دہشت گردی کے خلاف ایکشن پلان پر عمل کرنے کا عزم
ملک سے بلا امتیاز دہشت گرد گروہوں کے خلاف کارروائی کے لیے سیاسی اور عسکری قیادت ایک ہی صفحے پر ہیں۔
آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے جمعرات کو جی ایچ کیو میں ملکی سلامتی کے حوالے سے اعلیٰ سطح کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے دہشتگردی کے خلاف قومی ایکشن پلان پر فوری عملدرآمد کے لیے متعلقہ حکام کو ہدایات جاری کیں۔ انھوں نے کہا کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کی لعنت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق اجلاس میں ملک کی سیکیورٹی صورت حال پر تبادلہ خیال کے علاوہ قومی ایکشن پلان کے مطابق فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی سرگرمیوں کا بھی جائزہ لیا گیا۔
فوج دہشت گردی کے خاتمے کے لیے شمالی وزیرستان میں پہلے ہی ضرب عضب کے نام سے آپریشن کر رہی ہے جس میں اسے خاطر خواہ کامیابیاں ملی ہیں اور وہاں دہشت گردوں کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم ختم کرنے کے علاوہ ان کی خفیہ پناہ گاہیں، اسلحہ ساز اور تخریبی مواد تیار کرنے والی فیکٹریاں تباہ کر دی گئی ہیں۔ سانحہ پشاور کے بعد اب آرمی کو اندرون ملک دہشت گردی کے خاتمے کے لیے نیا کردار ملا ہے۔ ملک سے بلا امتیاز دہشت گرد گروہوں کے خلاف کارروائی کے لیے سیاسی اور عسکری قیادت ایک ہی صفحے پر ہیں۔
آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے جڑ سے خاتمے کے عزم کو دہراتے ہوئے اصلاحات اور انتظامی اقدامات کے ذریعے ملک کو دہشت گردی کی لعنت سے نجات دلانے کے قومی سیاسی قیادت کے عزم اور جذبے کو خراج تحسین پیش کیا، انھوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ سیاسی قیادت نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ہم پر جس غیر متزلزل جذبے کا اظہار کیا ہے، انشاء اللہ قوم کے اعتماد اور اتفاق رائے پر پورا اتریں گے۔ دہشت گردی پورے ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔
حکومت اور تمام سیاسی جماعتوں نے بھی اس خطرے کو محسوس کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ اس سے ہر صورت نمٹا جائے لہٰذا اب حکومت کی جانب سے نئی اسٹرٹیجی کے تحت جاری آپریشن کو ملک کے دوسرے حصے میں پھیلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس وقت بلوچستان، کراچی اور صوبہ خیبرپختونخوا میں ایک عرصہ سے دہشت گردی کے خلاف کارروائیاں تو جاری ہیں مگر اب تک دہشت گردی پر قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔ شمالی وزیرستان میں آپریشن شروع ہونے کے بعد دہشت گردی میں خاصی کمی آئی تھی مگر اب سانحہ پشاور نے حکومت کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ دہشت گردی کا خطرہ بدستور موجود ہے اور اس کے خاتمے کے لیے روایتی اقدامات سے ہٹ کر فیصلے کرنا ہوں گے۔
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے بھی اسی خطرے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بدھ کو پارلیمانی جماعتوں کے قائدین کے اجلاس میں کہا تھا کہ لاتعدد چھوٹی چھوٹی تنظیموں نے ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھا رکھے ہیں، اس صورت حال میں کمزور فیصلوں کے بجائے قوم ٹھوس اقدامات ہی سے مطمئن ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ خصوصی فوجی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کا مقصد ہی دہشت گردوں کو فی الفور سزائیں دینا ہے۔ دوسری جانب سپریم کورٹ بھی دہشت گردی کے کیسز کو جلد از جلد نمٹانے کے لیے اپنے عزم کا اظہار کر چکی ہے۔ جب حکومت، فوج اور عدلیہ مل کر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اپنے فرائض سر انجام دیں گے تو یہ امید روشن ہوتی ہے کہ ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہو جائے گا خواہ اس کے لیے کتنا ہی عرصہ کیوں نہ درکار ہو۔ دوسری جانب دہشت گرد اپنے قیدی ساتھیوں کو چھڑانے کے لیے جیلوں پر حملے کے منصوبے بنا رہے ہیں۔
حساس اداروں نے کوٹ لکھپت جیل لاہور سے ملحقہ کالونی میں مکان پر چھاپہ مار کر دو خواتین سمیت چار دہشت گردوں کو گرفتار کر لیا اور جیل پر مبینہ حملے کا منصوبہ ناکام بنا دیا۔ اطلاعات کے مطابق کوٹ لکھپت جیل میں چناب کنارے قائم آرمی کے ریلیف کیمپ پر حملے اور ملتان میں آئی ایس آئی کے دفتر پر حملے کے الزام میں سزائے موت پانے والے چار دہشت گرد قید ہیں۔ دہشت گرد کراچی میں بھی سرنگ کے راستے جیل سے اپنے ساتھیوں کو چھڑانے کی ناکام کوشش کر چکے ہیں ۔ اس وقت ملک بھر میں جیلوں کی سیکیورٹی سخت بنانے کی ضرورت ہے تاکہ دہشت گرد اپنے قید ساتھیوں کے چھڑانے میں کسی طور کامیاب نہ ہو سکیں۔
دہشت گردی کے خاتمے کے لیے حکومت کو جامع منصوبہ بنانا ہو گا اور ان تمام وجوہات کو تلاش کر کے ان کا خاتمہ کرنا ہو گا جو دہشت گردی کا سبب بن رہی ہیں۔ ترکی، ایران، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دیگر اسلامی ممالک میں تمام مذہبی مدارس اور مساجد حکومتی کنٹرول میں ہیں یہی وجہ ہے کہ ان ممالک میں امن و امان کی صورتحال بہت بہتر ہے اور کوئی بھی مدرسہ کسی بھی سطح پر دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث نہیں۔ پاکستان میں بھی ایسا نظام رائج کرنے کی طرف توجہ دینا ہو گی، جہاں تمام مدارس اور مساجد کو حکومتی سرپرستی میں لینے کی ضرورت ہے وہاں سرکاری تعلیمی اداروں میں رائج نصاب تعلیم پر بھی نظرثانی کرنا ہو گی۔ یہ دیکھنا ہو گا کہ کہیں ہمارا رائج نصاب تعلیم دہشت گردی کے بڑھانے میں اپنا کردار تو ادا نہیں کر رہا۔
ملک میں امن و امان بحال کرنے کے لیے فوج تو اپنا کردار ادا کر رہی ہے اور اب بھی وہ اندرون ملک ہر قسم کی کارروائی کے لیے تیار ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ حکومت اور سول انتظامیہ کو بھی اپنی کارکردگی بہتر بنانا ہو گی۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پولیس اہلکاروں کی تربیت روایتی اور ہتھیار فرسودہ ہیںوہ دہشت گردوں سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ حکومت دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پوری قوم کو اس میں شریک کرے۔ گراس روٹ لیول پر کمیٹیاں بنائی جائیں جن کا پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں سے باقاعدہ رابطہ ہو۔ امید ہے کہ ملک سے دہشت گردی کا جلد از جلد خاتمہ ہو جائے گا اور ملک ایک بار پھر امن کا گہوارہ بن جائے گا۔
فوج دہشت گردی کے خاتمے کے لیے شمالی وزیرستان میں پہلے ہی ضرب عضب کے نام سے آپریشن کر رہی ہے جس میں اسے خاطر خواہ کامیابیاں ملی ہیں اور وہاں دہشت گردوں کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم ختم کرنے کے علاوہ ان کی خفیہ پناہ گاہیں، اسلحہ ساز اور تخریبی مواد تیار کرنے والی فیکٹریاں تباہ کر دی گئی ہیں۔ سانحہ پشاور کے بعد اب آرمی کو اندرون ملک دہشت گردی کے خاتمے کے لیے نیا کردار ملا ہے۔ ملک سے بلا امتیاز دہشت گرد گروہوں کے خلاف کارروائی کے لیے سیاسی اور عسکری قیادت ایک ہی صفحے پر ہیں۔
آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے جڑ سے خاتمے کے عزم کو دہراتے ہوئے اصلاحات اور انتظامی اقدامات کے ذریعے ملک کو دہشت گردی کی لعنت سے نجات دلانے کے قومی سیاسی قیادت کے عزم اور جذبے کو خراج تحسین پیش کیا، انھوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ سیاسی قیادت نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ہم پر جس غیر متزلزل جذبے کا اظہار کیا ہے، انشاء اللہ قوم کے اعتماد اور اتفاق رائے پر پورا اتریں گے۔ دہشت گردی پورے ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔
حکومت اور تمام سیاسی جماعتوں نے بھی اس خطرے کو محسوس کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ اس سے ہر صورت نمٹا جائے لہٰذا اب حکومت کی جانب سے نئی اسٹرٹیجی کے تحت جاری آپریشن کو ملک کے دوسرے حصے میں پھیلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس وقت بلوچستان، کراچی اور صوبہ خیبرپختونخوا میں ایک عرصہ سے دہشت گردی کے خلاف کارروائیاں تو جاری ہیں مگر اب تک دہشت گردی پر قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔ شمالی وزیرستان میں آپریشن شروع ہونے کے بعد دہشت گردی میں خاصی کمی آئی تھی مگر اب سانحہ پشاور نے حکومت کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ دہشت گردی کا خطرہ بدستور موجود ہے اور اس کے خاتمے کے لیے روایتی اقدامات سے ہٹ کر فیصلے کرنا ہوں گے۔
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے بھی اسی خطرے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بدھ کو پارلیمانی جماعتوں کے قائدین کے اجلاس میں کہا تھا کہ لاتعدد چھوٹی چھوٹی تنظیموں نے ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھا رکھے ہیں، اس صورت حال میں کمزور فیصلوں کے بجائے قوم ٹھوس اقدامات ہی سے مطمئن ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ خصوصی فوجی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کا مقصد ہی دہشت گردوں کو فی الفور سزائیں دینا ہے۔ دوسری جانب سپریم کورٹ بھی دہشت گردی کے کیسز کو جلد از جلد نمٹانے کے لیے اپنے عزم کا اظہار کر چکی ہے۔ جب حکومت، فوج اور عدلیہ مل کر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اپنے فرائض سر انجام دیں گے تو یہ امید روشن ہوتی ہے کہ ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہو جائے گا خواہ اس کے لیے کتنا ہی عرصہ کیوں نہ درکار ہو۔ دوسری جانب دہشت گرد اپنے قیدی ساتھیوں کو چھڑانے کے لیے جیلوں پر حملے کے منصوبے بنا رہے ہیں۔
حساس اداروں نے کوٹ لکھپت جیل لاہور سے ملحقہ کالونی میں مکان پر چھاپہ مار کر دو خواتین سمیت چار دہشت گردوں کو گرفتار کر لیا اور جیل پر مبینہ حملے کا منصوبہ ناکام بنا دیا۔ اطلاعات کے مطابق کوٹ لکھپت جیل میں چناب کنارے قائم آرمی کے ریلیف کیمپ پر حملے اور ملتان میں آئی ایس آئی کے دفتر پر حملے کے الزام میں سزائے موت پانے والے چار دہشت گرد قید ہیں۔ دہشت گرد کراچی میں بھی سرنگ کے راستے جیل سے اپنے ساتھیوں کو چھڑانے کی ناکام کوشش کر چکے ہیں ۔ اس وقت ملک بھر میں جیلوں کی سیکیورٹی سخت بنانے کی ضرورت ہے تاکہ دہشت گرد اپنے قید ساتھیوں کے چھڑانے میں کسی طور کامیاب نہ ہو سکیں۔
دہشت گردی کے خاتمے کے لیے حکومت کو جامع منصوبہ بنانا ہو گا اور ان تمام وجوہات کو تلاش کر کے ان کا خاتمہ کرنا ہو گا جو دہشت گردی کا سبب بن رہی ہیں۔ ترکی، ایران، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دیگر اسلامی ممالک میں تمام مذہبی مدارس اور مساجد حکومتی کنٹرول میں ہیں یہی وجہ ہے کہ ان ممالک میں امن و امان کی صورتحال بہت بہتر ہے اور کوئی بھی مدرسہ کسی بھی سطح پر دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث نہیں۔ پاکستان میں بھی ایسا نظام رائج کرنے کی طرف توجہ دینا ہو گی، جہاں تمام مدارس اور مساجد کو حکومتی سرپرستی میں لینے کی ضرورت ہے وہاں سرکاری تعلیمی اداروں میں رائج نصاب تعلیم پر بھی نظرثانی کرنا ہو گی۔ یہ دیکھنا ہو گا کہ کہیں ہمارا رائج نصاب تعلیم دہشت گردی کے بڑھانے میں اپنا کردار تو ادا نہیں کر رہا۔
ملک میں امن و امان بحال کرنے کے لیے فوج تو اپنا کردار ادا کر رہی ہے اور اب بھی وہ اندرون ملک ہر قسم کی کارروائی کے لیے تیار ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ حکومت اور سول انتظامیہ کو بھی اپنی کارکردگی بہتر بنانا ہو گی۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پولیس اہلکاروں کی تربیت روایتی اور ہتھیار فرسودہ ہیںوہ دہشت گردوں سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ حکومت دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پوری قوم کو اس میں شریک کرے۔ گراس روٹ لیول پر کمیٹیاں بنائی جائیں جن کا پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں سے باقاعدہ رابطہ ہو۔ امید ہے کہ ملک سے دہشت گردی کا جلد از جلد خاتمہ ہو جائے گا اور ملک ایک بار پھر امن کا گہوارہ بن جائے گا۔