دنیا کی سب سے بڑی انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے کا خفیہ ٹارچر پروگرام
امریکی سینٹ کمیٹی نے تصدیق کر دی کہ قومی ایجنسی کے اہل کاروں نے مسلمان قیدیوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا
''جنگلی جانور کبھی تلذذ کی خاطر شکار نہیں کرتے۔ کرہ ارض پہ واحد انسان ہی ہے جو اپنے بھائی بندوں پر تشدد کرتا اور انہیں مار کر لُطف و تسکین پاتا ہے۔'' (برطانوی شاعر' جیمز انتھونی فروڈ)
٭٭
16دسمبر کی صبح پشاور کے ایک اسکول میں شدت پسندوں نے زندگی سے بھرپور معصوم،مسکراتے،ہمکتے ،چمکتے ،دمکتے پھولوں کی پتیاں جس وحشیانہ طریقے سے نوچیں ،اسے دیکھ کر سبھی حساس انسانوں کے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور وہ تھّرا اٹھے۔یہ شدت پسند بزعم خود جو جنگ لڑ رہے ہیں،وہ بالکل معکوس سمت اختیار کر چکی...اب غاصب نہیں اپنے ہی ہم وطن اس کا نشانہ ہیں۔ستم یہ کہ شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ سے رہنے والے نہیں عام پاکستانیوں کے باپ،بیٹے،بھائی اور بچے اس جنگ کے شعلوں کی نذر ہوئے۔
یہ کیسی خوفناک جنگ ہے جو پڑوسیوں اور ہم وطنوں سے محبت نہیں دشمنی کرنا سکھاتی ہے!اس احمقانہ جنگ کا کوئی انت ہے یا نہیں؟ایک عاقل کہتا ہے:''بے وقوفی اور ذہانت کے درمیان بنیادی فرق یہ ہے کہ اول الذکر کوئی حد نہیں رکھتی۔''
بنی نوع انسان کا المیّہ ہے کہ ہر جنگ کی سفاکی،وحشت اور بربریت اسے تلخ نتائج دیتی ہے۔انسان اعادہ کرتا ہے کہ اب جنگوں کا ایندھن نہیں بنے گا...لیکن جلد ہی دوسروں سے الجھ کر پھر جنگ کے الاؤ میں جا گھستا ہے۔اس ہولناک حماقت سے دنیا کی کوئی قوم نہیں بچ سکی،حتی کہ خود کو انسانی حقوق،آزادی اور جمہوریت کے چیمپئن کہنے والے امریکی بھی نہیں!
پچھلے دنوں امریکی ارکان ِسینٹ کی تحقیق سے یہ روح فرسا انکشاف ہوا کہ حادثہ 9/11کے بعد تب کی بش حکومت نے اپنی خفیہ ایجنسی،سی آئی اے کو یہ کھلی چھٹی دے دی کہ وہ خصوصاً اسلامی ممالک میں جس مسلمان کو دہشت گرد سمجھے،اسے اغوا کر ے یا دوسروں کی مدد سے کروا ڈالے۔ یہی نہیں،القاعدہ کے ''راز''جاننے کی خاطر اس پہ تشدد کے متنوع طریقے آزمانے کا لائسنس بھی اسے مل گیا۔
اس ننگی آزادی نے افسرانِ سی آئی اے کو شتر بے مہار بنا ڈالا۔ممتاز امریکی ادیبہ،میری میکارتھی کا قول ہے:''انسان جب تشدد پہ اتر آئے،تو بھول جاتا ہے کہ وہ کیا ہے۔''چناں چہ انتقام کی آگ میں جلتے ہوئے امریکی بھی بھول گئے کہ وہ اقوام عالم میں اعلیٰ انسانی واخلاقی اقدار کے علمبردار ہیں۔سی آئی اے نے مسلم قیدیوں پہ جو مظالم ڈھائے،ان کا ایک نمونہ ملاحظہ فرمائیے۔
٭٭
رحیم جبولی اب شاذ ہی گھر سے باہر نکلتا ہے کیونکہ اسے دنیا والوں پر اعتبار نہیں رہا۔ اگر کسی ضروری کام سے باہر نکلنا بھی پڑے' تو وہ زیادہ سے زیادہ وقت پُر ہجوم جگہوں پر گزارتا ہے۔ مدعا یہ ہے کہ اگر اس کے اغوا کنندہ دوبارہ چھاپہ ماریں' تو کم از کم اس سانحے کے گواہ تو موجود ہوں۔ ان اغوا کاروں نے اسے ایسے بے رحم اور ظالمانہ تشدد کا نشانہ بنایا تھا کہ دس سال بیت جانے کے بعد وہ اپنی اذیت و تکلیف نہیں بھول سکا۔
گھر سے نکلتے ہی قدم قدم پر رحیم جبولی کو ایسے مناظر دکھائی دیتے ہیں کہ اسے اپنی اسیری کا انتہائی تلخ زمانہ یاد آ جاتا ہے۔ سڑک پر کوئی سیاہ وین نمودار ہو' تو وہ بچے کی طرح ڈر جاتا ہے۔ اُسے لگتا ہے کہ اغوا کار پھر آ پہنچے۔تالاب کے تو وہ نزدیک نہیں پھٹکتا کہ پانی دہشت کی علامت بن چکا۔گھر میں بھی رحیم زیادہ وقت اپنے کمرے کی تنہائی میں گزارتا ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ کوئی اسے ڈراؤنے خوابوں سے خوفزدہ یا چوری چھپے روتے دیکھے۔ اپنی جسمانی و ذہنی حالت زار دیکھتے ہوئے اسے خوف ہے کہ وہ کبھی شادی کر کے بیوی بچوں کا پیار حاصل نہیں کر سکے گا۔
الجزائر کا باشندہ' رحیم جبولی سی آئی اے کے مظالم کا شکار ہے جس نے اس مسلم نوجوان کی زندگی تباہ کر ڈالی اور اسے خوشیوں و مسّرتوں سے دور کر دیا۔ دس سال قبل امریکی ایجنٹوں نے ''دہشت گرد'' قرار دے کر اسے اغوا کیا۔ وہ اسے وسطی افریقا میں واقع اپنے خفیہ مرکز لے گئے۔ رحیم جبولی اس خفیہ سیل میں سات ماہ قید رہا۔ اور یہ عرصہ اس نے ارضی جہنم میں رہتے ہوئے گزارا۔
اس خفیہ مرکز میں تعینات امریکی ایجنٹوں کا پسندیدہ آلہِ تشدد ''دباؤ ہیئت'' (stress position) تھا۔ وہ قیدی کو لٹاتے' اس کی ٹانگیں موڑتے اور پھر گردن سے لے کر ٹخنوں تک رسی یا زنجیر سے کس کر باندھ دیتے۔ اسی ہئیت میں آ کر چند ہی منٹ بعد انسان اتنی شدید تکلیف محسوس کرتا کہ بمشکل سانس لے کر زندہ رہتا ہے۔ رحیم آنسو بھری نگاہیں لیے دلگیر آواز میں بتاتا ہے:
''ایسی اذیت ناک کیفیت میں انسان خود کو دوسرے کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے۔ وہ خود کوئی فیصلہ کرنے کی حیثیت نہیں رکھتا۔ اب جو دوسرا چاہے ' وہی ہوتا ہے۔''
رحیم جبولی کی داستان الم کا آغاز 17 ستمبر 2001ء کو ہوا۔ اسی دن ورلڈ ٹریڈ سینٹر منہدم ہوئے چھ دن گزر چکے تھے۔ مغربی میڈیا غل مچا رہا تھا کہ امریکی طاقت کی نشانی پہ یہ حملہ القاعدہ نے کیا ہے۔ چنانچہ اسی دن امریکی صدر جارج بش نے ایک خفیہ صدارتی حکم نامے کے ذریعے سی آئی اے کو یہ اختیار دے دیا کہ وہ پوری دنیا میں جس انسان کو بھی ''دہشت گرد'' سمجھیں' اسے بہ غرض تفتیش اغوا کر لیں۔
یوں سی آئی اے کے ایجنٹوں کو خصوصاً اسلامی ممالک میں مشکوک افراد کی پکڑ دھکڑ کرنے کی اجازت مل گئی۔ اور یہ مشکوک مسلمان کون تھے؟ وہ مسلم جو مغربی استعمار کے خلاف نبرد آزما ہوئے اور غاصب قوتوں (اسرائیل' بھارت' روس'امریکا، سربیا' فلپائن' برما) کا شکار مسلمانوں کو بذریعہ مسلح جدوجہد بچانا چاہتے تھے۔
سی آئی اے نے پھر افغانستان ' پاکستان ' یمن اور دیگر اسلامی ممالک سے کم از کم تین ہزار مسلمان ''دہشت گرد'' قرار دے کر پکڑ لیے۔ اُدھر مغربی میڈیا اسلام اور دہشت گردی کو ہم مترادف قرار دینے لگا۔ وہ بھول گیا کہ بیسویں صدی میں جہادی تنظیموں کا قیام اس ظلم و ستم کا فطری رد عمل تھا جو یورپی استعماری و نو آبادیاتی طاقتیں پچھلے دو سو برس سے عالم اسلام میں ... انڈونیشیا سے لے کر موریطانیہ اور نائیجیریا تک مسلمانوں پر ڈھا رہی تھیں۔ حتیٰ کہ اسلامی ممالک آزاد ہوئے پھر بھی سازشوں اور کٹھ پتلی حکمرانوں کی وساطت سے سابق یورپی آقاؤں نے وہاں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھا۔
امریکا کی اعلیٰ ترین قیادت سے لے کر سی آئی اے کے عام ایجنٹوں تک' سبھی کو یقین تھا کہ القاعدہ مزید حملے کرنے کاارادہ رکھتی ہے۔ چناں چہ امریکی صدر نے سی آئی اے کو مسلم قیدیوں پر تشدد کرنے کی اجازت دے دی۔ مدعا یہ تھاکہ ان سے آنے والے منصوبوں' ساتھیوں اور تربیتی کیمپوں کے متعلق معلومات اگلوائی جائیں۔
سی آئی اے نے 1965ء تا 1972ء ویت نام میں ''فونکس پروگرام''(Phoenix Program) منصوبے کے تحت ویت نامی گوریلوں پر تشدد کے لرزہ خیز طریقے اپنائے تھے۔ لیکن تشدد کے ذریعے امریکیوں کو بہت کم معلومات حاصل ہو سکیں۔ چنانچہ سی آئی اے کے بڑوں نے یہی نتیجہ اخذ کیا: اول ٹارچر سے زیادہ معلومات نہیں ملتیں' دوم جو ملیں بھی' ان میں سے بیشتر غلط ہوتی ہیں۔ اس نتیجے کی روشنی میں آئندہ قیدیوں پر تشدد کرنے کی پالیسی ترک کر دی گئی۔ اس ضمن میں راہنما اصول بھی بنائے گئے۔
لیکن بعد از واقعہ 9/11 ستمبر امریکی حکومت پر قومی سلامتی (نیشنل سکیورٹی) کا بُھوت سوار ہو گیا۔ چنانچہ اپنے ذاتی تحفظ کی خاطر اپنائے جانے والے تمام جائز و ناجائز حربے درست قرار پائے۔ یہ فرض کر لیا گیا کہ امریکا کی سلامتی شدید خطرے میں ہے۔ امریکی عوام پر یہ بھی خوف سوار کرا یا گیا۔ ایسے پُرتناؤ ماحول میں قیدیوں سے ''راز'' اگلوانے کی خاطر تشدد دوبارہ سی آئی اے کے ایجنٹوں کا من پسند وتیرہ بن گیا اور اس سلسلے میں انہیں بش حکومت کی آشیر باد حاصل تھی۔
سی آئی اے نے تو سب سے پہلے مختلف ممالک ... افغانستان' تھائی لینڈ' پولینڈ' رومانیہ' لیتھونیا وغیرہ میں خفیہ تفتیشی مراکز قائم کیے۔ ''دہشت گردوں'' سے وہیں چھان بین کی گئی اور اس دوران ان پر جسمانی و ذہنی تشدد کے مختلف طریقے آزمائے گئے۔اس بار سی آئی اے نے یہ جدت اپنائی کہ کلینکل سائیکولوجسٹوں کی زیر نگرانی اپنا ٹارچر پروگرام شروع کیا۔ کلینیکل سائیکلولوجسٹ (clinical psychologist) وہ ماہر نفسیات ہے جو ادویہ اور طبی طریقوں کے ذریعے نفسیاتی امراض کنٹرول کرتا ہے۔ لیکن سی آئی اے نے قیدیوں کو نفسیاتی طور پر تندرست رکھنے کی خاطر ان کی خدمات حاصل نہیں کیں... بلکہ وہ کلینیکل سائیکلولوجسٹوں کے ذریعے قیدیوں کا دماغ کنٹرول کرنا چاہتے تھے۔
ان کلینیکل سائیکولوجسٹوں کے سربراہ جیمز مچل(James Mitchell) اور بروس جیسن ( Bruce Jessen)تھے۔ انہوںنے مسلمان قیدیوں میں صبر و برداشت کا مادہ ختم کرنے اور انہیں ذہنی طور پر اضمحلال اور پژمردگی کا شکار بنانے کے لیے ٹارچر کے مختلف جسمانی و ذہنی طریقے ایجاد کیے۔ مدعا یہ تھا کہ انہیں جسمانی و ذہنی طور پر تباہ کر دیا جائے تاکہ نیم مردہ انسانی ڈھانچے سے پھر ''راز'' برآمد ہو سکیں۔اس خدمت کے معاوضے میں دونوں نے ''80ملین ڈالر''(آٹھ ارب روپے)سے زیادہ رقم پائی اور اب وہ شاہانہ زندگی گذار رہے ہیں۔
سی آئی اے نے کلینیکل سائیکولوجسٹوں سے معاہدہ کیا کہ مستقبل میں انسانی حقوق کی کسی امریکی تنظیم نے ان پر مقدمہ کر ڈالا تو سی آئی اے مقدمے کا تمام خرچہ و ہرجہ برداشت کرے گی۔ امریکی کلینکل سائیکولوجسٹوں کو ایک اور سنگین مسئلہ بھی درپیش تھا۔ اگر مستقبل میں ثابت ہوتا کہ وہ سی آئی اے کے ٹارچر منصوبے کا حصہ رہے، تو ان کے لائسنس منسوخ ہوجاتے۔ تب وہ امریکا بھر میں پریکٹس نہیں کرپاتے۔ یوں ان کا کیریئر تباہ ہوجاتا۔
چناں چہ بش حکومت اور سی آئی اے نے دنیا میں ماہرین نفسیات کی سب سے بڑی بین الاقوامی تنظیم ''امریکن سائیکولوجیکل ایسوسی ایشن'' پر زور ڈالا کہ وہ اخلاقی اصولوں کی اپنی پالیسی میں ایسی تبدیلی لائے کہ کلینکل سائیکولوجسٹ بلا خوف و خطر سی آئی اے کے ٹارچر پروگرام میں شریک ہوسکیں۔
جب واقعہ 9/11 کے بعد سی آئی اے نے اسلامی ممالک سے مشکوک افراد کی پکڑ دھکڑ شروع کی، تو انہیں بغرض تفتیش مختلف ممالک میں قائم اپنے خفیہ مراکز میں رکھا۔ ان میں''سالٹ پٹ'' (Salt Pit) نامی مرکز کو زیادہ شہرت ملی جسے سینٹ انٹیلی جنس رپورٹ میں ''کوبالٹ'' (COBALT) کا نام دیا گیا۔ یہ تفتیشی مرکز افغانستان میں امریکا کے سب سے بڑے فوجی اڈے، بگرام میں زیر زمین واقع تھا۔ دی سالٹ پٹ اور دیگر تفتیشی مراکز میں سی آئی اے نے قیدیوں پر تشدد کے جو طریقے اپنائے، ان کا تذکرہ درج ذیل ہے۔
(1) منجمند کرکے مارنا:۔
2002ء میں افغانستان پر حملے کے دوران امریکیوں نے گل رحمان نامی افغان کو گرفتار کیا۔ یہ افغان رہنما، گلبدین حکمت یار کے ساتھیوں میں سے تھے۔ گل رحمان اپنی ناجائز گرفتاری پر برافروختہ تھے، چناں چہ انہوں نے بہت شورو غل مچایا۔ اس پر سی آئی اے کے اہل کاروں نے انہیں مارا پیٹا۔
سی آئی اے پھر گل رحمان کو ''دی سالٹ پٹ'' میں لے گئی۔ وہاں ایک تفتیشی افسر نے انہیں نیم برہنہ کیا اور دیوار کے ساتھ اس طور سے باندھا کہ وہ ننگے فرش پر لیٹنے پر مجبور ہوں۔ نومبر کا مہینہ تھا۔ رات کو درجہ حرارت نقطہ انجماد تک پہنچ جاتا۔ چناں چہ گل رحمان رات کو شدید سردی کے باعث چل بسے۔ ان کی دلدوز چیخوں اور اذیت بھری دہائی پر کسی امریکی نے توجہ نہ دی۔
حیرانی کی بات یہ ہے کہ جس افسر نے گل رحمان کو برہنہ کرکے ٹھنڈے فرش پر لٹایا، اسے کوئی سزا نہیں ملی بلکہ چار برس بعد ''اعلیٰ کارکردگی'' انجام دینے پر اسے ڈھائی ہزار ڈالر کے نقد انعام سے نوازا گیا۔ یوں بے حسی اور شقاوت کی انتہا کردی گئی!
(2) مقعد سے کھانا کھلانا:۔
جب انسان کسی بھی وجہ سے بذریعہ منہ کھانا کھانے کے قابل نہ رہے، تو ماضی میں رواج تھا، اسے رقیق غذا بذریعہ مقعد دی جاتی تھی۔ خیال ہے کہ انسانی جسم تک غذا پہنچانے کا یہ طریقہ یونانی حکیم، جالینوس نے ایجاد کیا۔ مگر سی آئی اے کے جالینوسوں نے اسے ٹارچر کا طریقہ بنالیا۔
سینٹ رپورٹ کے مطابق سی آئی اے نے کم ازکم پانچ قیدیوں کو بذریعہ مقعد کھانا کھلایا۔ بظاہر یہ توجیہہ پیش کی گئی کہ قیدی کھانا نہیں کھارہے۔ لہٰذا انہیں زبردستی غیر فطری طریقے سے غذا دی گئی تاکہ وہ زندہ رہیں لیکن اصل وجہ کچھ اور تھی۔
رپورٹ کی رو سے سی آئی اے تفتیشی مرکز کے کرتا دھرتا قیدیوں کو بذریعہ مقعد کھانا کھلا کر انہیں جتانا چاہتے تھے کہ وہ مجبور و مقہور ہیں جبکہ افسر مالک و مختار...!!! یہی افسر تمام قیدیوں پر ''مکمل کنٹرول'' رکھتے ہیں اور ان کے ساتھ جیسا مرضی سلوک کریں۔ ایک افسر کے مطابق: ''اس تکنیک سے قیدی کی شخصیت و انا ٹوٹ پھوٹ جاتی ہے'' اسی لیے طاقتور خود اعتمادی رکھنے والے قیدیوں کو بطور تشدد مقعد سے غذا کھلائی گئی۔
سی آئی اے کے ایک تفتیش کار نے ارکان انٹیلی جنس کمیٹی کو بتایا :''ہم نے سعودی عرب کے قیدی عبدالرحمن النشیری کو گھٹنوں کے بل (کتے کی طرح) کھڑا کیا۔ پھر اس کا سر مزید جھکایا گیا۔ پھر اس کے مقعد میں رقیق غذا ڈالی گئی۔''
ظلم کے اس مظاہرے سے بمطابق رپورٹ کم از کم ایک قیدی مرض سوزش ِمقعد( chronic hemorrhoids )میں مبتلا ہوگیا۔ وجہ یہ کہ اس کے مقعد کی نالی شدید دباؤ کو برداشت نہ کرسکی اور سوزش زدہ ہوگئی۔ وہ پھر کئی دن اذیت ناک لمحات سے گزرا اور بے چارے کا علاج ہوتا رہا۔
(3) پانی تختہ:۔
ٹارچر کی یہ تکنیک تو سی آئی اے کی مرغوب ترین رہی۔ تفتیش کاروں نے اسے القاعدہ رہنما،خالد شیخ محمد پر ''183'' بار اور ابوزبیدہ پر ''83'' بار آزمایا۔ حالانکہ یہ طریق عام خیال کے برعکس نقصان دہ ہے۔ سانس رکنے سے انسان موت کے قریب پہنچ سکتا ہے۔
پانی کے ذریعے تشدد کرنا بھی ایک قدیم طریقہ ہے۔ اسے سب سے پہلے چینیوں اور پھر ہسپانویوں نے اندلسی مسلمانوں کو ٹارچر کا نشانہ بناتے ہوئے اپنایا۔ اس کی مختلف اقسام ہیں۔ مثلاً قیدی کو باندھ کر منہ میں مسلسل پانی ڈالنا حتیٰ کہ پیٹ پھول جاتا ہے یا پھر پانی تختہ۔ اس میں قیدی کو تختے پر لٹا کر منہ پر کپڑا رکھ کر پانی ڈالا جاتا ہے۔ یوں انسان کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ ڈوب رہا ہے۔
(4) مسلسل جگائے رکھنا:۔
یہ بھی ٹارچر کا معروف گُر ہے جسے افسران سی آئی اے نے سیکڑوں قیدیوں پر آزمایا۔ یہی نہیں، اس طریق کار میں انہوں نے جدت بھی کر ڈالی۔ سینٹ انٹیلی جنس کمیٹی میں درج ہے:
''تفتیشی مراکز میں قیدیوں کو زبردستی 180 گھنٹے تک بیدار رکھا جاتا۔ عموماً قیدی تادیر کھڑے رکھے جاتے۔ تب ان کے ہاتھ گردن سے بندھے ہوتے۔ اس دوران قیدیوں کو جگائے رکھنے کی خاطر مختلف تدابیر اختیار کی جاتیں۔ مثلاً آنکھوں پر تیز روشنی مارنا۔''
سی آئی اے نے کئی قیدی زخمی حالت میں پکڑے تھے اور ان کے پیر یا ٹانگیں مضروب تھیں۔ مگر زخموں کی پروا کیے بغیر ظالموں نے ان قیدیوںکو کھڑے رکھا۔ نتیجتاً بعدازاں ان کے زخم بگڑگئے۔
(5) اہل خانہ کو دھمکیاں:۔
قیدیوں سے ''راز'' اگلوانے کی خاطر انہیں مختلف دھمکیاں بھی دی گئیں۔ مثلاً عبدالرحمن النشیری کو دھمکی ملی کہ اگر زبان نہ کھولی، تو تمہاری ماں کو یہاں لاکر تمہارے سامنے اس کی بے حرمتی کی جائیگی۔
اسی طرح افسران سی آئی اے نے دیگر قیدیوں کو دھمکی دی کہ اگر منہ یونہی بند رکھا، تو ''تمہارے اہل خانہ کی خیر نہیں۔'' جب خالد شیخ محمد سے تفتیش ہوئی،تودانستہ ان کے بیوی بچوں کی تصویر سامنے لٹکائی گئی تاکہ وہ جذباتی ہوکر حوصلہ ہار بیٹھیں۔
سینٹ رپورٹ ایک نظر میں
20 جنوری 2008ء کو ڈیموکریٹک صدر، بارک اوباما نے امریکا کا اقتدار سنبھالا۔ صرف ایک دن بعد انہوں نے ایگزیکٹیو آرڈر جاری کرکے سی آئی اے کو قیدی زیر حراست رکھنے اور اسے ٹارچر کرنے سے روک دیا۔ پھر 22 فروری کو سینٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی نے سی آئی اے کے ٹارچر پروگرام کی تفتیش کا آغاز کیا۔یہ انٹیلی جنس کمیٹی 1976ء میں وجود میں آئی۔ اس کا کام امریکی خفیہ ایجنسیوں اور اداروں کی سرگرمیوں اور کارکردگی پر نظر رکھنا ہے۔ سینٹ کے 15 ارکان اس کے رکن ہوتے ہیں۔
انٹیلی جنس کمیٹی کے ارکان پھر پانچ برس تک سی آئی اے ٹارچر پروگرام کی تفتیش کرتے رہے۔ آخر میں جو رپورٹ تیار ہوئی، وہ ''6000'' ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔ اس رپورٹ کا خلاصا 525 صفحات کی رپورٹ میں شائع کیا گیا۔ اس تفتیش پر کل 40 ملین ڈالر (چار ارب روپے) خرچ ہوئے۔
525 صفحات کی رپورٹ میں ٹارچر پروگرام سے متعلق صرف بنیادی باتیں درج ہیں ورنہ بیشتر تفصیل امریکی حکومت نے کلاسیفائیڈ یعنی خفیہ رکھی۔ بہرحال یہ رپورٹ بھی افشا کرتی ہے کہ سی آئی اے نے قیدیوں پر کیونکر تشدد کیا۔ خاص بات یہ کہ سی آئی اے کے افسروں نے حکومت اور میڈیا کو ٹارچر پروگرام سے متعلق جھوٹی خبریں دیں۔ مدعا یہی تھا کہ ان کے جرائم پوشیدہ رہیں۔بش حکومت کے وزیروں اور مشیروں کا یہی دعویٰ ہے کہ ٹارچر کی بدولت قیدیوں سے القاعدہ رہنماؤں کے بارے میں اہم معلومات حاصل ہوئیں۔ مگر انٹیلی جنس کمیٹی کی رپورٹ اس امر کو جھٹلاتی ہے۔ عالمی میڈیا کی رو سے یہ رپورٹ عیاں کرتی ہے: ''تشدد، انتہا پسندی اور ہر امر کو خفیہ رکھنا امریکی سکیورٹی نظام کی خصوصیات بن چکیں۔
تشدد کے طریقے جو اپنائے گئے
اس امر سے اندازہ ہوتا ہے کہ بش حکومت اور سی آئی اے قومی سلامتی کے نام پر کئی بار قانون و اخلاقیات کی خلاف ورزی کرتے رہے۔
جب جیمز مچل اور بروس جیسن سمیت تمام کلینیکل سائیکولوجسٹوں کا خوف دور ہوگیا، تو وہ باہم غور و فکر کرکے ایسے طریقے بنانے لگے جنہیں ٹارچر پروگرام میں استعمال کیا جاسکے۔ ان کے ایجاد کردہ طریقوں میں ''خود آگاہ بیچارگی'' (learned helplessness) بہت مشہور ہوا۔
نفسیاتی ٹارچر کے اس طریق کار میں انسان کی خود اعتمادی ریزہ ریزہ کردی جاتی ہے تاکہ وہ نفسیاتی و جذباتی طور پر اپنا دفاع کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہے۔جو انسان خود آگاہ بیچارگی نفسیاتی ٹارچر سے گزرے، اسے تندرست ہونے میں کئی برس لگ جاتے ہیں۔ عموماً وہ مکمل طور پر صحت یاب نہیں ہوتا اور غیر فطری حرکات کرتا رہتا ہے۔ المیّہ یہ ہے کہ دنیا والے ان کی اذیت و تکلیف کو کم ہی جان پاتے ہیں۔
یہی دیکھیے کہ سی آئی اے کے ٹارچر پروگرام کی تفصیل عیاں ہونے میں بارہ برس لگ گئے۔ یہ تفصیل سامنے آئی، تو صدر اوباما سے لے کر امریکی حکومت کے تمام عہدے دار یہ کہنے لگے کہ ماضی میں جو غلطیاں ہوئیں، انہیں بھول جانا چاہیے۔ لیکن جو سیکڑوں مسلمان قیدی نفسیاتی و جسمانی ٹارچر کی تکلیف و مصائب سے گزرے، کیا وہ اس ہولناک وقت کو بھول سکتے ہیں؟ ایک امریکی نفسیات داں اور ریٹائرڈ بریگیڈیئر، سٹیفن زینکاس اعتراف کرتا ہے:'' ٹارچر سے گزرنے والے ساری عمر مختلف ذہنی و جسمانی بیماریوں میں مبتلا رہتے ہیں اور ان کی زندگی جہنم کے مانند ہی گزرتی ہے۔''
خود آگاہ بیچارگی کی اصلاح امریکی نفسیات داں، مارٹن سیلگمان کی تخلیق ہے۔ اس نے دوران تجربات دیکھا کہ جب کتوں کو بجلی کے جھٹکے دیئے جائیں تو طویل عرصے کے لیے ان کے رویّوں میں غیر معمولی تبدیلی آجاتی ہے۔ وہ نئی باتیں نہیں سیکھ پاتے اور شدید ذہنی دباؤ میں گرفتار رہتے ہیں۔ اسی کیفیت کو سیلگمان نے خود آگاہ بیچارگی کا نام دیا۔
امریکی سینٹ انٹیلی جنس کمیٹی کی رپورٹ میں درج ہے کہ جب قیدیوں پر خود آگاہی بیچارگی تکنیک آزمائی گئی، تو انہوں نے کیسے ردعمل کا مظاہرہ کیا۔ جب ان کی کوٹھریوں کا دروازہ کھلتا، تو وہ خوفزدہ ہوکر جھک جاتے۔ سی آئی اے کے تفتیش کار بعدازاں اپنے ساتھیوں کو بتاتے ''وہ ہمارے سامنے بالکل کتے لگتے ہیں۔''
سعودی عرب کا شہری، عبدالرحیم النشیری تفتیش کاروں کو دیکھتے ہی لرزنے اور کانپنے لگتا۔ یہ مسلم نوجوان ''پانی تختہ''(Waterboarding) کے ٹارچر سے بھی گزرا۔ اسے بولنے پر مجبور کرنے کی خاطر دھمکی دی گئی کہ اس کے جسم میں ڈرل سے سوراخ کیے جائیں گے۔ مدعا یہی تھا کہ اس میں بیچارگی کی مطلوبہ سطح پیدا کردی جائے۔
خود آگاہ بیچارگی تکنیک اپناتے ہوئے قیدی سے ذلت آمیز سلوک ہوتا ہے۔ اسے مختلف طریقوں سے ڈرایا جاتا ہے۔ مقصد یہ کہ اس کی شخصیت ٹوٹ پھوٹ جائے۔ ڈپریشن، احساس کمتری اور احساس محرومی اس تکنیک کی خصوصیات ہیں۔ حتیٰ کہ ٹارچر کا شکار انسان خود کو مجرم سمجھنے لگتا ہے۔ اس سطح پہ پہنچ کر انسان اپنی ساری خود اعتمادی کھو بیٹھتا ہے۔
ایک اور نتیجہ یہ ہے کہ انسان ہر وقت غصّے میں رہتا ہے۔ اسے ہر دم اپنی لاچاری اور نامردی کا احساس دق کرتا ہے۔ جرمن باشندہ، خالد مصری بے گناہ تھا مگر سی آئی اے نے اسے القاعدہ رہنما، خالد المصری کے دھوکے میں گرفتار کرلیا۔خالد مصری سے ''راز'' اگلوانے کے لیے اس پر نفسیاتی و جسمانی ٹارچر کی مختلف تکنیکیں آزمائی گئیں۔ حتیٰ کہ اس پر جنسی تشدد ہوا۔ آخر چار ماہ بعد انکشاف ہوا کہ وہ تو بے گناہ ہے۔ مگر شدید ٹارچر نے خالد مصری کو نفسیاتی مریض بنا دیا۔ چناں چہ اس نے 2007ء میں ایک جنرل سٹور کو آگ لگادی۔
سی آئی اے کے تفتیش کاروں نے ٹارچر کے جو مختلف طریقے اپنائے، سبھی نے قیدیوں پر دیرپا اثرات مرتب کیے۔ مثال کے طور پر پانی تختہ تکنیک سہنے والے آج بھی نہا نہیں پاتے کیونکہ انہیں لگتا ہے، وہ ڈوب رہے ہیں۔ بعض تو پانی کے اندر اترنے سے ڈرتے ہیں۔سیکڑوں قیدیوں پر بے رحمانہ تشدد ایک ایسے ملک کی خفیہ ایجنسی نے کیا جس کے حکمران انسانی حقوق، جمہوریت اور آزادی کی ترویج کرتے ہیں ۔ یہ امر مسلم قیدیوں پر ٹارچر کی لرزہ خیز داستانوں کو مزید المناک بنا دیتا ہے۔
اگر یہ تشدد چنگیزخان، اسٹالن یا ہٹلر کی خفیہ ایجنسیاں انجام دیتیں، تو شاید اتنی زیادہ تکلیف نہ ہوتی۔ مگر ابرہام لنکن، تھامس جیفرسن اور جارج واشنگٹن جیسے انسان دوست اور اعلیٰ مدبروں کے دیس سے تعلق رکھنے والے حکمران طبقے نے انتقام کی آگ میں جلتے ہوئے قیدیوں سے جو وحشیانہ سلوک کیا، اسے دیکھتے ہوئے نیکی و خیر پر ایمان متزلزل ہوتا ہے اور بدی و شر جیتتا دکھائی دیتا ہے ۔
یہ امر ملحوظ رہے، جب امریکا میں ڈیموکریٹک راہنما برسراقتدار آئے، تو انہوں نے سی آئی اے کے ٹارچر پروگرام کی تفتیش شروع کرائی۔ ممکن ہے، ڈیموکریٹک پارٹی کی نیت یہ ہوکہ یوں مادرپدر آزاد سی آئی اے کو اخلاقیات، قانون اور آئین کے دائرے میں لایا جائے۔ تاہم یہ تمنا بھی ہوگی کہ اس تفتیش سے ری پبلیکن پارٹی کو بدنام کیا جاسکے۔
جب سینٹ انٹیلی جنس کمیٹی کی رپورٹ سامنے آئی، تو امریکا میں انسانی حقوق سے متعلق تنظیموں نے خاصا شور مچایا۔ بش حکومت اور سی آئی اے شدید تنقید کا نشانہ بنے۔ دیکھنا یہ ہے کہ امریکی حکمران طبقہ اور سی آئی اے اس تفتیشی رپورٹ سے کیا سبق سیکھتے ہیں؟کیا وہ بدستور اپنے استعماری عزائم اور ''ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس'' کو جاری رکھیں گے یا دنیا میں بھائی چارے، خیر و فلاح اور آزادی کے نیک جذبات و نظریات کو فروغ دیں گے جس کی تمنا بانیانِ امریکا نے کی تھی!
اسلامی ممالک میں احتجاج
سی آئی اے کے ٹارچر پروگرام کی رپورٹ سامنے آئی، تو امریکا و یورپ میں ہر باشعور مرد و زن نے امریکی خفیہ ایجنسی اور سابق حکمرانوں پر لعن و طعن کی اور غیر انسانی رویّہ اپنانے پر گناہ گار ٹھہرایا۔ لیکن امریکی دانشور اسی امر پر حیران ہیں کہ رپورٹ پر عالم اسلام میں کوئی زیادہ ہنگامہ نہیں مچا اور نہ ہی اس کے خلاف جلوس نکالے گئے۔
امریکی خفیہ ایجنسیوں نے اپنی حکومت کو خبردار کیا تھا کہ درج بالا رپورٹ شائع ہوئی تو اسلامی ممالک میں وسیع پیمانے پر امریکا کے خلاف احتجاج ہوسکتا ہے۔ اسی لیے رپورٹ طویل عرصہ روکے رکھی گئی۔ ایجنسیوں نے یہ انتباہ بھی کیا کہ اس کی اشاعت سے خصوصاً اسلامی ممالک میں تعینات یا رہتے بستے امریکیوں کی جانیں خطرے میں پڑسکتی ہیں۔
ماہرین سیاسیات کی رو سے عالم اسلام میں سی آئی اے ٹارچر سیکنڈل آنے کے بعد اول اس لیے احتجاج نہیں ہوا کہ رپورٹ کے بعض لرزہ خیز انکشافات رہا ہونے والے قیدیوں کی زبانی پہلے ہی منظر عام پر آچکے۔ دوم کئی اسلامی ممالک میں حکومتیں بھی مخالفین کچلنے کے واسطے تشدد کے طریقے اپناتی ہیں۔ اس لیے اسلامی میڈیا نے رپورٹ کو کم ہی نمایاں کیا،حالانکہ اس میں کئی انکشافات نئے اور سنسنی خیز ہیں۔
سوم عالم اسلام میں شدت پسندی کے باعث کئی جہادی تنظیمیں پہلے کی طرح مقبول و معروف نہیں رہیں۔ اس شدت پسندی نے کئی اسلامی ممالک میں خانہ جنگی کو جنم دیا۔ تنظیموں کے رہنما اپنے ہی ہم وطنوں کو واجب القتل قرار دینے لگے کیونکہ وہ ان کے نظریات ماننے سے انکاری تھے۔ لہٰذا اس عجوبے کے باعث بھی مسلمانوں نے سی آئی اے ٹارچر سیکنڈل پر زیادہ توجہ نہیں دی۔
امریکی میڈیا کے مطابق سی آئی اے کے ٹارچر پروگرام میں کئی اسلامی ممالک بھی اس کے شریک کار رہے۔ ان ملکوں کی حکومتوں نے مشکوک مردوزن گرفتار کرکے سی آئی اے کے حوالے کیے۔ نیز وہاں امریکی خفیہ ایجنسی نے خفیہ سیل یا تفتیشی مراکز بھی کھولے۔ ان ممالک میں انڈونیشیا، ملائشیا، پاکستان، افغانستان، سعودی عرب، ایران، ازبکستان، ترکی، متحدہ عرب امارات، یمن، مصر، لیبیا، الجزائر، مراکش، موریطانیہ، عراق اور شام شامل ہیں۔ اپنے ہی ہم وطنوں کو امریکیوں کے حوالے کردینے پر کئی اسلامی حکومتوں کے خلاف احتجاج بھی ہوا۔
دوسری طرف امریکا میں انسانی حقوق کی تنظیمیں مطالبہ کررہی ہیں کہ سی آئی اے کے جن سابق و حاضر اہل کاروں نے مسلمان قیدیوں پر ظلم و ستم ڈھائے، انہیں قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔ وہ چاہتی ہیں کہ مجرموں کو کڑی سزا دی جائے تاکہ آئندہ کوئی امریکی خفیہ ایجنسی قیدیوں سے غیر انسانی اور وحشیانہ سلوک کرنے کی جرات نہ کر سکے۔
٭٭
16دسمبر کی صبح پشاور کے ایک اسکول میں شدت پسندوں نے زندگی سے بھرپور معصوم،مسکراتے،ہمکتے ،چمکتے ،دمکتے پھولوں کی پتیاں جس وحشیانہ طریقے سے نوچیں ،اسے دیکھ کر سبھی حساس انسانوں کے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور وہ تھّرا اٹھے۔یہ شدت پسند بزعم خود جو جنگ لڑ رہے ہیں،وہ بالکل معکوس سمت اختیار کر چکی...اب غاصب نہیں اپنے ہی ہم وطن اس کا نشانہ ہیں۔ستم یہ کہ شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ سے رہنے والے نہیں عام پاکستانیوں کے باپ،بیٹے،بھائی اور بچے اس جنگ کے شعلوں کی نذر ہوئے۔
یہ کیسی خوفناک جنگ ہے جو پڑوسیوں اور ہم وطنوں سے محبت نہیں دشمنی کرنا سکھاتی ہے!اس احمقانہ جنگ کا کوئی انت ہے یا نہیں؟ایک عاقل کہتا ہے:''بے وقوفی اور ذہانت کے درمیان بنیادی فرق یہ ہے کہ اول الذکر کوئی حد نہیں رکھتی۔''
بنی نوع انسان کا المیّہ ہے کہ ہر جنگ کی سفاکی،وحشت اور بربریت اسے تلخ نتائج دیتی ہے۔انسان اعادہ کرتا ہے کہ اب جنگوں کا ایندھن نہیں بنے گا...لیکن جلد ہی دوسروں سے الجھ کر پھر جنگ کے الاؤ میں جا گھستا ہے۔اس ہولناک حماقت سے دنیا کی کوئی قوم نہیں بچ سکی،حتی کہ خود کو انسانی حقوق،آزادی اور جمہوریت کے چیمپئن کہنے والے امریکی بھی نہیں!
پچھلے دنوں امریکی ارکان ِسینٹ کی تحقیق سے یہ روح فرسا انکشاف ہوا کہ حادثہ 9/11کے بعد تب کی بش حکومت نے اپنی خفیہ ایجنسی،سی آئی اے کو یہ کھلی چھٹی دے دی کہ وہ خصوصاً اسلامی ممالک میں جس مسلمان کو دہشت گرد سمجھے،اسے اغوا کر ے یا دوسروں کی مدد سے کروا ڈالے۔ یہی نہیں،القاعدہ کے ''راز''جاننے کی خاطر اس پہ تشدد کے متنوع طریقے آزمانے کا لائسنس بھی اسے مل گیا۔
اس ننگی آزادی نے افسرانِ سی آئی اے کو شتر بے مہار بنا ڈالا۔ممتاز امریکی ادیبہ،میری میکارتھی کا قول ہے:''انسان جب تشدد پہ اتر آئے،تو بھول جاتا ہے کہ وہ کیا ہے۔''چناں چہ انتقام کی آگ میں جلتے ہوئے امریکی بھی بھول گئے کہ وہ اقوام عالم میں اعلیٰ انسانی واخلاقی اقدار کے علمبردار ہیں۔سی آئی اے نے مسلم قیدیوں پہ جو مظالم ڈھائے،ان کا ایک نمونہ ملاحظہ فرمائیے۔
٭٭
رحیم جبولی اب شاذ ہی گھر سے باہر نکلتا ہے کیونکہ اسے دنیا والوں پر اعتبار نہیں رہا۔ اگر کسی ضروری کام سے باہر نکلنا بھی پڑے' تو وہ زیادہ سے زیادہ وقت پُر ہجوم جگہوں پر گزارتا ہے۔ مدعا یہ ہے کہ اگر اس کے اغوا کنندہ دوبارہ چھاپہ ماریں' تو کم از کم اس سانحے کے گواہ تو موجود ہوں۔ ان اغوا کاروں نے اسے ایسے بے رحم اور ظالمانہ تشدد کا نشانہ بنایا تھا کہ دس سال بیت جانے کے بعد وہ اپنی اذیت و تکلیف نہیں بھول سکا۔
گھر سے نکلتے ہی قدم قدم پر رحیم جبولی کو ایسے مناظر دکھائی دیتے ہیں کہ اسے اپنی اسیری کا انتہائی تلخ زمانہ یاد آ جاتا ہے۔ سڑک پر کوئی سیاہ وین نمودار ہو' تو وہ بچے کی طرح ڈر جاتا ہے۔ اُسے لگتا ہے کہ اغوا کار پھر آ پہنچے۔تالاب کے تو وہ نزدیک نہیں پھٹکتا کہ پانی دہشت کی علامت بن چکا۔گھر میں بھی رحیم زیادہ وقت اپنے کمرے کی تنہائی میں گزارتا ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ کوئی اسے ڈراؤنے خوابوں سے خوفزدہ یا چوری چھپے روتے دیکھے۔ اپنی جسمانی و ذہنی حالت زار دیکھتے ہوئے اسے خوف ہے کہ وہ کبھی شادی کر کے بیوی بچوں کا پیار حاصل نہیں کر سکے گا۔
الجزائر کا باشندہ' رحیم جبولی سی آئی اے کے مظالم کا شکار ہے جس نے اس مسلم نوجوان کی زندگی تباہ کر ڈالی اور اسے خوشیوں و مسّرتوں سے دور کر دیا۔ دس سال قبل امریکی ایجنٹوں نے ''دہشت گرد'' قرار دے کر اسے اغوا کیا۔ وہ اسے وسطی افریقا میں واقع اپنے خفیہ مرکز لے گئے۔ رحیم جبولی اس خفیہ سیل میں سات ماہ قید رہا۔ اور یہ عرصہ اس نے ارضی جہنم میں رہتے ہوئے گزارا۔
اس خفیہ مرکز میں تعینات امریکی ایجنٹوں کا پسندیدہ آلہِ تشدد ''دباؤ ہیئت'' (stress position) تھا۔ وہ قیدی کو لٹاتے' اس کی ٹانگیں موڑتے اور پھر گردن سے لے کر ٹخنوں تک رسی یا زنجیر سے کس کر باندھ دیتے۔ اسی ہئیت میں آ کر چند ہی منٹ بعد انسان اتنی شدید تکلیف محسوس کرتا کہ بمشکل سانس لے کر زندہ رہتا ہے۔ رحیم آنسو بھری نگاہیں لیے دلگیر آواز میں بتاتا ہے:
''ایسی اذیت ناک کیفیت میں انسان خود کو دوسرے کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے۔ وہ خود کوئی فیصلہ کرنے کی حیثیت نہیں رکھتا۔ اب جو دوسرا چاہے ' وہی ہوتا ہے۔''
رحیم جبولی کی داستان الم کا آغاز 17 ستمبر 2001ء کو ہوا۔ اسی دن ورلڈ ٹریڈ سینٹر منہدم ہوئے چھ دن گزر چکے تھے۔ مغربی میڈیا غل مچا رہا تھا کہ امریکی طاقت کی نشانی پہ یہ حملہ القاعدہ نے کیا ہے۔ چنانچہ اسی دن امریکی صدر جارج بش نے ایک خفیہ صدارتی حکم نامے کے ذریعے سی آئی اے کو یہ اختیار دے دیا کہ وہ پوری دنیا میں جس انسان کو بھی ''دہشت گرد'' سمجھیں' اسے بہ غرض تفتیش اغوا کر لیں۔
یوں سی آئی اے کے ایجنٹوں کو خصوصاً اسلامی ممالک میں مشکوک افراد کی پکڑ دھکڑ کرنے کی اجازت مل گئی۔ اور یہ مشکوک مسلمان کون تھے؟ وہ مسلم جو مغربی استعمار کے خلاف نبرد آزما ہوئے اور غاصب قوتوں (اسرائیل' بھارت' روس'امریکا، سربیا' فلپائن' برما) کا شکار مسلمانوں کو بذریعہ مسلح جدوجہد بچانا چاہتے تھے۔
سی آئی اے نے پھر افغانستان ' پاکستان ' یمن اور دیگر اسلامی ممالک سے کم از کم تین ہزار مسلمان ''دہشت گرد'' قرار دے کر پکڑ لیے۔ اُدھر مغربی میڈیا اسلام اور دہشت گردی کو ہم مترادف قرار دینے لگا۔ وہ بھول گیا کہ بیسویں صدی میں جہادی تنظیموں کا قیام اس ظلم و ستم کا فطری رد عمل تھا جو یورپی استعماری و نو آبادیاتی طاقتیں پچھلے دو سو برس سے عالم اسلام میں ... انڈونیشیا سے لے کر موریطانیہ اور نائیجیریا تک مسلمانوں پر ڈھا رہی تھیں۔ حتیٰ کہ اسلامی ممالک آزاد ہوئے پھر بھی سازشوں اور کٹھ پتلی حکمرانوں کی وساطت سے سابق یورپی آقاؤں نے وہاں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھا۔
امریکا کی اعلیٰ ترین قیادت سے لے کر سی آئی اے کے عام ایجنٹوں تک' سبھی کو یقین تھا کہ القاعدہ مزید حملے کرنے کاارادہ رکھتی ہے۔ چناں چہ امریکی صدر نے سی آئی اے کو مسلم قیدیوں پر تشدد کرنے کی اجازت دے دی۔ مدعا یہ تھاکہ ان سے آنے والے منصوبوں' ساتھیوں اور تربیتی کیمپوں کے متعلق معلومات اگلوائی جائیں۔
سی آئی اے نے 1965ء تا 1972ء ویت نام میں ''فونکس پروگرام''(Phoenix Program) منصوبے کے تحت ویت نامی گوریلوں پر تشدد کے لرزہ خیز طریقے اپنائے تھے۔ لیکن تشدد کے ذریعے امریکیوں کو بہت کم معلومات حاصل ہو سکیں۔ چنانچہ سی آئی اے کے بڑوں نے یہی نتیجہ اخذ کیا: اول ٹارچر سے زیادہ معلومات نہیں ملتیں' دوم جو ملیں بھی' ان میں سے بیشتر غلط ہوتی ہیں۔ اس نتیجے کی روشنی میں آئندہ قیدیوں پر تشدد کرنے کی پالیسی ترک کر دی گئی۔ اس ضمن میں راہنما اصول بھی بنائے گئے۔
لیکن بعد از واقعہ 9/11 ستمبر امریکی حکومت پر قومی سلامتی (نیشنل سکیورٹی) کا بُھوت سوار ہو گیا۔ چنانچہ اپنے ذاتی تحفظ کی خاطر اپنائے جانے والے تمام جائز و ناجائز حربے درست قرار پائے۔ یہ فرض کر لیا گیا کہ امریکا کی سلامتی شدید خطرے میں ہے۔ امریکی عوام پر یہ بھی خوف سوار کرا یا گیا۔ ایسے پُرتناؤ ماحول میں قیدیوں سے ''راز'' اگلوانے کی خاطر تشدد دوبارہ سی آئی اے کے ایجنٹوں کا من پسند وتیرہ بن گیا اور اس سلسلے میں انہیں بش حکومت کی آشیر باد حاصل تھی۔
سی آئی اے نے تو سب سے پہلے مختلف ممالک ... افغانستان' تھائی لینڈ' پولینڈ' رومانیہ' لیتھونیا وغیرہ میں خفیہ تفتیشی مراکز قائم کیے۔ ''دہشت گردوں'' سے وہیں چھان بین کی گئی اور اس دوران ان پر جسمانی و ذہنی تشدد کے مختلف طریقے آزمائے گئے۔اس بار سی آئی اے نے یہ جدت اپنائی کہ کلینکل سائیکولوجسٹوں کی زیر نگرانی اپنا ٹارچر پروگرام شروع کیا۔ کلینیکل سائیکلولوجسٹ (clinical psychologist) وہ ماہر نفسیات ہے جو ادویہ اور طبی طریقوں کے ذریعے نفسیاتی امراض کنٹرول کرتا ہے۔ لیکن سی آئی اے نے قیدیوں کو نفسیاتی طور پر تندرست رکھنے کی خاطر ان کی خدمات حاصل نہیں کیں... بلکہ وہ کلینیکل سائیکلولوجسٹوں کے ذریعے قیدیوں کا دماغ کنٹرول کرنا چاہتے تھے۔
ان کلینیکل سائیکولوجسٹوں کے سربراہ جیمز مچل(James Mitchell) اور بروس جیسن ( Bruce Jessen)تھے۔ انہوںنے مسلمان قیدیوں میں صبر و برداشت کا مادہ ختم کرنے اور انہیں ذہنی طور پر اضمحلال اور پژمردگی کا شکار بنانے کے لیے ٹارچر کے مختلف جسمانی و ذہنی طریقے ایجاد کیے۔ مدعا یہ تھا کہ انہیں جسمانی و ذہنی طور پر تباہ کر دیا جائے تاکہ نیم مردہ انسانی ڈھانچے سے پھر ''راز'' برآمد ہو سکیں۔اس خدمت کے معاوضے میں دونوں نے ''80ملین ڈالر''(آٹھ ارب روپے)سے زیادہ رقم پائی اور اب وہ شاہانہ زندگی گذار رہے ہیں۔
سی آئی اے نے کلینیکل سائیکولوجسٹوں سے معاہدہ کیا کہ مستقبل میں انسانی حقوق کی کسی امریکی تنظیم نے ان پر مقدمہ کر ڈالا تو سی آئی اے مقدمے کا تمام خرچہ و ہرجہ برداشت کرے گی۔ امریکی کلینکل سائیکولوجسٹوں کو ایک اور سنگین مسئلہ بھی درپیش تھا۔ اگر مستقبل میں ثابت ہوتا کہ وہ سی آئی اے کے ٹارچر منصوبے کا حصہ رہے، تو ان کے لائسنس منسوخ ہوجاتے۔ تب وہ امریکا بھر میں پریکٹس نہیں کرپاتے۔ یوں ان کا کیریئر تباہ ہوجاتا۔
چناں چہ بش حکومت اور سی آئی اے نے دنیا میں ماہرین نفسیات کی سب سے بڑی بین الاقوامی تنظیم ''امریکن سائیکولوجیکل ایسوسی ایشن'' پر زور ڈالا کہ وہ اخلاقی اصولوں کی اپنی پالیسی میں ایسی تبدیلی لائے کہ کلینکل سائیکولوجسٹ بلا خوف و خطر سی آئی اے کے ٹارچر پروگرام میں شریک ہوسکیں۔
جب واقعہ 9/11 کے بعد سی آئی اے نے اسلامی ممالک سے مشکوک افراد کی پکڑ دھکڑ شروع کی، تو انہیں بغرض تفتیش مختلف ممالک میں قائم اپنے خفیہ مراکز میں رکھا۔ ان میں''سالٹ پٹ'' (Salt Pit) نامی مرکز کو زیادہ شہرت ملی جسے سینٹ انٹیلی جنس رپورٹ میں ''کوبالٹ'' (COBALT) کا نام دیا گیا۔ یہ تفتیشی مرکز افغانستان میں امریکا کے سب سے بڑے فوجی اڈے، بگرام میں زیر زمین واقع تھا۔ دی سالٹ پٹ اور دیگر تفتیشی مراکز میں سی آئی اے نے قیدیوں پر تشدد کے جو طریقے اپنائے، ان کا تذکرہ درج ذیل ہے۔
(1) منجمند کرکے مارنا:۔
2002ء میں افغانستان پر حملے کے دوران امریکیوں نے گل رحمان نامی افغان کو گرفتار کیا۔ یہ افغان رہنما، گلبدین حکمت یار کے ساتھیوں میں سے تھے۔ گل رحمان اپنی ناجائز گرفتاری پر برافروختہ تھے، چناں چہ انہوں نے بہت شورو غل مچایا۔ اس پر سی آئی اے کے اہل کاروں نے انہیں مارا پیٹا۔
سی آئی اے پھر گل رحمان کو ''دی سالٹ پٹ'' میں لے گئی۔ وہاں ایک تفتیشی افسر نے انہیں نیم برہنہ کیا اور دیوار کے ساتھ اس طور سے باندھا کہ وہ ننگے فرش پر لیٹنے پر مجبور ہوں۔ نومبر کا مہینہ تھا۔ رات کو درجہ حرارت نقطہ انجماد تک پہنچ جاتا۔ چناں چہ گل رحمان رات کو شدید سردی کے باعث چل بسے۔ ان کی دلدوز چیخوں اور اذیت بھری دہائی پر کسی امریکی نے توجہ نہ دی۔
حیرانی کی بات یہ ہے کہ جس افسر نے گل رحمان کو برہنہ کرکے ٹھنڈے فرش پر لٹایا، اسے کوئی سزا نہیں ملی بلکہ چار برس بعد ''اعلیٰ کارکردگی'' انجام دینے پر اسے ڈھائی ہزار ڈالر کے نقد انعام سے نوازا گیا۔ یوں بے حسی اور شقاوت کی انتہا کردی گئی!
(2) مقعد سے کھانا کھلانا:۔
جب انسان کسی بھی وجہ سے بذریعہ منہ کھانا کھانے کے قابل نہ رہے، تو ماضی میں رواج تھا، اسے رقیق غذا بذریعہ مقعد دی جاتی تھی۔ خیال ہے کہ انسانی جسم تک غذا پہنچانے کا یہ طریقہ یونانی حکیم، جالینوس نے ایجاد کیا۔ مگر سی آئی اے کے جالینوسوں نے اسے ٹارچر کا طریقہ بنالیا۔
سینٹ رپورٹ کے مطابق سی آئی اے نے کم ازکم پانچ قیدیوں کو بذریعہ مقعد کھانا کھلایا۔ بظاہر یہ توجیہہ پیش کی گئی کہ قیدی کھانا نہیں کھارہے۔ لہٰذا انہیں زبردستی غیر فطری طریقے سے غذا دی گئی تاکہ وہ زندہ رہیں لیکن اصل وجہ کچھ اور تھی۔
رپورٹ کی رو سے سی آئی اے تفتیشی مرکز کے کرتا دھرتا قیدیوں کو بذریعہ مقعد کھانا کھلا کر انہیں جتانا چاہتے تھے کہ وہ مجبور و مقہور ہیں جبکہ افسر مالک و مختار...!!! یہی افسر تمام قیدیوں پر ''مکمل کنٹرول'' رکھتے ہیں اور ان کے ساتھ جیسا مرضی سلوک کریں۔ ایک افسر کے مطابق: ''اس تکنیک سے قیدی کی شخصیت و انا ٹوٹ پھوٹ جاتی ہے'' اسی لیے طاقتور خود اعتمادی رکھنے والے قیدیوں کو بطور تشدد مقعد سے غذا کھلائی گئی۔
سی آئی اے کے ایک تفتیش کار نے ارکان انٹیلی جنس کمیٹی کو بتایا :''ہم نے سعودی عرب کے قیدی عبدالرحمن النشیری کو گھٹنوں کے بل (کتے کی طرح) کھڑا کیا۔ پھر اس کا سر مزید جھکایا گیا۔ پھر اس کے مقعد میں رقیق غذا ڈالی گئی۔''
ظلم کے اس مظاہرے سے بمطابق رپورٹ کم از کم ایک قیدی مرض سوزش ِمقعد( chronic hemorrhoids )میں مبتلا ہوگیا۔ وجہ یہ کہ اس کے مقعد کی نالی شدید دباؤ کو برداشت نہ کرسکی اور سوزش زدہ ہوگئی۔ وہ پھر کئی دن اذیت ناک لمحات سے گزرا اور بے چارے کا علاج ہوتا رہا۔
(3) پانی تختہ:۔
ٹارچر کی یہ تکنیک تو سی آئی اے کی مرغوب ترین رہی۔ تفتیش کاروں نے اسے القاعدہ رہنما،خالد شیخ محمد پر ''183'' بار اور ابوزبیدہ پر ''83'' بار آزمایا۔ حالانکہ یہ طریق عام خیال کے برعکس نقصان دہ ہے۔ سانس رکنے سے انسان موت کے قریب پہنچ سکتا ہے۔
پانی کے ذریعے تشدد کرنا بھی ایک قدیم طریقہ ہے۔ اسے سب سے پہلے چینیوں اور پھر ہسپانویوں نے اندلسی مسلمانوں کو ٹارچر کا نشانہ بناتے ہوئے اپنایا۔ اس کی مختلف اقسام ہیں۔ مثلاً قیدی کو باندھ کر منہ میں مسلسل پانی ڈالنا حتیٰ کہ پیٹ پھول جاتا ہے یا پھر پانی تختہ۔ اس میں قیدی کو تختے پر لٹا کر منہ پر کپڑا رکھ کر پانی ڈالا جاتا ہے۔ یوں انسان کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ ڈوب رہا ہے۔
(4) مسلسل جگائے رکھنا:۔
یہ بھی ٹارچر کا معروف گُر ہے جسے افسران سی آئی اے نے سیکڑوں قیدیوں پر آزمایا۔ یہی نہیں، اس طریق کار میں انہوں نے جدت بھی کر ڈالی۔ سینٹ انٹیلی جنس کمیٹی میں درج ہے:
''تفتیشی مراکز میں قیدیوں کو زبردستی 180 گھنٹے تک بیدار رکھا جاتا۔ عموماً قیدی تادیر کھڑے رکھے جاتے۔ تب ان کے ہاتھ گردن سے بندھے ہوتے۔ اس دوران قیدیوں کو جگائے رکھنے کی خاطر مختلف تدابیر اختیار کی جاتیں۔ مثلاً آنکھوں پر تیز روشنی مارنا۔''
سی آئی اے نے کئی قیدی زخمی حالت میں پکڑے تھے اور ان کے پیر یا ٹانگیں مضروب تھیں۔ مگر زخموں کی پروا کیے بغیر ظالموں نے ان قیدیوںکو کھڑے رکھا۔ نتیجتاً بعدازاں ان کے زخم بگڑگئے۔
(5) اہل خانہ کو دھمکیاں:۔
قیدیوں سے ''راز'' اگلوانے کی خاطر انہیں مختلف دھمکیاں بھی دی گئیں۔ مثلاً عبدالرحمن النشیری کو دھمکی ملی کہ اگر زبان نہ کھولی، تو تمہاری ماں کو یہاں لاکر تمہارے سامنے اس کی بے حرمتی کی جائیگی۔
اسی طرح افسران سی آئی اے نے دیگر قیدیوں کو دھمکی دی کہ اگر منہ یونہی بند رکھا، تو ''تمہارے اہل خانہ کی خیر نہیں۔'' جب خالد شیخ محمد سے تفتیش ہوئی،تودانستہ ان کے بیوی بچوں کی تصویر سامنے لٹکائی گئی تاکہ وہ جذباتی ہوکر حوصلہ ہار بیٹھیں۔
سینٹ رپورٹ ایک نظر میں
20 جنوری 2008ء کو ڈیموکریٹک صدر، بارک اوباما نے امریکا کا اقتدار سنبھالا۔ صرف ایک دن بعد انہوں نے ایگزیکٹیو آرڈر جاری کرکے سی آئی اے کو قیدی زیر حراست رکھنے اور اسے ٹارچر کرنے سے روک دیا۔ پھر 22 فروری کو سینٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی نے سی آئی اے کے ٹارچر پروگرام کی تفتیش کا آغاز کیا۔یہ انٹیلی جنس کمیٹی 1976ء میں وجود میں آئی۔ اس کا کام امریکی خفیہ ایجنسیوں اور اداروں کی سرگرمیوں اور کارکردگی پر نظر رکھنا ہے۔ سینٹ کے 15 ارکان اس کے رکن ہوتے ہیں۔
انٹیلی جنس کمیٹی کے ارکان پھر پانچ برس تک سی آئی اے ٹارچر پروگرام کی تفتیش کرتے رہے۔ آخر میں جو رپورٹ تیار ہوئی، وہ ''6000'' ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔ اس رپورٹ کا خلاصا 525 صفحات کی رپورٹ میں شائع کیا گیا۔ اس تفتیش پر کل 40 ملین ڈالر (چار ارب روپے) خرچ ہوئے۔
525 صفحات کی رپورٹ میں ٹارچر پروگرام سے متعلق صرف بنیادی باتیں درج ہیں ورنہ بیشتر تفصیل امریکی حکومت نے کلاسیفائیڈ یعنی خفیہ رکھی۔ بہرحال یہ رپورٹ بھی افشا کرتی ہے کہ سی آئی اے نے قیدیوں پر کیونکر تشدد کیا۔ خاص بات یہ کہ سی آئی اے کے افسروں نے حکومت اور میڈیا کو ٹارچر پروگرام سے متعلق جھوٹی خبریں دیں۔ مدعا یہی تھا کہ ان کے جرائم پوشیدہ رہیں۔بش حکومت کے وزیروں اور مشیروں کا یہی دعویٰ ہے کہ ٹارچر کی بدولت قیدیوں سے القاعدہ رہنماؤں کے بارے میں اہم معلومات حاصل ہوئیں۔ مگر انٹیلی جنس کمیٹی کی رپورٹ اس امر کو جھٹلاتی ہے۔ عالمی میڈیا کی رو سے یہ رپورٹ عیاں کرتی ہے: ''تشدد، انتہا پسندی اور ہر امر کو خفیہ رکھنا امریکی سکیورٹی نظام کی خصوصیات بن چکیں۔
تشدد کے طریقے جو اپنائے گئے
اس امر سے اندازہ ہوتا ہے کہ بش حکومت اور سی آئی اے قومی سلامتی کے نام پر کئی بار قانون و اخلاقیات کی خلاف ورزی کرتے رہے۔
جب جیمز مچل اور بروس جیسن سمیت تمام کلینیکل سائیکولوجسٹوں کا خوف دور ہوگیا، تو وہ باہم غور و فکر کرکے ایسے طریقے بنانے لگے جنہیں ٹارچر پروگرام میں استعمال کیا جاسکے۔ ان کے ایجاد کردہ طریقوں میں ''خود آگاہ بیچارگی'' (learned helplessness) بہت مشہور ہوا۔
نفسیاتی ٹارچر کے اس طریق کار میں انسان کی خود اعتمادی ریزہ ریزہ کردی جاتی ہے تاکہ وہ نفسیاتی و جذباتی طور پر اپنا دفاع کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہے۔جو انسان خود آگاہ بیچارگی نفسیاتی ٹارچر سے گزرے، اسے تندرست ہونے میں کئی برس لگ جاتے ہیں۔ عموماً وہ مکمل طور پر صحت یاب نہیں ہوتا اور غیر فطری حرکات کرتا رہتا ہے۔ المیّہ یہ ہے کہ دنیا والے ان کی اذیت و تکلیف کو کم ہی جان پاتے ہیں۔
یہی دیکھیے کہ سی آئی اے کے ٹارچر پروگرام کی تفصیل عیاں ہونے میں بارہ برس لگ گئے۔ یہ تفصیل سامنے آئی، تو صدر اوباما سے لے کر امریکی حکومت کے تمام عہدے دار یہ کہنے لگے کہ ماضی میں جو غلطیاں ہوئیں، انہیں بھول جانا چاہیے۔ لیکن جو سیکڑوں مسلمان قیدی نفسیاتی و جسمانی ٹارچر کی تکلیف و مصائب سے گزرے، کیا وہ اس ہولناک وقت کو بھول سکتے ہیں؟ ایک امریکی نفسیات داں اور ریٹائرڈ بریگیڈیئر، سٹیفن زینکاس اعتراف کرتا ہے:'' ٹارچر سے گزرنے والے ساری عمر مختلف ذہنی و جسمانی بیماریوں میں مبتلا رہتے ہیں اور ان کی زندگی جہنم کے مانند ہی گزرتی ہے۔''
خود آگاہ بیچارگی کی اصلاح امریکی نفسیات داں، مارٹن سیلگمان کی تخلیق ہے۔ اس نے دوران تجربات دیکھا کہ جب کتوں کو بجلی کے جھٹکے دیئے جائیں تو طویل عرصے کے لیے ان کے رویّوں میں غیر معمولی تبدیلی آجاتی ہے۔ وہ نئی باتیں نہیں سیکھ پاتے اور شدید ذہنی دباؤ میں گرفتار رہتے ہیں۔ اسی کیفیت کو سیلگمان نے خود آگاہ بیچارگی کا نام دیا۔
امریکی سینٹ انٹیلی جنس کمیٹی کی رپورٹ میں درج ہے کہ جب قیدیوں پر خود آگاہی بیچارگی تکنیک آزمائی گئی، تو انہوں نے کیسے ردعمل کا مظاہرہ کیا۔ جب ان کی کوٹھریوں کا دروازہ کھلتا، تو وہ خوفزدہ ہوکر جھک جاتے۔ سی آئی اے کے تفتیش کار بعدازاں اپنے ساتھیوں کو بتاتے ''وہ ہمارے سامنے بالکل کتے لگتے ہیں۔''
سعودی عرب کا شہری، عبدالرحیم النشیری تفتیش کاروں کو دیکھتے ہی لرزنے اور کانپنے لگتا۔ یہ مسلم نوجوان ''پانی تختہ''(Waterboarding) کے ٹارچر سے بھی گزرا۔ اسے بولنے پر مجبور کرنے کی خاطر دھمکی دی گئی کہ اس کے جسم میں ڈرل سے سوراخ کیے جائیں گے۔ مدعا یہی تھا کہ اس میں بیچارگی کی مطلوبہ سطح پیدا کردی جائے۔
خود آگاہ بیچارگی تکنیک اپناتے ہوئے قیدی سے ذلت آمیز سلوک ہوتا ہے۔ اسے مختلف طریقوں سے ڈرایا جاتا ہے۔ مقصد یہ کہ اس کی شخصیت ٹوٹ پھوٹ جائے۔ ڈپریشن، احساس کمتری اور احساس محرومی اس تکنیک کی خصوصیات ہیں۔ حتیٰ کہ ٹارچر کا شکار انسان خود کو مجرم سمجھنے لگتا ہے۔ اس سطح پہ پہنچ کر انسان اپنی ساری خود اعتمادی کھو بیٹھتا ہے۔
ایک اور نتیجہ یہ ہے کہ انسان ہر وقت غصّے میں رہتا ہے۔ اسے ہر دم اپنی لاچاری اور نامردی کا احساس دق کرتا ہے۔ جرمن باشندہ، خالد مصری بے گناہ تھا مگر سی آئی اے نے اسے القاعدہ رہنما، خالد المصری کے دھوکے میں گرفتار کرلیا۔خالد مصری سے ''راز'' اگلوانے کے لیے اس پر نفسیاتی و جسمانی ٹارچر کی مختلف تکنیکیں آزمائی گئیں۔ حتیٰ کہ اس پر جنسی تشدد ہوا۔ آخر چار ماہ بعد انکشاف ہوا کہ وہ تو بے گناہ ہے۔ مگر شدید ٹارچر نے خالد مصری کو نفسیاتی مریض بنا دیا۔ چناں چہ اس نے 2007ء میں ایک جنرل سٹور کو آگ لگادی۔
سی آئی اے کے تفتیش کاروں نے ٹارچر کے جو مختلف طریقے اپنائے، سبھی نے قیدیوں پر دیرپا اثرات مرتب کیے۔ مثال کے طور پر پانی تختہ تکنیک سہنے والے آج بھی نہا نہیں پاتے کیونکہ انہیں لگتا ہے، وہ ڈوب رہے ہیں۔ بعض تو پانی کے اندر اترنے سے ڈرتے ہیں۔سیکڑوں قیدیوں پر بے رحمانہ تشدد ایک ایسے ملک کی خفیہ ایجنسی نے کیا جس کے حکمران انسانی حقوق، جمہوریت اور آزادی کی ترویج کرتے ہیں ۔ یہ امر مسلم قیدیوں پر ٹارچر کی لرزہ خیز داستانوں کو مزید المناک بنا دیتا ہے۔
اگر یہ تشدد چنگیزخان، اسٹالن یا ہٹلر کی خفیہ ایجنسیاں انجام دیتیں، تو شاید اتنی زیادہ تکلیف نہ ہوتی۔ مگر ابرہام لنکن، تھامس جیفرسن اور جارج واشنگٹن جیسے انسان دوست اور اعلیٰ مدبروں کے دیس سے تعلق رکھنے والے حکمران طبقے نے انتقام کی آگ میں جلتے ہوئے قیدیوں سے جو وحشیانہ سلوک کیا، اسے دیکھتے ہوئے نیکی و خیر پر ایمان متزلزل ہوتا ہے اور بدی و شر جیتتا دکھائی دیتا ہے ۔
یہ امر ملحوظ رہے، جب امریکا میں ڈیموکریٹک راہنما برسراقتدار آئے، تو انہوں نے سی آئی اے کے ٹارچر پروگرام کی تفتیش شروع کرائی۔ ممکن ہے، ڈیموکریٹک پارٹی کی نیت یہ ہوکہ یوں مادرپدر آزاد سی آئی اے کو اخلاقیات، قانون اور آئین کے دائرے میں لایا جائے۔ تاہم یہ تمنا بھی ہوگی کہ اس تفتیش سے ری پبلیکن پارٹی کو بدنام کیا جاسکے۔
جب سینٹ انٹیلی جنس کمیٹی کی رپورٹ سامنے آئی، تو امریکا میں انسانی حقوق سے متعلق تنظیموں نے خاصا شور مچایا۔ بش حکومت اور سی آئی اے شدید تنقید کا نشانہ بنے۔ دیکھنا یہ ہے کہ امریکی حکمران طبقہ اور سی آئی اے اس تفتیشی رپورٹ سے کیا سبق سیکھتے ہیں؟کیا وہ بدستور اپنے استعماری عزائم اور ''ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس'' کو جاری رکھیں گے یا دنیا میں بھائی چارے، خیر و فلاح اور آزادی کے نیک جذبات و نظریات کو فروغ دیں گے جس کی تمنا بانیانِ امریکا نے کی تھی!
اسلامی ممالک میں احتجاج
سی آئی اے کے ٹارچر پروگرام کی رپورٹ سامنے آئی، تو امریکا و یورپ میں ہر باشعور مرد و زن نے امریکی خفیہ ایجنسی اور سابق حکمرانوں پر لعن و طعن کی اور غیر انسانی رویّہ اپنانے پر گناہ گار ٹھہرایا۔ لیکن امریکی دانشور اسی امر پر حیران ہیں کہ رپورٹ پر عالم اسلام میں کوئی زیادہ ہنگامہ نہیں مچا اور نہ ہی اس کے خلاف جلوس نکالے گئے۔
امریکی خفیہ ایجنسیوں نے اپنی حکومت کو خبردار کیا تھا کہ درج بالا رپورٹ شائع ہوئی تو اسلامی ممالک میں وسیع پیمانے پر امریکا کے خلاف احتجاج ہوسکتا ہے۔ اسی لیے رپورٹ طویل عرصہ روکے رکھی گئی۔ ایجنسیوں نے یہ انتباہ بھی کیا کہ اس کی اشاعت سے خصوصاً اسلامی ممالک میں تعینات یا رہتے بستے امریکیوں کی جانیں خطرے میں پڑسکتی ہیں۔
ماہرین سیاسیات کی رو سے عالم اسلام میں سی آئی اے ٹارچر سیکنڈل آنے کے بعد اول اس لیے احتجاج نہیں ہوا کہ رپورٹ کے بعض لرزہ خیز انکشافات رہا ہونے والے قیدیوں کی زبانی پہلے ہی منظر عام پر آچکے۔ دوم کئی اسلامی ممالک میں حکومتیں بھی مخالفین کچلنے کے واسطے تشدد کے طریقے اپناتی ہیں۔ اس لیے اسلامی میڈیا نے رپورٹ کو کم ہی نمایاں کیا،حالانکہ اس میں کئی انکشافات نئے اور سنسنی خیز ہیں۔
سوم عالم اسلام میں شدت پسندی کے باعث کئی جہادی تنظیمیں پہلے کی طرح مقبول و معروف نہیں رہیں۔ اس شدت پسندی نے کئی اسلامی ممالک میں خانہ جنگی کو جنم دیا۔ تنظیموں کے رہنما اپنے ہی ہم وطنوں کو واجب القتل قرار دینے لگے کیونکہ وہ ان کے نظریات ماننے سے انکاری تھے۔ لہٰذا اس عجوبے کے باعث بھی مسلمانوں نے سی آئی اے ٹارچر سیکنڈل پر زیادہ توجہ نہیں دی۔
امریکی میڈیا کے مطابق سی آئی اے کے ٹارچر پروگرام میں کئی اسلامی ممالک بھی اس کے شریک کار رہے۔ ان ملکوں کی حکومتوں نے مشکوک مردوزن گرفتار کرکے سی آئی اے کے حوالے کیے۔ نیز وہاں امریکی خفیہ ایجنسی نے خفیہ سیل یا تفتیشی مراکز بھی کھولے۔ ان ممالک میں انڈونیشیا، ملائشیا، پاکستان، افغانستان، سعودی عرب، ایران، ازبکستان، ترکی، متحدہ عرب امارات، یمن، مصر، لیبیا، الجزائر، مراکش، موریطانیہ، عراق اور شام شامل ہیں۔ اپنے ہی ہم وطنوں کو امریکیوں کے حوالے کردینے پر کئی اسلامی حکومتوں کے خلاف احتجاج بھی ہوا۔
دوسری طرف امریکا میں انسانی حقوق کی تنظیمیں مطالبہ کررہی ہیں کہ سی آئی اے کے جن سابق و حاضر اہل کاروں نے مسلمان قیدیوں پر ظلم و ستم ڈھائے، انہیں قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔ وہ چاہتی ہیں کہ مجرموں کو کڑی سزا دی جائے تاکہ آئندہ کوئی امریکی خفیہ ایجنسی قیدیوں سے غیر انسانی اور وحشیانہ سلوک کرنے کی جرات نہ کر سکے۔