فرانسیسی حکومت بحری قزاقوں کو جُرمانہ ادا کرے گی
قزاقوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی بنا پرفرانسیسی حکومت عدالتی حکم کے مطابق انہیں 2 سے 5 ہزار یورو فی کس ادا کرے گی
DUSHANBE:
یورپی عدالت برائے انسانی حقوق (ECHR) نے فرانس کو حکم دیا ہے کہ وہ گرفتار شدہ صومالی قزاقوں کو ہرجانہ ادا کرے کیوں کہ ان کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے! یقیناً یہ پڑھ کر آپ کو حیرانی ہوئی ہوگی مگر اُن معاشروں میں رہنے والوں کے لیے یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں جہاں انصاف کا بول بالا ہو اور جہاں انسانی حقوق کو اولیت دی جاتی ہو۔ فرانسیسی افواج نے 2008 ء میں کچھ بحری قزاق گرفتار کیے تھے جو فرانسیسی بحری جہازوں پر حملوں میں ملوث تھے۔ کُھلے سمندر میں گرفتار کرنے کے بعد بحری لٹیروں کو فرانس لایا گیا تھا۔
ماضیِ قریب میں صومالی قزاق دنیا کے لیے دردِ سر بنے ہوئے تھے۔ بحرہند اور خلیج عدن سے گزرنے والی بہت کم کشتیاں اور بحری جہاز ان سے بچ کر نکل جانے میں کام یاب ہوپاتے تھے۔ دس برسوں کے دوران بحری ڈا کوؤں نے سیکڑوں مسافر بردار اور کارگو جہازوں کو یرغمال بنایا۔ ان بحری جہازوں اور عملے کو بھاری تاوان لے کر چھوڑا جاتا تھا۔ 2009ء میں صومالی قزاقوں کی کارروائیاں عروج پر تھیں۔ اُس برس 117 بحری جہاز یرغمال بنائے گئے تھے جن کی رہائی کے عوض کروڑوں ڈالر تاوان وصول کیا گیا تھا۔ قزاقوں کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں سے تنگ آکر بالآخر عالمی سطح پر ان کی بیخ کنی کے لیے مربوط کوششیں شروع ہوئیں جس کے نتیجے میں ان کی کارروائیاں محدود ہوتی چلی گئیں۔
یورپی عدالت برائے انسانی حقوق نے قزاقوں کو ہرجانے کی ادائیگی کا حکم جاری کرتے ہوئے کہا کہ گرفتاری کے بعد قزاقوں کو عدالت میں پیش کرنے میں فرانسیسی فوج نے اندازے سے زیادہ وقت لیا۔ اس تاخیر کی وجہ سے قزاقوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ عدالتی حکم کے مطابق اب فرانسیسی حکومت بحری لٹیروں کو دو سے پانچ ہزار یورو فی کس ادا کرے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ اسے مقدمے پر اُٹھنے والے اخراجات کی مد میں بھی تین ہزار سے نو ہزار یورو فی قذاق ادا کرنے ہوں گے۔ یورپی عدالت کا کہنا تھا کہ جب فرانسیسی حکام بحری لٹیروں کو گرفتار کرنے کے بعد اپنی سرزمین پر اُترے تھے تو انھیں ایک لمحہ ضائع کیے بغیر ملزمان کو عدالت میں پیش کرنا چاہیے تھا۔
ان لیٹروں کو فرانسیسی فوج نے دو الگ الگ کارروائیوں میں فرانس کی سمندری حدود سے4000 میل کی دوری پر گرفتارکُھلے سمندر سے گرفتار کیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ انھیں کسی جج کے سامنے پیش کرنے میں وقت لگا، تاہم یورپی عدالت نے اس نکتے کو مسترد کردیا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ فرانسیسی سرزمین پر قدم رکھنے کے بعد بھی ملزمان کو مزید 48 گھنٹے تک حراست میں رکھا گیا اور اس دوران انھیں کسی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔ اس تاخیر کو کسی بھی طرح درست اور جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ دو دن کی تاخیر سے ملزمان کے تحفظ و آزادی سے متعلق حقوق متاثر ہوئے ہیںِ جس کے لیے فرانسیسی حکومت ملزمان کو جرمانہ ادا کرنے کی پابند ہے۔
یورپی عدالت برائے انسانی حقوق (ECHR) نے فرانس کو حکم دیا ہے کہ وہ گرفتار شدہ صومالی قزاقوں کو ہرجانہ ادا کرے کیوں کہ ان کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے! یقیناً یہ پڑھ کر آپ کو حیرانی ہوئی ہوگی مگر اُن معاشروں میں رہنے والوں کے لیے یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں جہاں انصاف کا بول بالا ہو اور جہاں انسانی حقوق کو اولیت دی جاتی ہو۔ فرانسیسی افواج نے 2008 ء میں کچھ بحری قزاق گرفتار کیے تھے جو فرانسیسی بحری جہازوں پر حملوں میں ملوث تھے۔ کُھلے سمندر میں گرفتار کرنے کے بعد بحری لٹیروں کو فرانس لایا گیا تھا۔
ماضیِ قریب میں صومالی قزاق دنیا کے لیے دردِ سر بنے ہوئے تھے۔ بحرہند اور خلیج عدن سے گزرنے والی بہت کم کشتیاں اور بحری جہاز ان سے بچ کر نکل جانے میں کام یاب ہوپاتے تھے۔ دس برسوں کے دوران بحری ڈا کوؤں نے سیکڑوں مسافر بردار اور کارگو جہازوں کو یرغمال بنایا۔ ان بحری جہازوں اور عملے کو بھاری تاوان لے کر چھوڑا جاتا تھا۔ 2009ء میں صومالی قزاقوں کی کارروائیاں عروج پر تھیں۔ اُس برس 117 بحری جہاز یرغمال بنائے گئے تھے جن کی رہائی کے عوض کروڑوں ڈالر تاوان وصول کیا گیا تھا۔ قزاقوں کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں سے تنگ آکر بالآخر عالمی سطح پر ان کی بیخ کنی کے لیے مربوط کوششیں شروع ہوئیں جس کے نتیجے میں ان کی کارروائیاں محدود ہوتی چلی گئیں۔
یورپی عدالت برائے انسانی حقوق نے قزاقوں کو ہرجانے کی ادائیگی کا حکم جاری کرتے ہوئے کہا کہ گرفتاری کے بعد قزاقوں کو عدالت میں پیش کرنے میں فرانسیسی فوج نے اندازے سے زیادہ وقت لیا۔ اس تاخیر کی وجہ سے قزاقوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ عدالتی حکم کے مطابق اب فرانسیسی حکومت بحری لٹیروں کو دو سے پانچ ہزار یورو فی کس ادا کرے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ اسے مقدمے پر اُٹھنے والے اخراجات کی مد میں بھی تین ہزار سے نو ہزار یورو فی قذاق ادا کرنے ہوں گے۔ یورپی عدالت کا کہنا تھا کہ جب فرانسیسی حکام بحری لٹیروں کو گرفتار کرنے کے بعد اپنی سرزمین پر اُترے تھے تو انھیں ایک لمحہ ضائع کیے بغیر ملزمان کو عدالت میں پیش کرنا چاہیے تھا۔
ان لیٹروں کو فرانسیسی فوج نے دو الگ الگ کارروائیوں میں فرانس کی سمندری حدود سے4000 میل کی دوری پر گرفتارکُھلے سمندر سے گرفتار کیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ انھیں کسی جج کے سامنے پیش کرنے میں وقت لگا، تاہم یورپی عدالت نے اس نکتے کو مسترد کردیا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ فرانسیسی سرزمین پر قدم رکھنے کے بعد بھی ملزمان کو مزید 48 گھنٹے تک حراست میں رکھا گیا اور اس دوران انھیں کسی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔ اس تاخیر کو کسی بھی طرح درست اور جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ دو دن کی تاخیر سے ملزمان کے تحفظ و آزادی سے متعلق حقوق متاثر ہوئے ہیںِ جس کے لیے فرانسیسی حکومت ملزمان کو جرمانہ ادا کرنے کی پابند ہے۔