مسلمان بہنوں اور بھائیوں سے التجا
یہ کیسا ملک ہے اپنا جہاں ہر سانحے کے بعد حکومت کے سوا سب اپنی اپنی ذمے داری قبول کر لیتے ہیں۔
سارے ملک کا بگاڑ تین گروہوں کے بگڑنے سے ہوتا ہے، حکمران جب بے علم ہوں، علما جب بے عمل ہوں اور فقراء جب بے توکل ہوں اور ساتھ ساتھ جب آپ کی دشمنی عقل سے ہو جاتی ہے تو پھر وہ ملک پاکستان بن جا تا ہے۔
مشتاق احمد یوسفی کہتے ہیں ''میرا خیال ہے کہ حالات حاضرہ پر تبصرہ کرتے وقت جو شخص اپنا بلڈ پریشر اورگالی پر قابو رکھ سکے وہ یا تو ولی اللہ ہے یا پھر خود حالات کا ذمے دار ہے۔'' یہ کیسا ملک ہے اپنا جہاں ہر سانحے کے بعد حکومت کے سوا سب اپنی اپنی ذمے داری قبول کر لیتے ہیں یہاں سب کے سب آپ کو حادثاتی یا اتفاقیہ طور پر اعلیٰ ترین عہدوں اور مرتبوں پر بیٹھے ہوئے نظر آئیں گے وہ فیصلے بھی کر رہے ہونگے۔
سوچ بچار کاکام بھی سرانجام دے رہے ہونگے قانون سازی کے علم میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہوں گے اگر ان سب حضرات کا قابلیت، عقل و دانش، اخلاقیات کا ٹیسٹ لے لیا جائے تو ٹیسٹ لینے والے یقینی طور پر اپنا ہوش و حواس کھو بیٹھیں گے اور بقیہ زندگی خلاؤں میں دیکھتے ہوئے گزاریں گے۔ ہمارا ملک اتنا دلچسپ ملک ہے جہاں حوروں کا بہکاوہ عروج پر ہے۔ دوزخ کا ڈراؤ اور منکر نکیر کے خو فناک قبری سوال نامہ عام ہیں۔ جہاں تعلیم کے نام پر جہالت پھیلانے کے لیے لامحدود اختیارات حاصل ہیں جہاں تو ہم پرست لوگوں کا جم غفیر ہے جہاں چند لوگوں نے جنت کی خاطر باقی کے لوگوں کی زندگی دوزخ بنا دی ہے۔
کیا کریں اس ساری انتہائی خوفناک صورتحال کی سنگینی، نزاکت اور تقاضوں کو ہماری سیاسی قیادت سمجھنے سے قاصر ہے اسے اندازہ ہی نہیں ہے کہ ملکی حالات کس قدر تشو یشناک حد تک بگڑ چکے ہیں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ ملکی مفاد پر اپنے مفادات کو ترجیح نہ دیتی اور بالغ نظری اور شعور کا مظاہرہ کرتی۔ لیکن افسوس ہمیں ان کے کسی عمل سے ایسا کچھ نظر نہیں آ رہاجناب اعلیٰ مسئلہ تین روزہ سوگ یا قومی کانفرنس یاکمیشن بنانے سے حل نہیں ہو گا بلکہ دہشت گردوں کے خاتمے اور اس سوچ کے خاتمے سے ہو گا۔
جو دہشت گردوں کو جنم دیتی ہے اور اس کے لیے سب سے پہلے جرأت، ہمت، حوصلے، خواہش، موثر پلاننگ کی ضرورت ہو گی اور پھر قوم کو دہشت گردوں کے خلاف متحد، یکجا اور کھڑا کرنے کی ضرورت ہے، معاف کیجیے گا قوم کو یہ تمام چیزیں آپ میں نظر نہیں آ رہی اور ساتھ ساتھ آپ میں اس مسئلے پر تشویش کا فقدان بھی نظرآ رہا ہے کیونکہ جب شہید ہونے والے معصوم بچوں کی چھوٹی چھوٹی قبروں سے لپٹ لپٹ کر ان کے والدین رو رہے تھے اور پوری قوم ان کے غم میں ڈوبی ہوئی تھی تو دوسری جانب قومی کانفر نس میں آپ نہ تو سوگوار نظر آ رہے تھے اور نہ ہی ان بچوں کے غم میں ڈوبے ہوئے تھے بلکہ اس کے بر خلاف آپ آپس میں قہقہے لگانے میں مصروف نظر آئے۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ آپ کے دور اقتدار میں نہ تو آپ اچھی حکمرانی دے سکے ہیں اور نہ ہی ملکی معیشت کو بحران سے نکالا جا سکا ہے اور نہ ہی آپ نے قوم کو درپیش عذابوں سے نکالنے کی کوئی کوشش کی ہے۔ اگر آپ لوگوں کی آہ و بکا، گریہ و زاری، فاقوں، خودکش حملوں کو اپنی کامیابی اور فتح قرار دیتے ہیں تو پھر اور بات ہے اگر آپ ریاست کی طاقت کو لوگوں کو عذابوں سے نجات دلانے کے بجائے اپنی حکومت کو بچانے کے لیے استعمال کرنے کو اپنی جیت قرار دیتے ہیں تو پھر اور بات ہے یاد رکھیں اپنے فائد ے کے لیے آگ لگانے تک آگ آپ کے کنڑول میں رہتی ہے لیکن جب آگ بھڑکتی ہے تو آگ، اپنی مرضی کے مطابق پھیلتی ہے نہ کہ آپ کی سوچ کے مطابق یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ آگ آگے چل کر آپ کو اپنی لپیٹ میں نہ لے لے۔
دوسری جانب پاکستان کے لوگوں کو یہ بات سمجھنا ہو گی کہ ملیریا سے نمٹنے کے لیے گندے نالوں کا پانی خالی کرنا ضروری ہوتا ہے نہ کہ مچھروں کو انفرادی طور پر مارنا۔ ہمارے مسائل اس لیے بھی شدید ہو گئے ہیں کہ ہم یہ ماننے سے انکار کرتے رہتے ہیں کہ جو دکھ ہم جھیل رہے ہیں ان میں سے اکثر ہمارے اپنے پیدا کیے ہوئے ہیں میری اپنے ہم مذہب لوگوں اپنے مسلمان بہنوں اور بھائیوں سے التجا ہے کہ وہ اپنی آنکھوں پر سے پردے ہٹا لیں ہمیشہ کے لیے اندھی عقید ت کی ان ہتھکڑیوں سے اپنے آپ کو آزا د کر لیں جنہوں نے اب تک تمہاری ترقی روک رکھی ہے ماضی کی دیومالائی کہانیوں کے ساتھ چمٹے رہنا ذلت آمیز شکست کو دعو ت دینا ہے، جنہوں نے ہمیں اساطیری داستا نوں میں پھنسا د یا ہے اور مظلومیت کے جبری احساس میں مبتلا کر دیاہے اب ہمیں خود اسلام کے بارے میں تعلیم حاصل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
اب وقت آ گیاہے کہ ہم خود حضور ﷺ کے وصال کے بعد کی صحیح اسلامی تاریخ کا مطالعہ کریں اور اسلام کو سیاست کا کھیل بنانے کے عمل کی مدح سرائی بند کر دیں کیونکہ یہ ہی وہ صورت حال ہے جس نے بے شمار المیوں اور خون ریزیوں کو جنم دیا ہے جو اسلام کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے سیاسی آلہ کار بناتے آ رہے ہیں بلا کسی تعصب کے بغیر اسلامی تاریخ کا نئے سر ے سے مطالعہ کرنے اور پڑھانے کی ضرورت ہے اور یہ کام کسی قسم کے تعصب پہلے سے دما غ میں بسے ہوئے تصورکے بغیر اور سب سے زیادہ یہ کہ مولویوں کے فتوے سے بے خوف ہو کر کر نا چاہیے پاکستان میں انسانی روح کو کچلنے کے لیے ہمیشہ اسلام اور سیاست کو گڈ مڈ کیا جاتا رہا ہے ہمیں یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ انتہا پسندی اور عسکریت پسندی کی جڑیں سیاسی ناانصافی، نظراندا کر نے اور محرومی سے منسلک ہیں کسی قوم یا طبقے میں سیاسی ناانصافی جب غربت اور جہالت سے مل جاتی ہے تو یہ ادغام دھماکہ خیز ہوتا ہے۔
جس سے شدید قسم کی مایوسی اور بے اختیاری کا احساس ہوتا ہے وہ قوم جو ان مہلک بیماریوں کا شکار ہوتی ہے وہاں عسکریت پسندی، دہشت گردی یا انتہاپسندی کے امکانات روشن ہو جاتے ہیں اس کے علاوہ پاکستان میں انتہاپسندی کے فروغ کی سب سے اہم وجہ یہ بھی رہی ہے کہ ہم نے اپنے مذہب اور قرآن پاک کی تعلیمات کو خود سمجھنے کے بجائے ملاؤں پر بھروسہ کرنا شروع کر دیا اس لیے ہم مذہب کی حقیقی روح کو سمجھنے سے یکسر قاصر رہے اور ملا اسلام کے ٹھیکیدار بنتے چلے گئے ملا اپنے مفادات کی خاطر ہمیں اسلام کی حقیقی روح اور تعلیمات سے اندھیرے میں رکھتے رہے۔ اپنے مفادات کی خاطر مذہبی رہنماؤں اور ملاؤں نے سیاسی بالادستی حاصل کرنے کے لیے انتہاپسندی کو فروغ دینا شروع کر دیا کیونکہ وہ یہ جانتے تھے کہ وہ ووٹ کی طاقت کے ذریعے کبھی اقتدار حاصل نہیں کر سکتے، اسی لیے انھوں نے انتہاپسندی کو فروغ دے کر طاقت حاصل کر لی۔
اس لیے اب ضروری ہو گیا ہے کہ انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے تمام ٹی وی چینلز اپنا اپنا کردار ادا کریں اور وہ اسلام کی اصل تعلیمات سے عام لوگوں کو آگاہی دلانے کے لیے روز ایک گھنٹے باقاعدگی کے ساتھ پروگرام کریں جس میں بحث و مباحثے کے تمام بند دروازے بغیر کسی تعصب کے کھلے ہوئے ہوں اور قرآن پاک کی تعلیم اردو ترجمے اور اس کی تفسیر کے ساتھ نشر کریں تا کہ عام مسلمانوں کو اپنے مذہب اور قرآن پاک کی تعلیمات سے آگاہی ہو سکے تا کہ وہ اسلام کو اپنے ذہن اور صحیح سوچ کے مطابق پرکھیں نہ کہ انتہاپسند ملاؤں کے ذہن اور سو چ کے مطابق۔ پھر دیکھیں کس طرح ملک سے انتہاپسندی کا خاتمہ ہوتا ہے۔
مشتاق احمد یوسفی کہتے ہیں ''میرا خیال ہے کہ حالات حاضرہ پر تبصرہ کرتے وقت جو شخص اپنا بلڈ پریشر اورگالی پر قابو رکھ سکے وہ یا تو ولی اللہ ہے یا پھر خود حالات کا ذمے دار ہے۔'' یہ کیسا ملک ہے اپنا جہاں ہر سانحے کے بعد حکومت کے سوا سب اپنی اپنی ذمے داری قبول کر لیتے ہیں یہاں سب کے سب آپ کو حادثاتی یا اتفاقیہ طور پر اعلیٰ ترین عہدوں اور مرتبوں پر بیٹھے ہوئے نظر آئیں گے وہ فیصلے بھی کر رہے ہونگے۔
سوچ بچار کاکام بھی سرانجام دے رہے ہونگے قانون سازی کے علم میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہوں گے اگر ان سب حضرات کا قابلیت، عقل و دانش، اخلاقیات کا ٹیسٹ لے لیا جائے تو ٹیسٹ لینے والے یقینی طور پر اپنا ہوش و حواس کھو بیٹھیں گے اور بقیہ زندگی خلاؤں میں دیکھتے ہوئے گزاریں گے۔ ہمارا ملک اتنا دلچسپ ملک ہے جہاں حوروں کا بہکاوہ عروج پر ہے۔ دوزخ کا ڈراؤ اور منکر نکیر کے خو فناک قبری سوال نامہ عام ہیں۔ جہاں تعلیم کے نام پر جہالت پھیلانے کے لیے لامحدود اختیارات حاصل ہیں جہاں تو ہم پرست لوگوں کا جم غفیر ہے جہاں چند لوگوں نے جنت کی خاطر باقی کے لوگوں کی زندگی دوزخ بنا دی ہے۔
کیا کریں اس ساری انتہائی خوفناک صورتحال کی سنگینی، نزاکت اور تقاضوں کو ہماری سیاسی قیادت سمجھنے سے قاصر ہے اسے اندازہ ہی نہیں ہے کہ ملکی حالات کس قدر تشو یشناک حد تک بگڑ چکے ہیں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ ملکی مفاد پر اپنے مفادات کو ترجیح نہ دیتی اور بالغ نظری اور شعور کا مظاہرہ کرتی۔ لیکن افسوس ہمیں ان کے کسی عمل سے ایسا کچھ نظر نہیں آ رہاجناب اعلیٰ مسئلہ تین روزہ سوگ یا قومی کانفرنس یاکمیشن بنانے سے حل نہیں ہو گا بلکہ دہشت گردوں کے خاتمے اور اس سوچ کے خاتمے سے ہو گا۔
جو دہشت گردوں کو جنم دیتی ہے اور اس کے لیے سب سے پہلے جرأت، ہمت، حوصلے، خواہش، موثر پلاننگ کی ضرورت ہو گی اور پھر قوم کو دہشت گردوں کے خلاف متحد، یکجا اور کھڑا کرنے کی ضرورت ہے، معاف کیجیے گا قوم کو یہ تمام چیزیں آپ میں نظر نہیں آ رہی اور ساتھ ساتھ آپ میں اس مسئلے پر تشویش کا فقدان بھی نظرآ رہا ہے کیونکہ جب شہید ہونے والے معصوم بچوں کی چھوٹی چھوٹی قبروں سے لپٹ لپٹ کر ان کے والدین رو رہے تھے اور پوری قوم ان کے غم میں ڈوبی ہوئی تھی تو دوسری جانب قومی کانفر نس میں آپ نہ تو سوگوار نظر آ رہے تھے اور نہ ہی ان بچوں کے غم میں ڈوبے ہوئے تھے بلکہ اس کے بر خلاف آپ آپس میں قہقہے لگانے میں مصروف نظر آئے۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ آپ کے دور اقتدار میں نہ تو آپ اچھی حکمرانی دے سکے ہیں اور نہ ہی ملکی معیشت کو بحران سے نکالا جا سکا ہے اور نہ ہی آپ نے قوم کو درپیش عذابوں سے نکالنے کی کوئی کوشش کی ہے۔ اگر آپ لوگوں کی آہ و بکا، گریہ و زاری، فاقوں، خودکش حملوں کو اپنی کامیابی اور فتح قرار دیتے ہیں تو پھر اور بات ہے اگر آپ ریاست کی طاقت کو لوگوں کو عذابوں سے نجات دلانے کے بجائے اپنی حکومت کو بچانے کے لیے استعمال کرنے کو اپنی جیت قرار دیتے ہیں تو پھر اور بات ہے یاد رکھیں اپنے فائد ے کے لیے آگ لگانے تک آگ آپ کے کنڑول میں رہتی ہے لیکن جب آگ بھڑکتی ہے تو آگ، اپنی مرضی کے مطابق پھیلتی ہے نہ کہ آپ کی سوچ کے مطابق یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ آگ آگے چل کر آپ کو اپنی لپیٹ میں نہ لے لے۔
دوسری جانب پاکستان کے لوگوں کو یہ بات سمجھنا ہو گی کہ ملیریا سے نمٹنے کے لیے گندے نالوں کا پانی خالی کرنا ضروری ہوتا ہے نہ کہ مچھروں کو انفرادی طور پر مارنا۔ ہمارے مسائل اس لیے بھی شدید ہو گئے ہیں کہ ہم یہ ماننے سے انکار کرتے رہتے ہیں کہ جو دکھ ہم جھیل رہے ہیں ان میں سے اکثر ہمارے اپنے پیدا کیے ہوئے ہیں میری اپنے ہم مذہب لوگوں اپنے مسلمان بہنوں اور بھائیوں سے التجا ہے کہ وہ اپنی آنکھوں پر سے پردے ہٹا لیں ہمیشہ کے لیے اندھی عقید ت کی ان ہتھکڑیوں سے اپنے آپ کو آزا د کر لیں جنہوں نے اب تک تمہاری ترقی روک رکھی ہے ماضی کی دیومالائی کہانیوں کے ساتھ چمٹے رہنا ذلت آمیز شکست کو دعو ت دینا ہے، جنہوں نے ہمیں اساطیری داستا نوں میں پھنسا د یا ہے اور مظلومیت کے جبری احساس میں مبتلا کر دیاہے اب ہمیں خود اسلام کے بارے میں تعلیم حاصل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
اب وقت آ گیاہے کہ ہم خود حضور ﷺ کے وصال کے بعد کی صحیح اسلامی تاریخ کا مطالعہ کریں اور اسلام کو سیاست کا کھیل بنانے کے عمل کی مدح سرائی بند کر دیں کیونکہ یہ ہی وہ صورت حال ہے جس نے بے شمار المیوں اور خون ریزیوں کو جنم دیا ہے جو اسلام کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے سیاسی آلہ کار بناتے آ رہے ہیں بلا کسی تعصب کے بغیر اسلامی تاریخ کا نئے سر ے سے مطالعہ کرنے اور پڑھانے کی ضرورت ہے اور یہ کام کسی قسم کے تعصب پہلے سے دما غ میں بسے ہوئے تصورکے بغیر اور سب سے زیادہ یہ کہ مولویوں کے فتوے سے بے خوف ہو کر کر نا چاہیے پاکستان میں انسانی روح کو کچلنے کے لیے ہمیشہ اسلام اور سیاست کو گڈ مڈ کیا جاتا رہا ہے ہمیں یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ انتہا پسندی اور عسکریت پسندی کی جڑیں سیاسی ناانصافی، نظراندا کر نے اور محرومی سے منسلک ہیں کسی قوم یا طبقے میں سیاسی ناانصافی جب غربت اور جہالت سے مل جاتی ہے تو یہ ادغام دھماکہ خیز ہوتا ہے۔
جس سے شدید قسم کی مایوسی اور بے اختیاری کا احساس ہوتا ہے وہ قوم جو ان مہلک بیماریوں کا شکار ہوتی ہے وہاں عسکریت پسندی، دہشت گردی یا انتہاپسندی کے امکانات روشن ہو جاتے ہیں اس کے علاوہ پاکستان میں انتہاپسندی کے فروغ کی سب سے اہم وجہ یہ بھی رہی ہے کہ ہم نے اپنے مذہب اور قرآن پاک کی تعلیمات کو خود سمجھنے کے بجائے ملاؤں پر بھروسہ کرنا شروع کر دیا اس لیے ہم مذہب کی حقیقی روح کو سمجھنے سے یکسر قاصر رہے اور ملا اسلام کے ٹھیکیدار بنتے چلے گئے ملا اپنے مفادات کی خاطر ہمیں اسلام کی حقیقی روح اور تعلیمات سے اندھیرے میں رکھتے رہے۔ اپنے مفادات کی خاطر مذہبی رہنماؤں اور ملاؤں نے سیاسی بالادستی حاصل کرنے کے لیے انتہاپسندی کو فروغ دینا شروع کر دیا کیونکہ وہ یہ جانتے تھے کہ وہ ووٹ کی طاقت کے ذریعے کبھی اقتدار حاصل نہیں کر سکتے، اسی لیے انھوں نے انتہاپسندی کو فروغ دے کر طاقت حاصل کر لی۔
اس لیے اب ضروری ہو گیا ہے کہ انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے تمام ٹی وی چینلز اپنا اپنا کردار ادا کریں اور وہ اسلام کی اصل تعلیمات سے عام لوگوں کو آگاہی دلانے کے لیے روز ایک گھنٹے باقاعدگی کے ساتھ پروگرام کریں جس میں بحث و مباحثے کے تمام بند دروازے بغیر کسی تعصب کے کھلے ہوئے ہوں اور قرآن پاک کی تعلیم اردو ترجمے اور اس کی تفسیر کے ساتھ نشر کریں تا کہ عام مسلمانوں کو اپنے مذہب اور قرآن پاک کی تعلیمات سے آگاہی ہو سکے تا کہ وہ اسلام کو اپنے ذہن اور صحیح سوچ کے مطابق پرکھیں نہ کہ انتہاپسند ملاؤں کے ذہن اور سو چ کے مطابق۔ پھر دیکھیں کس طرح ملک سے انتہاپسندی کا خاتمہ ہوتا ہے۔