درد انگیز واقعات
کچھ عرصہ یہ صاحب اپنی حرکتوں کے ذریعے ان صاحبہ کو پریشان کرتے رہے اور آخر اپنا مطالبہ سامنے رکھ دیا۔
لاہور:
ایک خاتون معیاری تعلیم دینے والے ایک ادارے میں انتظامی عہدے پرکام کرتی تھیں کیونکہ مالی مشکلات کا شکار تھیں اور گھر کی واحد کفیل تھیں اس وجہ سے اپنی ذمے داریوں کو اچھی طرح سرانجام دیتی تھیں۔
جس کا احساس ان کے ادارے کو بھی تھا اور گاہے بہ گاہے ان کا پروموشن اس بات کا ثبوت تھا کہ ادارہ ان کی خدمات کو سمجھتا اور سراہتا ہے اسی طرح سلسلہ جاری تھا کہ اس ادارے کی مانیٹرنگ ٹیم میں تبدیلی ہوئی اور نئے مانیٹر منیجر کا تقرر ہوا جب سے وہ صاحب آئے اس وقت سے زیادہ تر خواتین افسروں کا برا حال ہوگیا کیونکہ موصوف نے خواتین کو ہراساں کرنا شروع کیا اور الٹی سیدھی باتیں کرنا شروع کردیں یہ خاتون بھی موصوف کی نظر میں تھیں اور انھوں نے ذہنی طور پر ٹارچر کرنا شروع کردیا۔ کچھ عرصہ یہ صاحب اپنی حرکتوں کے ذریعے ان صاحبہ کو پریشان کرتے رہے اور آخر اپنا مطالبہ سامنے رکھ دیا جس کو وہ پورا کرنے سے قاصر تھیں پانی سر سے اوپر پہنچ چکا تھا اپنی نوکری بچانے کی تگ و دو میں ہراساں خاتون نے ڈپارٹمنٹ میں ان کی شکایت کردی اور الف سے لے کر ی تک تمام چیزیں بتادیں، مگر کچھ نہ ہوسکا بلکہ الٹا ایسی اسٹوری تیار ہوگئی جس کی وجہ سے انھیں نااہل قرار دے کر جاب سے نکال دیا گیا۔
اب ایک کہانی اور سنیے ! ایک فیملی روزگار کی تلاش میں کراچی شفٹ ہوئی، گھر کی خواتین نے پوش علاقے میں گھروں میں کام کرنا شروع کردیا، ایک خاتون جس کا نام صغریٰ بی بی تھا وہ اپنے ساتھ اپنی بچی جوکہ آٹھ دس سال کی ہوگی اس کو بھی کام پر ساتھ لے جاتی تھیں تاکہ کاموں میں ہاتھ بٹا سکے کیونکہ ان کو دو چار گھروں میں جانا ہوتا تھا ایک دن ایسا ہوا کہ صغریٰ بی بی کو دوسرے گھر کسی تقریب کی وجہ سے کام زیادہ تھا جو مقررہ وقت میں مکمل نہیں ہوسکا اس نے وہاں اپنی بچی کو چھوڑا کہ باقی کام وہ مکمل کرلے اور اس دوران وہ باری کے دوسرے گھر میں کام نمٹا کر آجاتی ہے تاکہ گھر وقت پر پہنچا جاسکے۔
مگر وائے قسمت جب ماں واپس آئی تو اپنی بیٹی کو انتہائی برے احوال میں دیکھ کر غم زدہ رہ گئی بچی صدمے کی اس کیفیت میں تھی کہ کچھ بولنا محال تھا ماں بچی کی ظاہری حالت دیکھ کر سمجھ گئی تھی کہ بچی کے ساتھ کیا ہوا ہے، روئی پیٹی اور گھر کے مکینوں سے شکایت کی، مگر متکبر مالکان نے الٹا ڈرا دھمکا کر ماں کو ہراساں کرنا چاہا تاکہ معاملہ رفع دفع ہوسکے مگر ماں اپنی بچی کی حالت دیکھ کر کسی بھی طرح معاملہ ختم کرنے پر راضی نہ ہوئی اور اپنی بچی کو لے کر متعلقہ تھانے گئی رپورٹ لکھوانے، مگر کیا ہوا الٹا اس پر کیس بنادیا گیا کہ ماں بیٹی نے زیورات چرائے ہیں جب زیورات کی پوچھ گچھ کی گئی تو جھوٹی رپورٹ لکھوانے پہنچ گئی آخر وہی ہوا جو اس معاشرے میں غریبوں کے ساتھ ہوتا ہے کہ نوکری بھی گئی عزت بھی گئی اور ملزمان اس طرح دندناتے رہے سزا تو کیا ملتی ان کو تو قصوروار ہی نہیں ٹھہرایا گیا۔
عبدالکریم ایک دفتر میں سپورٹ اسٹاف کی حیثیت سے ملازم ہوا، دن میں کام کرتا اور شام میں اپنی پڑھائی کرتا تاکہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے اپنی زندگی کو آسودہ اور خوش حال بناسکے جب تنخواہ ملی تو وہ کم تھی مگر جس پرچی پر سائن کروائے گئے اس میں زیادہ رقم تحریر تھی اس وقت تو اس نے دستخط کردیے مگر اس بات کا تذکرہ اپنے ساتھیوں سے کیا انھوں نے کہا کہ ہمارے ساتھ بھی ایسا ہو رہا ہے مگر ہم اس لیے چپ ہیں کہ کچھ نہ کچھ تو مل رہا ہے نوکریاں ملنا ایک کار دشوار ہے تم بھی خاموشی سے کام کرتے رہو۔
دو تین مہینے اسی طرح گزر گئے مگر عبدالکریم کو رہ رہ کر اس رقم کا خیال آتا جوکہ اس کا مقدر تھی مگر مالکان اس دیدہ دلیری سے اس کے حقوق غصب کر رہے تھے اور کوئی پوچھنے والا ہی نہیں تھا ۔ اب عبدالکریم کے غم و غصے کے جذبات بڑھتے جا رہے تھے اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ اب کسی بھی پرچی یا واؤچر پر دستخط نہیں کرے گا اس لیے اس نے اکاؤنٹنٹ کو صاف کہہ دیا کہ جو میری اصل تنخواہ ہے وہ دو، جب میں دستخط کروں گا۔ اکاؤنٹنٹ سے لڑائی ہوگئی۔
مالکان تک بات پہنچی اور مختلف حیلوں بہانوں سے دفتر کے لوگوں نے سمجھایا کہ تم ان سے مت لڑو ، یہ دولت مند پیسے والے لوگ ہیں، نوکری سے بھی جاؤگے، مگر عبدالکریم بضد تھا کہ یہ میرا حق ہے اور میں اپنے حق سے دستبردار نہیں ہوں گا۔ اسی اثنا میں ایک دن دفتر میں پولیس آگئی اور اس کو پکڑ کر لے گئی اس پر لاکھوں روپے کی چوری کا الزام تھا جوکہ اس کے آفس کی دراز سے پولیس نے خود نکالے اور عبدالکریم کو گرفتار کرلیا۔ مال بھی حاضر تھا کیس بننے میں دیر نہ لگی۔ آج وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہا ہے۔
پچھلے دنوں بنیادی حقوق کا دن منایا گیا مختلف این جی اوز، سول سوسائٹی نے مختلف پروگرامز کیے مقررین نے بڑی بڑی تقاریر کیں بنیادی حقوق کا تذکرہ رہا خواتین کو ہراساں کرنے والوں کے خلاف جو قانون پاس ہوا ہے اس کا چرچا تو رہا اور ہوتا رہے گا ...مگر جب تک انصاف سب کے لیے نہیں ہوگا عبدالکریم اور بنت حوا اسی طرح خسارے میں رہیں گے۔ قانون بن بھی جاتے ہیں پاس بھی ہوجاتے ہیں مگر ان پر عمل درآمد کروانا ایسا کٹھن کام بن جاتا ہے جس کو کوئی نہیں کروا سکتا آج معاشرے میں کتنی خواتین ہیں جو اس قانون سے فائدہ اٹھا رہی ہیں اس قانون کے ذریعے کیا تبدیلی آئی کیا معاشرے کے گندی ذہنیت رکھنے والے مردوں نے عورت کی طرف دیکھنا چھوڑ دیا۔
کتنی خواتین ہیں جو اس طرح کے ہراس منٹ کے بعد اپنے گھروں میں بیٹھ جاتی ہیں کیونکہ آتے جاتے لوگوں کی تمسخر آمیز گھٹیا باتیں سننا ان کے بس میں نہیں ہوتا کتنے لوگ ہیں جو اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں مگر ان حقوق کو غصب کرنے والوں کے خلاف کیا کارروائی ہوتی ہے۔ ہم سب کو معلوم ہے کہ کچھ مال خرچ کرنے پر اصل کہانی کچھ سے کچھ بن جاتی ہے اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ قانون تو اب بن گئے اب دیکھنا یہ ہے کہ اس پر عملدرآمد کیسے ہو اور ان کے لیے کیا طریقہ کار واضح کیا جائے تاکہ مظلوم کو اس کا حق مل سکے۔
ایک خاتون معیاری تعلیم دینے والے ایک ادارے میں انتظامی عہدے پرکام کرتی تھیں کیونکہ مالی مشکلات کا شکار تھیں اور گھر کی واحد کفیل تھیں اس وجہ سے اپنی ذمے داریوں کو اچھی طرح سرانجام دیتی تھیں۔
جس کا احساس ان کے ادارے کو بھی تھا اور گاہے بہ گاہے ان کا پروموشن اس بات کا ثبوت تھا کہ ادارہ ان کی خدمات کو سمجھتا اور سراہتا ہے اسی طرح سلسلہ جاری تھا کہ اس ادارے کی مانیٹرنگ ٹیم میں تبدیلی ہوئی اور نئے مانیٹر منیجر کا تقرر ہوا جب سے وہ صاحب آئے اس وقت سے زیادہ تر خواتین افسروں کا برا حال ہوگیا کیونکہ موصوف نے خواتین کو ہراساں کرنا شروع کیا اور الٹی سیدھی باتیں کرنا شروع کردیں یہ خاتون بھی موصوف کی نظر میں تھیں اور انھوں نے ذہنی طور پر ٹارچر کرنا شروع کردیا۔ کچھ عرصہ یہ صاحب اپنی حرکتوں کے ذریعے ان صاحبہ کو پریشان کرتے رہے اور آخر اپنا مطالبہ سامنے رکھ دیا جس کو وہ پورا کرنے سے قاصر تھیں پانی سر سے اوپر پہنچ چکا تھا اپنی نوکری بچانے کی تگ و دو میں ہراساں خاتون نے ڈپارٹمنٹ میں ان کی شکایت کردی اور الف سے لے کر ی تک تمام چیزیں بتادیں، مگر کچھ نہ ہوسکا بلکہ الٹا ایسی اسٹوری تیار ہوگئی جس کی وجہ سے انھیں نااہل قرار دے کر جاب سے نکال دیا گیا۔
اب ایک کہانی اور سنیے ! ایک فیملی روزگار کی تلاش میں کراچی شفٹ ہوئی، گھر کی خواتین نے پوش علاقے میں گھروں میں کام کرنا شروع کردیا، ایک خاتون جس کا نام صغریٰ بی بی تھا وہ اپنے ساتھ اپنی بچی جوکہ آٹھ دس سال کی ہوگی اس کو بھی کام پر ساتھ لے جاتی تھیں تاکہ کاموں میں ہاتھ بٹا سکے کیونکہ ان کو دو چار گھروں میں جانا ہوتا تھا ایک دن ایسا ہوا کہ صغریٰ بی بی کو دوسرے گھر کسی تقریب کی وجہ سے کام زیادہ تھا جو مقررہ وقت میں مکمل نہیں ہوسکا اس نے وہاں اپنی بچی کو چھوڑا کہ باقی کام وہ مکمل کرلے اور اس دوران وہ باری کے دوسرے گھر میں کام نمٹا کر آجاتی ہے تاکہ گھر وقت پر پہنچا جاسکے۔
مگر وائے قسمت جب ماں واپس آئی تو اپنی بیٹی کو انتہائی برے احوال میں دیکھ کر غم زدہ رہ گئی بچی صدمے کی اس کیفیت میں تھی کہ کچھ بولنا محال تھا ماں بچی کی ظاہری حالت دیکھ کر سمجھ گئی تھی کہ بچی کے ساتھ کیا ہوا ہے، روئی پیٹی اور گھر کے مکینوں سے شکایت کی، مگر متکبر مالکان نے الٹا ڈرا دھمکا کر ماں کو ہراساں کرنا چاہا تاکہ معاملہ رفع دفع ہوسکے مگر ماں اپنی بچی کی حالت دیکھ کر کسی بھی طرح معاملہ ختم کرنے پر راضی نہ ہوئی اور اپنی بچی کو لے کر متعلقہ تھانے گئی رپورٹ لکھوانے، مگر کیا ہوا الٹا اس پر کیس بنادیا گیا کہ ماں بیٹی نے زیورات چرائے ہیں جب زیورات کی پوچھ گچھ کی گئی تو جھوٹی رپورٹ لکھوانے پہنچ گئی آخر وہی ہوا جو اس معاشرے میں غریبوں کے ساتھ ہوتا ہے کہ نوکری بھی گئی عزت بھی گئی اور ملزمان اس طرح دندناتے رہے سزا تو کیا ملتی ان کو تو قصوروار ہی نہیں ٹھہرایا گیا۔
عبدالکریم ایک دفتر میں سپورٹ اسٹاف کی حیثیت سے ملازم ہوا، دن میں کام کرتا اور شام میں اپنی پڑھائی کرتا تاکہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے اپنی زندگی کو آسودہ اور خوش حال بناسکے جب تنخواہ ملی تو وہ کم تھی مگر جس پرچی پر سائن کروائے گئے اس میں زیادہ رقم تحریر تھی اس وقت تو اس نے دستخط کردیے مگر اس بات کا تذکرہ اپنے ساتھیوں سے کیا انھوں نے کہا کہ ہمارے ساتھ بھی ایسا ہو رہا ہے مگر ہم اس لیے چپ ہیں کہ کچھ نہ کچھ تو مل رہا ہے نوکریاں ملنا ایک کار دشوار ہے تم بھی خاموشی سے کام کرتے رہو۔
دو تین مہینے اسی طرح گزر گئے مگر عبدالکریم کو رہ رہ کر اس رقم کا خیال آتا جوکہ اس کا مقدر تھی مگر مالکان اس دیدہ دلیری سے اس کے حقوق غصب کر رہے تھے اور کوئی پوچھنے والا ہی نہیں تھا ۔ اب عبدالکریم کے غم و غصے کے جذبات بڑھتے جا رہے تھے اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ اب کسی بھی پرچی یا واؤچر پر دستخط نہیں کرے گا اس لیے اس نے اکاؤنٹنٹ کو صاف کہہ دیا کہ جو میری اصل تنخواہ ہے وہ دو، جب میں دستخط کروں گا۔ اکاؤنٹنٹ سے لڑائی ہوگئی۔
مالکان تک بات پہنچی اور مختلف حیلوں بہانوں سے دفتر کے لوگوں نے سمجھایا کہ تم ان سے مت لڑو ، یہ دولت مند پیسے والے لوگ ہیں، نوکری سے بھی جاؤگے، مگر عبدالکریم بضد تھا کہ یہ میرا حق ہے اور میں اپنے حق سے دستبردار نہیں ہوں گا۔ اسی اثنا میں ایک دن دفتر میں پولیس آگئی اور اس کو پکڑ کر لے گئی اس پر لاکھوں روپے کی چوری کا الزام تھا جوکہ اس کے آفس کی دراز سے پولیس نے خود نکالے اور عبدالکریم کو گرفتار کرلیا۔ مال بھی حاضر تھا کیس بننے میں دیر نہ لگی۔ آج وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہا ہے۔
پچھلے دنوں بنیادی حقوق کا دن منایا گیا مختلف این جی اوز، سول سوسائٹی نے مختلف پروگرامز کیے مقررین نے بڑی بڑی تقاریر کیں بنیادی حقوق کا تذکرہ رہا خواتین کو ہراساں کرنے والوں کے خلاف جو قانون پاس ہوا ہے اس کا چرچا تو رہا اور ہوتا رہے گا ...مگر جب تک انصاف سب کے لیے نہیں ہوگا عبدالکریم اور بنت حوا اسی طرح خسارے میں رہیں گے۔ قانون بن بھی جاتے ہیں پاس بھی ہوجاتے ہیں مگر ان پر عمل درآمد کروانا ایسا کٹھن کام بن جاتا ہے جس کو کوئی نہیں کروا سکتا آج معاشرے میں کتنی خواتین ہیں جو اس قانون سے فائدہ اٹھا رہی ہیں اس قانون کے ذریعے کیا تبدیلی آئی کیا معاشرے کے گندی ذہنیت رکھنے والے مردوں نے عورت کی طرف دیکھنا چھوڑ دیا۔
کتنی خواتین ہیں جو اس طرح کے ہراس منٹ کے بعد اپنے گھروں میں بیٹھ جاتی ہیں کیونکہ آتے جاتے لوگوں کی تمسخر آمیز گھٹیا باتیں سننا ان کے بس میں نہیں ہوتا کتنے لوگ ہیں جو اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں مگر ان حقوق کو غصب کرنے والوں کے خلاف کیا کارروائی ہوتی ہے۔ ہم سب کو معلوم ہے کہ کچھ مال خرچ کرنے پر اصل کہانی کچھ سے کچھ بن جاتی ہے اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ قانون تو اب بن گئے اب دیکھنا یہ ہے کہ اس پر عملدرآمد کیسے ہو اور ان کے لیے کیا طریقہ کار واضح کیا جائے تاکہ مظلوم کو اس کا حق مل سکے۔