پاکستان ایک نظر میں آپریشن نہیں ’میجرسرجری‘ کی ضرورت
اس سرجری کا سب سے اہم حصہ فورسز کے عوام کے ساتھ تعلقات ہیں۔ اگریہ جنگ جیتنی ہے توعوام کےساتھ بہتر تعلقات استوارکریں۔
اگر یہ کہا جائے کہ وطن عزیز اس وقت اپنے قیام سے لے کر آج تک کے دور میں اس وقت سب سے مشکل دور سے گزر رہا ہے تو ہرگز بے جا نہ ہو گا۔ قیام پاکستان کے وقت لوگ اپنے پیاروں کی لاشوں کو بے گورو کفن اس لیے چھوڑ کے پاکستان آئے کیوں کہ ان کا خیال تھا کہ آزاد وطن ہی ان کی منزل ہے۔
لیکن پھر پڑوسی کے روپ میں چھپے دشمن نے 65ء پھر 71ء اور پھر کارگل کی جنگ میں جھونکا ۔ اگرچہ کچھ غلطیاں ہماری بھی تھی لیکن بنیادی غلطی ہماری ہرگز نہیں تھی ۔ ابھی ان حالات سے نکلے ہی تھے کہ اندرونی دہشتگردی شروع ہوگئی ۔۔۔۔ مگر حیران کن بات یہ کہ دہشتگردی کی اِس نئی قسم میں بھی وہی دشمن ملوث ہے جس کا اقرار ہم پر حکمرانی کرنے والے حکمراں بارہا کرچکے ہیں ۔
2001ء میں 9/11 کے واقعے کے بعد پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شامل ہو گیا۔ یہ شمولیت ملک کے حق میں تھی یا نہیں یہ ایک الگ بحث ہے جس پر صاحبانِ عقل و دانش لفظوں کے نشتر چلاتے رہے ہیں اور چلاتے رہیں گے۔ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں پاکستان محتاط اندازوں کے مطابق50000سے زائد جانوں کا نذرانہ پیش کر چکا ہے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں زیادہ نقصانات 2004 کے بعد ہوئے ۔ اس جنگ میں پاکستان کو جتنا نقصان ہوا ہو آج تک لڑی جانے والی جنگوں میں نہیں ہوا۔ یوں کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ پاکستان کو اتنا نقصان بیرونی محاذ پر نہیں ہوا جتنا اندرونی محاذ پر ہوا اور مسلسل ہو رہا ہے۔
آرمی پبلک اسکول پشاور نقصانات کی تازہ کڑی ہے۔ پاکستان اس وقت ایک ایسے خطے میں واقع ہے کہ اس کے چند دشمن بے نقاب ہیں تو سینکڑوں دشمن زیرِ نقاب ہیں اس لیے ان سب سے نمٹنے کے لیے اقدامات اپنے آپ کو محفوظ کرنے کے لیے بھی ہیں۔
اس قدر شدید نقصان کے بعد پاکستان کی بقاء کے لیے یہ جنگ بہت اہمیت اختیار کر گئی۔ اس سلسلے میں بہت سے آپریشنز کیے گئے۔ جس میں زیادہ اہم راہِ حق (2007) سوات، راہِ راست (2009) سوات، شمالی وزیر ستان میں 2004 سے جاری کشمکش،اور راہ نجات(2009) جنوبی وزیرستان ہیں۔ اس کے علاوہ سرجیکل اسٹرائیکس یعنی مطلوب افراد کے خلاف کاروائیاں بھی وقتاً فوقتاً کی جاتی رہیں۔ فورسز پر حملوں کی یہ توجیح پیش کی جاتی رہی کہ کیوں کہ فورسز دہشت گردوں کے خلاف بر سر پیکار ہیں اس لیے انہیں بہیمانہ طریقے سے نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن پشاور میں ہونے والے سانحہ ء16دسمبر میں معصوم بچوں کو بے دردی سے شہید کرنے سے پہلے سے جاری 'ضرب عضب ' میں مزید تیزی آ گئی ہے۔ کیوں کہ نہتے ، معصوم بچوں کو جس بے دردی سے شہید کیا گیا اس پر پوری دنیا کی آنکھوں میں آنسو ہیں۔ پوری دنیا معصوم بچوں کے ساتھ بر بریت پر انگشت بدندان ہے۔
اس میں بظاہر تو ملوث افراد و تنظیمیں واضح نظر آ رہی ہیں۔ لیکن بادی النظر میں یہ ایک ایسی عالمی سازش نظر آتی ہے جو پاکستان کو ترقی کی دوڑ میں پیچھے لے جانے کے لیے شروع کی گئی۔ پاکستان میں نہ صرف تعلیم بلکہ صحت، سیاحت، معاشی ، توانائی غرضیکہ ہر شعبے پر چن چن کر حملے کیے جا رہے ہیں۔ مالم جبہ کو تختہ ء مشق بنایا گیا۔ توانائی کے شعبے میں مصروف عمل چینی انجینئرز پر حملے سے ایک تیر سے دو شکار کیے گئے۔ ممتاز ڈاکٹرز کو نشانہ بنایا گیا۔ قابل اساتذہ کو ہم سے جدا کیا گیا۔ اس لیے یہ جنگ شاید اب صرف دو فریقوں کے درمیان نہیں ہے۔ بلکہ بہت سے دشمن مل کر وطن عزیز کو نہ صرف ترقی میں پیچھے دھکیلنا چاہتے ہیں بلکہ اس کا مقام اقوام عالم میں بھی گرانا چاہتے ہیں۔ اور اسے دنیا کا ایک غیر محفوظ ترین ملک ثابت کرنا چاہتے ہیں۔
ان تمام حالات میں اب سوچنا یہ ہو گا کہ کیا صرف مخصوص آپریشنز یا سرجیکل اسٹرائیکز ہی کافی ہیں؟ جیسے حالات اس وقت پاکستان کو درپیش ہیں ان حالات میں آپریشن نہیں بلکہ'میجر سرجری' کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ آپریشن صرف مخصوص خطے کو بہتر کرتا ہے۔ لیکن اس وقت پورے ملک کے حالات میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ناسور شہری علاقوں تک میں اپنا رنگ پوری طرح دکھا رہا ہے۔ مدارس ہرگز برے نہیں۔ لیکن اگر 90فیصد ٹھیک مدارس پر صرف 10فیصد ایسے مدارس حاوی ہو گئے ہیں جو شدت پسندی کی ترویج کر رہے ہیں تو پورے ملک میں ایمرجنسی لگا کر سرجری کی ضرورت ہے۔ جب اقلیت کی سوچ اکثریت پر حاوی ہو جائے تو پھر صرف آپریشن کارگر نہیں ہو سکتا۔ اور ہمیں اپنی سوچ میں تبدیلی لانا ہو گی کہ آپریشن یا سرجری صرف دہشت پسند عناصر کی ہونی چاہیے۔ بلکہ یہ سرجری ملک کے ہر شعبے میں ضروری ہے۔
عدلیہ کے شعبے میں سرجری کی ضرورت ہے تا کہ بروقت فیصلے ہو سکیں اور سزاؤں پر عمل در آمد کے لیے لمبا انتظار نہ کرنا پڑے۔ ملزم سے مجرم ہونے کا عمل جتنا تیز ہو گا اتنا ہی حالات بہتری کی طرف جائیں گے ۔ شعبہء پولیس کی سرجری کر کے ملکی حالات کو بہتری کی طرف گامزن کیا جا سکتا ہے۔ سب سے پہلے تو تمام شعبوں اور بالخصوص پولیس کے محکمے میں رویوں کی سرجری کرنا ہو گی ۔
اس سرجری کا سب سے اہم حصہ فورسز کے عوام کے ساتھ تعلقات ہیں۔ جنگ کبھی بھی عوام کے بناء نہیں جیتی جا سکتی ۔ آپ یہ تو توقع کرتے ہیں کہ عوام اس جنگ میں آپ کا ساتھ دیں۔ اس کے لیے سب سے ضروری امر یہ ہے کہ عوام کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنائیں۔ پولیس والا جب عام آدمی کو روکتا ہے تو اسے کیڑا مکوڑا سمجھتا ہے ایسے میں کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ عوام ان کا ساتھ دیں گے۔ باقی فورسز کے بارے میں عوام کا تاثر نسبتاً بہتر ہے۔ لیکن اکثر وی آئی پی موومنٹ کے وقت ان کا رویہ بھی ایسا ہو جا تا ہے کہ عوام کے دل میں احترام کی جگہ غصہ لے لیتا ہے۔ لہذا سرجری کرتے وقت ایک بات ذہن نشین رکھ لیں کہ اگر یہ جنگ جیتنی ہے تو عوام کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کریں۔سرجری کرتے وقت لہجوں کو تبدیل کریں۔ عوام کو انسان سمجھنے کی تربیت دیں۔ اور اس سرجری میں بڑا حصہ عوام اور فورسز میں اعتماد کی بحالی کا رکھیں۔ تب ہی یہ سرجری بھی کامیاب ہو سکتی ہے اور یہ جنگ بھی جیتی جا سکتی ہے ورنہ ہم جانوں کے نذرانے ہی دیتے رہیں گے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
لیکن پھر پڑوسی کے روپ میں چھپے دشمن نے 65ء پھر 71ء اور پھر کارگل کی جنگ میں جھونکا ۔ اگرچہ کچھ غلطیاں ہماری بھی تھی لیکن بنیادی غلطی ہماری ہرگز نہیں تھی ۔ ابھی ان حالات سے نکلے ہی تھے کہ اندرونی دہشتگردی شروع ہوگئی ۔۔۔۔ مگر حیران کن بات یہ کہ دہشتگردی کی اِس نئی قسم میں بھی وہی دشمن ملوث ہے جس کا اقرار ہم پر حکمرانی کرنے والے حکمراں بارہا کرچکے ہیں ۔
2001ء میں 9/11 کے واقعے کے بعد پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شامل ہو گیا۔ یہ شمولیت ملک کے حق میں تھی یا نہیں یہ ایک الگ بحث ہے جس پر صاحبانِ عقل و دانش لفظوں کے نشتر چلاتے رہے ہیں اور چلاتے رہیں گے۔ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں پاکستان محتاط اندازوں کے مطابق50000سے زائد جانوں کا نذرانہ پیش کر چکا ہے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں زیادہ نقصانات 2004 کے بعد ہوئے ۔ اس جنگ میں پاکستان کو جتنا نقصان ہوا ہو آج تک لڑی جانے والی جنگوں میں نہیں ہوا۔ یوں کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ پاکستان کو اتنا نقصان بیرونی محاذ پر نہیں ہوا جتنا اندرونی محاذ پر ہوا اور مسلسل ہو رہا ہے۔
آرمی پبلک اسکول پشاور نقصانات کی تازہ کڑی ہے۔ پاکستان اس وقت ایک ایسے خطے میں واقع ہے کہ اس کے چند دشمن بے نقاب ہیں تو سینکڑوں دشمن زیرِ نقاب ہیں اس لیے ان سب سے نمٹنے کے لیے اقدامات اپنے آپ کو محفوظ کرنے کے لیے بھی ہیں۔
اس قدر شدید نقصان کے بعد پاکستان کی بقاء کے لیے یہ جنگ بہت اہمیت اختیار کر گئی۔ اس سلسلے میں بہت سے آپریشنز کیے گئے۔ جس میں زیادہ اہم راہِ حق (2007) سوات، راہِ راست (2009) سوات، شمالی وزیر ستان میں 2004 سے جاری کشمکش،اور راہ نجات(2009) جنوبی وزیرستان ہیں۔ اس کے علاوہ سرجیکل اسٹرائیکس یعنی مطلوب افراد کے خلاف کاروائیاں بھی وقتاً فوقتاً کی جاتی رہیں۔ فورسز پر حملوں کی یہ توجیح پیش کی جاتی رہی کہ کیوں کہ فورسز دہشت گردوں کے خلاف بر سر پیکار ہیں اس لیے انہیں بہیمانہ طریقے سے نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن پشاور میں ہونے والے سانحہ ء16دسمبر میں معصوم بچوں کو بے دردی سے شہید کرنے سے پہلے سے جاری 'ضرب عضب ' میں مزید تیزی آ گئی ہے۔ کیوں کہ نہتے ، معصوم بچوں کو جس بے دردی سے شہید کیا گیا اس پر پوری دنیا کی آنکھوں میں آنسو ہیں۔ پوری دنیا معصوم بچوں کے ساتھ بر بریت پر انگشت بدندان ہے۔
اس میں بظاہر تو ملوث افراد و تنظیمیں واضح نظر آ رہی ہیں۔ لیکن بادی النظر میں یہ ایک ایسی عالمی سازش نظر آتی ہے جو پاکستان کو ترقی کی دوڑ میں پیچھے لے جانے کے لیے شروع کی گئی۔ پاکستان میں نہ صرف تعلیم بلکہ صحت، سیاحت، معاشی ، توانائی غرضیکہ ہر شعبے پر چن چن کر حملے کیے جا رہے ہیں۔ مالم جبہ کو تختہ ء مشق بنایا گیا۔ توانائی کے شعبے میں مصروف عمل چینی انجینئرز پر حملے سے ایک تیر سے دو شکار کیے گئے۔ ممتاز ڈاکٹرز کو نشانہ بنایا گیا۔ قابل اساتذہ کو ہم سے جدا کیا گیا۔ اس لیے یہ جنگ شاید اب صرف دو فریقوں کے درمیان نہیں ہے۔ بلکہ بہت سے دشمن مل کر وطن عزیز کو نہ صرف ترقی میں پیچھے دھکیلنا چاہتے ہیں بلکہ اس کا مقام اقوام عالم میں بھی گرانا چاہتے ہیں۔ اور اسے دنیا کا ایک غیر محفوظ ترین ملک ثابت کرنا چاہتے ہیں۔
ان تمام حالات میں اب سوچنا یہ ہو گا کہ کیا صرف مخصوص آپریشنز یا سرجیکل اسٹرائیکز ہی کافی ہیں؟ جیسے حالات اس وقت پاکستان کو درپیش ہیں ان حالات میں آپریشن نہیں بلکہ'میجر سرجری' کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ آپریشن صرف مخصوص خطے کو بہتر کرتا ہے۔ لیکن اس وقت پورے ملک کے حالات میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ناسور شہری علاقوں تک میں اپنا رنگ پوری طرح دکھا رہا ہے۔ مدارس ہرگز برے نہیں۔ لیکن اگر 90فیصد ٹھیک مدارس پر صرف 10فیصد ایسے مدارس حاوی ہو گئے ہیں جو شدت پسندی کی ترویج کر رہے ہیں تو پورے ملک میں ایمرجنسی لگا کر سرجری کی ضرورت ہے۔ جب اقلیت کی سوچ اکثریت پر حاوی ہو جائے تو پھر صرف آپریشن کارگر نہیں ہو سکتا۔ اور ہمیں اپنی سوچ میں تبدیلی لانا ہو گی کہ آپریشن یا سرجری صرف دہشت پسند عناصر کی ہونی چاہیے۔ بلکہ یہ سرجری ملک کے ہر شعبے میں ضروری ہے۔
عدلیہ کے شعبے میں سرجری کی ضرورت ہے تا کہ بروقت فیصلے ہو سکیں اور سزاؤں پر عمل در آمد کے لیے لمبا انتظار نہ کرنا پڑے۔ ملزم سے مجرم ہونے کا عمل جتنا تیز ہو گا اتنا ہی حالات بہتری کی طرف جائیں گے ۔ شعبہء پولیس کی سرجری کر کے ملکی حالات کو بہتری کی طرف گامزن کیا جا سکتا ہے۔ سب سے پہلے تو تمام شعبوں اور بالخصوص پولیس کے محکمے میں رویوں کی سرجری کرنا ہو گی ۔
اس سرجری کا سب سے اہم حصہ فورسز کے عوام کے ساتھ تعلقات ہیں۔ جنگ کبھی بھی عوام کے بناء نہیں جیتی جا سکتی ۔ آپ یہ تو توقع کرتے ہیں کہ عوام اس جنگ میں آپ کا ساتھ دیں۔ اس کے لیے سب سے ضروری امر یہ ہے کہ عوام کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنائیں۔ پولیس والا جب عام آدمی کو روکتا ہے تو اسے کیڑا مکوڑا سمجھتا ہے ایسے میں کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ عوام ان کا ساتھ دیں گے۔ باقی فورسز کے بارے میں عوام کا تاثر نسبتاً بہتر ہے۔ لیکن اکثر وی آئی پی موومنٹ کے وقت ان کا رویہ بھی ایسا ہو جا تا ہے کہ عوام کے دل میں احترام کی جگہ غصہ لے لیتا ہے۔ لہذا سرجری کرتے وقت ایک بات ذہن نشین رکھ لیں کہ اگر یہ جنگ جیتنی ہے تو عوام کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کریں۔سرجری کرتے وقت لہجوں کو تبدیل کریں۔ عوام کو انسان سمجھنے کی تربیت دیں۔ اور اس سرجری میں بڑا حصہ عوام اور فورسز میں اعتماد کی بحالی کا رکھیں۔ تب ہی یہ سرجری بھی کامیاب ہو سکتی ہے اور یہ جنگ بھی جیتی جا سکتی ہے ورنہ ہم جانوں کے نذرانے ہی دیتے رہیں گے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔