مولانا رازق الخیری

ہم پیچھے مڑ کر دیکھیں تو غنیمت زمانہ شخصیتوں کا ایک سلسلہ نظر آتا ہے جنہوں نے قوم کے مستقبل سے مایوسی اختیار نہ کی۔

مولانا رازق الخیری ایک ''مصفی'' اور بے داغ کردار کے مالک تھے۔ پاک باطن، نیک سیرت، نیک طینت جہاں کوئی انگلی اٹھانے کی گنجائش نہیں جو دل میں وہ زبان پہ۔ وہ باقاعدگی کا نمونہ تھے۔ ان کے معمولات بندھے ہوئے تھے۔ جن میں کبھی فرق نہیں آیا۔ انھوں نے محنت اور اپنے فرائض کی انجام دہی سے کبھی جی نہیں چرایا۔ آزاد پیشہ آدمی تھے۔ کسی کے پابند نہیں تھے۔ پابندی تھی تو صرف اپنے اختیار کردہ اصولوں کی۔ اسی کو سیلف ڈسپلن کہتے ہیں۔ انھیں اپنے نفس پر پورا قابو تھا جو سب سے بڑی جنگ ہے۔ بقول اقبال '' کردار کا غازی'' بننا آسان نہیں۔ اپنی اختیار کردہ راہ پر جو دراصل خدمت اور فلاح خلق کی راہ تھی ان کے قدم اتنے مضبوط تھے کہ لغزش کا سوال ہی نہیں تھا۔

اسی فراغی اور فارغ البالی کے زمانے میں بھی جو انھیں ایک بڑے نشری ادارے کے مالک، ایک صاحب املاک اور عالیٰ خاندان آدمی کی حیثیت سے دلی میں حاصل رہی اور اس خستہ حالی کے دور میں بھی جو پاکستان ہجرت کرنے کے بعد ان پر گزارا ان کی رفتار ایک سی رہی۔ عزم و استقلال انھی پر ختم تھا وہ ان غنیمت ہستیوں میں سے تھے جو اپنی عمر عزیز اور زندگی کی بخشی ہوئی توانائی کو کسی کار خیر میں لٹاتے رہتے ہیں اور اسی کو نشاط حیات سمجھتے ہیں۔حدیث نبوی ﷺ ہے کہ مفلسی جلد ہی کفر میں بدل سکتی ہے ایک عرصے کی غلامی نے ہمارے قومی کردار کو خاصا مسخ کر ڈالا تھا جس طرح کسی مضمحل ضعیف عورت کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ عین شباب میں رنگ و روپ اور چال ڈھال کیا ہو گی۔ اسی طرح قوموں کا حلیہ جب بگڑتا ہے تو پہچانا نہیں جاتا۔ افسوس ہے کہ آزادی بھی ہماری غلامی کے بخشے ہوئے عوارض کا مداوا نہ کر سکی۔ ابھی تک قوم ایک بے اعتمادی کا شکار ہے۔ اپنے مستقبل کی طرف سے مایوسی جو دراصل بے اعتمادی کی ایک شکل ہے۔ اکثر سماجی حلقوں کی تہہ میں یہی بے اعتمادی کارفرما ہے۔

ہم پیچھے مڑ کر دیکھیں تو غنیمت زمانہ شخصیتوں کا ایک سلسلہ نظر آتا ہے جنہوں نے قوم کے مستقبل سے مایوسی اختیار نہ کی بلکہ اپنے ہاتھوں اس کی تعمیر کے لیے بستہ ہو گئے۔ اسی سلسلے میں سرسید احمد خان اور ان رفقاء کے ساتھ جن اکابر کے نام لیے جاتے ہیں ان میں علامہ راشد الخیری کی ذات نمایاں حیثیت رکھتی ہے وہ اہل سیاست میں سے نہیں تھے نہ حکام تھے وہ سماجی خدمت کو مقدم خیال کرتے تھے اور اس میدان میں بھی انھوں نے اس سمت نظر کی جدھر اس دور میں کم ہی نظریں اٹھتی تھیں۔

یعنی اصلاح و تعلیم نسواں کسی قوم کو پستی سے نکالنا اور ترقی کی راہ پر ڈالنا ہو تو پہلے اس کے طبقہ اناث کو سنبھالیے۔ کردار کی داغ بیل ماں کی آغوش میں پڑتی ہے بلکہ کر دار ماں کی کوکھ ہی سے جنم لیتا ہے۔ آپ آدھی قوم کو جاہل اور زندگی کے کاموں سے بے دخل رکھ کر فلاح کی امید نہیں کر سکتے۔ کسی قوم یا ملک کی سب سے بڑی دولت افرادی قوت ہے بشرطیکہ اس کا نظام معیشت درست ہو جو اس قوت سے کام لے سکے لہٰذا ملک کو کل بھی ذہانت، روشن خیال اور با ہنر خواتین کی ضرورت تھی آج بھی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔

نظریات سے اختلاف کرنے والے موجود ہیں تو خیال کیجیے کہ اس دور میں ان حضرت کو کتنے بڑے جہاد کا سامنا تھا جو تعلیم نسواں کے علمبردار تھے۔ علامہ نے اعتدال اور معقولیت کی روش اختیار کی تھی۔ انھوں نے قومی معاشرت کو آئینہ دکھایا تھا۔ طبقہ نسواں کی جہالت و مظلومیت کی دلدوز داستانیں لکھیں، قوم کے احساسات کو جگانے کا اس سے زیادہ موثر اور کارگر حربہ کیا ہو سکتا تھا جو انھوں نے اختیار کیا۔ ان کی تصانیف ہمارے قومی ادب کا گراں قدر سرمایہ ہیں جس کا مقام ہماری تاریخ میں محفوظ ہے۔


''ادب برائے زندگی'' کا نعرہ بہت بعد میں بلند ہوا اس کی طرح ڈالنے والے یہی مصنفین تھے مولوی نذیراحمد، مولانا حالی، مصورغم علامہ راشد الخیری یہ اس سلسلہ کی پہلی کڑیاں تھیں۔ علامہ راشد الخیری کی زندگی ہی میں مولانا رازق الخیری ان کے مشن میں پوری طرح سرگرم تھے۔ علامہ کی وفات کے بعد ذمے داری تمامتر ان کے سر آ پڑی۔ مدرستہ البنات اور مطبوعات و رسائل کا کام ان کے کاندھوں پر رہا اور انھوں نے اس کو جس تندہی اور حسن لیاقت کے ساتھ انجام دیا انھی کا حصہ تھا۔ ان کے ہاتھوں ادارے کو بہت فروغ ہوا۔

علامہ مغفور تخلیقی ذہن لے کر پیداہوئے تھے وہ موجد مخترع اور خلاق تھے تو رازق صاحب انتظامی امور میں طاق۔ علامہ کی بعض ابتدائی تصانیف جو دوسرے ناشروں نے برائے نام معاوضہ دے کر خرید رکھی تھیں ان کے حقوق رازق صاحب نے بڑے بڑے دام دے کر واپس لیے۔ تقسیم کے وقت تک ادارہ ''عصمت'' ایک فعال باضابطہ اور پھلتا پھولتا ادارہ تھا تمام برصغیر میں اس کی ساکھ اور دھاک تھی پھر یوں ہوا کہ وہ بساط الٹ گئی ہزارہا مہاجرین کی طرح مولانا رازق الخیری بھی اپنے اہل و عیال کی جان کے صدقے میں اپنا سب کچھ گنوا کر پاکستان میں پناہ گزیں ہو گئے۔ وہ حالات کے آگے ہمت ہارنے والے انسان نہیں تھے یہاں ان کے کردار کو ایک نئی اور بہت بڑی آزمائش سے گزرنا پڑا ان کی جوانی کا زمانہ نہیں تھا کوئی اور ہوتا تو کندھا ڈال دیتا لیکن ''عصمت'' جو ان کی زندگی کا مشن تھا ظلمات کا چراغ تھا حوادث کے جھونکوں سے نہ بجھ سکا اور ان کی سعادت مند اولاد کے حوصلے اور ہمت کے طفیل آج بھی جاری ہے۔ان رسائل اور ان مطبوعات سے جو ادارہ ''عصمت'' نے شایع کیں کتنی خلق خدا نے فیض پایا اس کا شمار محال ہے۔

انھوں نے قوم کو بہت کچھ دیا افسوس کہ قوم ان کی خدمات کے خالی خولی اعترا ف کا حق بھی ادا نہ کر سکی یہ وہ دور تھا کہ جس میں خدمت کی قد رہی نہیں رہی تھی۔ کچھ ملتا تو ان کو جو اس کے طلبگار ہوتے، وہ طلبگار تھے نہ انھوں نے پیروکار تلاش کیا۔ وہ قوم سے اپنی خدمات کا صلہ کیا مانگتے کہ یہ تو سودائے محبت تھا لیکن اہل قلم پر ان کی خدمت اور عظمت کا اعتراف ضرور واجب ہے۔ یہ ایک فرض کفایہ ہی نہیں اسے جتنے لوگ بھی ادا کریں کم ہے۔

میں نے مولانا کو پہلے پہل غالباً 1925ء میں دیکھا تھا انھوں نے اس وقت ایک کار خریدی تھی اور ہمارے حیدرآباد دکن سے آئے ہوئے کچھ عزیزوں کے ساتھ مجھے بھی بٹھا کر سیر کرانے لے گئے میں اس وقت بچہ ہی تھا اس وقت سے لے کر تادم مرگ ان کی شفقت مجھے حاصل رہی۔ ان کا سایہ ان کے بچوں کے سر سے ہی نہیں اٹھا یہ ان تمام خوردگان کے سر سے اٹھا ہے جو ان کے مہر و محبت سے سرفراز رہے ہیں۔ اس کی قدر اس دور میں زیادہ ہوتی ہے جب کہ زمانے نے خود ہم کو رفتہ رفتہ اگلی صفوں میں دھکیل دیا ہے۔ دھوپ کڑی ہوتی جا رہی ہے اور سائبان اٹھتے جا رہے ہیں۔مولانا ترقی اردو بورڈ کراچی کی تاسیس کے وقت سے ہی اس کی مجلس اعلیٰ کے رکن تھے۔

میں اس کا سیکریٹری تھا اور یہ خدمت 18 برس میرے سپرد رہی یہاں بھی میں نے مولانا کو ہمیشہ راست گو، حق پرست اور اپنے کام سے کام رکھنے والا آدمی دیکھا۔ وہ بورڈ کے اجلاس میں اسی باقاعدگی سے شرکت کرتے تھے جو ان کی سرشت میں بھی تھی۔ نپی تلی بے لاگ رائے دیتے تھے۔ کام کو آگے بڑھانے کے سوا انھیں کسی اور بات سے غرض نہ تھی۔ کسی کے لینے دینے میں نہیں تھے۔ ان کی شخصیت وزنی تھی مگر طمطراق سے خالی جسے جدید اصطلاح میں ''گلیمر'' کہتے ہیں اور یہ اوپری رنگ و روغن سے تعبیر ہوتا ہے جو اکثر باتکلف پیدا کیا جاتا ہے کہاں وہ کہاں یہ باتیں وہ سیدھے سادے مسلمان تھے۔
Load Next Story