بٹے ہیں کچھ اس طرح۔۔۔

دنیا کی سرحدوں سے جُڑے چند دل چسپ حقائق

دنیا کی سرحدوں سے جُڑے چند دل چسپ حقائق۔ فوٹو: فائل

دھرتی کا کیا ہے۔۔۔ وہ تو آکاش تلے ایک ہی اکائی ہے۔ اگرچہ کہیں سرد تو کہیں گرم، کہیں تر، تو کہیں خشک۔۔۔ مگر یہ تقسیم تو موسمی تغیرات پر منحصر ہے۔

وہ اپنے جغرافیے کے لحاظ سے ضرور مختلف ہے، لیکن طاقت وَروں کی جانب سے کھینچی گئی لکیریں اس پر بے اثر ہی رہیں۔ اسی لیے دنیا کے اَن گنت ممالک کی زمینیں جہاں بغل گیر ہوتی ہیں، وہاں گھڑی کی سوئیاں ضرور وقت بدلتی ہیں، لیکن دن، رات ساجھے ہوتے ہیں، موسم بھی ساتھ بدلتے ہیں۔ ہوائیں بھی یہاں سے وہاں اور وہاں سے یہاں آزادی سے سفر کرتی ہیں اور پنچھی تو اس سنسار کی ایسی کسی تقسیم کو کبھی خاطر میں ہی نہیں لاتے۔

جب جی میں آتا ہے، اڑان بھرتے ہیں اور میلوں پرواز کرتے جانے کتنی سرحدیں پامال کیے چلے جاتے ہیں۔۔۔ نہ کوئی ویزہ اور نہ کوئی شہریت۔۔۔ کبھی شمال میں آشیاں بنالیا، تو کبھی جنوب میں پڑاؤ ڈال لیا، کبھی مشرق میں بسیرا، تو کبھی مغرب میں قیام۔۔۔ مگر پابند رہا تو انسان۔۔۔ سفر کو نکلے تو اس کا رنگ روپ، وطن، مذہب اور نسل اس کے پیروں کی بیڑیاں بن جاتی ہیں، مگر یہ دھرتی بھی ہنستی ہوگی کہ لکیریں کھینچ کر قانون، عمل داری اور سکہ تو بدل دیا، مگر زمین تو سدا سے ایک ہی رہی۔ یہ جب لرزتی بھی ہے، تو سرحدیں نہیں دیکھتی۔۔۔



بٹوارا کرنے والوں نے تو گگن اور ساگر کو بھی بانٹ ڈالا۔ فضائی اور سمندری حدود کی خلاف ورزی پر ایک دوسرے کو آنکھیں بھی دکھائیں اور کشت وخون بھی کیا، مگر نہ تو وہ نیلے امبر پر تیرتے ہوئے بادلوں پر روک لگاسکا اور نہ ہی ساگر کی لہروں کو پابند کرسکا۔ یہ بادل تو آزادی سے یہاں سے وہاں دھوپ چھاؤں کرتے گزرتے چلے جاتے ہیں۔ کبھی جو مینہ برساتے ہیں، تب بھی تفریق نہیں کرتے کہ ان کی بوندوں کو سرحد کے اِس پار جذب ہونا ہے یا اُس پار کی زمین کو سیراب کرنا ہے۔

اسی طرح سمندر پر بھی انسان کا بس نہیں چلا۔ تلاطم خیز پانی کی لہریں اِدھر سے اٹھتی ہیں، تو سرحدوں کو پامال کرتی ہوئی، دوسری طرف جا کر دم لیتی ہیں۔ کوئی بھنور بنتا ہے، تو وہ بھی پانی کے بٹوارے کو روندتا ہوا منطقی انجام کو پہنچتا ہے۔ البتہ دریاؤں پر بساط بھر حکم رانی کی خواہش ضرور پایۂ تکمیل کو پہنچ جاتی ہے، مگر جب منہ زور پانی کا ریلا آتا ہے، تو چاروناچار سرحدی کواڑ کھول کر رہ گزر دینا ہی پڑ جاتی ہے۔ زمین کی یہ تقسیم فطرت سے ٹکرا کر عجیب اور دل چسپ صورت حال جنم دیتی ہے۔ چلیے! آپ کو کچھ ایسی ہی دل چسپ سرحدوں کی طرف لیے چلتے ہیں۔



٭ایک پاؤں ادھر ایک اُدھر

''ارے بھئی، آپ کیسے بیٹھے ہیں۔۔۔ آپ کا پیر ہمارے ملک میں آرہا ہے! اور یہ آپ اپنے ملک میں منہ کر کے کیوں نہیں چھینکتے؟ جوں ہی چھینک آتی ہے، آپ اپنا رخ ہمارے ملک کی طرف کرلیتے ہیں؟'' ہم نے بچپن میں اپنی ہم جولیوں سے ضرور اس طرح کی تکرار کی ہوگی کہ یہ ہمارا اور یہ تمہارا۔۔۔ مگر دنیا کی کئی ممالک کی سرحدوں پر یہ قصہ حقیقت کے روپ میں نظر آتا ہے اور سرحدیں اگرچہ موجود ضرور ہیں، لیکن انسانوں کے آنے جانے میں رکاوٹ نہیں۔ زمین پر ایک سیدھا یا بل کھاتا خط چلا جا رہا ہے۔

ایک طرف حکم راں کوئی اور، جب کہ دوسری طرف عمل دار کوئی اور، لیکن یہ تقسیم اتنی نرم ہے کہ گھر کا آدھا حصہ ایک ملک میں تو دوسرا دوسرے ملک میں ہے۔ Baarle-Nassau نامی علاقہ بیلجیئم اور نیدرلینڈ کے بیچ کچھ اس طرح منقسم ہے کہ گویا ایک عام سی لکیر، جو گھروں کے اندر سے ہو کر گزر رہی ہے۔ حد یہ ہے کہ خواب گاہ میں پلنگ کچھ اس طرح استوار ہے، کہ رات کے کسی پہر کروٹ لیجیے تو پڑوسی ملک میں چلے جائیے۔۔۔! لوگ کھانا ایک ملک میں پکاتے ہیں، تو کھاتے دوسرے ملک میں ہیں۔ نہ کوئی سرحدی پہرے دار ہے، نہ کوئی بندوق بردار کہ جو روک لگائے۔

فرانس اور سوئزرلینڈ کی سرحد پر بھی ایسی مثالیں ملتی ہیں۔ یہاں ایسے گھر موجود ہیں کہ جو دونوں ممالک میں تقسیم ہیں۔ جہاں اگر آپ دراز ہوں تو سر فرانس میں اور دھڑ سوئزرلینڈ میں ہو!

امریکی ریاست Vermont میں واقع Derby Line نامی گاؤں بھی کچھ اسی طرح امریکا اور کینیڈا کے بیچ بٹا ہوا ہے۔ یہاں واقع مشہور ہاسکیل فری لائبریری (Haskell Free Library)کا کچھ حصہ امریکا اور کچھ کینیڈا میں ہے۔



٭ایک عمارت، دو ملک!

جرمنی اور نیدرلینڈ کے سنگم پر ایک ایسا تجارتی مرکز قائم کیا گیا ہے، جو عین دونوں ممالک کے سرحد پر اس طرح ایستادہ ہے کہ ایک حصہ ایک ملک میں، جب کہ دوسرا حصہ دوسرے ملک میں ہے۔ اس کے باوجود Eurode Business Center نامی اس عمارت کے اندر بھی دونوں ممالک کو ایک دوسرے سے جدا کرنے والی لکیر موجود ہے۔

عمارت کے ایک سرے پر جرمن ڈاک خانہ ہے تو دوسری سمت نیدرلینڈ کا۔ یوں تو عمارت میں دونوں ممالک کے شہریوں کے لیے سرحد کے اِس پار سے اُس پار جانا کوئی مسئلہ نہیں۔۔۔ لیکن یہ جان کر حیرت ہوتی ہے کہ اس کے باوجود اگر جرمنی سے کوئی خط لکھا جائے، تو اس کو نیدرلینڈ پہنچنے میں ایک ہفتہ صرف ہوتا ہے۔ ایک ادارے کا دفتر عمارت کے پورے حصے پر دراز ہے اور جرمن سمت میں عملہ جرمن صارفین کے فون سنتا ہے، تو دوسری سمت میں نیدرلینڈ کے صارفین کے فون موصول ہوتے ہیں۔



٭یہ یا وہ۔۔۔ ٹیکس کون لے گا؟

بیلجیئم سے تعلق رکھنے والے Schlievert پیشے کے لحاظ سے بڑھئی ہیں، مگر نرم سرحدوں کی بدولت ان کا سارا دن جرمنی میں بیتتا ہے، جب کہ رات وہ اپنے ملک بیلجیم لوٹ جاتے ہیں۔ جب ان کی گاڑی کے ٹیکس کی ادائی کا معاملہ آیا، تو دونوں ممالک نے اپنے اپنے حساب سے ان سے مطالبہ کیا۔ دونوں طرف سے برابر تکرار سے نزاعی صورت حال پیدا ہوئی اور معاملہ عدالت کے ایوانوں تک جا پہنچا۔ بالآخر جرمنی کی جیت ہوئی۔ یہ واقعہ بہ ظاہر متحد ہوتے یورپ کے اندر پوشیدہ سرد مہری اور مفادات کی کھینچا تانی ظاہر کرتا ہے۔



٭سرحد یا کھیل کا میدان

میکسیکو اور امریکا کے بیچ سرحد پر کہیں اونچی باڑ ہے، تو کہیں لوہے کی دیوار، کہیں لوہے کی سلاخیں حائل۔ دونوں ممالک کی حکومتیں کیا سوچتی ہیں اور کیا کرتی ہے، یہ وہ جانیں۔۔۔ سرحد کے دونوں اطراف کے عوام کو تو اپنے باہمی تعلق سے غرض ہے۔ تم اُس پار، تو ہم اِس پار۔۔۔ عوام نے سرحد کو کھیل کا میدان جانا، اور لگے والی بال کھیلنے۔ اب لوگوں کی آمدورفت کو روکنے والے، ہر لمحہ اِدھر سے اُدھر ہوتی گیند کو تو روکنے سے رہے، بنا کسی ویزے کے کبھی میکسیکو کی فضا میں تو کبھی امریکا کی فضا میں۔

٭سرد جہنم کا بٹوارا

اپنے قیام کے وقت سے ایک دوسرے سے مختلف تنازعات میں الجھے رہنے والے پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک سرحدی تنازع سیاچن گلیشیئر کا بھی ہے۔20 ہزار فٹ کی بلندی پر واقع یہ علاقہ دونوں ممالک کے بیچ منقسم ہے۔ انتہائی شدید سرد موسم کے باوجود وہاں دونوں ممالک کے فوجی اپنی زندگیوں کو داؤ پر لگائے ہوئے ہیں۔ دنیا کا یہ بلند ترین محاذ اپنے موسم کے اعتبار سے انتہائی خطرناک ہے، کیوں کہ یہاں درجہ حرارت منفی پچاس ڈگری ہے، جو دونوں طرف کے سرحدی محافظوں کو نگلتا رہتا ہے۔1984ء میں ہندوستان نے یہ دعویٰ کیا کہ یہ حصہ پاکستان کا نہیں بلکہ اس کا ہے۔ یوں پہلی بار یہ محاذ گرم ہوا۔ ہندوستان نے جب 900 اسکوائر میل پر اپنے دستے پھیلا دیے، تو پاکستان کے فوجی دستے بھی ان کے مقابل آگئے۔



٭سرحد ہے یا ''ٹائم مشین''؟

امریکی ریاست الاسکا کے قریب واقع Diomede نامی جڑواں جزیرے واقع ہیں۔ اس کا بڑا ٹکڑا روس کے تصرف میں ہے، جو کہ بے آباد ہے، جب کہ چھوٹے حصے پر امریکی عمل داری ہے، جس کی کل آبادی ڈیڑھ سو نفوس پر مشتمل ہے۔ بہ مشکل ڈھائی کلومیٹر کے فاصلے پر موجود ان دونوں جزائر کے درمیان امریکا اور روس کی سرحدیں حائل ہیں۔ چھوٹے جزیرے (امریکا) سے جب لوگ بڑے جزیرے (روس) کی طرف جاتے ہیں، تو وہ ایک دن پیچھے پہنچ چکے ہوتے ہیں۔ جی ہاں، سرحدیں محض حکومتیں اور قوانین ہی نہیں تاریخ اور وقت بھی بدل دیتی ہیں۔ مثال کے طور پر یہ لوگ بروز ہفتہ صبح نو بجے نکلتے ہیں تو یہ وقت روس میں شام چھے بجے اتوار کا ہوتا ہے، یعنی بنا کسی ٹائم مشین کے اپنے ماضی میں چلے بھی جاتے ہیں اور پھر لوٹ بھی آتے ہیں!



٭تقسیم کے ''رنگ'' گہرے ہوئے!

کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ سرحدوں نے محض لکیر کی حیثیت اختیار نہیں کی، بلکہ اس دھرتی کے وجود پر اپنے تقسیم کی واضح علامات بھی چھوڑیں، جو بہرحال ان کے جدا، جدا رکھوالوں کی حیثیت سے دونوں کو ایک دوجے سے متمیز کرتی ہیں۔ برازیل اور بولیویا کی سرحدوں کا فضائی منظر واضح طور پر اس کا عکاس ہے۔ گھنے بارانی جنگلات کا یہ سرسبز علاقہ بولیویا کے حصے میں تو لکیر کے اُس پار سبز رنگ نمایاں نظر آرہا ہے، لیکن برازیل کے حصے میں درختوں کی کٹائی کی بنا پر واضح طور پر کتھئی زمین عیاں ہے۔ اسی طرح ہیٹی کے حصے میں آنے والا سرسبز حصہ چٹیل میدان بن چکا، جب کہ جمہوریہ ڈومینن کے حصے کا جنگل شاداب ہے۔

سرحد کا ایک اور فرق امریکا اور میکسکو کے سنگم پر بھی دکھائی دیتا ہے، لیکن یہ تفاوت آبادی کا ہے۔ امریکا کی طرف گنجان آبادی، جب کہ میکسیکو کی سمت ویرانیت واضح نظر ہے۔ ایک ہزار 954 میل طویل اس سرحد کو دنیا کی سب سے زیادہ عبور کی جانے والی سرحد بھی قرار دیا جاتا ہے، جب کہ دنیا کی سب سے طویل ترین سرحد امریکا اور کینیڈا کی ہے، جس کی طوالت 5 ہزار 500 میل ہے۔



٭ملیں گے، مگر اپنے، اپنے ملک سے!

یہ تذکرہ شمالی اور جنوبی کوریا کے اس مقام کا ہے، جہاں دو تناؤ زدہ ممالک کے اہلکار ایک دوسرے کے روبرو ہوتے ہیں۔ اصطلاحاً اس سرحد کو Demilitarized Zone (DMZ) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ 160 میل طویل دنیا کی سب سے زیادہ ریگولیٹڈ اس سرحد کے دونوں طرف 20 لاکھ فوجی تعینات ہیں۔ 1950ء کی دہائی میں چھڑنے والی کوریا کی جنگ تیکنیکی اعتبار سے ابھی ختم نہیں ہوئی۔ دونوں ممالک محض جنگ بندی پر کاربند ہیں۔

کسی کو سرحد پار کرنے کی اجازت نہیں، یہاں تک کہ اعلیٰ حکام کو بھی۔ جب دونوں ممالک کے درمیان کوئی بیٹھک مقصود ہو توکافی پیچیدگی ہوتی ہے، کیوں کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کو مہمان کرنا پسند نہیں کرتے، لہٰذا اس مقصد کے لیے دونوں سرحدوں کے سنگم پر ایک کانفرنس روم بنایا گیا ہے، جس پر مذاکراتی میز کچھ اس ڈھب پر استوار ہے، کہ اس کا نصف حصہ دونوں ممالک میں منقسم ہے۔ یوں دونوں ممالک کے مندوبین اپنے اپنے ملک میں بیٹھ کر ایک دوسرے سے مخاطب ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ عام طور پر اس ہال میں دونوں ممالک کے اہلکار سارا دن کھڑے ایک دوسرے کو گھورتے رہتے ہیں۔ نہ جانے اپنے اپنے ملک کی نشستوں پر بیٹھے یہ شرکائے بیٹھک ہاتھ ملانے کو سرحدی حدود کی خلاف ورزی گردانتے ہوں گے یا نہیں۔۔۔ یا کبھی سامنے بیٹھے ''غیرملکی'' مندوب سے جب کوئی اپنی چائے کے لیے چینی دان مانگتا ہو گا، تو کیا، کیا جاتا ہوگا۔ اسے بھی کوئی ''خلاف ورزی'' تو تصور نہیں کرتے۔




٭واہگہ۔۔۔ایک دل چسپ سرحد

ایک باقاعدہ سڑک جو پاکستان اور بھارت کے درمیان استوار۔۔۔ دو میٹر کے فاصلوں سے نصب آہنی دروازے اسے دو ممالک میں بانٹتے ہیں۔ یہ واحد باقاعدہ سرحدی راستہ ہے، جو لاہور اور امرت سر کو ملاتا ہے۔ یہاں کی دل چسپ اور قابل دید سرگرمی روزانہ غروب آفتاب سے قبل پرچم اتارنے کی تقریب ہے۔ سرحد کے دونوں جانب لوگ اس تقریب کی کارروائی دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔ یہ تقریب 1959ء سے مسلسل جاری یہ تقریب غیرملکی سیاحوں کے لیے بھی خاصی دل چسپی کا باعث ہوتی ہے۔ تقریب کے لیے روزانہ دونوں طرف کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ اس موقع پر دونوں طرف سے جذباتی نعرے بازی کی جاتی ہے۔ دونوں طرف کے پرجوش سپاہی ملتے ہیں اور اپنے اپنے پرچم لے کر پلٹ جاتے ہیں اور اسے تہہ کر کے رکھ دیتے ہیں، اس کے بعد پھر اسی طرح دونوں طرف کے سپاہی ہاتھ ملاتے ہیں۔

سرحدیں ہیں کہ نہیں ہیں۔۔۔

دنیا کے بہت سے ممالک کی سرحدیں یوں تو اپنا وجود رکھتی ہیں، مگر ان کا وجود 'ہرچند ہے کہ نہیں ہے' کہ مصداق نظر آتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ان کی سرحدوں سے آمدورفت آسان ہے، بلکہ یہ سرحدیں مختلف وجوہ کی بنا پر عارضی یا عملاً غیر تسلیم شدہ حیثیت رکھتی ہیں۔



٭فلسطین

مشرق وسطیٰ کا سلگتا ہوا مسئلہ فلسطینی ریاست کا ہے۔ 1948ء میں اسرائیل کے قیام کے بعد سے فلسطینی ریاست کا جغرافیہ سکڑتا چلا گیا۔ اس کے بعد مختلف مواقع پر باقی ماندہ فلسطین میں بھی اسرائیلی کارروائیوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اس لیے حقیقتاً فلسطین کی سرحدوں کا تعین ہنوز حل طلب ہے۔

٭انٹارکٹیکا

منجمد براعظم انٹارکٹیکا پر برطانیہ، فرانس اور ارجنٹائن حق ملکیت کا دعویٰ رکھتے ہیں، لیکن عالمی برادری نے اس کے برعکس اس حوالے سے 1959ء ایک سمجھوتا کر رکھا ہے، جو کسی بھی ملک کے حق ملکیت کے آڑے ہے۔ اس کے تحت انسانوں کے وسیع تر مفاد میں انٹارکٹیکا کو ہمیشہ پر امن مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکے گا اور اس کے لیے عالمی اتفاق رائے بھی لازمی قرار دیا گیا ہے۔



٭جزیرہ نما کوریا

کوریا کے درمیان 150میل طویل لکیر جو اسے شمال اور جنوب میں تقسیم کرتی ہے، پر ایک جمود طاری ہے۔ کوریا کی جنگ ابھی تک منطقی انجام تک نہیں پہنچی اور شمالی اور جنوبی کوریا ابھی صرف جنگ بندی کے سمجھوتے پر کاربند ہیں۔ اس اعتبار سے ان کی سرحدیں بھی متنازع سمجھی جاتی ہیں۔

٭تائیوان

دوسری جنگ عظیم میں جاپان کی شکست کے بعد تائیوان دوبارہ چین کو مل گیا۔ مگر چین سے اختلافات کے باعث یہ خود کو چین سے علیحدہ اپنی شناخت بنائے ہوئے ہے، جب کہ چین آج بھی اسے اپنا ہی ایک صوبہ قرار دیتا ہے۔



٭صومالیہ

افریقا کی اکثر موجودہ سرحدیں یہاں پر قبضے کے لیے زور بازو آزمانے والے یورپی سام راجیوں کی مسابقت کا نتیجہ تھی۔ صومالیہ بھی انہی میں سے ایک ہے، جو 1960ء میں آزادی حاصل کرنے کے بعد خانہ جنگی کا شکار ہوگیا، جس کے بعد اس ملک کے ٹکڑے ہوگئے۔ نتیجتاً اس کی سرحدیں موجود تو ہیں، لیکن تسلیم شدہ نہیں ہیں۔

دنیا کی خطرناک ترین سرحدیں

٭سوڈان اور جنوبی سوڈان

1350 میل طویل اس سرحد پر بم باری کے نتیجے میں درجنوں افراد قتل اور سیکڑوںبے گھر ہوچکے ہیں۔ 22 سالہ خانہ جنگی میں 15لاکھ لوگوں کی ہلاکت ہوئی۔ اس کے بعد 2005ء میں ہونے والے امن معاہدے کے نتیجے میں سوڈان تقسیم ہوا۔ سوڈانی صدر نے جنوبی سوڈان کو تسلیم نہیں کیا، جس کے نتیجے میں جاری جنگی صورت حال سے ایک لاکھ 13 ہزار افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔

٭پاک بھارت

1800 میل طویل اس سرحد پر اب تک ایک لاکھ 15 ہزار سے زاید ہلاکتیں ہوچکیں۔ 1947ء کی خونیں تقسیم کے نتیجے میں دونوں طرف کے لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے اور بڑے پیمانے پر ہجرت عمل میں آئی۔ اس کے بعد بھی یہ سرحد تشدد کے حوالے سے نمایاں رہی۔ مختلف جنگوں میں 15 ہزار جانیں گئیں، جب کہ ایک لاکھ جانیں صرف کشمیر میں ضایع ہوئیں۔ منقسم کشمیر کے درمیانی سرحد ''لائن آف کنٹرول'' کے نام سے جانی جاتی ہے۔ جنگ بندی کے بعد ان دنوں ایک بار پھر اس پر گولہ باری کا سلسلہ جاری ہے۔

٭پاک افغان

مختلف شدت پسند گروہوں کی آمدورفت کی بنا پر یہاں امریکی جاسوس طیاروں کے حملے کیے جاتے ہیں۔ 1500 میل طویل اس سرحد کو ڈریونڈ لائن Durand Line بھی کہا جاتا ہے۔ ماضی میں اس سرحد کو افغانستان مسترد کرتا رہا ہے اور اس کا یہ دعویٰ رہا ہے کہ سرحد کے اس پار کے پشتون علاقے بھی اس کا حصہ ہیں۔ 1980ء کی دہائی میں ہونے والی افغان جنگ اور خانہ جنگی کے نتیجے میں لاکھوں افغان باشندے اس سرحد کے اس پار پناہ گزین ہوئے، آج بھی کبھی یہاں وسیع تر پشتون ریاست کی بازگشت سنائی دیتی رہتی ہے۔ دونوں ممالک کی کشیدگی یا کبھی مختلف متحارب گروہوں کے تصادم کی بنا پر یہ سرحد خوں ریز تصور کی جاتی ہے۔

٭امریکا اور میکسیکو

میکسکو اور امریکا کی سرحد پر 2007ء کے بعد سے اب تک 40 ہزار لوگ مارے جا چکے ہیں، جن میں سے نصف کا تعلق میکسکو سے ہے۔ اس سرحد کی طوالت1954 میل ہے۔ یہ منشیات کے اسمگلروں کی آماج گاہ تصور کیا جاتا ہے۔ اسی بنا پر سرحدی فورسز کی جانب سے اکثر و بیش تر کارروائیاں جاری رہتی ہے۔ 2010ء اس حوالے سے سب سے زیادہ خونیں سال تصور کیا جاتا ہے، جب تین ہزار سے زاید افراد لقمہ اجل بنے، جن میں ملزمان کے منظم گروہوں سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی شامل تھے۔

٭کمبوڈیا اور تھائی لینڈ

500 میل طویل یہ سرحد کئی برس پہلے Preah Vihear temple کے تنازع پر دونوں ممالک کے درمیان تنازع رہا۔ تھائی لینڈ کا دعویٰ رہا ہے کہ فرانسیسی تسلط کے زمانے میں بنائی گئی سرحد کے نتیجے میں یہ علاقہ کمبوڈیا میں شامل کردیا گیا۔ 1962ء میں عالمی عدالت برائے انصاف نے اس علاقے پر کمبوڈیا کے حق میں فیصلہ دیا، تاہم اس کے ساتھ مقدس سمجھا جانے والا 1.8 میل اسکوائر کا علاقہ بدستور حل طلب اور متنازع رہا۔ دونوں ممالک نے اگرچہ جنگ بندی کر دی، لیکن کسی سمجھوتے کی صورت نہ بن سکی، نتیجتاً فوجی جتھے وہیں موجود ہیں۔

٭کانگو اور انگولا

کانگو سے بے دخل کی گئی ہزاروں خواتین اور لڑکیوں پر انگولا کی فوج کی جانب سے جنسی تشدد کے واقعات کی بنا پر یہ سرحد خوف ناک تصور کی جاتی ہے۔ لوگوں کی بڑی تعداد میں نقل مکانی اور خانہ جنگی کی بنا پر یہ سرحد کشیدگی کا شکار رہی۔ بالخصوص خواتین کے سفر کے حوالے سے 1560 میل طویل یہ سرحد ایک خوف ناک عفریت کی حیثیت رکھتی ہے۔

٭بھارت اور بنگلادیش

2500 میل طویل یہ سرحد دنیا کی پانچویں طویل ترین سرحد کہی جاتی ہے۔ یہاں گذشتہ دس سال میں ایک ہزار بنگلادیشی افراد قتل ہو چکے ہیں۔ یوں تو یہ خطہ 1947ء میں ہی بھارت سے جدا ہوگیا تھا، تاہم 1971ء میں اس کی خودمختار حیثیت وضع ہونے کے بعد صورت حال مزید تبدیل ہوئی۔ بڑے پیمانے پر خوں ریزی کی وجہ سے بنگلادیش نہایت برے حالات میں وجود میں آیا۔ اس موقع پر اور اس کے بعد یہاں سے ایک سے دو کروڑ لوگ غیرقانونی طور پر ہندوستان میں مقیم ہیں، جو ہندوستان میں سیاسی نزاع کی وجہ بھی بنتے ہیں، کیوں کہ بنگلادیش سے آنے والے اکثر مسلمان ہوتے ہیں، جو بھارت کی حساس سیاسی صورت حال پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

٭چاڈ اور سوڈان

سوڈان کے مسلح باغیوں کے سبب 850 میل طویل یہ سرحد خاصی خطرناک بنی رہتی ہے۔ یہاں سوڈان سے نقل مکانی کرنے والے پناہ گزینوں پر بھی حملوں کے واقعات ہوتے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان خراب تعلقات کی وجہ چاڈ کی خانہ جنگی اور خطے کی صورت حال پر اختلاف ہیں۔ درمیان میں ایک سمجھوتے کے نتیجے میں یہ سرحد بند کردی گئی تھی۔ اس کے بعد جب سرحد کھلی تو بڑے پیمانے پر لوگ پناہ گزین ہوئے۔ آج اس کا شمار خطرناک ترین سرحدوں میں ہوتا ہے ۔

٭سعودی عرب اور یمن

یمن کے باغیوں کی سعودی عرب کے سرحدی اہل کاروں سے تصادم کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوتی رہی ہیں، جس کی وجہ سے یمن میں پائی جانے والی بے چینی براہ راست سعودی عرب پر اثر انداز ہونے کے خدشات پیدا ہوئے۔ سعودی حکومت اس سرحد سے غیرقانونی نقل مکانی، منشیات اور اسلحے کی ترسیل کی بھی شکایات کرتا رہا ہے۔ اس لیے اس 900 میل طویل سرحد پر اربوں روپے خرچ کیے جاچکے ہیں، تاکہ شدت پسندوں سے سعودی عرب کو محفوظ رکھا جاسکے۔

٭اسرائیل اور شام

دونوں ممالک کے درمیان سرحد کی طوالت 50 میل ہے۔ یہ سرحد گذشتہ 37 برسوں سے جنگ وجدل کا سامنا کر رہی ہے۔ پہلے صرف دو ممالک کے بیچ کشیدگی ہوتی تھی، جب کہ حالیہ دنوں میں شام کے موجودہ داخلی بحران کی وجہ سے اس سرحد پر صورت حال مزید ابتر ہوگئی ہے۔
Load Next Story