ماحولیاتی تحفظ عالمی ایجنڈے کا اہم مسئلہ

برف باری، گرمی، سردی، بارشیں، خشک سالیاں، سیلاب، طوفان یہ سب اپنی شدت پر پہنچتے نظر آتے ہیں۔

SUKKUR:
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی بھرپورتائید وحمایت کے ساتھ 1988 میں بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی (آئی پی سی سی ) کا قیام عمل میں آیا۔ یہ عالمی ادارہ سائنسی بنیادوں پر موسمیاتی تبدیلی کے سنگین اثرات اور مستقبل میں کرہ ارض کو لاحق شدید خطرات پر جائزہ رپورٹیں پیش کرتا ہے تاکہ عالمی پالیسی ساز رہنما ان رپورٹوں کی روشنی میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچانے کے لیے اپنا لائحہ عمل ترتیب دے سکیں۔

آئی پی سی سی کی پہلی جائزہ رپورٹ 1990، دوسری 1995، تیسری 2001 اور چوتھی جائزہ رپورٹ 2007 میں جاری کی گئی۔ ان جائزہ رپورٹوں میں پالیسی سازوں کو موسمیاتی تبدیلیوں کے بتدریج بڑھتے ہوئے خطرات سے آگاہ کیا جاتا رہا تاکہ حکومتیں گرین ہاؤس گیسوں میں کمی کریں اور دنیا کے مستقبل کو محفوظ بنایا جاسکے۔ افسوس ناک حقیقت یہ بھی ہے کہ اس تمام عرصے میں اس بات کا بھی خوب پرچار کیا گیا کہ موسمیاتی تبدیلیاں ایک مفروضہ ہیں اور ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بے شمار مضامین اور رپورٹیں ان مفروضوں کی تصدیق کے لیے جاری کی گئی۔

دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ ملکوں خصوصاً امریکا کا رویہ اس جانب انتہائی سرد مہری کا رہا تو دوسری جانب ترقی پزیر اور پسماندہ ملکوں نے بھی موسمیاتی تبدیلی کے خطرات کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ 2007 میں آئی پی سی سی کی جاری کردہ چوتھی جائزہ رپورٹ میں ''ابھرتے ہوئے'' یا ''پھیلاؤ کے ابتدائی مراحل میں'' جیسے الفاظ کے ساتھ موسمیاتی تبدیلی کے خطرات کو عالمی رہنماؤں کے سامنے رکھا گیا تاکہ وہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی کے لیے کوئی متفقہ لائحہ عمل ترتیب دیں۔ 2009 میں موسمیاتی تبدیلی پر ہونے والی عالمی موسمیاتی کانفرنس میں دنیا کے سب سے زیادہ سربراہان مملکت نے شرکت کی لیکن ترقی یافتہ اور امیر ملکوں کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے یہ کانفرنس ناکامی سے دوچار ہوئی اور موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے کوئی متفقہ لائحہ عمل دنیا کے سامنے نہیں آسکا۔

گزشتہ 13 ماہ کے دوران جاری کی گئی آئی پی سی سی کی پانچویں جائزہ رپورٹوں اور 2007ء میں جاری کی گئی چوتھی جائزہ رپورٹ تک، پلوں کے نیچے سے کافی پانی بہہ چکا ہے۔ دنیا کا کون سا ایسا خطہ ہے جہاں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات نے ناقابل تلافی نقصان نہیں پہنچایا۔ آئی پی سی سی کے چیئرمین راجندر کے پچوری کے الفاظ میں ''کرہ ارض پر کوئی ایسا نہیں جو ان تبدیلیوں سے محفوظ رہ پائے گا۔'' گزشتہ چند برسوں میں ان تبدیلیوں کے شدید مظاہر دنیا کے سامنے آچکے ہیں اور ان میں بتدریج اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

برف باری، گرمی، سردی، بارشیں، خشک سالیاں، سیلاب، طوفان یہ سب اپنی شدت پر پہنچتے نظر آتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ہونے والے جانی، مالی اور معاشی نقصانات میں سلسلے میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ 2010 میں آنے والی قدرتی آفات سے 235 بلین ڈالر کا نقصان ہوا واضح رہے کہ یہ نقصان 2009 کے مقابلے میں 3 گنا زیادہ تھا۔ 2013 میں 950 قدرتی آفات ریکارڈ کی گئی۔ جس میں یورپ میں آنے والے سیلاب سے انشورنس کمپنیوں کو 3.9 ارب ڈالر، آسٹریلیا کے جنگلات میں لگنے والی آگ سے 8 ارب ڈالر، سمندری طوفان سینڈی سے 65 ارب ڈالر کے علاوہ اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔

پانچویں جائزہ رپورٹ نے پچھلی چاروں جائزہ رپورٹوں کے مقابلے میں انتہائی سخت الفاظ میں عالمی پالیسی سازوں کو متنبہ کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی دنیا کو اقتصادی عدم استحکام اور سیکیورٹی کے شدید خطرات سے دوچار کردے گی اور ان خطرات سے کم ترقی یافتہ ممالک اور زد پذیر آبادیاں سب سے زیادہ متاثر ہوں گی۔ رپورٹ کے مطابق ''گرمی کی لہر تواتر کے ساتھ اور بڑے عرصے کے لیے برقرار رہے گی۔


موسلا دھار بارشیں زیادہ شدت کے ساتھ اور کئی خطوں میں زیادہ تواتر کے ساتھ ہوں گی، سمندر بدستور گرم اور ترش ہوں گے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ سمندروں کی سطح میں اضافہ ہوگا۔'' ''فصلوں کے پیداواری نظام کا تبدیل ہونا، ساحلی علاقوں میں سمندری طوفان، زمین پر آنے والے سیلاب بڑے شہروں کی تباہی سے دوچار کردیں گے، انتہائی شدید موسموں کے سبب بجلی کی فراہمی اور پانی کے بہاؤ میں رخنے پڑیں گے، خوراک اور پانی کی قلت کے باعث قوموں اور برادریوں کے درمیان تنازعات اور مسلح تصادم کے خطرات پیدا ہوں گے''۔یہ امر ایک حقیقت ہے کہ یہ تمام مظاہر دنیا کے سامنے آرہے ہیں اور ان میں بتدریج اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ اقوم متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کہتے ہیں کہ ''سائنس نے اپنی بات سامنے رکھ دی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے، اب لیڈروں کو کارروائی کرنی چاہیے ہمارے پاس بہت زیادہ وقت نہیں ہے۔''

اب یہ مفروضہ نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ کرہ ارض پر موجود ہر ذی روح ایک ایسی دنیا کا باسی ہے جہاں موسم اپنی شدت کو پہنچ رہے ہیں اور وہ اس کی قیمت ادا کرنے پر مجبور ہے۔ ترقی یافتہ اقوام نے پچھلی 3 صدیوں میں فطری نظاموں کو تہہ و بالا کر ڈالا ہے اور اس کی قیمت وہ خود اور ان کے عوام تو ادا کر ہی رہے ہیں لیکن دنیا کی غریب اور پسماندہ اقوام بھی اس کا بدترین شکار بن رہی ہیں۔ آج کی دنیا میں 40 ارب ٹن سالانہ کی اوسط سے کاربن کا اخراج کیا جارہا ہے 89 ملین بیرل روزانہ جلایا جارہا ہے، 87 فیصد عالمی توانائی فاصل فیول کے ذریعے حاصل کی جارہی ہے یاد رہے کہ کوئلہ اور گیس اس کے علاوہ ہے۔ عالمی سطح پر ڈیڑھ ایکڑ فی سیکنڈ اوسطاً جنگلات کا خاتمہ کیا جارہا ہے۔

جس کے نتیجے میں حشرات، نباتات اور جانوروں کی متعدد اقسام ہر روز معدومی کا شکار ہورہی ہیں۔ پانچویں جائزہ رپورٹ نے اس بات کو ثابت کردیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیاں ہماری آنے والی نسلوں کے لیے ہی ایک سنگین خطرہ نہیں ہیں بلکہ ہم سب بھی شدت کے ساتھ اس کا نشانہ بن رہے ہیں۔

سال 2014 کو اس حوالے سے تاریخ ساز قرار دیا جاسکتا ہے کہ عالمی برادری نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے اپنی تیاریاں شروع کردی ہیں۔ 2009 میں کوپن ہیگن میں منعقد ہونے والی عالمی ماحولیاتی سربراہی کانفرنس کی ناکامی کے بعد ایک مرتبہ پھر زیادہ شدت کے ساتھ موسمیاتی تبدیلی کا مسئلہ عالمی ایجنڈے میں واپس آیا ہے اور پہلی مرتبہ اس مسئلے کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ایجنڈے پر رکھا گیا۔ اس سال دنیا بھر میں کروڑوں لوگ سڑکوں پر آئے اور عالمی رہنماؤں سے مطالبہ کیا کہ وہ موسمیاتی تبدیلی کے خلاف موثر حفاظتی اقدامات اٹھائیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے ایک روز قبل عالمی ماحولیاتی کانفرنس کا انعقاد ہوا اور عالمی پالیسی سازوں نے واضح انداز میں وعدہ کیا کہ عالمی حکومتیں اس مسئلے سے نٹمنے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائیں گی۔

گرین ہاؤس گیسوں کا سب سے زیادہ اخراج کرنے والے دو بڑے ملکوں چین اور امریکا نے گرین ہاؤس گیسوں میں کمی کا معاہدہ کیا۔ پیرو کے شہر لیما میں ہونے والی ماحولیاتی کانفرنس جس میں دنیا کے 190 ملکوں کے نمایندے شریک ہوئے ابتدائی ماحولیاتی معاہدے پر اتفاق کرتے ہوئے وسیع تر خاکے کی منظوری دی۔ اس معاہدے میں مختلف اقدامات طے کیے گئے ہیں جس میں غریب ملکوں کو ماحولیاتی و موسمیاتی مسائل سے نمٹنے کے لیے زیادہ سے زیادہ رقوم کی فراہمی کے ساتھ ایسا میکنزم تیار کرنے پر بھی اتفاق کیا گیا ہے۔

جس سے پتہ چل سکے گا کہ دنیا کے امیر ممالک کس حد تک گرین ہاؤس گیسوں میں کمی کے وعدوں کو پورا کررہے ہیں۔ دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا کے ترقی پزیر، غریب اور پسماندہ ملک جو پہلے ہی سے تعلیم، صحت، بے روزگاری، کرپشن اور سیاسی عدم استحکام دہشت گردی جیسے مسائل سے دوچار ہیں ان کے لیے ماحولیاتی و موسمیاتی مسائل ان کے حال اور مستقبل کی ذمے داریوں میں مزید اضافے کا باعث بنیں گے لیکن اس کے باوجود بنگلہ دیش نے موسمیاتی مسائل سے نمٹنے کے لیے اپنے خزانے سے 10 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا منصوبہ تیار کیا ہے۔

عالمی سربراہان مملکت دسمبر 2015 میں فرانس کے دارالحکومت پیرس میں موسمیاتی تبدیلی کے نئے عالمی معاہدے پر دستخط کریں گے۔ کرہ ارض کے اربوں انسانوں کی نظریں اس کانفرنس پر مرکوز ہیں۔ کروڑوں لوگ اس کانفرنس سے پہلے پھر سڑکوں پر ہوں گے اور اپنے اور اپنی آنے والی نسلوں کے تحفظ کے لیے اپنے رہنماؤں سے ایک نیا عالمی موسمیاتی معاہدہ ضرور منظور کروائیں گے۔ بلاشبہ 2014 ایک ایسے سال کے طور پر یاد رکھا جائے گا جس میں ماحولیاتی و موسمیاتی تحفظ کا مسئلہ دوبارہ عالمی ایجنڈے کا حصہ بنا۔
Load Next Story