کرسمس یومِ ولادت یسوع مسیحؑ
تمام گرجا گھروں میں ایک خاص علامت کے طور پر ’’آمد کی مالا‘‘ یسوع مسیح کی آمد کا شایانَ شان استقبال ہے
FAISALABAD:
آج عیسوی سال 2014ء کے الوداعی ماہ دسمبر کی25 تاریخ ہے جو عالمِ بشریت کو ایک نئے سال کی نوید سنانے کی تیاریوں کا باقاعدہ آغاز ہے۔ یہ وہ روحانی دن ہے جس میں پوری دنیا کے اہل کتاب مسیحی (عیسائیوں) کے علاوہ عالم انسانیت یسوع مسیح کی ولادت کی خوشی میں کرسمس مناتے ہیں۔ کرسمس کیا ہے؟ کرسمس (Christmas) انگریزی زبان کا لفظ ہے جو لفظ (Christ) سے اخذ ہوا ہے جس کے لغوی معنی آسمانی روحانی بادشاہ، نجات دلانے والا، مسیحا کے ہیں۔
عبرانی میں آپ کا نام ''ایشوع'' یا ''یسوع'' تھا۔ انگریزی کی قدیم زبان میں کرسمس ''کرسٹس مائسے''(Crites Maesse) یا کرسٹس میسے (Cristes-Messe) جس کا مطلب ہے مسیح کی عبادت۔ مسیح کا لفظ ''مسح'' ہے جس کا مطلب ہے ہاتھ پھیر کر کسی چیز کے برے اثرات کو ختم کرنا۔ اسی مناسبت سے عیسائیت کے پیروکار ''کرسچین یا مسیحی'' حضرت عیسیٰ ؑ کو یسوع مسیح کا نام دیتے ہوئے اپنا مقدس پیغمبر مانتے ہیں جن پر صحیفہ آسمانی یا مقدس کتاب انجیل (Bible) کا نزول ہوا۔ قرآنِ کریم کی سورۃ نساء اور سورۃ البقرہ میں المسیح کو کلمۃ اللہ اور روح اللہ کہا گیا ہے۔ عموماً کرسمس کو ایک روزہ تہوار سمجھا جاتا ہے لیکن درحقیقت عیسائیت میں کرسمس ایک پورے موسم کا نام ہے جو کرسمس کے دن سے لے کر عیدِ ظہور تک جاری رہتا ہے اس دورانیہ کو کرسمس کے موسم کے نام سے منسوب بھی کیا جاتا ہے۔ مسیحی مذہب میں دو عیدیں سب سے بڑی ہیں۔ (۱) کرسمس (عیدِ ولادت المسیح)، (۲) ایسٹر یعنی (عید پاشکا)۔ ان دونوں تہواروں سے قبل طویل تیاری کی جاتی ہے جس کو آمد کے ایام کہتے ہیں یہ وہ ایام ہیں جس میں خوشی اور بے تابی سے اپنے نجات دہندہ کی آمد کا انتظار ہے۔
آمد کی خاص بات یہ ہے کہ تمام گرجا گھروں میں ایک خاص علامت کے طور پر ''آمد کی مالا'' یسوع مسیح کی آمد کا شایانَ شان استقبال ہے۔ کرسمس نا م ہے مذہبی تہوار، عیدِ سعید، عیدِ ظہور المسیح یا عیدِ ولادت کا جس میں یسوع مسیح (حضرت عیسیٰ ؑ) بلا پدر حضرت مریم صدیقہ کے بطن اطہر سے انسانی شکل میں دنیا میں ظہور پذیر ہوئے جس کی قرآنِ مجید نے اپنی سورۃ مبارکہ ''مریم'' اور الانبیاء میں واضح طور پر کچھ یوں تصدیق کی ہے ''اور ان (مریم) کو بھی یاد کرو جنہوں نے اپنی عزت نفس کو محفوظ رکھا تو ہم نے ان میں سے اپنی روح پھونک دی اور ان کے بیٹے کو عالمِ انسانیت کے لیے نشانی بنا دیا''۔ یہ باور کراتا چلوں کہ سورۃ مریم قرآنِ مجید کی وہ واحد سورۃ مبارکہ ہے جو کسی خاتون کے نام سے نازل ہوئی ہے۔ حضرت مسیح بن مریم کی آمد مادیت پرست قوم ''بنی اسرائیل'' کی اصلاح کی مظہر تھی۔ بیت المقدس کے مضافاتی ویران علاقے میں بچے کی پیدائش چونکہ ایک معجزہ تھا۔
بی بی مریم اس بات سے پریشان تھیں کہ لوگوں کو کیا منہ دکھاؤں گی۔ چنانچہ فرشتہ جبرائیل امین آئے اور انھوں نے بی بی مریم کو حکم دیا کہ آپ کسی سے بھی کلام نہ کریں اور پوچھنے پر نومولود بچے کی طرف اشارہ کردیں لوگوں کے استفسار پر بچہ یکدم بولا ''انی عبد اللہ'' میں اللہ کا بندہ ہوں۔ ایک طرف انھوں نے اپنی ماں کی پاک دامنی کو ثابت کیا دوسری طرف یہ اعلان بھی کیا کہ جس نبی کی آمد کا بنی اسرائیل کی الہامی کتب میں ذکر ہے میں وہی ہوں۔ حضرت آدم ؑ سے لے کر ختم المرتبت حضور ﷺ تک تمام انبیاء کرام کی تعلیمات میں یکسانیت پائی جاتی ہے جن میں حضرت مسیح کی تعلیمات بھی شامل ہیں لیکن بعد کے ادوار میں بنی اسرائیل کی یہودی ازم نے ان کی اصل تعلیمات کو پسِ پشت ڈال کر اپنی من پسند تعلیمات کو شامل کر لیا۔ قرآن میں ذکر ہے کہ یہودیوں نے حضرت عیسیٰ ؑ کی معجزانہ ولادت پران پر طرح طرح کی ایذا رسانیوں کا طویل سلسلہ جاری رکھا ان کے احکامات کو جھٹلایا اور معجزات کو جادو کا رنگ دیا۔ ان کی تعلیمات سے انکار کیا اور پھر غدار قرار دے کر پھانسی تک پہنچایا۔
قرآنی تعلیمات کی روشنی میں یہودی نہ تو ان کو قتل کر سکے اور نہ ہی صلیب تک پہنچانے میں کامیاب ہو سکے۔ ہاں البتہ عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ ان کا قتل صلیب پر لٹکا کر کیا گیا ہے اور وہ بعد میں زندہ ہو گئے۔ روایت ہے کہ اس ساری کاروائی میں بنی اسرائیل کے یہودیوں کا ہاتھ تھا۔ عیسائی برادری کا جوش و خروش کے ساتھ جشن منانا اس واقعے کی یاد تازہ کرنا ہے۔ آپ کی پیدائش کمالات الہیہ کا برملا اظہار ہے۔ بلاشبہ یہ قدرت کا ایک انمول معجزہ ہے جو تمام تر عجائبات تخلیق سے افضل و اکمل ہے۔ کرسمس کا تہوار پوری دنیا کے امن پسند انسانوں کے لیے حقیقی خوشی اور محبت کا پیغام ہے۔ گھروں کی سجاوٹ کرسمس سے جڑی ایک قدیم اور تابندہ روایت ہے جس میں موم بتیاں، پھول، تصاویر، کرسمس کے مصنوعی درخت، سانتا کلاز کی مختلف علامات، کارڈز، ٹافیوں کے ڈبے اور دیگر آرائشی اشیاء درکار ہوتی ہیں اور تمام تیاریاں دسمبر کے پہلے روز ہی انجام پانی شروع ہوجاتی ہیں اور اس کی انتہاء عین 25 دسمبر کو بامِ عروج تک ہوتی ہیں۔
اگر ہم مذہبی نقطہ نظر سے کرسمس کی ان تمام سرگرمیوں کا بغور مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ کرسمس کیک، کرسمس ٹری، گھنٹیاں اور تحائف پیش کرنا علم الہیات کے زمرے میں نہیں آتے نہ ہی بائبل مقدس میں اس رسومات کا تذکرہ ہے یہ محض مغرب کا سماجی کلچر معلوم ہوتا ہے۔ مسیحیت میں کرسمس فادر یعنی سانتا کلاز کا بھی کہیں ذکر نہیں۔ ان رسومات کی ادائیگی سے ولادت المسیح کا اصل مقصد پسِ پردہ چلا جاتا ہے۔ مسیحیت میں شراب نوشی قطعاً منع ہے مگر لوگ شراب پینا بھی مذہبی عبادت میں شامل کرتے ہیں جو سراسر علم الہیات کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ یہ مذہبی تہوار سے زیادہ سماجی فیسٹیول کا رنگ اختیار کرچکا ہے۔ اعداد و شمار کی روشنی میں پوری دنیا میں مذہب کے اعتبار سے عیسائیت کی تعداد لگ بھگ 150 ملین جب کہ مسلمانوں کی مجموعی تعداد 120 ملین ہے۔ یوں پوری دنیا میں عیسائیت کا شمار دنیا کے اکثریتی فرقے میں آنا فطری عمل ہے۔
وطنِ عزیز پاکستان ایک اسلامی جمہوری مملکت ہے جہاں کی پچانویں فیصد اکثریتی آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ دستورِ پاکستان کے تحت اقلیتوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں۔ رواں دور پاکستان کا ہر عام آدمی دہشت گردی کا شکار ہو رہا ہے وہاں ہمارے عیسائی بھائی بھی اس دہشتگردی کا شکار ہو رہے ہیں کیونکہ وہ بھی اس ملک کا اہم حصّہ ہیں اور اس کی ترقی میں تن من دھن کوشاں ہیں۔ گرجا گھروں میں عبادت میں مصروف لوگوں پر خودکش بم دھماکے اور پنجاب کی تحصیل کوٹ رادھا کشن میں ہونے والا حالیہ غیر انسانی بربریت کا واقعہ جس میں مسیحائی جوڑا شہزاد اور شمع کو دلسوز تشدد کے بعد اینٹوں کے بھٹے کی تپتی ہوئی آگ میں زندہ جلا دیا گیا ۔
جس پر پوری قوم سراپا احتجاج ہے۔ گو کہ سپریم کورٹ نے اس پر ایکشن لیا ہے بلکہ اقوام متحدہ کی انسانی کمیشن نے اس حادثے کا فوری نوٹس لیتے ہوئے حکومت پاکستان پر زور دیا ہے کہ اس کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرائی جائے تا کہ اصل مجرموں کا سیاہ چہرہ بے نقاب کیا جاسکے۔ اُمتِ مسلمہ اپنی مسیحی برادری کے ساتھ کرسمس کی خوشیوں میں برابر کی شریک ہے۔ لہذا کرسمس کی خوشیاں آپ کو بہت بہت مبارک ہو ڈھیر ساری دُعاؤں اور نیک تمناؤں کے ساتھ۔
آج عیسوی سال 2014ء کے الوداعی ماہ دسمبر کی25 تاریخ ہے جو عالمِ بشریت کو ایک نئے سال کی نوید سنانے کی تیاریوں کا باقاعدہ آغاز ہے۔ یہ وہ روحانی دن ہے جس میں پوری دنیا کے اہل کتاب مسیحی (عیسائیوں) کے علاوہ عالم انسانیت یسوع مسیح کی ولادت کی خوشی میں کرسمس مناتے ہیں۔ کرسمس کیا ہے؟ کرسمس (Christmas) انگریزی زبان کا لفظ ہے جو لفظ (Christ) سے اخذ ہوا ہے جس کے لغوی معنی آسمانی روحانی بادشاہ، نجات دلانے والا، مسیحا کے ہیں۔
عبرانی میں آپ کا نام ''ایشوع'' یا ''یسوع'' تھا۔ انگریزی کی قدیم زبان میں کرسمس ''کرسٹس مائسے''(Crites Maesse) یا کرسٹس میسے (Cristes-Messe) جس کا مطلب ہے مسیح کی عبادت۔ مسیح کا لفظ ''مسح'' ہے جس کا مطلب ہے ہاتھ پھیر کر کسی چیز کے برے اثرات کو ختم کرنا۔ اسی مناسبت سے عیسائیت کے پیروکار ''کرسچین یا مسیحی'' حضرت عیسیٰ ؑ کو یسوع مسیح کا نام دیتے ہوئے اپنا مقدس پیغمبر مانتے ہیں جن پر صحیفہ آسمانی یا مقدس کتاب انجیل (Bible) کا نزول ہوا۔ قرآنِ کریم کی سورۃ نساء اور سورۃ البقرہ میں المسیح کو کلمۃ اللہ اور روح اللہ کہا گیا ہے۔ عموماً کرسمس کو ایک روزہ تہوار سمجھا جاتا ہے لیکن درحقیقت عیسائیت میں کرسمس ایک پورے موسم کا نام ہے جو کرسمس کے دن سے لے کر عیدِ ظہور تک جاری رہتا ہے اس دورانیہ کو کرسمس کے موسم کے نام سے منسوب بھی کیا جاتا ہے۔ مسیحی مذہب میں دو عیدیں سب سے بڑی ہیں۔ (۱) کرسمس (عیدِ ولادت المسیح)، (۲) ایسٹر یعنی (عید پاشکا)۔ ان دونوں تہواروں سے قبل طویل تیاری کی جاتی ہے جس کو آمد کے ایام کہتے ہیں یہ وہ ایام ہیں جس میں خوشی اور بے تابی سے اپنے نجات دہندہ کی آمد کا انتظار ہے۔
آمد کی خاص بات یہ ہے کہ تمام گرجا گھروں میں ایک خاص علامت کے طور پر ''آمد کی مالا'' یسوع مسیح کی آمد کا شایانَ شان استقبال ہے۔ کرسمس نا م ہے مذہبی تہوار، عیدِ سعید، عیدِ ظہور المسیح یا عیدِ ولادت کا جس میں یسوع مسیح (حضرت عیسیٰ ؑ) بلا پدر حضرت مریم صدیقہ کے بطن اطہر سے انسانی شکل میں دنیا میں ظہور پذیر ہوئے جس کی قرآنِ مجید نے اپنی سورۃ مبارکہ ''مریم'' اور الانبیاء میں واضح طور پر کچھ یوں تصدیق کی ہے ''اور ان (مریم) کو بھی یاد کرو جنہوں نے اپنی عزت نفس کو محفوظ رکھا تو ہم نے ان میں سے اپنی روح پھونک دی اور ان کے بیٹے کو عالمِ انسانیت کے لیے نشانی بنا دیا''۔ یہ باور کراتا چلوں کہ سورۃ مریم قرآنِ مجید کی وہ واحد سورۃ مبارکہ ہے جو کسی خاتون کے نام سے نازل ہوئی ہے۔ حضرت مسیح بن مریم کی آمد مادیت پرست قوم ''بنی اسرائیل'' کی اصلاح کی مظہر تھی۔ بیت المقدس کے مضافاتی ویران علاقے میں بچے کی پیدائش چونکہ ایک معجزہ تھا۔
بی بی مریم اس بات سے پریشان تھیں کہ لوگوں کو کیا منہ دکھاؤں گی۔ چنانچہ فرشتہ جبرائیل امین آئے اور انھوں نے بی بی مریم کو حکم دیا کہ آپ کسی سے بھی کلام نہ کریں اور پوچھنے پر نومولود بچے کی طرف اشارہ کردیں لوگوں کے استفسار پر بچہ یکدم بولا ''انی عبد اللہ'' میں اللہ کا بندہ ہوں۔ ایک طرف انھوں نے اپنی ماں کی پاک دامنی کو ثابت کیا دوسری طرف یہ اعلان بھی کیا کہ جس نبی کی آمد کا بنی اسرائیل کی الہامی کتب میں ذکر ہے میں وہی ہوں۔ حضرت آدم ؑ سے لے کر ختم المرتبت حضور ﷺ تک تمام انبیاء کرام کی تعلیمات میں یکسانیت پائی جاتی ہے جن میں حضرت مسیح کی تعلیمات بھی شامل ہیں لیکن بعد کے ادوار میں بنی اسرائیل کی یہودی ازم نے ان کی اصل تعلیمات کو پسِ پشت ڈال کر اپنی من پسند تعلیمات کو شامل کر لیا۔ قرآن میں ذکر ہے کہ یہودیوں نے حضرت عیسیٰ ؑ کی معجزانہ ولادت پران پر طرح طرح کی ایذا رسانیوں کا طویل سلسلہ جاری رکھا ان کے احکامات کو جھٹلایا اور معجزات کو جادو کا رنگ دیا۔ ان کی تعلیمات سے انکار کیا اور پھر غدار قرار دے کر پھانسی تک پہنچایا۔
قرآنی تعلیمات کی روشنی میں یہودی نہ تو ان کو قتل کر سکے اور نہ ہی صلیب تک پہنچانے میں کامیاب ہو سکے۔ ہاں البتہ عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ ان کا قتل صلیب پر لٹکا کر کیا گیا ہے اور وہ بعد میں زندہ ہو گئے۔ روایت ہے کہ اس ساری کاروائی میں بنی اسرائیل کے یہودیوں کا ہاتھ تھا۔ عیسائی برادری کا جوش و خروش کے ساتھ جشن منانا اس واقعے کی یاد تازہ کرنا ہے۔ آپ کی پیدائش کمالات الہیہ کا برملا اظہار ہے۔ بلاشبہ یہ قدرت کا ایک انمول معجزہ ہے جو تمام تر عجائبات تخلیق سے افضل و اکمل ہے۔ کرسمس کا تہوار پوری دنیا کے امن پسند انسانوں کے لیے حقیقی خوشی اور محبت کا پیغام ہے۔ گھروں کی سجاوٹ کرسمس سے جڑی ایک قدیم اور تابندہ روایت ہے جس میں موم بتیاں، پھول، تصاویر، کرسمس کے مصنوعی درخت، سانتا کلاز کی مختلف علامات، کارڈز، ٹافیوں کے ڈبے اور دیگر آرائشی اشیاء درکار ہوتی ہیں اور تمام تیاریاں دسمبر کے پہلے روز ہی انجام پانی شروع ہوجاتی ہیں اور اس کی انتہاء عین 25 دسمبر کو بامِ عروج تک ہوتی ہیں۔
اگر ہم مذہبی نقطہ نظر سے کرسمس کی ان تمام سرگرمیوں کا بغور مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ کرسمس کیک، کرسمس ٹری، گھنٹیاں اور تحائف پیش کرنا علم الہیات کے زمرے میں نہیں آتے نہ ہی بائبل مقدس میں اس رسومات کا تذکرہ ہے یہ محض مغرب کا سماجی کلچر معلوم ہوتا ہے۔ مسیحیت میں کرسمس فادر یعنی سانتا کلاز کا بھی کہیں ذکر نہیں۔ ان رسومات کی ادائیگی سے ولادت المسیح کا اصل مقصد پسِ پردہ چلا جاتا ہے۔ مسیحیت میں شراب نوشی قطعاً منع ہے مگر لوگ شراب پینا بھی مذہبی عبادت میں شامل کرتے ہیں جو سراسر علم الہیات کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ یہ مذہبی تہوار سے زیادہ سماجی فیسٹیول کا رنگ اختیار کرچکا ہے۔ اعداد و شمار کی روشنی میں پوری دنیا میں مذہب کے اعتبار سے عیسائیت کی تعداد لگ بھگ 150 ملین جب کہ مسلمانوں کی مجموعی تعداد 120 ملین ہے۔ یوں پوری دنیا میں عیسائیت کا شمار دنیا کے اکثریتی فرقے میں آنا فطری عمل ہے۔
وطنِ عزیز پاکستان ایک اسلامی جمہوری مملکت ہے جہاں کی پچانویں فیصد اکثریتی آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ دستورِ پاکستان کے تحت اقلیتوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں۔ رواں دور پاکستان کا ہر عام آدمی دہشت گردی کا شکار ہو رہا ہے وہاں ہمارے عیسائی بھائی بھی اس دہشتگردی کا شکار ہو رہے ہیں کیونکہ وہ بھی اس ملک کا اہم حصّہ ہیں اور اس کی ترقی میں تن من دھن کوشاں ہیں۔ گرجا گھروں میں عبادت میں مصروف لوگوں پر خودکش بم دھماکے اور پنجاب کی تحصیل کوٹ رادھا کشن میں ہونے والا حالیہ غیر انسانی بربریت کا واقعہ جس میں مسیحائی جوڑا شہزاد اور شمع کو دلسوز تشدد کے بعد اینٹوں کے بھٹے کی تپتی ہوئی آگ میں زندہ جلا دیا گیا ۔
جس پر پوری قوم سراپا احتجاج ہے۔ گو کہ سپریم کورٹ نے اس پر ایکشن لیا ہے بلکہ اقوام متحدہ کی انسانی کمیشن نے اس حادثے کا فوری نوٹس لیتے ہوئے حکومت پاکستان پر زور دیا ہے کہ اس کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرائی جائے تا کہ اصل مجرموں کا سیاہ چہرہ بے نقاب کیا جاسکے۔ اُمتِ مسلمہ اپنی مسیحی برادری کے ساتھ کرسمس کی خوشیوں میں برابر کی شریک ہے۔ لہذا کرسمس کی خوشیاں آپ کو بہت بہت مبارک ہو ڈھیر ساری دُعاؤں اور نیک تمناؤں کے ساتھ۔