنچ گئے اور شیخ مجیب کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کردیا گیا، جو تقریباً ایک ہفتے جاری رہے۔ اس دوران بائیں بازو کی عوام میں بڑھتی ہوئی مقبولیت اور مختلف اضلاع میں ان کی بڑھتی ہوئی قوت نے شیخ مجیب الرحمن کو کسی بڑی موقع پرستی اور مفاہمت سے روک دیا اور تیزی سے سرخ ہوتے مشرقی بنگال کو قابو کرنے کے لیے حکم رانوں کے پاس قوت کے استعمال کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا۔
واضح رہے کہ پاکستانی حکم رانوں کو امریکی سام راج کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ1965ء کی جنگ کے دوران پاکستان کو فوجی سازو سامان کی ترسیل پر جو پابندی عاید کی گئی تھی وہ1970 کے اواخر میں اچانک اُٹھالی گئی۔ نومبر 1970ء کے خوف ناک طوفان کے دوران ذرائع ابلاغ نے اطلاع دی کہ امداد کے بہانے امریکا نے اپنا فوجی اور سازوسامان ملک کے مشرقی حصے میں اتار دیا ہے۔ اس موقع پر بائیں بازو کی پارٹیوں نے قوم کو امریکی سازش سے ہوشیار کیا۔
یہ ایک اہم اور تاریخی واقعہ ہے کہ ایک امریکی ہیلی کاپٹر طوفان زدہ علاقے میں بطور امداد دودھ لے کر اترا تو انقلابی عوام نے اس پر لاٹھیوں ڈنڈوں سے ہلّہ بول دیا۔یہاں بائیں بازو کے مختلف دھڑوں کا نظریاتی حوالے سے جائزہ لینا دل چسپی سے خالی نہ ہوگا۔ پروفیسر مظفر کی کمیونسٹ پارٹی آف ایسٹ پاکستان جو روس نواز تھی، مکمل طور پر عوامی لیگ کی حامی تھی، لہٰذا اس کا الگ سے کوئی کردار نہ تھا۔ دوسری طرف ایسٹ پاکستان کمیونسٹ پارٹی تھی جو خروشچیف ترمیم پسند ٹولے کی مخالفت کی بنا پر وجود میں آئی تھی۔ اس کی قیادت محمد طٰحہ کے ہاتھ میں تھی۔
یہ کمیونسٹ پارٹی عوامی سطح پر نیشنل عوامی پارٹی (بھاشانی) کی حمایت کرتی تھی۔ 1968 میں بائیں بازو کے زبردست ابھار میں اس پارٹی کو کلیدی اہمیت حاصل تھی۔ لیکن اسی دور میں قومی سوال پر بحث و تمحیص نے پارٹی میں موجود دھڑے بندی کو واضح کیا۔ چینی کمیونسٹ پارٹی میں لن بیاؤ کے اثرورسوخ نے خطے کی دیگر پارٹیوں کے ساتھ ساتھ سابق مشرقی پاکستان کی ماؤ نواز پارٹی کو بھی متاثر کیا۔ متین علاؤالدین گروپ نے آزاد بنگال کا نعرہ لگایا، تو دوسری طرف طٰحہ گروپ نے اسے طبقاتی جدوجہد کو تقسیم کرنے کا ذریعہ بتایا۔ بعدازاں جب محمد طٰحہ نے پارٹی لائن میں کسی حد تک توازن پیدا کرنے کی کوشش کی تو پُلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا تھا۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مشرقی پاکستان میں ہر گزرنے والے دن کے ساتھ بائیں بازو کی تحریک مضبوط سے مضبوط تر ہورہی تھی اور اسی طرح بھارتی مغربی بنگال میں سرگرم نکسل باڑی تحریک کے اثرات بھی گہرے ہو رہے تھے۔ دونوں ملکوں کے درمیان طویل اور کم زور سرحد مغربی اور مشرقی بنگال کے انقلابیوں کے درمیان فعال رابطے میں مددگار تھی۔ اس شان دار دھماکاخیز صورت حال میں کمیونسٹ پارٹی (ماؤ نواز) قومی سوال پر واضح موقف اختیار کرنے میں ناکام رہی، جس کے نتیجے میں دھڑے بندی کا شکار ہوئی۔
لن بیاؤ ٹولے کے میکانکی طرز فکر نے مغربی بنگال مشرقی پاکستان اور خطے کی تمام ترقی پسند تحریکوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی نے اپنے ریاستی مفاد کے تحت نہ صرف پاکستان کی حکومت اور اس کی کارروائی کی حمایت کی، بل کہ مقامی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت کو اس فیصلے کی اطاعت پر راغب کیا۔ یہاں تک کہ مشرقی پاکستان کمیونسٹ پارٹی (مارکسی لیننی) نے جب مُکتی باہنی اور پاکستانی فوج دونوں سے لڑنے کا فیصلہ کیا تو اسے بھی قبول نہیں کیا گیا اور پارٹی میں ایک اور دراڑ پڑگئی۔
چینی پارٹی کی من و عن اطاعت کی روش صرف پاکستان ہی میں نہیں بل کہ بھارتی مغربی بنگال میں بھی دھڑے بندی کا باعث بنی۔ ہر چند کہ چینی لائن کی غلطی کا بعدازاں خود اس وقت کے وزیرِاعظم چواین لائی نے اعتراف کیا۔ انہوں نے دسمبر 1971ء میں میکس ویل(MAXWELL) کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا،''بنگالی مسئلے کے دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ بھارتی توسیع پسند اس مسئلے کو اپنے عزائم کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ مشرقی پاکستان میں بنگالی عوام کی حقیقی قومی تحریک بھی جاری ہے (There is a geniune Bengali nationalist movement in east pakistan")''
بہرحال سکہ بند کمیونسٹوں کو ڈور کا سرا نہ مل سکا۔ البتہ ایک نوجوان راہ نما سراج سکدر جو ایسٹ پاکستان اسٹوڈنٹس یونین (مینن گروپ) کے ممتاز راہ نما تھے، نے قیادت کے مجہول انداز کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ زمانہ طالب علمی کے ختم ہوتے ہی انہوں نے کسی پارٹی میں شمولیت کے بجائے ڈھاکا میں ''ماؤ اسٹڈی سینٹر'' قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ سینٹر دوسال تک چلتا رہا۔
بعدازاں حکومت نے اسے بند کرادیا۔ اسی سینٹر کے توسط سے سراج سکدر نے کمیونسٹ قیادت پر ترمیم پسندی کا الزام عاید کرتے ہوئے سیاسی، معاشرتی سماجی اقتصادی صورت حال کا مکمل تجزیہ Thesis of working class movement of east bengalپیش کیا۔ اس تجزیے میں چیئرمین ماؤ کی تعلیمات کی روشنی میں سماجی ترقی کی راہ میں حائل اہم تضادات کا جائزہ لیا گیا اور فوری بنیادی تضاد کے طور پر قومی مسئلے کی نشان دہی کرتے ہوئے قومی آزادی کے لیے عوامی جنگ کی حکمت عملی تجویز کی گئی۔
سراج سکدر نے 1970ء میں باقاعدہ علیحدہ پارٹی تشکیل دی، جس کا نام ''مشرقی بنگال پرولتاریہ پارٹی ''ایسٹ بنگال سربو ہارا پارٹی'' رکھا گیا۔ انہوں نے اپنی فوج تشکیل دی اور ''جنگ آزادی'' میں بھرپور حصہ لیا، لیکن انھوں نے طبقاتی جدوجہد، سام راج دشمنی اور بھارتی توسیع پسندی کی مخالفت سے کسی مرحلے پر منہ نہیں موڑا۔ یہی وجہ ہے کہ ''جنگ آزادی'' میں بھرپور شرکت کے باوجود عوامی لیگ اور خاص طور سے اس کے قائد شیخ مجیب الرحمٰن نے سراج سکدر اور ان کی پارٹی کو کبھی قبول نہیں کیا۔
پرانے کمیونسٹ گروپوں کی ناکامی اور وقت کے ساتھ ان کی تحلیل نے مجموعی طور پر بائیں بازو کی سیاست کو کم زور کیا اور پوربو بنگلا سربوہارا پارٹی اپنی تمام تر فعالیت کے باوجود مختصر عرصے میں صورت حال پر قدرت ظاہر کرنے کی لیاقت حاصل نہ کرسکی۔ بہرحال اس جماعت نے بنگلادیش کے قیام کے بعد بھی اپنی جدوجہد موثر انداز میں جاری رکھی۔ اور حقیقت یہ ہے کہ بنگلادیش کی رجعتی حکومت کو یہ جماعت اپنے لیے خطرہ محسوس ہوتی رہی۔ کامریڈ سراج سکدر کی سربو ہارا پارٹی عوامی لیگ کی حکومت کو ہندوستان کے ہاتھوں کٹھ پتلی قرار دیتی تھی۔ اس پارٹی کی انقلابی سرگرمیوں نے شیخ مجیب الرحمن کی حکومت میں سراسیمگی پیدا کردی تھی۔
سربو ہارا پارٹی کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے بزرگ سیاسی راہ نما مولانابھاشانی نے 1973ء کے اواخر میں ایک بیان جاری کیا، جس میں انہوں نے سراج سکدر کو مبارک باد دی، لیکن اس جرأت مند اور عظیم انقلابی راہ نما کو شیخ مجیب الرحمٰن کے حکم پر دوران حراست بدترین تشدد کرکے 2 جنوری1975ء کو ہلاک کردیا گیا۔
اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ مشرقی پاکستان میں معروضی حقائق انقلابی جنگ کے موافق تھے، لیکن پوربوبنگلاسربوہارا پارٹی کی قیادت موضوعی کیفیت کو ضروری اہمیت دینے میں ناکام رہی۔ کامریڈ سراج سکدر نے انقلابی جنگ کا فیصلہ موضوعی کیفیت کے موزوں ہونے سے قبل یعنی وقت سے پہلے کیا۔
ایسٹ پاکستان کمیونسٹ پارٹی قومی سوال کا سائنسی حل تلاش کرنے میں ناکام رہی۔ متین علاؤالدین گروپ نے پہلے آزادی پھر طبقاتی جدوجہد کا گم راہ کن نعرہ لگایا اور پارٹی میں نیا دھڑا بنایا، جب کہ طٰحہ قیادت ''صرف طبقاتی جدوجہد'' کے نعرے کی میکانکی انداز میں تشریح کرتی رہی اور لن بیاوسٹ ٹولے کے اثرات سے آزاد ہونے میں ڈاکٹر طٰحہ نے بہت دیر کردی۔
ہر چند کہ آخر میں انہوں نے حق سے الگ ہوکر جدوجہد میں ایک متوازن انداز اختیار کیا اور بیک وقت مکتی باہنی اور پاکستانی افواج دونوں سے لڑنے کی بات کی، لیکن اب بہت دیر ہوچکی تھی۔ اگر پارٹی قیادت بروقت درست فیصلہ کرتی تو شاید سراج سکدر کو ''بغاوت'' کی ضرورت پیش نہ آتی اور متین علاؤالدین کے ترمیم پسندانہ لائن کی بھی گنجائش پید ا نہ ہوتی۔