کبھی نہیں…اور کبھی نہیں

زبان رکھتے ہوئے بھی الفاظ نہیں مل رہے۔ جب اُن معصوم پھولوں کو بارود کی بُو نے جلا کر رکھ دیا۔

muhammad.anis@expressnews.tv

جانور اگر انسانوں کے چہرہ بنانا شروع کر دیں تو وہ انسان نہیں بن جاتے۔ یہ چھوٹی سی عقل کی بات ہمیں سمجھ میں آ کر نہیں دیتی۔ باتیں ہم سے بڑی بڑی کروا لی جائیں لیکن کام کا وقت آتا ہے تو ہم سے زیادہ سُست، کام چور اور بے فکر کوئی بھی نہیں ہوتا۔ طوفان آنے سے پہلے کوئی سا بھی دھماکا کر لیا جائے کان پر ایک جُوں تک نہیں رینگتی۔ اور اگر دھماکا ہو جائے توہم ہر طرف چیخ و پکار مچا دیتے ہیں اور ہم صرف وقتی طور پر مگر مچھ کے آنسو بہا کر اپنا دامن بچانے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر خود پر انسانوں کا خول لگا کر اپنے جنگل میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ عارضی اور وقتی طور پر خود کو انسان ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ اپنے اندر کا درندہ چھپانے کی جستجو کرتے ہیں۔ اور پھر ایک کھیل ختم ہو جانے کے بعد دوسرے کھیل کا انتظار کرتے ہیں۔ وہ ہی پرانا کھیل وہ ہی پرانی باتیں اور وہ ہی پرانی تاویلیں۔ کیا نیا ہو رہا ہے۔ کیا نیا ہونے والا ہے۔ کچھ بھی نہیں۔ وہ ہی باتیں۔ اور وہ ہی ڈرامے۔

میری نہیں سب کی آنکھیں نم تھیں۔ میرا دل نہیں سب کا دل ٹوٹ گیا۔ زبان رکھتے ہوئے بھی الفاظ نہیں مل رہے۔ جب اُن معصوم پھولوں کو بارود کی بُو نے جلا کر رکھ دیا۔ سوچنے کے دعویداروں کے ذہن مفلوج ہو گئے جب انھوں نے لہو میں لپٹے معصوم کفن دیکھے۔ دنیا دہل کر رہ گئی۔ میں تو سمجھا کہ ہم سب ایک عہد کر کے اٹھیں گے۔ لیکن ہم نے تو صرف ماتم کیا۔ سبق سیکھنے کی صلاحیت تو ہم میں ہے ہی نہیں۔ حکومت کا تو بس نہیں چلتا ورنہ وہ اتنے بڑے سانحے کے بعد صرف یہ اعلان کر دیتی کہ آج کے بعد غیر معینہ مدت کے لیے موٹر سائیکل پر ڈبل سواری پر پابندی لگ گئی۔ اور پھر اسپتال میں اور جائے وقوعہ پر دو جگہ فوٹو سیشن ہوتے اور ایک جگہ فتح کی تصویر بنائی جاتی۔ اور اللہ اللہ کہتے ہوئے اپنے انتہائی اہم کاموں میں مصروف ہو جاتی۔

سب کچھ دیکھنے اور سب کچھ سُننے کے بعد بھی آنکھیں بند کیے ہوئے بس اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ کسی بھی برُے حالات میں ایک قوم کو کیا کرنا چاہیے۔ ایک لیڈر کو کیا کہنا چاہیے۔ ؟ اٹھائیے تمام سانحات کو۔ اٹھائیے اس حوالے سے کی گئی تمام ریسرچ ۔ بس کامیابی کے لیے اور اپنی جان کو عفریت سے نکالنے کے لیے پہلا اور سب سے اہم مرحلہ ہی قبولیت ہے۔ لوگ اپنی بیماریوں کی تشخیص نہیں کراتے۔ صرف ڈرتے اس بات سے ہیں کہ کہی ہم نے کوئی ٹیسٹ کروایا اور کوئی بیماری نکل آئی تو ہم کیا کرینگے۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے کہ ہم اپنی بیماری کو دیکھنا نہیں چاہتے۔ روز یہاں لاشیں گرتی رہیں۔ روز یہاں نفرتوں کے بیج بوئیں جائیں۔

لیکن ہم یہ ماننے کے لیے ہر گز ہی تیار نہیں کہ ہمارے یہاں نفرتیں ہیں۔ کون یہ نہیں جانتا کہ ہمارے یہاں نرگسیت کس حد تک ہے۔ ہم خود کو پاک دامن اور پوری دنیا کو برائی کی جڑ کہتے ہیں۔ ہم یہ ماننے کے لیے تیار ہی نہیں کہ ہمارے معاشرے میں ایک دوسرے فرقوں کے لیے کون سی زبان استعمال کی جاتی ہے۔ ہم یہ سمجھنا ہی نہیں چاہتے کہ ہمارے درمیان ایسے لوگ موجود ہیں جو ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ ہم سب ایک دوسرے کے ساتھ نہیں چل سکتے۔ ایک دوسرے کو قتل کر کے ہی ہم اچھا معاشرہ بنا سکتے ہیں۔ آپ، میں اور ہم جب تک یہ تسلیم نہیں کرتے کہ ہمارے معاشرے میں ہمارے درمیان ایسے لوگ موجود ہیں جو ہمیں دوسروں کے بچے قتل کرنے کی باتیں سکھاتے رہتے ہیں ہم اس دلدل سے نہیں نکل سکتے۔ ہمیں ہر وقت اپنے سر کا درد دوسروں کا مرض نہیں کہنا ہو گا۔ امریکا ہو یا انڈیا کوئی بھی ہمیں آپس میں لڑا نہیں سکتا جب تک ہم خود لڑنا نہ چاہیں۔ جب تک ہم اپنی نرگسیت سے نہیں نکلیں گے۔ ہمیں لاشیں اٹھانے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔


اس طرح کے سانحات کے بعد کچھ لوگ برساتی مینڈکوں کی طرح نکل آتے ہیں۔ ایک وہ ہوتے ہیں جو مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہیں۔ جو صرف ہماری آنکھوں کو دھوکا دے رہے ہوتے ہیں۔ جو جذبات کا استعمال جانتے ہیں۔ ایک وہ ہوتے ہیں جو الزامات کا سلسلسہ شروع کر کے اصل راہ سے ہٹا دیتے ہیں۔ تیسرے وہ ہوتے ہیں جو اپنے مفادات کے لیے جھوٹی کہانیوں کو جنم دیتے ہیں۔ چوتھے وہ ہوتے ہیں جو اپنا جھنڈا اونچا کرنے کے لیے آدھا سچ بولتے ہیں۔ ایسے ڈرامے باز ہمارے آنسوئوں کو بھی اپنا سونا بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ایک بہترین لیڈر اور اچھی قوم وہ ہی ہوتی ہے جو ایسے مواقعوں پر اپنا شعور نہیں کھوتی وہ ایسے ڈرامے کرنے والوں سے دور ہٹ کر خود کو اس عفریت سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دور لے کر جاتی ہے۔

ایک بہت مشہور قول ہے کہ زندگی میں صرف 10 فیصد ایسے واقعات ہوتے ہیں جو آپ کے ساتھ رونما ہوئے ہوتے ہیں اور باقی 90 فیصد آپ کا ردعمل ہوتا ہے۔ اہم سانحات پر قوم جب حقیقت کو تسلیم کر لیتی ہے اور پھر یہ پہچان جاتی ہے کہ کون صرف مگر مچھ کے آنسو بہا رہا ہے اور کون واقعی اُس کے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہے تو پھر وہ اپنا خوف مٹاتی ہے۔ اور وہ یہ سمجھتی ہے کہ ہر آنے والا وقت اُسے طاقت دے رہا ہے۔ ہر بم دھماکہ اُس کے حوصلوں کو بڑھائیگا۔ پھر اُسے فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ اب واپسی نہیں ہے۔ اب ہمیں اپنا مقصد حاصل کرنا ہے۔ اور پھر ہمیں ایک نئے سفر پر چلنا ہے۔ دنیا کی ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ کیا جاپان، ایٹمی دھماکوں کے بعد کھڑا نہیں ہوا۔؟ کیا یورپ خونی لڑائیوں کے بعد آپس میں امن قائم نہیں کر سکا۔؟ یہ بزدلی نہیں ہوتی یہ حکمت عملی ہوتی ہے کہ آپ اپنی قوم کو کس طرف لے جانا چاہتے ہیں۔ یہ کو ئی یو U ٹرن نہیں ہوتا ۔ سفر کا آغاز صفر سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ کیا ہم اُس کام میں نئے ہونگے۔ کیا ہم نفرتوں کے بیج ختم کرنے والی پہلی قوم ہونگے۔ جو ایک دوسرے کا احترام کر کے آگے چلنے والے پہلے ہونگے؟ نہیں ہر گز ایسا نہیں ہو گا۔ تو پھر جھجک کس بات کی ہے۔

یہ بات یاد رکھیں ہمارے سب دوست ہیں تو ہم بھی دوست ہے۔ لیکن اگر کوئی ہمارا دشمن ہے تو پھر اُسے ہمارا دشمن سمجھیں۔ کوئی اگر ہماری سر زمین پر آ کر ہمارے لوگوں کو ورغلا کر ہمیں خون کی ہولی کی طرف دھکیل رہا ہے تو یاد رکھیں ہمیں پہلا سچ یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ ہمارے ہی لوگ استعمال ہو رہے ہیں۔ ایک قوم کے طور پر ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہم کسی کہ ہاتھ استعمال نہیں ہونگے۔ جب ہم یہ سوچ لیتے ہیں اور پھر مان لیتے ہیں کہ ہمارے اندر گند موجود ہے تو پہلے اپنا گند صاف کیجیے۔ کیوں کہ جب تک یہ لوگ موجود ہے باہر والے اپنا کام کرتے رہینگے اور ہم اُن کے نام لے لے کر اپنا دامن بچاتے رہینگے۔ ہر ہفتے، ہر مہینے ہم پھر ایک سانحہ کا ماتم کر رہیں ہونگے۔

یہ تقریریں کرنے، آنسو بہانے سے زیادہ حکمت عملی کے تعین اور فیصلہ کا وقت ہے۔ ایک ایسا فیصلہ جو ہمیں ایک دو دن کا نہیں بلکہ نسلوں کا سکون نصیب کرے۔ باتیں کرنے سے زیادہ ہمیں خود کو یقین دلانا ہو گا کہ ہم کسی طور بھی نفرتوں کی رکھوالی نہیں کرینگے۔ ہمیں یہ یقین کرنا ہو گا کہ امن، بھائی چارے، تعلیم، صحت اور غربت کے خاتمے کے لیے ہم سب ایک ہیں۔ سیاست دان، فوج اور عوام۔ ہم کسی کو کاروبار اور کسی کو نظریہ کا نام دے کر اپنے معصوم بچوں کو اُس کی بھینٹ نہیں چڑھائیں گے۔ کبھی نہیں۔ اور کبھی نہیں۔
Load Next Story