کھیل کود یونس خان ذمہ داری اب آپ پر ہوگی
ماضی کی کارکردگی کی بنیاد پر کسی کو ایک چانس تو دیا جاسکتا ہے لیکن چانس پر چانس دینا انصاف نہیں۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یونس خان پاکستان کے مایہ ناز کرکٹر ہیں، اور کھیل میں ان کی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔ عمران خان کے بعد وہ دوسرے کپتان ہیں جنہوں نے پاکستان کو ایک عالمی ٹورنامنٹ ورلڈ ٹوئنٹی 20 کی صورت میں جتوایا۔ حال میں انہوں نے یو اے ای میں کھیلی جانے والی ٹیسٹ سیریز میں رنز کے دریا بہائے لیکن ایک اعتراض جو پوری شدت سے اٹھ رہا ہے وہ ان کی ون ڈے ٹیم میں شمولیت پر ہے۔
یونس خان نے ایک روزہ فارمیٹ میں بھی کئی کامیابیاں سمیٹیں اور ان کے ریکارڈز خود اس بات کا ثبوت ہیں لیکن گذشتہ کچھ برسوں سے ان کی کارکردگی اس قابل نہیں کہ انہیں اچھا کہا جاسکے۔ نیوزی لینڈ کے خلاف انہوں نے چوتھے ون ڈے میں سنچری اسکور کی جوکہ ان کی 6 برس بعد تھری فیگر اننگز تھی، اس سے قبل انہوں نے اس طرز میں سنچری 2008 میں ویسٹ انڈیز کے خلاف یو اے ای میں ہی اسکور کی تھی۔ یونس خان اس بار بھی اس سنچری تک نہ پہنچ پاتے اگر سلپ میں موجود فیلڈر کیچ ڈراپ نہیں کردیتا۔ اعدادوشمار کی روشنی میں یونس خان کی پرفارمنس کا پوسٹ مارٹم کرنے کا ہمارا کوئی ارادہ نہیں اس حوالے سے میڈیا میں تواتر کے ساتھ باتیں ہوتی رہتی ہیں۔ ماضی کی کارکردگی کی بنیاد پر کسی کو ایک چانس تو دیا جاسکتا ہے لیکن چانس پر چانس دینا انصاف نہیں بلکہ یہ کسی حقدار کا حق چھیننے کے بھی مترادف ہے۔
یونس خان ایک منجھے ہوئے کھلاڑی ہیں لیکن ان میں ایک خاص بات ہے جوکہ ٹیم میں موجود چند دوسرے بیٹسمینوں میں بھی پائی جاتی ہے، وہ ہے وکٹ پر جاکر سو جانا اور اس وقت ہوش میں آنا جب سب کچھ لٹ چکا ہو۔ اس چیز میں ان کے ہم پلہ کپتان مصباح الحق ہیں وہ بھی اپنی ٹک ٹک سے کھیل کو اتنا بور بنا دیتے ہیں کہ شائقین تک اپنے سر کے بال نوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اس معاملے میں ان کی شاگرد یعنی اسد شفیق اور فواد عالم بھی کافی اچھے جارہے ہیں۔ نیوزی لینڈ سے سیریز میں اسد شفیق کو بھی کئی موقع ملے اور انہوں نے ایک ایک کرکے سب گنوا دیئے اور اگر دیکھاجائے تو ان کے ورلڈ کپ کھیلنے کا امکان باقی نہیں رہا لیکن اگر سلیکٹرز کی آنکھوں کے آگے ہی اندھیرا چھایا ہوا ہو تو پھر انہیں کیا سجھائی دے گا۔
فواد عالم نے شروع میں اپنی ساکھ جارح مزاج بیٹسمین کے طور پر بنائی مگر پھر ان کی بیٹنگ پر بھی خوف کی دبیز چادر پھیل گئی اور وہ اپنی وکٹ بچانے کے لئے کھیلتے ہوئے دکھائی دیئے۔ اگرچہ سال کے شروع میں ٹیم میں واپسی کے بعد انہوں نے چند اچھی اننگز سے ٹیم کو کامیابی بھی دلائی لیکن ایک تو انہیں نیوزی لینڈ کی ٹیم سے ڈراپ کرکے کینیا سے سیریز میں اے ٹیم کی قیادت کا لالی پاپ دے کر خوش کیا گیا اور اب تو یہ نوید بھی سننے کو مل چکی ہے کہ وہ بے چارے ورلڈ کپ کے پلان کا حصہ ہی نہیں ہیں کیونکہ بقول چیف سلیکٹر معین خان ان جیسے دیگر بیٹسمین جو ٹیم میں موجود ہیں۔
یہ کوئی راز کی بات نہیں رہی کہ فواد عالم کی ٹیم میں جگہ یونس خان کو دی گئی ہے۔ نوجوان بیٹسمین پر سینئر کو ترجیح دی گئی ہے اور یہ بھی ایک ایسی حقیقت ہے جوکہ بچہ بچہ جانتا ہے کہ یونس خان نے یہ جگہ لڑ جھگڑ اور دباؤ ڈال کر حاصل کی ہے ،اس بار بھی انہوں نے اپنی بات منوانے کے لیے اسی روایتی عوامی دبائو کا سہارا لیا جوکہ ماضی میں کئی مواقع پر وہ استعمال کرچکے ہیں، چاہے وہ 2006 کی چیمپئنز ٹرافی ہو یا پھر سابق چیئرمین پی سی بی اعجاز بٹ کی چلتی ہوئی گاڑی میں میڈیا کے سامنے اپنا استعفیٰ پھینکنا ہو۔
یونس خان اور مصباح الحق ورلڈ کپ 2011 کے سیمی فائنل میں بھارت کے ہاتھوں شکست کے مرکزی مجرم ہیں اور یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے۔ اس بار نیوزی لینڈ کے خلاف چوتھے ون ڈے میں جب یونس خان نے سنچری اسکور کی تو ان کے بیٹنگ کا انداز دیکھ کر موہالی والے میچ کی یاد تازہ ہوگئی، انہوں نے اپنی سوئی ہوئی فارم کو جگانے کے لئے کئی بالز ضائع کیں اور جب ففٹی کی نفسیاتی حد عبور کی تو کچھ چین آیا اور کچھ ہاتھ کھولے، مگر سنچری کے قریب پہنچ کرپھر ٹک ٹک شروع کردی۔ بڑھتا ہوا رن ریٹ دیکھ کر شائقین کا پارہ بھی چڑھنے لگا تھا آخر خدا خدا کرکے یونس نے سنچری مکمل کی تو لگا کہ اب وہ کھل کر کھیلیں گے اور ٹیم کو فتح بھی دلائیں گے لیکن وہ اس سیریز میں اپنے دشمن ثابت ہونے والے بولر ڈینیئل ویٹوری کی آخری گیند کو ہٹ کرنے کے چکر میں خود پٹ گئے اور بعد میں آنے والے ٹیل اینڈرز ہمیشہ کی طرح اس بار بھی توقعات کا بوجھ برداشت نہیں کرپائے۔
اب ایک لمحے کو تصور کریں کہ یہی چیز ورلڈ کپ کے ناک آؤٹ مرحلے یعنی فائنلز میں ہو تو پھر ٹیم کا کیا حشر ہوگا۔ ہمیشہ ہی بعد میں رنز بنانے کے چکر میں سست آغاز کی حکمت عملی کامیاب نہیں ہوتی، رن ریٹ بڑھاکر دوسرے اینڈ پر موجود بیٹسمین پر پریشر بڑھانے کا کبھی بھی اچھا نتیجہ برامد نہیں ہوا۔ یونس خان نے اگراس بار لڑجھگڑ کر ورلڈ کپ اسکوا ڈ میں جگہ پاہی لی ہے، اور اس کے لئے ایک نوجوان اور باصلاحیت بیٹسمین کی حق تلفی بھی ہوئی ہے، لہذا انہیں یہ بات ذہن میں رکھنی ہوگی کہ اگر اس بار انہوں نے اپنی 'گوسلو' پالیسی سے قوم کی امیدوں کو مٹی میں ملایا تو ان کے ماضی کے تمام کارنامے خاک میں مل کر رہ جائیں گے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
یونس خان نے ایک روزہ فارمیٹ میں بھی کئی کامیابیاں سمیٹیں اور ان کے ریکارڈز خود اس بات کا ثبوت ہیں لیکن گذشتہ کچھ برسوں سے ان کی کارکردگی اس قابل نہیں کہ انہیں اچھا کہا جاسکے۔ نیوزی لینڈ کے خلاف انہوں نے چوتھے ون ڈے میں سنچری اسکور کی جوکہ ان کی 6 برس بعد تھری فیگر اننگز تھی، اس سے قبل انہوں نے اس طرز میں سنچری 2008 میں ویسٹ انڈیز کے خلاف یو اے ای میں ہی اسکور کی تھی۔ یونس خان اس بار بھی اس سنچری تک نہ پہنچ پاتے اگر سلپ میں موجود فیلڈر کیچ ڈراپ نہیں کردیتا۔ اعدادوشمار کی روشنی میں یونس خان کی پرفارمنس کا پوسٹ مارٹم کرنے کا ہمارا کوئی ارادہ نہیں اس حوالے سے میڈیا میں تواتر کے ساتھ باتیں ہوتی رہتی ہیں۔ ماضی کی کارکردگی کی بنیاد پر کسی کو ایک چانس تو دیا جاسکتا ہے لیکن چانس پر چانس دینا انصاف نہیں بلکہ یہ کسی حقدار کا حق چھیننے کے بھی مترادف ہے۔
یونس خان ایک منجھے ہوئے کھلاڑی ہیں لیکن ان میں ایک خاص بات ہے جوکہ ٹیم میں موجود چند دوسرے بیٹسمینوں میں بھی پائی جاتی ہے، وہ ہے وکٹ پر جاکر سو جانا اور اس وقت ہوش میں آنا جب سب کچھ لٹ چکا ہو۔ اس چیز میں ان کے ہم پلہ کپتان مصباح الحق ہیں وہ بھی اپنی ٹک ٹک سے کھیل کو اتنا بور بنا دیتے ہیں کہ شائقین تک اپنے سر کے بال نوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اس معاملے میں ان کی شاگرد یعنی اسد شفیق اور فواد عالم بھی کافی اچھے جارہے ہیں۔ نیوزی لینڈ سے سیریز میں اسد شفیق کو بھی کئی موقع ملے اور انہوں نے ایک ایک کرکے سب گنوا دیئے اور اگر دیکھاجائے تو ان کے ورلڈ کپ کھیلنے کا امکان باقی نہیں رہا لیکن اگر سلیکٹرز کی آنکھوں کے آگے ہی اندھیرا چھایا ہوا ہو تو پھر انہیں کیا سجھائی دے گا۔
فواد عالم نے شروع میں اپنی ساکھ جارح مزاج بیٹسمین کے طور پر بنائی مگر پھر ان کی بیٹنگ پر بھی خوف کی دبیز چادر پھیل گئی اور وہ اپنی وکٹ بچانے کے لئے کھیلتے ہوئے دکھائی دیئے۔ اگرچہ سال کے شروع میں ٹیم میں واپسی کے بعد انہوں نے چند اچھی اننگز سے ٹیم کو کامیابی بھی دلائی لیکن ایک تو انہیں نیوزی لینڈ کی ٹیم سے ڈراپ کرکے کینیا سے سیریز میں اے ٹیم کی قیادت کا لالی پاپ دے کر خوش کیا گیا اور اب تو یہ نوید بھی سننے کو مل چکی ہے کہ وہ بے چارے ورلڈ کپ کے پلان کا حصہ ہی نہیں ہیں کیونکہ بقول چیف سلیکٹر معین خان ان جیسے دیگر بیٹسمین جو ٹیم میں موجود ہیں۔
یہ کوئی راز کی بات نہیں رہی کہ فواد عالم کی ٹیم میں جگہ یونس خان کو دی گئی ہے۔ نوجوان بیٹسمین پر سینئر کو ترجیح دی گئی ہے اور یہ بھی ایک ایسی حقیقت ہے جوکہ بچہ بچہ جانتا ہے کہ یونس خان نے یہ جگہ لڑ جھگڑ اور دباؤ ڈال کر حاصل کی ہے ،اس بار بھی انہوں نے اپنی بات منوانے کے لیے اسی روایتی عوامی دبائو کا سہارا لیا جوکہ ماضی میں کئی مواقع پر وہ استعمال کرچکے ہیں، چاہے وہ 2006 کی چیمپئنز ٹرافی ہو یا پھر سابق چیئرمین پی سی بی اعجاز بٹ کی چلتی ہوئی گاڑی میں میڈیا کے سامنے اپنا استعفیٰ پھینکنا ہو۔
یونس خان اور مصباح الحق ورلڈ کپ 2011 کے سیمی فائنل میں بھارت کے ہاتھوں شکست کے مرکزی مجرم ہیں اور یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے۔ اس بار نیوزی لینڈ کے خلاف چوتھے ون ڈے میں جب یونس خان نے سنچری اسکور کی تو ان کے بیٹنگ کا انداز دیکھ کر موہالی والے میچ کی یاد تازہ ہوگئی، انہوں نے اپنی سوئی ہوئی فارم کو جگانے کے لئے کئی بالز ضائع کیں اور جب ففٹی کی نفسیاتی حد عبور کی تو کچھ چین آیا اور کچھ ہاتھ کھولے، مگر سنچری کے قریب پہنچ کرپھر ٹک ٹک شروع کردی۔ بڑھتا ہوا رن ریٹ دیکھ کر شائقین کا پارہ بھی چڑھنے لگا تھا آخر خدا خدا کرکے یونس نے سنچری مکمل کی تو لگا کہ اب وہ کھل کر کھیلیں گے اور ٹیم کو فتح بھی دلائیں گے لیکن وہ اس سیریز میں اپنے دشمن ثابت ہونے والے بولر ڈینیئل ویٹوری کی آخری گیند کو ہٹ کرنے کے چکر میں خود پٹ گئے اور بعد میں آنے والے ٹیل اینڈرز ہمیشہ کی طرح اس بار بھی توقعات کا بوجھ برداشت نہیں کرپائے۔
اب ایک لمحے کو تصور کریں کہ یہی چیز ورلڈ کپ کے ناک آؤٹ مرحلے یعنی فائنلز میں ہو تو پھر ٹیم کا کیا حشر ہوگا۔ ہمیشہ ہی بعد میں رنز بنانے کے چکر میں سست آغاز کی حکمت عملی کامیاب نہیں ہوتی، رن ریٹ بڑھاکر دوسرے اینڈ پر موجود بیٹسمین پر پریشر بڑھانے کا کبھی بھی اچھا نتیجہ برامد نہیں ہوا۔ یونس خان نے اگراس بار لڑجھگڑ کر ورلڈ کپ اسکوا ڈ میں جگہ پاہی لی ہے، اور اس کے لئے ایک نوجوان اور باصلاحیت بیٹسمین کی حق تلفی بھی ہوئی ہے، لہذا انہیں یہ بات ذہن میں رکھنی ہوگی کہ اگر اس بار انہوں نے اپنی 'گوسلو' پالیسی سے قوم کی امیدوں کو مٹی میں ملایا تو ان کے ماضی کے تمام کارنامے خاک میں مل کر رہ جائیں گے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔