ورلڈ کپ 2015 قومی ٹیم ٹائیگرز کی طرح لڑے گی معین خان
کھلاڑیوں میں کچھ کردکھانے کی تڑپ، ذمے داری اور شائقین کی توقعات کا احساس ہے، چیف سلیکٹر
MANCHESTER:
دورۂ یو اے ای میں گرین شرٹس کی کارکردگی میں عدم تسلسل کے باوجود چیف سلیکٹر اور مینجر معین خان کو امید ہے کہ قومی ٹیم ورلڈ کپ میں ٹائیگرز کی طرح ٹائٹل کیلیے جنگ لڑے گی۔
ان کا کہنا ہے کہ کھلاڑیوں میں کچھ کردکھانے کی تڑپ، ذمے داری اور شائقین کی توقعات کا احساس ہے، اپنی صلاحیتوں سے انصاف کرنے کیلیے محنت کرینگے تو فتح ضرور قدم چومے گی،آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کیخلاف سیریز میں اتار چڑھاؤ کے باوجود کئی مثبت پہلو بھی تھے،کئی تاریخ ساز کارنامے انجام دیے گئے، ناتجربے کاری کے باوجود بولرز نے توقعات سے بڑھ کر پرفارم کیا، فواد عالم کے ٹیلنٹ پر کوئی شک نہیں لیکن 15رکنی اسکواڈ میں ایک جیسے زیادہ پلیئرز کو شامل نہیں کرسکتے۔
تفصیلات کے مطابق یواے ای میں پاکستان ٹیم کی کارکردگی تسلسل سے عاری نظر آئی،ون ڈے کرکٹ میں کینگروز کے ہاتھوں کلین سوئپ کاسامنا کرنا پڑا،کیویز نے سیریز میں 3-2سے مات دی،ان نتائج کے باوجود چیف سلیکٹر اورمنیجر معین خان پر امید ہیں کہ گرین شرٹس آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی ٹف کنڈیشنزمیں کھیلے جانے والے ورلڈ کپ مقابلوں میں عمدہ کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے قومی امنگوں پرپورا اتریں گے،ایک انٹرویو میںانھوں نے کہا ہے کہ 1992میں عالمی چیمپئن بننے والی ٹیم کا ایک رکن ہونے کی حیثیت سے ڈریسنگ روم میں کھلاڑیوں کے جذبات سے ایک ایک پل آگاہ رہا، ہم میگا ایونٹ شروع ہونے سے ایک ماہ قبل آسٹریلیا پہنچے تھے، ہم گریڈ ٹیموں سے بھی وارم اپ میچ ہارگئے۔
باقاعدہ مقابلوں کا آغاز ہوا تو بھی پہلے 4میچز میں ہمارے صرف 3پوائنٹس تھے،ظاہر سی بات ہے کہ ہم قطعی طور پر اچھا پرفارم نہیں کررہے تھے، میزبان کینگروز کیخلاف میچ سے قبل ٹیم میٹنگ میں کچھ اس طرح کے جذبات جاگے کہ ہماری کایا ہی پلٹ گئی،کپتان عمران خان اورسینئرز نے نوجوان پلیئرز کو تحریک دلائی، ہر کسی نے اپنی تجاویز بھی دیں، ٹیم دل و جان سے ٹائیگرز کی طرح لڑی اور پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا، اس ایک فتح کے بعد ہم سب محسوس کرنے لگے تھے کہ کسی حریف کیلیے بھی ہمیں ہرانا آسان نہیں ہوگا، اسی یقین اور اعتماد نے ہماری ورلڈ کپ تک رسائی کیلیے راستے بنادیے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کی اس ٹیم میں بھی یہ جذبہ پیدا ہوچکا،سوئے ہوئے ٹائیگرز ہیں جاگتے ہی ان کی دھاڑ حریفوں کو مغلوب کردے گی۔
انھوں نے کہا کہ کھلاڑی اپنی صلاحیتوں اور ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے اپنی 100فیصد کارکردگی سے شائقین کی توقعات پر پورا اترنے کیلیے محنت کریں تو کامیابی خود بخود ہی قدم چومتی ہے،ایک ٹیم کے طور پر یکجان ہوکر لڑنے سے ہی چھوٹی موٹی خامیوں پر بھی قابو پایا جاسکتا ہے،انھوں نے کہا کہ مینجمنٹ کا فرض ہے کہ کسی بھی میگا ایونٹ کے اچھے برے مواقع پر کھلاڑیوں کے حوصلے جوان رکھے،انھوں نے کہا کہ عمران خان کے ٹائیگرزجیسی اسپرٹ اب بھی بیدار ہوسکتی ہے۔
صرف اور صرف فتح پر توجہ مرکوز رکھنا ہوگی،ایک بار فیصلہ کرلیں تو پھر اس پر ڈٹ جائیں تاکہ منزل قریب نظر آنے لگے، معین خان نے کہا کہ دورۂ یو اے ای میں اتار چڑھاؤ ضرور آتا رہا،تاہم مجموعی کارکردگی اچھی رہی، بڑی ٹیموں کو زیر کرنے کیلیے کھیل کے معیار میں تسلسل کی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن ٹیسٹ کرکٹ میں ایک دو مواقع کے سوا زیادہ تر میزبان کھلاڑی ہی چھائے رہے،سنچریوں کے عالمی ریکارڈز بنے، ہمارے بولرز خاص طور پر اسپنرز ناتجربہ کار تھے لیکن انھوں نے توقعات سے بڑھ کر پرفارم کیا، یاسر شاہ اور ذوالفقار بابر نے اپنی دھاک بٹھائی،سرفراز احمد نے نمبر7پر بیٹنگ کرتے ہوئے دنیا کے بہترین بولرز کے مقابل سنچری بنائی،آسٹریلیا کیخلاف سیریزمیں چند مواقع پر جیتنے کی پوزیشن میں ہونے کے باوجود فتح ہم سے روٹھی رہی، نیوزی لینڈ کیخلاف چوتھے میچ اور سیریز میں کامیابی کے بالکل قریب تھے لیکن فیصلہ آخری مقابلے تک چلا گیا۔
تاہم ان شکستوں کو دل کا روگ بنانے کے بجائے مثبت پہلو سامنے رکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا،ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ سرفراز احمد کو ڈومیسٹک مقابلوں میں کھیلتے دیکھ کر حوصلہ افزائی کرتا رہا لیکن انٹرنیشنل کرکٹ میں قدم جمانے کیلیے صلاحیت کے ساتھ اعتماد اور اچھی قسمت کی بھی ضرورت ہوتی ہے،ان دنوں یہ دونوں چیزیں وکٹ کیپر بیٹسمین کیساتھ ہیں، ان کی کارکردگی حیران کن ہے، کپتان مصباح الحق بھی ان کو ٹیم کیلیے آکسیجن قراردیتے ہیں،ان کی خوبی ہے کہ میری ہر ہدایت غور سے سنتے اور میچ میں اس پر عمل بھی کرتے ہیں، معین خان نے اس بات سے بھی اتفاق کیا کہ سرفراز احمد میں مستقبل کا کپتان بننے کی صلاحیتیں موجود ہیں۔
انھوں نے کہا کہ مجھے انڈر 19ٹیم کے کپتان کے طور پر ہی حوصلہ بڑھایا جاتا تھا کہ سینئر ٹیم کی قیادت بھی ایک دن کرنا ہے،اس چیز نے میرے حوصلے جوان رکھے۔ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ فواد عالم کو نظر انداز نہیں کیا گیا، انھیں کے ٹیلنٹ پر کوئی شک نہیں، ہماری مجبوری یہ ہے کہ ٹیم کو متوازن رکھنے کیلیے کچھ مشکل فیصلے کرنا پڑتے ہیں، اسکواڈ صرف 15کھلاڑیوں پر مشتمل ہوتا ہے،ایک جیسے کئی پلیئرز کو شامل نہیں کرسکتے، ورلڈ کپ میں ابھی وقت باقی ہے،کسی بھی وقت ضرورت پڑنے پر ان ضرور زیر غور لائیں گے،انھیں اپنا دل چھوٹا کرنے کے بجائے ڈومیسٹک کرکٹ میں عمدہ پرفارمنس کا سلسلہ جاری رکھنا چاہیے۔
دورۂ یو اے ای میں گرین شرٹس کی کارکردگی میں عدم تسلسل کے باوجود چیف سلیکٹر اور مینجر معین خان کو امید ہے کہ قومی ٹیم ورلڈ کپ میں ٹائیگرز کی طرح ٹائٹل کیلیے جنگ لڑے گی۔
ان کا کہنا ہے کہ کھلاڑیوں میں کچھ کردکھانے کی تڑپ، ذمے داری اور شائقین کی توقعات کا احساس ہے، اپنی صلاحیتوں سے انصاف کرنے کیلیے محنت کرینگے تو فتح ضرور قدم چومے گی،آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کیخلاف سیریز میں اتار چڑھاؤ کے باوجود کئی مثبت پہلو بھی تھے،کئی تاریخ ساز کارنامے انجام دیے گئے، ناتجربے کاری کے باوجود بولرز نے توقعات سے بڑھ کر پرفارم کیا، فواد عالم کے ٹیلنٹ پر کوئی شک نہیں لیکن 15رکنی اسکواڈ میں ایک جیسے زیادہ پلیئرز کو شامل نہیں کرسکتے۔
تفصیلات کے مطابق یواے ای میں پاکستان ٹیم کی کارکردگی تسلسل سے عاری نظر آئی،ون ڈے کرکٹ میں کینگروز کے ہاتھوں کلین سوئپ کاسامنا کرنا پڑا،کیویز نے سیریز میں 3-2سے مات دی،ان نتائج کے باوجود چیف سلیکٹر اورمنیجر معین خان پر امید ہیں کہ گرین شرٹس آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی ٹف کنڈیشنزمیں کھیلے جانے والے ورلڈ کپ مقابلوں میں عمدہ کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے قومی امنگوں پرپورا اتریں گے،ایک انٹرویو میںانھوں نے کہا ہے کہ 1992میں عالمی چیمپئن بننے والی ٹیم کا ایک رکن ہونے کی حیثیت سے ڈریسنگ روم میں کھلاڑیوں کے جذبات سے ایک ایک پل آگاہ رہا، ہم میگا ایونٹ شروع ہونے سے ایک ماہ قبل آسٹریلیا پہنچے تھے، ہم گریڈ ٹیموں سے بھی وارم اپ میچ ہارگئے۔
باقاعدہ مقابلوں کا آغاز ہوا تو بھی پہلے 4میچز میں ہمارے صرف 3پوائنٹس تھے،ظاہر سی بات ہے کہ ہم قطعی طور پر اچھا پرفارم نہیں کررہے تھے، میزبان کینگروز کیخلاف میچ سے قبل ٹیم میٹنگ میں کچھ اس طرح کے جذبات جاگے کہ ہماری کایا ہی پلٹ گئی،کپتان عمران خان اورسینئرز نے نوجوان پلیئرز کو تحریک دلائی، ہر کسی نے اپنی تجاویز بھی دیں، ٹیم دل و جان سے ٹائیگرز کی طرح لڑی اور پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا، اس ایک فتح کے بعد ہم سب محسوس کرنے لگے تھے کہ کسی حریف کیلیے بھی ہمیں ہرانا آسان نہیں ہوگا، اسی یقین اور اعتماد نے ہماری ورلڈ کپ تک رسائی کیلیے راستے بنادیے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کی اس ٹیم میں بھی یہ جذبہ پیدا ہوچکا،سوئے ہوئے ٹائیگرز ہیں جاگتے ہی ان کی دھاڑ حریفوں کو مغلوب کردے گی۔
انھوں نے کہا کہ کھلاڑی اپنی صلاحیتوں اور ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے اپنی 100فیصد کارکردگی سے شائقین کی توقعات پر پورا اترنے کیلیے محنت کریں تو کامیابی خود بخود ہی قدم چومتی ہے،ایک ٹیم کے طور پر یکجان ہوکر لڑنے سے ہی چھوٹی موٹی خامیوں پر بھی قابو پایا جاسکتا ہے،انھوں نے کہا کہ مینجمنٹ کا فرض ہے کہ کسی بھی میگا ایونٹ کے اچھے برے مواقع پر کھلاڑیوں کے حوصلے جوان رکھے،انھوں نے کہا کہ عمران خان کے ٹائیگرزجیسی اسپرٹ اب بھی بیدار ہوسکتی ہے۔
صرف اور صرف فتح پر توجہ مرکوز رکھنا ہوگی،ایک بار فیصلہ کرلیں تو پھر اس پر ڈٹ جائیں تاکہ منزل قریب نظر آنے لگے، معین خان نے کہا کہ دورۂ یو اے ای میں اتار چڑھاؤ ضرور آتا رہا،تاہم مجموعی کارکردگی اچھی رہی، بڑی ٹیموں کو زیر کرنے کیلیے کھیل کے معیار میں تسلسل کی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن ٹیسٹ کرکٹ میں ایک دو مواقع کے سوا زیادہ تر میزبان کھلاڑی ہی چھائے رہے،سنچریوں کے عالمی ریکارڈز بنے، ہمارے بولرز خاص طور پر اسپنرز ناتجربہ کار تھے لیکن انھوں نے توقعات سے بڑھ کر پرفارم کیا، یاسر شاہ اور ذوالفقار بابر نے اپنی دھاک بٹھائی،سرفراز احمد نے نمبر7پر بیٹنگ کرتے ہوئے دنیا کے بہترین بولرز کے مقابل سنچری بنائی،آسٹریلیا کیخلاف سیریزمیں چند مواقع پر جیتنے کی پوزیشن میں ہونے کے باوجود فتح ہم سے روٹھی رہی، نیوزی لینڈ کیخلاف چوتھے میچ اور سیریز میں کامیابی کے بالکل قریب تھے لیکن فیصلہ آخری مقابلے تک چلا گیا۔
تاہم ان شکستوں کو دل کا روگ بنانے کے بجائے مثبت پہلو سامنے رکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا،ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ سرفراز احمد کو ڈومیسٹک مقابلوں میں کھیلتے دیکھ کر حوصلہ افزائی کرتا رہا لیکن انٹرنیشنل کرکٹ میں قدم جمانے کیلیے صلاحیت کے ساتھ اعتماد اور اچھی قسمت کی بھی ضرورت ہوتی ہے،ان دنوں یہ دونوں چیزیں وکٹ کیپر بیٹسمین کیساتھ ہیں، ان کی کارکردگی حیران کن ہے، کپتان مصباح الحق بھی ان کو ٹیم کیلیے آکسیجن قراردیتے ہیں،ان کی خوبی ہے کہ میری ہر ہدایت غور سے سنتے اور میچ میں اس پر عمل بھی کرتے ہیں، معین خان نے اس بات سے بھی اتفاق کیا کہ سرفراز احمد میں مستقبل کا کپتان بننے کی صلاحیتیں موجود ہیں۔
انھوں نے کہا کہ مجھے انڈر 19ٹیم کے کپتان کے طور پر ہی حوصلہ بڑھایا جاتا تھا کہ سینئر ٹیم کی قیادت بھی ایک دن کرنا ہے،اس چیز نے میرے حوصلے جوان رکھے۔ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ فواد عالم کو نظر انداز نہیں کیا گیا، انھیں کے ٹیلنٹ پر کوئی شک نہیں، ہماری مجبوری یہ ہے کہ ٹیم کو متوازن رکھنے کیلیے کچھ مشکل فیصلے کرنا پڑتے ہیں، اسکواڈ صرف 15کھلاڑیوں پر مشتمل ہوتا ہے،ایک جیسے کئی پلیئرز کو شامل نہیں کرسکتے، ورلڈ کپ میں ابھی وقت باقی ہے،کسی بھی وقت ضرورت پڑنے پر ان ضرور زیر غور لائیں گے،انھیں اپنا دل چھوٹا کرنے کے بجائے ڈومیسٹک کرکٹ میں عمدہ پرفارمنس کا سلسلہ جاری رکھنا چاہیے۔