ناگورو جاپان میں واقع پُتلوں کا گاؤں
ناگورو جاپان کے ان گنت دیہات میں سے ایک ہے جو ’بُھوت گاؤں‘ بن چکے ہیں بلکہ انھیں عجائب گھر کہا جائے تو بہتر ہوگا
شکوکو، جاپان کے جنوبی حصے میں واقع ایک جزیرہ ہے۔ اس کی لمبائی 225 کلو میٹر اور چوڑائی 50 سے 150 کلومیٹر تک ہے۔ جزیرے کا بیشتر حصہ چٹانی ہے۔ یہاں کئی گاؤں موجود ہیں۔ ان ہی میں سے ایک ناگورو ہے۔
اگر ان دنوں آپ کو اس گاؤں میں جانے کا اتفاق ہو تو یہاں جگہ جگہ قد آدم انسانی پُتلے نظر آئیں گے۔ یہ پُتلے ان لوگوں کے ہیں جن کا انتقال ہوگیا یا پھر جو گاؤں چھوڑ کر شہروں اور قصبوں میں جا آباد ہوئے۔ ناگورو میں اس وقت 35 افراد رہتے ہیں مگر یہاں کے بے جان باسیوں (پُتلوں) کی تعداد ان سے تین گنا زیادہ ہے۔
گاؤں سے ہجرت کرجانے والوں کی یادوں کو ان کے پُتلوں کی صورت میں زندہ رکھنے کی کوشش سوکیمی ایانو کررہی ہے۔ 65 سالہ سوکیمی بھی نوجوانی میں گاؤں چھوڑ کر جاپان کے دوسرے بڑے شہر اوساکا میں مقیم ہوگئی تھی، لیکن اس کے والد نے شہر جانے کے بجائے یہیں رہنے کو ترجیح دی تھی۔ کئی عشروں کے بعد سوکیمی نے بوڑھے والد کی دیکھ بھال کے لیے شہر چھوڑ کر دوبارہ گاؤں میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ یہاں پہنچ کر اسے احساس ہوا کہ گاؤں کتنا سُونا ہوگیا ہے۔ کتنے ہی خالی گھر اپنے کبھی نہ لوٹ کر آنے والے مکینوں کی راہ تک رہے تھے۔ ماضی کی بہت سی یادیں، بہت سے چہرے اس کی یادداشت میں محفوظ تھے۔
سوکیمی تیرہ برس قبل گاؤں لوٹی تھی۔ شہر میں رہ کر اس کی مالی حالت مستحکم ہوچکی تھی۔ والد کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ اس نے وقت گزاری کے لیے کاشت کاری کرنے کی کوشش کی ۔ اس نے ایک بڑے قطعہ اراضی پر مولی کے بیج بوئے اور فصل کو پرندوں سے بچانے کے لیے کھیت میں لکڑی کے پُتلے گاڑ دیے۔ یہیں سے سوکیمی کو خیال آیا کہ کیوں نہ پُتلوں کی صورت میں گاؤںکے پُرانے باسیوں کی یادیں تازہ کی جائیں۔ چناں چہ وہ اس کام میں جُت گئی۔
آج سوکیمی کے فارم ہاؤس ، اور گاؤں میں ہر اُس جگہ پُتلے نظر آتے ہیں جہاں زندہ انسانوں کے قدم پڑ سکتے تھے۔ اس بارے میں سوکیمی کہتی ہے،'' یہ مجھے ماضی کی یاد دلاتے ہیں۔ یہ بوڑھی عورت کا پُتلا دیکھ رہے ہیں آپ، یہ عورت میری والدہ سے ملنے اور بات چیت کرنے کے لیے آیا کرتی تھی۔ اور اُس بوڑھے کو چائے پیتے ہوئے کہانیاں سُنانا بہت اچھا لگتا تھا۔ یہ پُتلے مجھے ماضی میں لے جاتے ہیں جب یہ لوگ زندہ تھے۔''
ناگورو جاپان کے ان گنت دیہات میں سے ایک ہے جو ' بُھوت گاؤں ' (ghost town ) بن چکے ہیں بلکہ انھیں عجائب گھر کہا جائے تو بہتر ہوگا۔ ایسے کتنے ہی گاؤں ہیں جہاں کوئی ذی روح موجود نہیں۔ یہاں کے باسیوں نے بہتر مستقبل کی تلاش میں شہروں کا رُخ کرلیا۔ ایک اندازے کے مطابق جاپان میں دس ہزار دیہات اپنے مکینوں کے منتظر ہیں جن کی آبادی قریبی شہروں میں منتقل ہوچکی ہے۔
ناگورو میں بھی فقط تین درجن لوگ باقی بچے ہیں۔ انھیں بھی کئی مسائل کا سامنا ہے۔ کسی زمانے میں یہاں کئی دکانیں ہوا کرتی تھیں مگر کم ہوتی ہوئی آبادی کی وجہ سے دکان دار کاروبار بند کرنے پر مجبور ہوگئے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ گاؤں میں کوئی بچہ نہیں ہے۔ تین درجن کی آبادی میں بیشتر عمررسیدہ لوگ ہیں جن کی اولادیں گاؤں چھوڑ کر شہروں میں جابسیں۔ طالب علم نہ ہونے کی وجہ سے گاؤں کا واحد اسکول بھی دو سال قبل بند ہوگیا تھا۔ البتہ کلاس رومز میں سوکیمی کے بنائے ہوئے ' استاد اور طالب علم' ضرور نظر آتے ہیں۔
اگر ان دنوں آپ کو اس گاؤں میں جانے کا اتفاق ہو تو یہاں جگہ جگہ قد آدم انسانی پُتلے نظر آئیں گے۔ یہ پُتلے ان لوگوں کے ہیں جن کا انتقال ہوگیا یا پھر جو گاؤں چھوڑ کر شہروں اور قصبوں میں جا آباد ہوئے۔ ناگورو میں اس وقت 35 افراد رہتے ہیں مگر یہاں کے بے جان باسیوں (پُتلوں) کی تعداد ان سے تین گنا زیادہ ہے۔
گاؤں سے ہجرت کرجانے والوں کی یادوں کو ان کے پُتلوں کی صورت میں زندہ رکھنے کی کوشش سوکیمی ایانو کررہی ہے۔ 65 سالہ سوکیمی بھی نوجوانی میں گاؤں چھوڑ کر جاپان کے دوسرے بڑے شہر اوساکا میں مقیم ہوگئی تھی، لیکن اس کے والد نے شہر جانے کے بجائے یہیں رہنے کو ترجیح دی تھی۔ کئی عشروں کے بعد سوکیمی نے بوڑھے والد کی دیکھ بھال کے لیے شہر چھوڑ کر دوبارہ گاؤں میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ یہاں پہنچ کر اسے احساس ہوا کہ گاؤں کتنا سُونا ہوگیا ہے۔ کتنے ہی خالی گھر اپنے کبھی نہ لوٹ کر آنے والے مکینوں کی راہ تک رہے تھے۔ ماضی کی بہت سی یادیں، بہت سے چہرے اس کی یادداشت میں محفوظ تھے۔
سوکیمی تیرہ برس قبل گاؤں لوٹی تھی۔ شہر میں رہ کر اس کی مالی حالت مستحکم ہوچکی تھی۔ والد کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ اس نے وقت گزاری کے لیے کاشت کاری کرنے کی کوشش کی ۔ اس نے ایک بڑے قطعہ اراضی پر مولی کے بیج بوئے اور فصل کو پرندوں سے بچانے کے لیے کھیت میں لکڑی کے پُتلے گاڑ دیے۔ یہیں سے سوکیمی کو خیال آیا کہ کیوں نہ پُتلوں کی صورت میں گاؤںکے پُرانے باسیوں کی یادیں تازہ کی جائیں۔ چناں چہ وہ اس کام میں جُت گئی۔
آج سوکیمی کے فارم ہاؤس ، اور گاؤں میں ہر اُس جگہ پُتلے نظر آتے ہیں جہاں زندہ انسانوں کے قدم پڑ سکتے تھے۔ اس بارے میں سوکیمی کہتی ہے،'' یہ مجھے ماضی کی یاد دلاتے ہیں۔ یہ بوڑھی عورت کا پُتلا دیکھ رہے ہیں آپ، یہ عورت میری والدہ سے ملنے اور بات چیت کرنے کے لیے آیا کرتی تھی۔ اور اُس بوڑھے کو چائے پیتے ہوئے کہانیاں سُنانا بہت اچھا لگتا تھا۔ یہ پُتلے مجھے ماضی میں لے جاتے ہیں جب یہ لوگ زندہ تھے۔''
ناگورو جاپان کے ان گنت دیہات میں سے ایک ہے جو ' بُھوت گاؤں ' (ghost town ) بن چکے ہیں بلکہ انھیں عجائب گھر کہا جائے تو بہتر ہوگا۔ ایسے کتنے ہی گاؤں ہیں جہاں کوئی ذی روح موجود نہیں۔ یہاں کے باسیوں نے بہتر مستقبل کی تلاش میں شہروں کا رُخ کرلیا۔ ایک اندازے کے مطابق جاپان میں دس ہزار دیہات اپنے مکینوں کے منتظر ہیں جن کی آبادی قریبی شہروں میں منتقل ہوچکی ہے۔
ناگورو میں بھی فقط تین درجن لوگ باقی بچے ہیں۔ انھیں بھی کئی مسائل کا سامنا ہے۔ کسی زمانے میں یہاں کئی دکانیں ہوا کرتی تھیں مگر کم ہوتی ہوئی آبادی کی وجہ سے دکان دار کاروبار بند کرنے پر مجبور ہوگئے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ گاؤں میں کوئی بچہ نہیں ہے۔ تین درجن کی آبادی میں بیشتر عمررسیدہ لوگ ہیں جن کی اولادیں گاؤں چھوڑ کر شہروں میں جابسیں۔ طالب علم نہ ہونے کی وجہ سے گاؤں کا واحد اسکول بھی دو سال قبل بند ہوگیا تھا۔ البتہ کلاس رومز میں سوکیمی کے بنائے ہوئے ' استاد اور طالب علم' ضرور نظر آتے ہیں۔