’شہری اتحاد‘ عوام کی امیدوں کا مرکز بن گیا

قوم پرست جماعتوں کے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری

قوم پرست جماعتوں کے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری۔ فوٹو: فائل

طویل عرصے سے سندھ کے شہری بدامنی، لاقانونیت اور امن و امان کی خراب صورتِ حال کے باعث مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔

پچھلے چند سال کے دوران بلوچستان اور خیبرپختون خوا میں اغوا، جبری گم شدگی اور تشدد زدہ لاشیں ملنے کے بعد اس کے خلاف قوم پرست جماعتوں کی جانب سے احتجاجی صدائیں بلند کی جانے لگیں، لیکن صورتِ حال بہتر نہ ہوئی۔ رواں سال کے آغاز پر سکھر سمیت بالائی سندھ میں ایسے واقعات میں تیزی آئی، جس کے خلاف قوم پرست جماعتوں نے تحریک شروع کر رکھی ہے۔ سکھر میں ان کا احتجاج زوروں پر ہے۔

بھوک ہڑتال، احتجاجی مظاہروں اور دھرنوں میں قوم پرست راہ نمائوں کا کہنا ہے کہ گذشتہ ایک سال کے دوران سندھ میں 70 کارکنوں کی لاشیں ملنے کے علاوہ متعدد کو جبراً لاپتا کیا گیا ہے جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ بلوچستان کے بعد سندھ میں تسلسل کے ساتھ لاشیں ملنا اور گم شدگی کے واقعات سے لوگوں میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے، جسے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔

گذشتہ ہفتے سانحۂ پشاور پر سکھر میں ہر آنکھ اشک بار نظر آئی اور ہر طرف افسردگی چھائی رہی۔ اسی فضا میں سیاسی، سماجی، مذہبی تنظیموں نے معصوم شہدا کی یاد میں اور لواحقین سے اظہارِ یک جہتی کے لیے ریلیاں نکالیں اور ملک اور قوم کے دشمنوں کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے حکومت سے دہشت گردوں کے خلاف سخت ایکشن لینے کا مطالبہ کیا۔ ان احتجاجی مظاہروں میں شہریوں نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی۔

مقررین نے پاک فوج اور دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ مذہبی انتہا پسندی کے خلاف بلاامتیاز کارروائی اور معصوموں کا قتل کرنے والے سفاک درندوں کو سرِ عام پھانسی دی جانی چاہیے۔ اس کے علاوہ گذشتہ ہفتے ایم کیو ایم کے کارکنان اپنے قائد الطاف حسین کے خلاف بیان دینے پر مولانا عبدالعزیز کی گرفتاری کا مطالبہ لیے سڑکوں پر نظر آئے۔

پاکستان تحریک انصاف کے اسلام آباد اور ملک کے دیگر شہروں میں دھرنے ختم کرنے کے اعلان کے بعد مسلم لیگ کے سربراہ نے بھی اپنی جماعت کے عہدے داروں کو پی ٹی آئی کے خلاف بیان بازی سے روک دیا ہے۔ دھرنے ختم کرنے سے قبل کراچی میں پی ٹی آئی نے کام یاب احتجاج ریکارڈ کروایا تھا۔ اس جلسے میں عوام کی بڑی تعداد میں شرکت جہاں ان کے کارکنوں کی کوششوں کا نتیجہ تھی، وہاں اسے سندھ میں حکم راں جماعت پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کی خاموش حمایت سے بھی جوڑا گیا۔

دھرنے سے قبل سکھر سمیت مضافاتی علاقوں میں لوگوں کو خدشہ تھا کہ کراچی میں بھی فیصل آباد جیسی صورتِ حال پیدا ہو سکتی ہے، مگر پی ٹی آئی کا احتجاج پُرامن اور کام یاب رہا۔ تحریکِ انصاف گذشتہ چند ماہ سے بھرپور احتجاجی سرگرمیوں اور دھرنوں کے باعث قومی سیاست میں نمایاں رہی، مگر سکھر، خیرپور، شکارپور، گھوٹکی سمیت مختلف علاقوں میں کارکنوں میں بڑھتے ہوئے اختلافات اور ریجن کی سطح پر مضبوط ذمہ دار نہ ہونے کی وجہ سے یہ جماعت اندرونی طور پر کم زور ہو رہی ہے۔




پی ٹی آئی کے نظریاتی کارکن اب صوبائی اور اعلیٰ قیادت کو یہ پیغام پہنچا رہے ہیں کہ فوری طور پر سکھر اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں چھوٹے، بڑے اضلاع، شہروں اور دیہات میں تنظیمی سیٹ اپ کو مضبوط بنانے پر توجہ دیں۔ پارٹی میں دھڑا بندی کو ختم کرنے کے لیے اہم فیصلے کرنا ہوں گے۔

سکھر کے لاکھوں شہریوں کو گذشتہ ایک دہائی سے سہولیات کی عدم فراہمی اور تعلیم و صحت کے شعبوں کی خستہ حالی کا شکوہ ہے اور مسائل حل نہ ہونے کی وجہ سے ان کی مشکلات بڑھتی جارہی ہیں۔ ووٹ کی خاطر بلند و بانگ دعوے اور وعدے کرنے والوں نے قومی و صوبائی اسمبلیوں میں پہنچ کر ووٹر ز سے منہ پھیر لیا ہے اور اپنے حلقۂ انتخاب کے بجائے ان کی توجہ اور سرگرمیوں کا مرکز صوبائی دارلحکومت کراچی اور شہر اقتدار اسلام آباد بنا ہوا ہے، جس سے شہری سخت نالاں ہیں۔

شہریوں، تاجروں کو درپیش مشکلات کے حل، بنیادی سہولیات کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے سکھر اسمال ٹریڈرز کی جانب سے مختلف تجارتی، سیاسی، سماجی، مذہبی تنظیموں پر مشتمل سکھر ڈیولپمنٹ الائنس کی کوشش ایک تحریک کی شکل اختیار کر چکی ہے۔

پچھلے دنوں گھنٹا گھر چوک پر ریلی کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے الائنس کے چیئرمین حاجی جاوید میمن نے کہا کہ سکھر شہر کی تباہی کے ذمہ دار 1988 سے منتخب ہونے والے نمائندے ہیں، شہری پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں، نکاسی کا نظام مفلوج ہے، منتخب نمائندے شہر کی تعمیر و ترقی کے لیے اربوں روپے خرچ کرنے کے دعوے کرتے ہیں، مگر حقائق اس کے برعکس ہیں، منظورِ نظر افراد کو ترقیاتی کاموں کے ٹھیکے دیے گئے، نساسک شہر کی صفائی ستھرائی اور دیگر ذمہ داریاں پوری کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکا ہے، سکھر شہر یونیورسٹی سے محروم ہے۔

ریلی کے شرکا سے ایم کیو ایم کے محمد سلیم بندھانی نے بھی خطاب کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مسائل حل نہ ہونے پر شہریوں کا حق ہے کہ وہ ہم سے پوچھیں اور احتجاج کریں، مگر ہمارے پاس اختیار نام کی چیز نہیں۔ متعدد مرتبہ وزیر اعلیٰ سندھ سے درخواست کرنے کے علاوہ سندھ اسمبلی میں شہری مسائل ، یونیورسٹی کے قیام، مہر میڈیکل کالج کو مکمل کرانے کے لیے آواز اٹھائی، مگر بدقسمتی یہ ہے کہ ایم پی اے کے فنڈز میں بھی کٹوتی کر لی گئی۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ سکھر کا اتحاد اپنی جدوجہد جاری رکھے اور اراکین ثابت قدم رہیں تو اس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔ دوسری طرف اس الائنس کو توڑنے کی کوششیں بھی شروع ہو چکی ہیں اور ایسی افواہیں پھیلائی جارہی ہیں، جس سے الائنس میں شامل شخصیات بیزار ہوکر گھر بیٹھ جائیں۔ اس عوامی جدوجہد کے بعد اب سکھر کی بیوروکریسی میں بھی تبدیلیاں نظر آرہی ہیں۔ ایم ڈی نساسک، ڈپٹی کمشنر، اے ڈی سی، و دیگر افسران تبدیل ہوچکے ہیں اور لوگوں کی بڑی تعداد اس الائنس کا حصہ بن رہی ہے۔
Load Next Story