انوکھے غیر رسمی اسکول
بھارت اور بنگلہ دیش میں رضاکارانہ تعلیمی سرگرمیوں سے سیکھ کر پاکستان میں بھی غیر معمولی نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں
راجیش کمار شرما ایک دکاندار ہیں۔ معاشی وسائل کی کمی کی وجہ سے انہیں گریجویشن ہی میں اپنی تعلیم کا سلسلہ منقطع کرنا پڑا۔
اس وقت راجیش کی عمر چالیس سال کے لگ بھگ ہے۔ 2008ء میں ایک دن دہلی کے ریلوے سٹیشن پران کا جانا ہوا جہاں انہوں نے بچوں کو گندگی کے ڈھیر پر کھیلتے کودتے پایا۔ بچوں کو اس وقت سکول میں ہونا چاہیے تھا۔ راجیش کمار بچوں کے والدین سے ملے، استفسارکرنے پر معلوم ہوا کہ وہ مالی طور پر اتنے مستحکم نہیں کہ اپنے بچوں کی تعلیم کا بار اٹھاسکیں۔ دوسرا سرکاری سکول بہت دور ہے جہاں پہنچنے کے لیے بچوں کو خطرناک ہائی وے عبور کرنا پڑتا ہے اس لیے یہ سکول نہیں جاسکتے۔ مسٹر کمار نے ان بچوں کے والدین سے بات چیت کر کے انہیں اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ بچوں کو ان کے پاس پڑھنے کے لیے بھیجیں تاکہ پڑھ لکھ کر وہ غربت دور کرنے کا کوئی راستہ نکال سکیں۔
اگلے دن جب مسٹر کمار ریلوے اسٹیشن آئے تو پانچ پرجوش بچے ان سے پڑھنے کے لیے ریلوے پل کے نیچے موجود تھے۔ پھر تعلیم کا یہ انوکھا کاررواں چل نکلا۔ دیکھتے ہی دیکھتے چھ ہفتوں میں اس منفرد سکول میں زیرِ تعلیم بچوں کی تعداد ایک سو چالیس تک پہنچ گئی۔ یہ کنسٹرکشن ورکرز کے بچے تھے، سائیکل سواروں اور رکشہ ڈرائیورز کے بچے تھے ،اور ان غریب مزدوروں کے بچے تھے جنہوں نے بہتر روزگار کے حصول کی غرض سے دور دراز علاقوں سے اس شہر میں ہجرت کی تھی۔
آج مسٹر راجیش کمار شرما کا یہ انقلابی قدم ''فری بِرج سکول''(Free Bridge School) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ انڈیا کا 'حقِ تعلیم ایکٹ' چھ سے چودہ سال کی عمر کے بچوں کے لیے لازمی تعلیم کا وعدہ کرتا ہے اس کے باوجود مختلف وجوہات کی بنا پر لاکھوں بچے سکول نہیں جاتے۔ اس تناظر میں مسٹر کمار کا یہ قدم قابلِ ستائش ہے۔ اگرچہ مسٹرکمار پیشہ ورانہ تربیت یافتہ استاد نہیں ہیں لیکن ان کے دل میں ایک جذبہ ضرور موجود ہے۔
ان کا خیال ہے کہ تعلیم ہماری واحد امید ہے۔ ان کے پیشِ نظر ایک سوچ ہے جس نے کئی خاندانوں کی امیدوں کے چراغ روشن کیے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان بچوں کا مستقبل بدلنے کا صرف ایک ہی ہتھیار ہے اور وہ ہے تعلیم۔ ہر روز پچاس بچے اس پل کے نیچے اکٹھے ہوتے ہیں۔ کوڑا کرکٹ صاف کرکے میٹ بچھاتے ہیں اور پڑھنا لکھنا سیکھتے ہیں۔ اس بِرج سکول میں فیثا غورث کے کلیہ سمیت سب بنیادی علوم سکھائے جاتے ہیں۔
ایک انڈین ڈونر نے اس سکول کے متعلق پریس فوٹو مضمون دیکھ کر اس سکول کے طلبا کے لیے جرابیں ،جوتے اور اینگری برڈذ بیگ عطیے میں دیے۔ علاوہ ازیں اس نے پل کے نیچے کی جگہ ہموار کروا کر بچوں کے بیٹنے کے لیے فوم میٹ بچھوا دیے۔ سکول کو چلانے میں راجیش کوفی الحال کچھ مشکالات کا سامنا بھی کرنا پڑ رہاہے۔ مثال کے طور پر بچوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے تناسب سے ان کے پاس رضاکارانہ اساتذہ کی کمی ہے۔ اس کا یہ سکول رجسٹرڈ بھی نہیں ہے۔ لہذا کسی بھی وقت انہیں یہ سکول بند کرنے کا حکم مل سکتا ہے۔
یہاں تعلیم حاصل کرنے والوں میں بارہ سالہ پمّی نام کی ایک غریب بچی ہے۔ وہ چھ ماہ پہلے اس سکول میں آئی، اب وہ لکھنا پڑھنا جانتی ہے۔ بھارت منڈال کی عمر پندرہ سال ہے۔ وہ صبح تین بجے اٹھتا ہے،اپنے والدین کے ساتھ پھولوں کے فارم پر ان کا ہاتھ بٹاتا ہے، پھر دوپہر میں سرکاری سکول پڑھنے جاتا ہے۔ اس کے باوجود وہ کمار کے سکول بھی آتا ہے۔ منڈال کہتا ہے۔'میں سیکھنے آتا ہوں کیونکہ مجھے اپنے سوالات کے جوابات یہاں ملتے ہیں۔ سرکاری سکول میں بہت سے طلبا ہوتے ہیں۔وہاں اساتذہ بس کلاس میں آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ لہذا میرے سوالات جوابات حاصل کیے بنا ہی رہ جاتے ہیں۔'
اب بنگلہ دیش چلتے ہیں، جہاں 'ٹیچ فار بنگلہ دیش' نامی تنظیم کی زیر نگرانی ایک پروگرام چل رہا ہے، جس کا مقصد ڈھاکہ کے پرائمری سکولوں میں تعلیم دینا ہے۔
''میں ایمون اور اس جیسے دوسرے بچوں کے لیے پڑھاتی ہوں تاکہ وہ سکول میں رہیں نا کہ گلیوں میں گھومیں۔ غلیظ اور بے معنی الفاظ کی بجائے وہ گنتی کے پہاڑے سیکھیں اور سگریٹ نوشی کی جگہ مطالعہ کے عادی ہوں۔ میں ایمون کے لیے پڑھاتی ہوں۔اس طرح میں بنگلہ دیش کے لیے پڑھاتی ہوں'' یہ زریفہ زقاریہ کے الفاظ ہیں۔ وہ ایمون کی پرائمری ٹیچر ہے جس نے ایمون کو ایک لڑاکااورسکول سے بھگوڑے بچے سے ایک شائق طالب علم میں بدل ڈالاہے۔ مگر زریفہ کوئی باقاعدہ سرکاری استانی نہیں ہے جسے اپنے آخری انتخاب کے طور پر تدریس کو بطورِ پیشہ اپنانا پڑتا ہے۔
وہ یہ فرائض رضاکارانہ طور پر سر انجام دے رہی ہے۔ ڈھاکہ یونیورسٹی جیسے اعلیٰ ادارے کی تعلیم یافتہ زریفہ اور اس کے دیگرتیس سے زائد ساتھی چھ ہفتے کی تربیت کے بعد 'ٹیچ فار بنگلہ دیش' کے پروگرام کے تحت ڈھاکہ کے پرائمری سکولوں میں بطورِ رضاکار اساتذہ کام کر رہے ہیں۔ ان اساتذہ کو اْن سکولوں میں بھیجنا مقصود ہے جہاں بچوں کا ڈراپ آئوٹ زیادہ ہے، اساتذہ کی کمی اور دیگر تعلیمی وسائل کا فقدان ہے۔ اب دیگر کئی شعبوں میں کام کرنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بھی اس پروگرام میں حصہ لے رہے ہیں۔
آئیے! اب وطن عزیز پاکستان کی تعلیمی صورتِ حال کا جائزہ لیتے ہیں۔ آئینِ پاکستان کے مطابق بنیادی لازمی تعلیم کا حصول ہر پاکستانی بچے کا بنیادی حق ہے۔ مگر حقیقت کچھ اور ہے۔ بھلے وجہ کچھ بھی ہو، ہمارے بچے ابھی تک اپنے اس بنیادی حق سے محروم نظر آتے ہیں۔ یونیسکو کی جنوری 2013-14ء کی 'ایجوکیشنل فار آل گلوبل مانیٹرنگ رپورٹ' کے مطابق پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں ایک ملین سے زائد بچے سکول سے باہر ہیں۔
یونیسکو ہی کی ایک رپورٹ کے مطابق گلوبل لٹریسی ریٹ کے حوالے سے 221 ممالک کی فہرست میں پاکستان180ویں نمبر پر ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ پاکستانی حکومتیں سکول سے باہر رہنے والے بچوں کی تعداد میں خاطر خواہ کمی لانے میں ناکام رہی ہیں۔ دوسری طرف ایتھوپیا اور بھارت میں سکول نہ جانے والے بچوں کے تناسب میں نمایاں کمی آئی ہے۔ اسی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے امیر گھرانوں سے تعلق رکھنے والے تمام بچے2020ء تک پرائمری تعلیم حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والے بچے اپنے اس بنیادی حق کو 2050ء تک حاصل کر پائیں گے اور تمام غریب بچیاں اس صدی کے اختتام تک پرائمری تعلیم تک رسائی حاصل کر سکیں گی۔
پاکستان میں ٹیکس ریونیو جی ڈی پی کا محض دس فیصد ہے اور تعلیمی شعبہ گورنمنٹ کے اخراجات کا محض دس فیصد حاصل کر پاتا ہے۔ یہ اعداد و شمار نہایت مایوس کن صورتِ حال کے عکاس ہیں۔ سماجی حوالے سے بھی اس شعبے کو سنگین چیلنجز کا سامنا ہے۔ ہمارے ملک کے 17.6 فیصد بچے مزدوری کر کے اپنے خاندانوں کو معاشی سہارا فراہم کرتے ہیں۔ پسماندہ اور دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے قدامت پسند والدین آج کے دور میں بھی لڑکیوں کو سکول بھیجنا نہیں چاہتے جبکہ لڑکے سکول جانا نہیں چاہتے۔
مندرجہ بالا حقائق سے یہ بات عیاں ہے ہمارا تعلیمی شعبہ ابتری کا شکار ہے۔ صورتِ حال کافی گھمبیر ہے۔ ہم تعلیم کے میدان میں ہمسایہ ممالک سے بہت پیچھے ہیں۔ بنگلہ دیش کے پرائمری سکول سسٹم کا شمار دنیا کے بہترین سسٹمز میں ہوتا ہے اس کے باوجود وہاں تعلیم کے فروغ کے لیے 'ٹیچ فار بنگلہ دیش' جیسے پروگرامز شروع کیے جا رہے ہیں جبکہ ہمارے یہاں جماعت اسلامی کے قائم کردہ 'بیٹھک سکول پراجیکٹ' ہی ایک ایسی مثال ہے جس کے تحت ڈرائینگ رومز یا بیٹھکوں میں چھوٹے چھوٹے سکول قائم کرکے ان بچوں کو تعلیم دی جارہی ہے جو سرکاری یا نجی سکولوں میں پڑھنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔
بیٹھک سکول والے نہ صرف ان بچوں کے تمام تر تعلیمی اخراجات برداشت کرتے ہیں بلکہ انھیں اس اندازمیں تعلیم وتربیت فراہم کرتے ہیں کہ وہ اپنے علاقوں کے امتحانی بورڈز میں نمایاں پوزیشن حاصل کرتے ہیں۔ بیٹھک سکولز کے علاوہ مزید ایسے کسی پروگرام کا سراغ نہیں لگایاجاسکا۔ اکادکا سکولوں کی بات الگ ہے۔ مثلاً لیاری (کراچی کے سب سے پسماندہ علاقہ) میں بھی ایک غیررسمی سکول سامنے آیا ہے جس نے لیاری کی ناخواندہ بچیوں کی تعلیم و تربیت کا بیڑہ اٹھایا ہوا ہے۔
ماضی قریب میں مشرف کے دورحکومت میں تعلیمِ بالغاں کے لیے آرڈیننس جاری ہوا تھا جس کے تحت ملک بھر میں بارہ سال سے زائد عمر کی ناخواندہ بچیوں اور خواتین کو تعلیم دینے کی بات کئی گئی تھی ۔ اس وقت سرکاری سطح پر شعبہِ تعلیم خصوصی توجہ حاصل کرنے میں ناکام ہے( جس کی وجوہات کا بیان ایک الگ طویل داستان ہے)۔
پاکستان جس قدربڑے بحران کا شکار ہے، اس کا مقابلہ کرنے کے لئے بڑے پیمانے پر غیررسمی سکولوں کے جال بچھانے کی ضرورت ہے۔ اگرحکومتیں اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرتیں تو کم ازکم پڑھے لکھے شہریوں کو معاشرے کو حالات کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑناچاہئے۔
1۔کالجز اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے نوجوان اپنے گھروں کے ڈرائنگ رومز میں محلے کے دس، دس بچوں کو پڑھاناشروع کردیں، تو اس سے کم وقت میں ایک بڑی تبدیلی پیداکی جاسکتی ہے۔
2 ۔ ان دس بچوں کو نہ صرف تعلیم دی جائے بلکہ ان کی مکمل کیرئیرپلاننگ کرائی جائے۔
3۔ناخواندہ بالغ شہریوں کی تعلیم و تربیت کے لیے بھی اسی اندازمیں تعلیم کے مراکز قائم کئے جاسکتے ہیں۔ پاکستانی حکومتیں تعلیم بالغاں کے پروگرامات کا اعلان کرتی رہی ہیں لیکن اس کے بعد حکومتوں کی طرف سے سنجیدگی کا مظاہرہ دیکھنے کو نہیں ملا۔ اب معاشرے کے پڑھے لکھے شہریوں کو یہ کام کرنا ہوگا۔
یقین ہے کہ جب معاشرے میں ایسے رضاکارانہ پروگرام بڑے پیمانے پر چلنا شروع ہوجائیں گے، تب حکومتوں کو کچھ نہ کچھ شرم ضرور محسوس ہوگی، نتیجتاً وہ سرکاری سکولوں میں حالات بہتر بنانے کی کوشش کریں گی یا کم ازکم ایسی غیررسمی کوششوں کا ساتھ دیناشروع کردیں گی۔
معاشرے کے پڑھے لکھے شہریوں بالخصوص یونیورسٹیوں اور کالجز کے طلبہ وطالبات کے لئے ایسی ذمہ داریاں اداکرنا چنداں مشکل نہیں، یہ نہایت موثرتدابیر ثابت ہوں گی۔ بس! ضرورت پیش قدمی کی ہے، ضرورت قومی جذبے کی ہے۔ بحیثیت با شعور شہری کے ہم سب پر اخلاقی ذمی داری عائد ہوتی ہے کہ ہم اپنے ملک کی تعمیر و ترقی میں حسبِ استعداد اپنا اپنا حصہ ڈالیں۔ تعلیم ہی وہ واحد راستہ ہے جو اندھیری نگری میں مشعل کا کام کر سکتا ہے۔ آئیے مل کر اس ملت کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں۔
اس وقت راجیش کی عمر چالیس سال کے لگ بھگ ہے۔ 2008ء میں ایک دن دہلی کے ریلوے سٹیشن پران کا جانا ہوا جہاں انہوں نے بچوں کو گندگی کے ڈھیر پر کھیلتے کودتے پایا۔ بچوں کو اس وقت سکول میں ہونا چاہیے تھا۔ راجیش کمار بچوں کے والدین سے ملے، استفسارکرنے پر معلوم ہوا کہ وہ مالی طور پر اتنے مستحکم نہیں کہ اپنے بچوں کی تعلیم کا بار اٹھاسکیں۔ دوسرا سرکاری سکول بہت دور ہے جہاں پہنچنے کے لیے بچوں کو خطرناک ہائی وے عبور کرنا پڑتا ہے اس لیے یہ سکول نہیں جاسکتے۔ مسٹر کمار نے ان بچوں کے والدین سے بات چیت کر کے انہیں اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ بچوں کو ان کے پاس پڑھنے کے لیے بھیجیں تاکہ پڑھ لکھ کر وہ غربت دور کرنے کا کوئی راستہ نکال سکیں۔
اگلے دن جب مسٹر کمار ریلوے اسٹیشن آئے تو پانچ پرجوش بچے ان سے پڑھنے کے لیے ریلوے پل کے نیچے موجود تھے۔ پھر تعلیم کا یہ انوکھا کاررواں چل نکلا۔ دیکھتے ہی دیکھتے چھ ہفتوں میں اس منفرد سکول میں زیرِ تعلیم بچوں کی تعداد ایک سو چالیس تک پہنچ گئی۔ یہ کنسٹرکشن ورکرز کے بچے تھے، سائیکل سواروں اور رکشہ ڈرائیورز کے بچے تھے ،اور ان غریب مزدوروں کے بچے تھے جنہوں نے بہتر روزگار کے حصول کی غرض سے دور دراز علاقوں سے اس شہر میں ہجرت کی تھی۔
آج مسٹر راجیش کمار شرما کا یہ انقلابی قدم ''فری بِرج سکول''(Free Bridge School) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ انڈیا کا 'حقِ تعلیم ایکٹ' چھ سے چودہ سال کی عمر کے بچوں کے لیے لازمی تعلیم کا وعدہ کرتا ہے اس کے باوجود مختلف وجوہات کی بنا پر لاکھوں بچے سکول نہیں جاتے۔ اس تناظر میں مسٹر کمار کا یہ قدم قابلِ ستائش ہے۔ اگرچہ مسٹرکمار پیشہ ورانہ تربیت یافتہ استاد نہیں ہیں لیکن ان کے دل میں ایک جذبہ ضرور موجود ہے۔
ان کا خیال ہے کہ تعلیم ہماری واحد امید ہے۔ ان کے پیشِ نظر ایک سوچ ہے جس نے کئی خاندانوں کی امیدوں کے چراغ روشن کیے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان بچوں کا مستقبل بدلنے کا صرف ایک ہی ہتھیار ہے اور وہ ہے تعلیم۔ ہر روز پچاس بچے اس پل کے نیچے اکٹھے ہوتے ہیں۔ کوڑا کرکٹ صاف کرکے میٹ بچھاتے ہیں اور پڑھنا لکھنا سیکھتے ہیں۔ اس بِرج سکول میں فیثا غورث کے کلیہ سمیت سب بنیادی علوم سکھائے جاتے ہیں۔
ایک انڈین ڈونر نے اس سکول کے متعلق پریس فوٹو مضمون دیکھ کر اس سکول کے طلبا کے لیے جرابیں ،جوتے اور اینگری برڈذ بیگ عطیے میں دیے۔ علاوہ ازیں اس نے پل کے نیچے کی جگہ ہموار کروا کر بچوں کے بیٹنے کے لیے فوم میٹ بچھوا دیے۔ سکول کو چلانے میں راجیش کوفی الحال کچھ مشکالات کا سامنا بھی کرنا پڑ رہاہے۔ مثال کے طور پر بچوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے تناسب سے ان کے پاس رضاکارانہ اساتذہ کی کمی ہے۔ اس کا یہ سکول رجسٹرڈ بھی نہیں ہے۔ لہذا کسی بھی وقت انہیں یہ سکول بند کرنے کا حکم مل سکتا ہے۔
یہاں تعلیم حاصل کرنے والوں میں بارہ سالہ پمّی نام کی ایک غریب بچی ہے۔ وہ چھ ماہ پہلے اس سکول میں آئی، اب وہ لکھنا پڑھنا جانتی ہے۔ بھارت منڈال کی عمر پندرہ سال ہے۔ وہ صبح تین بجے اٹھتا ہے،اپنے والدین کے ساتھ پھولوں کے فارم پر ان کا ہاتھ بٹاتا ہے، پھر دوپہر میں سرکاری سکول پڑھنے جاتا ہے۔ اس کے باوجود وہ کمار کے سکول بھی آتا ہے۔ منڈال کہتا ہے۔'میں سیکھنے آتا ہوں کیونکہ مجھے اپنے سوالات کے جوابات یہاں ملتے ہیں۔ سرکاری سکول میں بہت سے طلبا ہوتے ہیں۔وہاں اساتذہ بس کلاس میں آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ لہذا میرے سوالات جوابات حاصل کیے بنا ہی رہ جاتے ہیں۔'
اب بنگلہ دیش چلتے ہیں، جہاں 'ٹیچ فار بنگلہ دیش' نامی تنظیم کی زیر نگرانی ایک پروگرام چل رہا ہے، جس کا مقصد ڈھاکہ کے پرائمری سکولوں میں تعلیم دینا ہے۔
''میں ایمون اور اس جیسے دوسرے بچوں کے لیے پڑھاتی ہوں تاکہ وہ سکول میں رہیں نا کہ گلیوں میں گھومیں۔ غلیظ اور بے معنی الفاظ کی بجائے وہ گنتی کے پہاڑے سیکھیں اور سگریٹ نوشی کی جگہ مطالعہ کے عادی ہوں۔ میں ایمون کے لیے پڑھاتی ہوں۔اس طرح میں بنگلہ دیش کے لیے پڑھاتی ہوں'' یہ زریفہ زقاریہ کے الفاظ ہیں۔ وہ ایمون کی پرائمری ٹیچر ہے جس نے ایمون کو ایک لڑاکااورسکول سے بھگوڑے بچے سے ایک شائق طالب علم میں بدل ڈالاہے۔ مگر زریفہ کوئی باقاعدہ سرکاری استانی نہیں ہے جسے اپنے آخری انتخاب کے طور پر تدریس کو بطورِ پیشہ اپنانا پڑتا ہے۔
وہ یہ فرائض رضاکارانہ طور پر سر انجام دے رہی ہے۔ ڈھاکہ یونیورسٹی جیسے اعلیٰ ادارے کی تعلیم یافتہ زریفہ اور اس کے دیگرتیس سے زائد ساتھی چھ ہفتے کی تربیت کے بعد 'ٹیچ فار بنگلہ دیش' کے پروگرام کے تحت ڈھاکہ کے پرائمری سکولوں میں بطورِ رضاکار اساتذہ کام کر رہے ہیں۔ ان اساتذہ کو اْن سکولوں میں بھیجنا مقصود ہے جہاں بچوں کا ڈراپ آئوٹ زیادہ ہے، اساتذہ کی کمی اور دیگر تعلیمی وسائل کا فقدان ہے۔ اب دیگر کئی شعبوں میں کام کرنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بھی اس پروگرام میں حصہ لے رہے ہیں۔
آئیے! اب وطن عزیز پاکستان کی تعلیمی صورتِ حال کا جائزہ لیتے ہیں۔ آئینِ پاکستان کے مطابق بنیادی لازمی تعلیم کا حصول ہر پاکستانی بچے کا بنیادی حق ہے۔ مگر حقیقت کچھ اور ہے۔ بھلے وجہ کچھ بھی ہو، ہمارے بچے ابھی تک اپنے اس بنیادی حق سے محروم نظر آتے ہیں۔ یونیسکو کی جنوری 2013-14ء کی 'ایجوکیشنل فار آل گلوبل مانیٹرنگ رپورٹ' کے مطابق پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں ایک ملین سے زائد بچے سکول سے باہر ہیں۔
یونیسکو ہی کی ایک رپورٹ کے مطابق گلوبل لٹریسی ریٹ کے حوالے سے 221 ممالک کی فہرست میں پاکستان180ویں نمبر پر ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ پاکستانی حکومتیں سکول سے باہر رہنے والے بچوں کی تعداد میں خاطر خواہ کمی لانے میں ناکام رہی ہیں۔ دوسری طرف ایتھوپیا اور بھارت میں سکول نہ جانے والے بچوں کے تناسب میں نمایاں کمی آئی ہے۔ اسی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے امیر گھرانوں سے تعلق رکھنے والے تمام بچے2020ء تک پرائمری تعلیم حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والے بچے اپنے اس بنیادی حق کو 2050ء تک حاصل کر پائیں گے اور تمام غریب بچیاں اس صدی کے اختتام تک پرائمری تعلیم تک رسائی حاصل کر سکیں گی۔
پاکستان میں ٹیکس ریونیو جی ڈی پی کا محض دس فیصد ہے اور تعلیمی شعبہ گورنمنٹ کے اخراجات کا محض دس فیصد حاصل کر پاتا ہے۔ یہ اعداد و شمار نہایت مایوس کن صورتِ حال کے عکاس ہیں۔ سماجی حوالے سے بھی اس شعبے کو سنگین چیلنجز کا سامنا ہے۔ ہمارے ملک کے 17.6 فیصد بچے مزدوری کر کے اپنے خاندانوں کو معاشی سہارا فراہم کرتے ہیں۔ پسماندہ اور دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے قدامت پسند والدین آج کے دور میں بھی لڑکیوں کو سکول بھیجنا نہیں چاہتے جبکہ لڑکے سکول جانا نہیں چاہتے۔
مندرجہ بالا حقائق سے یہ بات عیاں ہے ہمارا تعلیمی شعبہ ابتری کا شکار ہے۔ صورتِ حال کافی گھمبیر ہے۔ ہم تعلیم کے میدان میں ہمسایہ ممالک سے بہت پیچھے ہیں۔ بنگلہ دیش کے پرائمری سکول سسٹم کا شمار دنیا کے بہترین سسٹمز میں ہوتا ہے اس کے باوجود وہاں تعلیم کے فروغ کے لیے 'ٹیچ فار بنگلہ دیش' جیسے پروگرامز شروع کیے جا رہے ہیں جبکہ ہمارے یہاں جماعت اسلامی کے قائم کردہ 'بیٹھک سکول پراجیکٹ' ہی ایک ایسی مثال ہے جس کے تحت ڈرائینگ رومز یا بیٹھکوں میں چھوٹے چھوٹے سکول قائم کرکے ان بچوں کو تعلیم دی جارہی ہے جو سرکاری یا نجی سکولوں میں پڑھنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔
بیٹھک سکول والے نہ صرف ان بچوں کے تمام تر تعلیمی اخراجات برداشت کرتے ہیں بلکہ انھیں اس اندازمیں تعلیم وتربیت فراہم کرتے ہیں کہ وہ اپنے علاقوں کے امتحانی بورڈز میں نمایاں پوزیشن حاصل کرتے ہیں۔ بیٹھک سکولز کے علاوہ مزید ایسے کسی پروگرام کا سراغ نہیں لگایاجاسکا۔ اکادکا سکولوں کی بات الگ ہے۔ مثلاً لیاری (کراچی کے سب سے پسماندہ علاقہ) میں بھی ایک غیررسمی سکول سامنے آیا ہے جس نے لیاری کی ناخواندہ بچیوں کی تعلیم و تربیت کا بیڑہ اٹھایا ہوا ہے۔
ماضی قریب میں مشرف کے دورحکومت میں تعلیمِ بالغاں کے لیے آرڈیننس جاری ہوا تھا جس کے تحت ملک بھر میں بارہ سال سے زائد عمر کی ناخواندہ بچیوں اور خواتین کو تعلیم دینے کی بات کئی گئی تھی ۔ اس وقت سرکاری سطح پر شعبہِ تعلیم خصوصی توجہ حاصل کرنے میں ناکام ہے( جس کی وجوہات کا بیان ایک الگ طویل داستان ہے)۔
پاکستان جس قدربڑے بحران کا شکار ہے، اس کا مقابلہ کرنے کے لئے بڑے پیمانے پر غیررسمی سکولوں کے جال بچھانے کی ضرورت ہے۔ اگرحکومتیں اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرتیں تو کم ازکم پڑھے لکھے شہریوں کو معاشرے کو حالات کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑناچاہئے۔
1۔کالجز اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے نوجوان اپنے گھروں کے ڈرائنگ رومز میں محلے کے دس، دس بچوں کو پڑھاناشروع کردیں، تو اس سے کم وقت میں ایک بڑی تبدیلی پیداکی جاسکتی ہے۔
2 ۔ ان دس بچوں کو نہ صرف تعلیم دی جائے بلکہ ان کی مکمل کیرئیرپلاننگ کرائی جائے۔
3۔ناخواندہ بالغ شہریوں کی تعلیم و تربیت کے لیے بھی اسی اندازمیں تعلیم کے مراکز قائم کئے جاسکتے ہیں۔ پاکستانی حکومتیں تعلیم بالغاں کے پروگرامات کا اعلان کرتی رہی ہیں لیکن اس کے بعد حکومتوں کی طرف سے سنجیدگی کا مظاہرہ دیکھنے کو نہیں ملا۔ اب معاشرے کے پڑھے لکھے شہریوں کو یہ کام کرنا ہوگا۔
یقین ہے کہ جب معاشرے میں ایسے رضاکارانہ پروگرام بڑے پیمانے پر چلنا شروع ہوجائیں گے، تب حکومتوں کو کچھ نہ کچھ شرم ضرور محسوس ہوگی، نتیجتاً وہ سرکاری سکولوں میں حالات بہتر بنانے کی کوشش کریں گی یا کم ازکم ایسی غیررسمی کوششوں کا ساتھ دیناشروع کردیں گی۔
معاشرے کے پڑھے لکھے شہریوں بالخصوص یونیورسٹیوں اور کالجز کے طلبہ وطالبات کے لئے ایسی ذمہ داریاں اداکرنا چنداں مشکل نہیں، یہ نہایت موثرتدابیر ثابت ہوں گی۔ بس! ضرورت پیش قدمی کی ہے، ضرورت قومی جذبے کی ہے۔ بحیثیت با شعور شہری کے ہم سب پر اخلاقی ذمی داری عائد ہوتی ہے کہ ہم اپنے ملک کی تعمیر و ترقی میں حسبِ استعداد اپنا اپنا حصہ ڈالیں۔ تعلیم ہی وہ واحد راستہ ہے جو اندھیری نگری میں مشعل کا کام کر سکتا ہے۔ آئیے مل کر اس ملت کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں۔