قوم کو حالت جنگ سے نکالنا کس کی ذمے داری
اس وقت پوری قوم حالت جنگ میں ہےتو حکمرانوں نے یہ جنگ جیتنےکےلیےکیا تیاری کی ہے اور قوم کو کس قدر متحرک کیا گیا ہے۔
MULTAN:
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اتوار کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گرد سانحہ پشاور جیسی ایک اور کارروائی کی تیاری کر رہے ہیں، پوری قوم کو احساس ہونا چاہیے کہ ہم حالت جنگ میں ہیں، دشمن باہر سے نہیں اندر سے ہے، فوج عرصہ دراز سے دہشت گردی کے خلاف لڑ رہی ہے مگر اب وقت آ گیا ہے،پوری قوم فوج کے ساتھ کھڑی ہو جائے، دہشت گردوں اور ان سے ہمدردی رکھنے والوں کا بلیک آؤٹ کیا جائے۔
سانحہ پشاور پاکستان کے دل پر حملہ تھا جس نے پوری قوم کو رلا دیا۔ اگر دہشت گرد سانحہ پشاور جیسی کسی مزید کارروائی کی تیاری کر رہے ہیں تو حکومت یہ بتائے کہ وہ اس کے سدباب کے لیے کیا تیاری کر رہی ہے۔ کیا حکومت کا کام صرف دہشت گردی کے واقعہ کی اطلاع دینے ہی تک محدود ہے؟ دہشت گردی کی روک تھام کرنا کس کی ذمے داری ہے۔ بعض مبصرین یہ اعتراض کر رہے ہیں کہ یوں معلوم ہوتا ہے ہماری حکومت اور ایجنسیوں کی کارکردگی صرف اطلاع دینے تک محدود ہو کر رہ گئی ہے جب کہ ہونا یہ چاہیے کہ ایجنسیاں اس قدر متحرک ہوں کہ دہشت گردوں کے اصل ٹھکانوں اور رابطوں کا پتہ چلائیں اور دہشت گردی کا کوئی بھی واقعہ رونما ہونے سے قبل ہی دہشت گردوں کو گرفتار کر لیا جائے۔
امریکا کی مثال سب کے سامنے ہے کہ وہاں نائن الیون کے بعد ایجنسیاں اور سیکیورٹی ادارے اس قدر متحرک ہو گئے کہ وہاں دوبارہ ایسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہو سکا۔ ہمارے یہاں صورت حال بالکل مختلف ہے ایک کے بعد ایک واقعہ رونما ہوتا چلا جاتا ہے اور حکمران پوری قوم کو یہ کہہ کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں کہ ایسے مزید واقعات رونما ہو سکتے ہیں۔ اس وقت پوری قوم حالت جنگ میں ہے تو حکمرانوں نے یہ جنگ جیتنے کے لیے کیا تیاری کی ہے اور قوم کو کس قدر متحرک کیا گیا ہے۔ کیا صرف بیانات دینے سے یہ جنگ جیتی جا سکے گی؟ بار بار یہ کہا جا رہا ہے کہ دشمن ہمارے اندر موجود ہے، یہ تاریخی حقیقت ہے کہ جن قوموں کے اندر دشمن موجود ہو ان کا بیرونی دشمن سے جنگ جیتنا ایک معجزہ ہی ہوتا ہے۔
اگر حکومت واقعی دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنا چاہتی ہے تو اسے سب سے پہلے اپنی صفوں میں موجود ان دشمنوں کے خلاف کارروائی کرنا ہو گی کیونکہ اندر کا دشمن باہر کے دشمن سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ چوہدری نثار علی خان نے میڈیا سے اپیل کی کہ تمام مدرسوں کو تنقید کا نشانہ نہ بنایا جائے مدرسوں میں پڑھنے والے قوم اور دین کی خدمت کر رہے ہیں، ہر طالب علم دہشت گرد ہے اور نہ ہر دہشت گرد طالب علم، 90 فیصد مدرسے دہشت گردی سے دور ہیں جو مدرسے دہشت گردی کے ساتھ منسلک ہیں انھیں الگ کرنے کے حوالے سے کام جاری ہے۔ قطع نظر اس کے کوئی مدرسہ دہشت گردی میں ملوث ہے یا نہیں تمام مدارس کو حکومتی سرپرستی میں چلایا جانا چاہیے، بعض حلقوں کی جانب سے یہ اعتراض اٹھایا جا رہا ہے کہ ہمارے یہاں حکومتی نظام کمزور ہونے کے باعث مدرسوں کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں اور نہ ہی ان کے آڈٹ کا کوئی نظام ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مدارس کی اکثریت دین کی سربلندی کے لیے کام کر رہی ہے مگر دہشت گردی کی لہر نے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ اس عفریت پر قابو پانے کے لیے تمام مدارس کو باقاعدہ طور پر حکومتی کنٹرول میں لیا جائے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ایران میں جب ایسا نظام رائج کیا جا سکتا ہے تو پاکستان میں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا حکومت اس سلسلے میں تمام علمائے کرام کی رائے لے سکتی ہے، امید ہے کہ علمائے کرام کی اکثریت جو دہشت گردی کے خلاف ہے حکومت سے تعاون کرے گی۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ عدالتوں میں زیر سماعت دہشت گردی کے مقدمات کو نمٹانے کا کام بظاہر سست رفتار ہے۔
اگر یہ کام سست رفتار ہے تو اسے درست کرنا کس کی ذمے داری ہے، کیا صرف نشاندہی کر دینے سے یہ نظام خود بخود درست ہو جائے گا۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ کسی دہشت گرد کو پناہ دینے اور رات ٹھہرانے پر ہوٹل والا اور جنہوں نے اپنے مکان کرائے پر دیے ہیں وہ ذمے دار ہوں گے۔ ہوٹل والا یا عام شہری کسی بھی شخص کے بارے میں کیسے تعین کر سکتا ہے کہ یہ دہشت گرد ہے یا نہیں تفتیش کرنا تو متعلقہ حکومتی اداروں کا کام ہے۔
کاروباری صورت حال پہلے ہی بہتر نہیں اگر ہوٹلنگ انڈسٹری کو نقصان پہنچتا ہے تو یہ بہت بڑا المیہ ہو گا لہٰذا ہوٹل مالکان کو براہ راست ذمے دار ٹھہرانے کے بجائے پولیس اور ایجنسیوں سے مل کر باقاعدہ کوئی نظام وضع کیا جائے تاکہ دہشت گردوں کی شناخت ہو سکے اور ہوٹلنگ کے کاروبار کو بھی نقصان نہ پہنچے۔ ہمارے یہاں بہت سے ادارے حکومتی عدم توجہی کے باعث کمزور ہو چکے ہیں، دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے شہری دفاع کی تنظیم کو ایک بار پھر متحرک کیا جائے، یہ تنظیم امن اور جنگ ہر دو صورت میں ممد و معاون ثابت ہو چکی ہے، طلباء کو سکاؤٹس ٹریننگ کے ساتھ ساتھ دہشت گردی سے نمٹنے کے طریقے بھی سکھائے جائیں۔ جب تک پوری قوم کو متحرک نہیں کیا جائے گا تنہا حکومت کا دہشت گردی پر قابو پانا اور اس حالت جنگ سے امن کی جانب مراجعت ایک مشکل امر ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اتوار کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گرد سانحہ پشاور جیسی ایک اور کارروائی کی تیاری کر رہے ہیں، پوری قوم کو احساس ہونا چاہیے کہ ہم حالت جنگ میں ہیں، دشمن باہر سے نہیں اندر سے ہے، فوج عرصہ دراز سے دہشت گردی کے خلاف لڑ رہی ہے مگر اب وقت آ گیا ہے،پوری قوم فوج کے ساتھ کھڑی ہو جائے، دہشت گردوں اور ان سے ہمدردی رکھنے والوں کا بلیک آؤٹ کیا جائے۔
سانحہ پشاور پاکستان کے دل پر حملہ تھا جس نے پوری قوم کو رلا دیا۔ اگر دہشت گرد سانحہ پشاور جیسی کسی مزید کارروائی کی تیاری کر رہے ہیں تو حکومت یہ بتائے کہ وہ اس کے سدباب کے لیے کیا تیاری کر رہی ہے۔ کیا حکومت کا کام صرف دہشت گردی کے واقعہ کی اطلاع دینے ہی تک محدود ہے؟ دہشت گردی کی روک تھام کرنا کس کی ذمے داری ہے۔ بعض مبصرین یہ اعتراض کر رہے ہیں کہ یوں معلوم ہوتا ہے ہماری حکومت اور ایجنسیوں کی کارکردگی صرف اطلاع دینے تک محدود ہو کر رہ گئی ہے جب کہ ہونا یہ چاہیے کہ ایجنسیاں اس قدر متحرک ہوں کہ دہشت گردوں کے اصل ٹھکانوں اور رابطوں کا پتہ چلائیں اور دہشت گردی کا کوئی بھی واقعہ رونما ہونے سے قبل ہی دہشت گردوں کو گرفتار کر لیا جائے۔
امریکا کی مثال سب کے سامنے ہے کہ وہاں نائن الیون کے بعد ایجنسیاں اور سیکیورٹی ادارے اس قدر متحرک ہو گئے کہ وہاں دوبارہ ایسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہو سکا۔ ہمارے یہاں صورت حال بالکل مختلف ہے ایک کے بعد ایک واقعہ رونما ہوتا چلا جاتا ہے اور حکمران پوری قوم کو یہ کہہ کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں کہ ایسے مزید واقعات رونما ہو سکتے ہیں۔ اس وقت پوری قوم حالت جنگ میں ہے تو حکمرانوں نے یہ جنگ جیتنے کے لیے کیا تیاری کی ہے اور قوم کو کس قدر متحرک کیا گیا ہے۔ کیا صرف بیانات دینے سے یہ جنگ جیتی جا سکے گی؟ بار بار یہ کہا جا رہا ہے کہ دشمن ہمارے اندر موجود ہے، یہ تاریخی حقیقت ہے کہ جن قوموں کے اندر دشمن موجود ہو ان کا بیرونی دشمن سے جنگ جیتنا ایک معجزہ ہی ہوتا ہے۔
اگر حکومت واقعی دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنا چاہتی ہے تو اسے سب سے پہلے اپنی صفوں میں موجود ان دشمنوں کے خلاف کارروائی کرنا ہو گی کیونکہ اندر کا دشمن باہر کے دشمن سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ چوہدری نثار علی خان نے میڈیا سے اپیل کی کہ تمام مدرسوں کو تنقید کا نشانہ نہ بنایا جائے مدرسوں میں پڑھنے والے قوم اور دین کی خدمت کر رہے ہیں، ہر طالب علم دہشت گرد ہے اور نہ ہر دہشت گرد طالب علم، 90 فیصد مدرسے دہشت گردی سے دور ہیں جو مدرسے دہشت گردی کے ساتھ منسلک ہیں انھیں الگ کرنے کے حوالے سے کام جاری ہے۔ قطع نظر اس کے کوئی مدرسہ دہشت گردی میں ملوث ہے یا نہیں تمام مدارس کو حکومتی سرپرستی میں چلایا جانا چاہیے، بعض حلقوں کی جانب سے یہ اعتراض اٹھایا جا رہا ہے کہ ہمارے یہاں حکومتی نظام کمزور ہونے کے باعث مدرسوں کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں اور نہ ہی ان کے آڈٹ کا کوئی نظام ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مدارس کی اکثریت دین کی سربلندی کے لیے کام کر رہی ہے مگر دہشت گردی کی لہر نے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ اس عفریت پر قابو پانے کے لیے تمام مدارس کو باقاعدہ طور پر حکومتی کنٹرول میں لیا جائے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ایران میں جب ایسا نظام رائج کیا جا سکتا ہے تو پاکستان میں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا حکومت اس سلسلے میں تمام علمائے کرام کی رائے لے سکتی ہے، امید ہے کہ علمائے کرام کی اکثریت جو دہشت گردی کے خلاف ہے حکومت سے تعاون کرے گی۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ عدالتوں میں زیر سماعت دہشت گردی کے مقدمات کو نمٹانے کا کام بظاہر سست رفتار ہے۔
اگر یہ کام سست رفتار ہے تو اسے درست کرنا کس کی ذمے داری ہے، کیا صرف نشاندہی کر دینے سے یہ نظام خود بخود درست ہو جائے گا۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ کسی دہشت گرد کو پناہ دینے اور رات ٹھہرانے پر ہوٹل والا اور جنہوں نے اپنے مکان کرائے پر دیے ہیں وہ ذمے دار ہوں گے۔ ہوٹل والا یا عام شہری کسی بھی شخص کے بارے میں کیسے تعین کر سکتا ہے کہ یہ دہشت گرد ہے یا نہیں تفتیش کرنا تو متعلقہ حکومتی اداروں کا کام ہے۔
کاروباری صورت حال پہلے ہی بہتر نہیں اگر ہوٹلنگ انڈسٹری کو نقصان پہنچتا ہے تو یہ بہت بڑا المیہ ہو گا لہٰذا ہوٹل مالکان کو براہ راست ذمے دار ٹھہرانے کے بجائے پولیس اور ایجنسیوں سے مل کر باقاعدہ کوئی نظام وضع کیا جائے تاکہ دہشت گردوں کی شناخت ہو سکے اور ہوٹلنگ کے کاروبار کو بھی نقصان نہ پہنچے۔ ہمارے یہاں بہت سے ادارے حکومتی عدم توجہی کے باعث کمزور ہو چکے ہیں، دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے شہری دفاع کی تنظیم کو ایک بار پھر متحرک کیا جائے، یہ تنظیم امن اور جنگ ہر دو صورت میں ممد و معاون ثابت ہو چکی ہے، طلباء کو سکاؤٹس ٹریننگ کے ساتھ ساتھ دہشت گردی سے نمٹنے کے طریقے بھی سکھائے جائیں۔ جب تک پوری قوم کو متحرک نہیں کیا جائے گا تنہا حکومت کا دہشت گردی پر قابو پانا اور اس حالت جنگ سے امن کی جانب مراجعت ایک مشکل امر ہے۔