سانحہ پشاور نے قوم کو دہشت گردی کے خلاف متحد کر دیا
وفاقی دارالحکومت، جڑواں شہر راولپنڈی سمیت تمام شہروں میں امن و امان قائم رکھنے والے اداروں کے سرچ آپریشن جاری ہیں
ISLAMABAD:
سولہ دسمبر کو ملکی تاریخ کا سیاہ ترین دن تصور کیا جاتا ہے کیونکہ اس روز پاکستانی قوم کو سانحہ سقوط ڈھاکہ کے غم و اذیت سے دوچار ہونا پڑا اور تینتالیس سال بعد پھر اسی سیاہ دن پاکستانی قوم کو دہشت گردوں کے ہاتھوں سانحہ پشاور کی صورت میں ڈیڑھ سو کے لگ بھگ بچوں کے خون سے ہولی کھیلنے کے دُکھ و اذیت کا سامنا کرنا پڑا مگر اس سانحہ نے جہاں پوری دنیا کو غمناک کیا، وہیں پاکستانی قوم کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا اوردہشت گردی و انتہا پسندی کے خاتمہ کیلئے پوری قوم تسبیح کے دانوں کی طرح متحد ہے۔
ملک کی تمام سیاسی جماعتیں اور عسکری قوتیں ایک صفحہ پر ہیں اور ساری عُمر کنٹینر پر گزارنے کی باتیں کرنیوالے عمران خان بھی اس قومی مقصد کی تکمیل کیلئے اس تسبیح کا دانہ بن گئے۔ دوسری جانب حکومتی جماعت مسلم لیگ (ن) نے بھی بڑے پن کا مظاہرہ کیا ہے، پوری قوم جہاں دہشت گردی کے صفایا کرنے کیلئے مسلح افواج کے پیچھے کھڑی ہے تو وہیں حکمران جماعت نے نہ صرف عمران خان کے اس جذبے کی قدر کی ہے بلکہ عمران خان اور اس کی جماعت کے الیکشن میں دھاندلی کے حوالے سے تحفظات دور کرنے کیلئے بھی پیشرفت کی ہے اور دونوں جماعتوں کا خیال ہے کہ جلد جوڈیشل کمیشن بھی قائم ہوجائے گا۔
اس کے ساتھ ساتھ حکومت اور تمام سیاسی جماعتیں اپنے اصل قومی مقصد سے بھی غافل دکھائی نہیں دیتیں اور لمحہ بہ لمحہ صورتحال کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ پوری حکومتی مشینری اور تمام سیاسی جماعتیں متحرک دکھائی دیتی ہیں اور سزائے موت کے منتظر دہشت گردوں کو سزائیں دینے کے ساتھ ساتھ پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملے کی تحقیقات کا دائرہ وسیع کر دیا گیا ہے اور چند روز میں ایک سو کے لگ بھگ افراد کو حراست میں لیا گیا ہے جن میں اہم ملزمان بھی شامل ہیں۔
وفاقی دارالحکومت، جڑواں شہر راولپنڈی سمیت تمام شہروں میں امن و امان قائم رکھنے والے اداروں کے سرچ آپریشن جاری ہیں جن میں سینکڑوں کی تعداد میں مشکوک افراد کی گرفتاریاں بھی عمل میں لائی گئی ہیں۔ اسلام آباد اور راولپنڈی اور ان کے مضافات سے سینکڑوں لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ جن کی چھان بین کی جاتی ہے اور جو لوگ کلیئر ہوتے ہیں انہیں چھوڑدیا جاتا ہے۔ البتہ مشکوک افراد کو انڈر آبزرویشن رکھا جاتا ہے۔
سانحہ پشاور کے بعد مولانا عبدالعزیز کے متنازعہ بیانسے لال مسجد پھر سے موضوع بحث ہے اور سول سوسائٹی کے لوگوں کی جانب سے لال مسجد کے سامنے نہ صرف احتجاج کیا گیا ہے بلکہ مولانا عبدالعزیز کے خلاف ایف آئی آر بھی درج ہوگئی ہے، مگر دوسری جانب سوشل میڈیا پر بھی ملک کی موجودہ صورتحال موضوع بحث ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سانحہ پشاور پاکستان کیلئے نائن الیون ثابت ہوا ہے جس نے پوری قوم کو متحد کردیا ہے اور پوری قوم ملک کو دہشت گردی و انتہا پسندی سے پاک کرنے کیلئے اٹھ کھڑی ہوئی ہے لیکن ایسے میں ہماری حکومت اور حکومتی اداروں کو بہت زیادہ ویجیلنٹ رہنا ہوگا تاکہ ملک دشمن عناصر اس آڑ میں اپنا کھیل نہ کھیل سکیں اوراس کینسر کو جڑ سے ختم کرنے کیلئے جاری کوششوں کو اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کی بھینٹ نہ چڑھا پائیں۔
کیونکہ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عناصر اس صورتحال کو مخصوص رنگ دینے کی ناپاک کوششیں کر رہے ہیں، لہٰذا ان پر بھی نظر رکھنا ضروری ہے کیونکہ دہشت گرد خواہ کسی بھی فرقے، کسی بھی مذہب، کسی بھی نسل اور کسی بھی قبیلے سے تعلق رکھتا ہو وہ صرف دہشت گرد ہے، اس کا کوئی مذہب نہیں ہے اور ان کا انجام ایک ہی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ کسی بھی ممکنہ ردعمل سے بچنے کیلئے حفاظتی انتظامات کو بھی غیر معمولی حد تک بڑھانے اور بہتر بنانا ہوگا۔
اگرچہ اس کیلئے وفاقی دارلحکومت سمیت ملک بھر میں سکیورٹی ہائی الرٹ کردی گئی ہے جبکہ وزارت داخلہ کی جانب سے غیر ملکی سفارتکاروں اور اہم شخصیات کو بھی کلیئرنس کے بغیر غیر معمولی نقل و حرکت سے پرہیز کرنیکی ہدایت ہے ۔ گزشتہ روز پاکستان میں تعینات امریکی سفیر نے نیشنل ایگریکلچر ریسرچ کونسل (این اے آر سی) کی تقریب میں آخری وقت پر آنے سے معذرت کر لی ہے، یہی نہیں ہے بلکہ نئی سکیورٹی ایجنسیوں کے قیام کیلئے لائسنسوں کا اجراء بھی روک دیا گیا ہے اور پہلے سے کام کرنے والی سکیورٹی ایجنسیوں اور ان کے سکیورٹی گارڈز کی بھی پھر سے چھان بین شروع کردی گئی ہے۔
اسی سکیورٹی و کسی ممکنہ ردعمل سے بچنے کیلئے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی پریس کانفرنس میں وفاقی حکومت سے مطالبات کی بھر مار کر دی ہے۔ انھوں نے دہشت گردی سے نمٹنے کے حوالے سے خیبرپختونخوا کی حکومت کیلئے وفاقی حکومت سے مدد مانگی ہے اورکہا ہے کہ وفاق فرنٹیئر کانسٹیبلری کو صوبے کے حوالے کرے ۔
دوسری جانب حکومت ملک کو درپیش مالی مسائل سے نکالنے کیلئے کوششیں جاری رکھے ہوئے۔ حکومت اپنا ایک اور اقتصادی ہدف قبل ازوقت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے اور آئی ایم ایف سے ایک ارب پانچ کروڑ ڈالر ملنے کے بعد 31 دسمبر سے قبل ہی ملک کے زرمبادلہ کے ذخائرپندرہ ارب ڈالر سے تجاوز کرگئے ہیں ، اس کے علاوہ بھی حکومت قومی اثاثے گروی رکھ کر زرمبادلہ اکھٹا کر رہی ہے۔
اگلے چند روز میں آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان کے ساتھ طے پانے ولاے نئے بنچ مارکس کی تفصیلات سامنے آنے پر یہ بھی غالب امکانات ہیں کہ آئی ایم ایف کی طرف سے اگلے اقتصادی جائزہ کیلئے مزیدنئی شرائط بھی رکھی جا رہی ہیں جس سے حکومت کے ساتھ ساتھ عوام کیلئے مشکلات پیدا ہونے کا خطرہ ہے اورآئی ایم ایف سے اگلی قسط حاصل کرنا جہاں حکومت کیلئے بڑا چیلنج ہوگا، وہیں بجلی اور گیس کیلئے لوگوں کے احتجاج کا بھی سامنا کرنا پڑے گا جس کی جھلک حال ہی میں راولپنڈی میں دکھائی دی ہے۔ اگر حکومت نے گرمیوں میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں کمی کا کوئی انتظام نہ کیا تو شائد حکومت کو تحریک انصاف کے احتجاج سے کہیں زیادہ خوفناک عوامی احتجاج کا سامنا کرنا پڑے۔
سولہ دسمبر کو ملکی تاریخ کا سیاہ ترین دن تصور کیا جاتا ہے کیونکہ اس روز پاکستانی قوم کو سانحہ سقوط ڈھاکہ کے غم و اذیت سے دوچار ہونا پڑا اور تینتالیس سال بعد پھر اسی سیاہ دن پاکستانی قوم کو دہشت گردوں کے ہاتھوں سانحہ پشاور کی صورت میں ڈیڑھ سو کے لگ بھگ بچوں کے خون سے ہولی کھیلنے کے دُکھ و اذیت کا سامنا کرنا پڑا مگر اس سانحہ نے جہاں پوری دنیا کو غمناک کیا، وہیں پاکستانی قوم کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا اوردہشت گردی و انتہا پسندی کے خاتمہ کیلئے پوری قوم تسبیح کے دانوں کی طرح متحد ہے۔
ملک کی تمام سیاسی جماعتیں اور عسکری قوتیں ایک صفحہ پر ہیں اور ساری عُمر کنٹینر پر گزارنے کی باتیں کرنیوالے عمران خان بھی اس قومی مقصد کی تکمیل کیلئے اس تسبیح کا دانہ بن گئے۔ دوسری جانب حکومتی جماعت مسلم لیگ (ن) نے بھی بڑے پن کا مظاہرہ کیا ہے، پوری قوم جہاں دہشت گردی کے صفایا کرنے کیلئے مسلح افواج کے پیچھے کھڑی ہے تو وہیں حکمران جماعت نے نہ صرف عمران خان کے اس جذبے کی قدر کی ہے بلکہ عمران خان اور اس کی جماعت کے الیکشن میں دھاندلی کے حوالے سے تحفظات دور کرنے کیلئے بھی پیشرفت کی ہے اور دونوں جماعتوں کا خیال ہے کہ جلد جوڈیشل کمیشن بھی قائم ہوجائے گا۔
اس کے ساتھ ساتھ حکومت اور تمام سیاسی جماعتیں اپنے اصل قومی مقصد سے بھی غافل دکھائی نہیں دیتیں اور لمحہ بہ لمحہ صورتحال کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ پوری حکومتی مشینری اور تمام سیاسی جماعتیں متحرک دکھائی دیتی ہیں اور سزائے موت کے منتظر دہشت گردوں کو سزائیں دینے کے ساتھ ساتھ پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملے کی تحقیقات کا دائرہ وسیع کر دیا گیا ہے اور چند روز میں ایک سو کے لگ بھگ افراد کو حراست میں لیا گیا ہے جن میں اہم ملزمان بھی شامل ہیں۔
وفاقی دارالحکومت، جڑواں شہر راولپنڈی سمیت تمام شہروں میں امن و امان قائم رکھنے والے اداروں کے سرچ آپریشن جاری ہیں جن میں سینکڑوں کی تعداد میں مشکوک افراد کی گرفتاریاں بھی عمل میں لائی گئی ہیں۔ اسلام آباد اور راولپنڈی اور ان کے مضافات سے سینکڑوں لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ جن کی چھان بین کی جاتی ہے اور جو لوگ کلیئر ہوتے ہیں انہیں چھوڑدیا جاتا ہے۔ البتہ مشکوک افراد کو انڈر آبزرویشن رکھا جاتا ہے۔
سانحہ پشاور کے بعد مولانا عبدالعزیز کے متنازعہ بیانسے لال مسجد پھر سے موضوع بحث ہے اور سول سوسائٹی کے لوگوں کی جانب سے لال مسجد کے سامنے نہ صرف احتجاج کیا گیا ہے بلکہ مولانا عبدالعزیز کے خلاف ایف آئی آر بھی درج ہوگئی ہے، مگر دوسری جانب سوشل میڈیا پر بھی ملک کی موجودہ صورتحال موضوع بحث ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سانحہ پشاور پاکستان کیلئے نائن الیون ثابت ہوا ہے جس نے پوری قوم کو متحد کردیا ہے اور پوری قوم ملک کو دہشت گردی و انتہا پسندی سے پاک کرنے کیلئے اٹھ کھڑی ہوئی ہے لیکن ایسے میں ہماری حکومت اور حکومتی اداروں کو بہت زیادہ ویجیلنٹ رہنا ہوگا تاکہ ملک دشمن عناصر اس آڑ میں اپنا کھیل نہ کھیل سکیں اوراس کینسر کو جڑ سے ختم کرنے کیلئے جاری کوششوں کو اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کی بھینٹ نہ چڑھا پائیں۔
کیونکہ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عناصر اس صورتحال کو مخصوص رنگ دینے کی ناپاک کوششیں کر رہے ہیں، لہٰذا ان پر بھی نظر رکھنا ضروری ہے کیونکہ دہشت گرد خواہ کسی بھی فرقے، کسی بھی مذہب، کسی بھی نسل اور کسی بھی قبیلے سے تعلق رکھتا ہو وہ صرف دہشت گرد ہے، اس کا کوئی مذہب نہیں ہے اور ان کا انجام ایک ہی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ کسی بھی ممکنہ ردعمل سے بچنے کیلئے حفاظتی انتظامات کو بھی غیر معمولی حد تک بڑھانے اور بہتر بنانا ہوگا۔
اگرچہ اس کیلئے وفاقی دارلحکومت سمیت ملک بھر میں سکیورٹی ہائی الرٹ کردی گئی ہے جبکہ وزارت داخلہ کی جانب سے غیر ملکی سفارتکاروں اور اہم شخصیات کو بھی کلیئرنس کے بغیر غیر معمولی نقل و حرکت سے پرہیز کرنیکی ہدایت ہے ۔ گزشتہ روز پاکستان میں تعینات امریکی سفیر نے نیشنل ایگریکلچر ریسرچ کونسل (این اے آر سی) کی تقریب میں آخری وقت پر آنے سے معذرت کر لی ہے، یہی نہیں ہے بلکہ نئی سکیورٹی ایجنسیوں کے قیام کیلئے لائسنسوں کا اجراء بھی روک دیا گیا ہے اور پہلے سے کام کرنے والی سکیورٹی ایجنسیوں اور ان کے سکیورٹی گارڈز کی بھی پھر سے چھان بین شروع کردی گئی ہے۔
اسی سکیورٹی و کسی ممکنہ ردعمل سے بچنے کیلئے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی پریس کانفرنس میں وفاقی حکومت سے مطالبات کی بھر مار کر دی ہے۔ انھوں نے دہشت گردی سے نمٹنے کے حوالے سے خیبرپختونخوا کی حکومت کیلئے وفاقی حکومت سے مدد مانگی ہے اورکہا ہے کہ وفاق فرنٹیئر کانسٹیبلری کو صوبے کے حوالے کرے ۔
دوسری جانب حکومت ملک کو درپیش مالی مسائل سے نکالنے کیلئے کوششیں جاری رکھے ہوئے۔ حکومت اپنا ایک اور اقتصادی ہدف قبل ازوقت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے اور آئی ایم ایف سے ایک ارب پانچ کروڑ ڈالر ملنے کے بعد 31 دسمبر سے قبل ہی ملک کے زرمبادلہ کے ذخائرپندرہ ارب ڈالر سے تجاوز کرگئے ہیں ، اس کے علاوہ بھی حکومت قومی اثاثے گروی رکھ کر زرمبادلہ اکھٹا کر رہی ہے۔
اگلے چند روز میں آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان کے ساتھ طے پانے ولاے نئے بنچ مارکس کی تفصیلات سامنے آنے پر یہ بھی غالب امکانات ہیں کہ آئی ایم ایف کی طرف سے اگلے اقتصادی جائزہ کیلئے مزیدنئی شرائط بھی رکھی جا رہی ہیں جس سے حکومت کے ساتھ ساتھ عوام کیلئے مشکلات پیدا ہونے کا خطرہ ہے اورآئی ایم ایف سے اگلی قسط حاصل کرنا جہاں حکومت کیلئے بڑا چیلنج ہوگا، وہیں بجلی اور گیس کیلئے لوگوں کے احتجاج کا بھی سامنا کرنا پڑے گا جس کی جھلک حال ہی میں راولپنڈی میں دکھائی دی ہے۔ اگر حکومت نے گرمیوں میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں کمی کا کوئی انتظام نہ کیا تو شائد حکومت کو تحریک انصاف کے احتجاج سے کہیں زیادہ خوفناک عوامی احتجاج کا سامنا کرنا پڑے۔