خیالی پلاو حسین ہاتھ کا کنگن
استادکی بدولت کچھ شاعری چل تونکلی تھی مگر وہ یہی سوچتا تھا کہ اگراستاد کہیں اِدھر اُدھرہو گئےتو پھرشاعری کا کیا ہوگا۔
اسے زمانہ طالب علمی سے ہی لوگوں کی زمینوں پر پھرنے کا بہت شوق تھا وہ اکثر میر،درد،جوش ،غالب ، حالی اور دوسرے قدیم شعرا کی زمینوں میں اپنی فصل کاشت کرنے کی کوشش کرتا جواب میں اکثر وہ رات کو سوتے میں ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھتا جب کسی شاعر کو اپنے سرہانے ہاتھ باندھے کھڑا ہوا پاتا تو اسے محسوس ہوتا کہ جیسے اکثر شاعر اس سے کہہ رہے ہیں ''کاکا ۔۔۔! ہم پر رحم ،جو زندہ ہیں ان سے زمین چھین کر دکھا ''۔
وہ اسکول کے دوستوں کے ساتھ ڈرامہ کرتا اورڈرامہ کے دوران ہی اپنی شاعری سنانے کی کوشش کرتا جنہیں چند سموسے ،چاٹ کے شوقین طالب علم ایک ڈیل کے تحت دیکھتے، سنتے ہوئے کھاتے۔سرگودھا کے ایک ادبی رسالے میں جب وہ اپنی غزل جس کا ایک مصرع''دل دھڑکتا ہے تو ماتم کی صدا آتی ہے ''، اشاعت کی غرض سے لے پہنچے تو ایڈیٹر کے پاس ان کے دوست کی غزل بھی پڑی ہوئی تھی جس میں بھی اسی مصرع سے استفادہ کیا گیا تھا۔ ایڈیٹر کے استسفار پر اس کے دوست نے بتایا کہ وہ عموماً اکھٹے ہی بیٹھ کر شاعری کرتے ہیں بس یہ مصرع میں ان کے سامنے گنگنا بیٹھا۔ مزید کھوج نے ایک اور انکشاف کیا کہ ان دونوں نے یہ مصرع کسی اور شاعر کی غزل سے لیا ہے ۔جب وہ اپنی شاعری کے محاسن استاد دوست سے معلوم کرنے پہنچے تو انہوں نے ناک پر عینک رکھتے ہوئے ان کی شاعری پکڑ کر ایک نظر ڈالی اور کہا ''یہ کیا ہے ؟''۔اس نے پلکیں جھپکاتے ہوئے کہا ''یہ تو آپ نے بتانا ہے میرے مطابق تو شاعری ہے ''۔
جب استاد محترم اس کے کلام کو علم عروض کی کسوٹی پر، پرکھ کر کلام موزوں کر رہے تھے تووہ حیرانی سے کبھی انہیں اور کبھی اپنے کلام کو دیکھ رہا تھا وہ جب اپنا کلام استاد محترم سے لیکر گھر کی جانب روانہ ہوا تو ان کے اپنے کلام میں سوائے تخلص کے ان کا اپنا کچھ نہ بچا تھا۔
استاد صاحب کی بدولت کچھ شاعری چل تو نکلی تھی لیکن وہ اکثر یہی سوچتے تھے کہ اگر یہ استادمحترم کہیں دائیں ،بائیں ہو گئے تو پھر اس کے آگے ان کی سوچ اور شاعری دونوں جواب دے جاتے تھے۔ استاد محترم بوڑھے ہوتے چلے گئے اور ان کی شاعری جوان ہوتی چلی گئی پھر ایک روز ان کی نظر کسی اور کی زمین پر پڑی اوراس زمین کی رنگینی اسے بھاگئی۔ یہ مصرع ''کاش میں تیرے بن گوش کا بندہ ہوتا '' تو جیسے اس کو مجبور کر رہا تھا کہ آؤیہ زمین ہی تمہاری ہے پھر اس نے اپنی شہرہ آفاق نظم ''کاش میں تیرے حسین ہاتھ کا کنگن ہوتا ''۔
مجید امجد کی زمین میں بو دی وہ اپنے تئیں اپنے آپ کو سمجھاتا رہا کہ میں نے اس نظم سے صرف کاش کا لفظ ہی لیا ہے اور یہ سینہ زوری تو نہیں ہے۔ اس نظم نے اس سمیت ،مجید امجد کو بھی دوبارہ زندہ کر دیا لوگ اس کی بدولت مجید امجد کے نام سے آشنا ہوئے۔ اس پر ادب اور سکرین کے دروازے کھلتے چلے گئے لوگ اسے سرقہ،چربہ کا نام دیتے رہے اس کے ڈراموں کو خرید کا ڈرامے کہتے رہے لیکن اس میں ایک خوبی ضرور رہی شاید چرچل کا مقولہ پلے سے باندھ رکھا ہے کہ اس نے مڑ کر کسی کی تنقید کا جواب دینا مناسب نہیں سمجھا ۔
جو اس کے استاد محترم تھے ''رات گئے ''وہ ان کے لئے اجنبی ٹھہرے اپنے پروگرام میں انہوں نے استاد محترم کی غزل یہ کہہ کر پڑھنے سے انکار کردیا کہ میں انہیں نہیں جانتا۔''باباجی'' کہتے ہیں ''تم لوگ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ ایک بندے نے اگر پانچ راتیں اور چھ دن سائیکل چلائی ہے تو اس نے کتنا جان جوکھوں کا کام کیا ہے ،بجائے شاباشی دینے کے یہ کہہ دینا کہ یہ کام تو اس زمین پر صدیوں سے ہوتا چلا آ رہا ہے یہ کونسا کارنامہ ہے یہ ذیادتی ہے ۔
''بونگے بغلول '' کے خیال میں موصوف کو اپنی پرانی شاعری ''دو کی بجائے چائے بنائی تھی ایک کپ ۔۔۔افسوس آج ہم بھی فراموش ہو گئے''، کی جانب لوٹ جانا چاہئے کیونکہ ناقد ان کی شاعری کی قدر نہیں جان سکتے حالانکہ کس قدر جاندار مصرع ہے ''سمندر میں اترتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں'' اب ناقد اس مصرع کو بھی تنقید کے کچوکے لگا رہے ہیں کہ اس میں کونسی شاعری ہے جب بندہ پانی میں اترتا ہے تو آنکھیں بھیگ ہی جاتی ہیں ۔
اب وہ شاعری، ڈرامہ نگاری، اینکری سے لیکر کالم نویسی تک ہر میدان میں اپنے گھوڑے دوڑا رہا ہے،اب اس کی اپنی زمینیں ،جگنو،تتلیاں اور پریاں ہیں اس کے پرستاروں کا ایک ہجوم اس کے تعاقب میں ہے لیکن سائیڈوں پر کھڑے ناقد پھر بھی اس کو ایک جینوئن شاعر نہیں مانتے مگر اِس کے باوجود ''کاش میں تیرے حسین ہاتھ کا کنگن ہوتا '' اس کے نام کے ساتھ چپک کر رہ گیا ہے ۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
وہ اسکول کے دوستوں کے ساتھ ڈرامہ کرتا اورڈرامہ کے دوران ہی اپنی شاعری سنانے کی کوشش کرتا جنہیں چند سموسے ،چاٹ کے شوقین طالب علم ایک ڈیل کے تحت دیکھتے، سنتے ہوئے کھاتے۔سرگودھا کے ایک ادبی رسالے میں جب وہ اپنی غزل جس کا ایک مصرع''دل دھڑکتا ہے تو ماتم کی صدا آتی ہے ''، اشاعت کی غرض سے لے پہنچے تو ایڈیٹر کے پاس ان کے دوست کی غزل بھی پڑی ہوئی تھی جس میں بھی اسی مصرع سے استفادہ کیا گیا تھا۔ ایڈیٹر کے استسفار پر اس کے دوست نے بتایا کہ وہ عموماً اکھٹے ہی بیٹھ کر شاعری کرتے ہیں بس یہ مصرع میں ان کے سامنے گنگنا بیٹھا۔ مزید کھوج نے ایک اور انکشاف کیا کہ ان دونوں نے یہ مصرع کسی اور شاعر کی غزل سے لیا ہے ۔جب وہ اپنی شاعری کے محاسن استاد دوست سے معلوم کرنے پہنچے تو انہوں نے ناک پر عینک رکھتے ہوئے ان کی شاعری پکڑ کر ایک نظر ڈالی اور کہا ''یہ کیا ہے ؟''۔اس نے پلکیں جھپکاتے ہوئے کہا ''یہ تو آپ نے بتانا ہے میرے مطابق تو شاعری ہے ''۔
جب استاد محترم اس کے کلام کو علم عروض کی کسوٹی پر، پرکھ کر کلام موزوں کر رہے تھے تووہ حیرانی سے کبھی انہیں اور کبھی اپنے کلام کو دیکھ رہا تھا وہ جب اپنا کلام استاد محترم سے لیکر گھر کی جانب روانہ ہوا تو ان کے اپنے کلام میں سوائے تخلص کے ان کا اپنا کچھ نہ بچا تھا۔
استاد صاحب کی بدولت کچھ شاعری چل تو نکلی تھی لیکن وہ اکثر یہی سوچتے تھے کہ اگر یہ استادمحترم کہیں دائیں ،بائیں ہو گئے تو پھر اس کے آگے ان کی سوچ اور شاعری دونوں جواب دے جاتے تھے۔ استاد محترم بوڑھے ہوتے چلے گئے اور ان کی شاعری جوان ہوتی چلی گئی پھر ایک روز ان کی نظر کسی اور کی زمین پر پڑی اوراس زمین کی رنگینی اسے بھاگئی۔ یہ مصرع ''کاش میں تیرے بن گوش کا بندہ ہوتا '' تو جیسے اس کو مجبور کر رہا تھا کہ آؤیہ زمین ہی تمہاری ہے پھر اس نے اپنی شہرہ آفاق نظم ''کاش میں تیرے حسین ہاتھ کا کنگن ہوتا ''۔
مجید امجد کی زمین میں بو دی وہ اپنے تئیں اپنے آپ کو سمجھاتا رہا کہ میں نے اس نظم سے صرف کاش کا لفظ ہی لیا ہے اور یہ سینہ زوری تو نہیں ہے۔ اس نظم نے اس سمیت ،مجید امجد کو بھی دوبارہ زندہ کر دیا لوگ اس کی بدولت مجید امجد کے نام سے آشنا ہوئے۔ اس پر ادب اور سکرین کے دروازے کھلتے چلے گئے لوگ اسے سرقہ،چربہ کا نام دیتے رہے اس کے ڈراموں کو خرید کا ڈرامے کہتے رہے لیکن اس میں ایک خوبی ضرور رہی شاید چرچل کا مقولہ پلے سے باندھ رکھا ہے کہ اس نے مڑ کر کسی کی تنقید کا جواب دینا مناسب نہیں سمجھا ۔
جو اس کے استاد محترم تھے ''رات گئے ''وہ ان کے لئے اجنبی ٹھہرے اپنے پروگرام میں انہوں نے استاد محترم کی غزل یہ کہہ کر پڑھنے سے انکار کردیا کہ میں انہیں نہیں جانتا۔''باباجی'' کہتے ہیں ''تم لوگ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ ایک بندے نے اگر پانچ راتیں اور چھ دن سائیکل چلائی ہے تو اس نے کتنا جان جوکھوں کا کام کیا ہے ،بجائے شاباشی دینے کے یہ کہہ دینا کہ یہ کام تو اس زمین پر صدیوں سے ہوتا چلا آ رہا ہے یہ کونسا کارنامہ ہے یہ ذیادتی ہے ۔
''بونگے بغلول '' کے خیال میں موصوف کو اپنی پرانی شاعری ''دو کی بجائے چائے بنائی تھی ایک کپ ۔۔۔افسوس آج ہم بھی فراموش ہو گئے''، کی جانب لوٹ جانا چاہئے کیونکہ ناقد ان کی شاعری کی قدر نہیں جان سکتے حالانکہ کس قدر جاندار مصرع ہے ''سمندر میں اترتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں'' اب ناقد اس مصرع کو بھی تنقید کے کچوکے لگا رہے ہیں کہ اس میں کونسی شاعری ہے جب بندہ پانی میں اترتا ہے تو آنکھیں بھیگ ہی جاتی ہیں ۔
اب وہ شاعری، ڈرامہ نگاری، اینکری سے لیکر کالم نویسی تک ہر میدان میں اپنے گھوڑے دوڑا رہا ہے،اب اس کی اپنی زمینیں ،جگنو،تتلیاں اور پریاں ہیں اس کے پرستاروں کا ایک ہجوم اس کے تعاقب میں ہے لیکن سائیڈوں پر کھڑے ناقد پھر بھی اس کو ایک جینوئن شاعر نہیں مانتے مگر اِس کے باوجود ''کاش میں تیرے حسین ہاتھ کا کنگن ہوتا '' اس کے نام کے ساتھ چپک کر رہ گیا ہے ۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔