روسی صدر کا دورہ ملتوی ہونے کے محرکات
سفارتی محاذ پر روس کے صدر کے دورہ پاکستان کے ملتوی ہونے کا واقعہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان سردار اختر مینگل کی طرف سے سپریم کورٹ آف پاکستان میں جمع کرائے گئے 6 نکات اور ان کے تند و تیز بیانات کی بازگشت تاحال سنائی دے رہی ہے۔
خود ساختہ جلا وطنی ختم کر کے وہ سپریم کورٹ میں بدامنی کیس میں اپنا بیان جمع کرانے کی غرض سے یہاں آئے تھے، سردار اختر مینگل کے بیانات نے قومی سیاست میں گرما گرمی پیدا کر دی ہے اسلام آباد میں واقع بلوچستان ہائوس اختر مینگل کی موجودگی کے باعث دن رات سیاسی گرمیوں کا محو و مرکز بنا رہا، وہ حکمرانوں سے کچھ زیادہ ہی نالاں نظر آ رہے تھے، سردار اختر مینگل کا یہ کہنا کہ میرے 6 نکات کو شیخ مجیب الرحمن کے 6 نکات سے الگ نہ سمجھا جائے، بڑا معنی خیز ہے ۔
انہوں نے عدلیہ پر بھر پور اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ 65 سالہ ناامیدی ختم ہونے کی امید لے کر سپریم کورٹ آیا ہوں، حکومت سے توقع گناہ کبیرہ ہے۔ عدالتی تاریخ میں بلوچستان بدامنی کیس ایک تاریخ ساز اور منفرد حیثیت اختیار کرتا جا رہا ہے، چیف جسٹس سمیت دیگر ججز کسی ریاستی دبائو کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے یہ اہم نوعیت کا کیس انتہائی انہماک سے سن رہے ہیں اور یہ کیس ملکی تاریخ کے ایک اہم مرحلے میں داخل ہو رہا ہے، سردار اختر مینگل نے ریاستی اداروں پر سنگین نوعیت کے الزامات عائد کئے ہیں اور کہا ہے کہ حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ واپسی کا امکان نہیں، وہ کئی مواقعوں پر جذباتی نظر آئے اور ان کے لب و لہجہ میں احساس محرومی کا عنصر بھی غالب تھا، ان کے بیانات سے اس امر کی عکاسی ہو رہی تھی کہ وہ بھی باغی بننے کا فیصلہ کرنے والے ہیں ۔
بلوچستان بدامنی کیس میں نئے نئے انکشافات منظرِ عام پر آ رہے ہیں، ملک کی سب سے بڑی عدالت بلوچستان کے مسئلے کو حل کرنے کے تناظر میں سنجیدہ نظر آ رہی ہیں ۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ خفیہ ایجنسیاں ڈیتھ سکواڈ ختم کریں، آرڈر پر عمل نہ ہوا تو کیس ٹو کیس سماعت کریں گے، عدالتی حکم پر وفاقی حکومت اور خفیہ اداروں کی طرف سے جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان میں فوجی آپریشن نہیں ہو رہا ہے اور نہ لاپتہ افراد ہمارے پاس ہیں اور ایجنسیوں میں کوئی ڈیتھ سکواڈ نہیں ہے، وفاقی حکومت اور حساس اداروں نے سردار اختر مینگل کے بیان پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے عدالت سے استدعا کی ہے کہ سردار اختر مینگل نے ریاست کے خلاف سخت زبان استعمال کی ہے اور یہ ملکی سالمیت کے منافی ہے اس لئے ان کا بیان واپس کیا جائے اور آئینی طریقے کے ساتھ جواب لیا جائے۔
بلوچستان ہائوس اسلام آباد میں مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف پہلے سیاسی رہنما تھے جنہوں نے مینگل کے ساتھ ملاقات کی اور اپنی جماعت کی جانب سے ان کے ساتھ بھر پور اظہار یکجہتی کیا، لاپتہ افراد کے معاملہ پر دونوں رہنمائوں نے مشترکہ جدوجہد کرنے کے عزم کو دہرایا، عمران خان اور منور حسن سمیت دیگر حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے سرکردہ سیاستدانوں نے ان کے ساتھ ملاقاتیں کیں اوراظہار ہمدردی کیا، کسی حکومتی شخصیت نے ان کے ساتھ ملاقات نہیں کی، جس کی بڑی وجہ ان کے تند و تیز بیانات ہیں۔
بلوچستان کے معاملہ پر چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس افتخار محمد چوہدری نے انتہائی اہمیت کے حامل ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ سیاسی جماعتیں مل کر بلوچستان کے مسئلے کا حل تلاش کریں، یہ حقیقت ہے کہ اگر ملک کی تمام سیاسی جماعتیں ایک ہو کر بلوچستان کے مسئلے کو حل کرنے کیلئے کوششیں کریں تو یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے مگر ہمارے ہاں تمام جماعتیں مفادات کی سیاست کے گرداب میں پھنس کر رہ گئی ہیں، تمام سیاسی جماعتیں پولیٹیکل پوائنٹ سکورنگ پر لگی ہوئی ہیں، موجودہ حکومت گزشتہ ساڑھے چار سال سے بلوچستان کے مسئلہ پر تمام تر وعدوں اور واضح اعلانات کے ایک گول میز کانفرنس تک نہ طلب کر سکی، موجودہ وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف پہلے دن سے یہ فرما رہے ہیں کہ بلوچستان کا مسئلہ ہماری ترجیحات میں سرفہرست ہے مگر یہ صرف بیانات کی حد تک سرفہرست ہے۔
چیف جسٹس نے ایک بار پھر بلوچستان کے معاملہ پر گیند سیاستدانوں کی کورٹ میں پھینک دی ہے مگر سیاستدانوں نے کچھ بھی نہیں کرنا ہے اگر تمام سیاستدانوں نے روایتی بے حسی کا مظاہرہ جاری رکھا تو بلوچ قوم پرست رہنمائوں کو آپ کیسے علیحدگی کی تحریک چلانے سے روک سکتے ہیں؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام جماعتیں ون پوائنٹ ایجنڈے پر ایک ہو جائیں اور سیاسی ڈائیلاگ کا راستہ اختیار کر کے اس مسئلے کو حل کیا جائے ورنہ بہت دیر ہو جائے گی۔
سفارتی محاذ پر روس کے صدر کے دورہ پاکستان کے ملتوی ہونے کا واقعہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ روس کے صدر نے شیڈول کے مطابق پاکستان کا دورہ کرنا تھا مگر یہ دورہ ملتوی کر دیا گیا جس کی وجہ سے چار ملکی سربراہ کانفرنس بھی آخری وقت پر ملتوی کر دی گئی، یہ روس کے صدر کا پہلا دورہ پاکستان تھا جس کے لئے تمام تر تیاریاں مکمل کر لی گئی تھیں، روس کے صدر کے دورے کے التوا سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو خاصا دھچکا لگا ہے۔ سفارتی مبصرین کا خیال ہے کہ اس اہم دورے کو ملتوی کرنا دونوں ممالک کے مفادات کے منافی ہے، بعض حلقے یہ کہہ رہے ہیں کہ امریکہ اور بھارت نے سفارتی محاذ پر کوششیں کر کے یہ دورہ ملتوی کرایا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ روس کے صدر پاکستان کا دورہ کب کرتے ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے تناظر میں جو تنائو پیدا ہوا ہے وہ کیسے کم ہوگا؟ سفارتی چینل پر دونوں ممالک کی وزارت خارجہ کے حکام رابطے میں ہیں، روسی صدر کے دورہ پاکستان کے موقع پر بعض اہم نوعیت کے معاہدے ہونا تھے، امریکہ سمیت بعض ممالک کی قیادت ان دوطرفہ معاہدوں کے خلاف تھی اور باور کیا جا رہا ہے کہ بعض عالمی قوتوں کا اس دورے کو ملتوی کرانے میں کردار نمایاں ہو سکتا ہے جو پاکستانی قیادت کے علم میں یقیناً ہو گا۔
الیکشن کمیشن میں سیاسی رہنمائوں کے مشاورتی اجلاس میں اہم نوعیت کے معاملات پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے، چیف الیکشن کمشنر کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں اہم فیصلے کئے گئے ہیں تمام سیاسی جماعتوں نے موجودہ چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم کی قیادت پر جہاں مکمل اعتماد کا اظہار کیا ہے وہاں سیاسی جماعتوں نے مکمل تعاون فراہم کرنے کے عزم کو دہرایا ہے، چیف الیکشن کمشنر نے واضح کہا ہے کہ آزادانہ منصفانہ الیکشن کی راہ میں کسی کو رکاوٹ کھڑی نہیں کرنے دیں گے۔
حساس اداروں کے سربراہان کو بھی بلانا پڑا تو گریز نہیں کریں گے، باور کیا جا رہا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی مضبوطی آزادانہ انتخابات میں سنگ میل ثابت ہو گی، سیاسی جماعتوں نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ انتخابات میں تمام ریاستی انتظامی مشینری کو الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ماتحت کیا جائے، سیاسی جماعتوں کے قائدین کے ساتھ مشاورت کا عمل ہر لحاظ سے لائق تحسین ہے اس سے اعتماد سازی کو فروغ ملے گا۔
خود ساختہ جلا وطنی ختم کر کے وہ سپریم کورٹ میں بدامنی کیس میں اپنا بیان جمع کرانے کی غرض سے یہاں آئے تھے، سردار اختر مینگل کے بیانات نے قومی سیاست میں گرما گرمی پیدا کر دی ہے اسلام آباد میں واقع بلوچستان ہائوس اختر مینگل کی موجودگی کے باعث دن رات سیاسی گرمیوں کا محو و مرکز بنا رہا، وہ حکمرانوں سے کچھ زیادہ ہی نالاں نظر آ رہے تھے، سردار اختر مینگل کا یہ کہنا کہ میرے 6 نکات کو شیخ مجیب الرحمن کے 6 نکات سے الگ نہ سمجھا جائے، بڑا معنی خیز ہے ۔
انہوں نے عدلیہ پر بھر پور اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ 65 سالہ ناامیدی ختم ہونے کی امید لے کر سپریم کورٹ آیا ہوں، حکومت سے توقع گناہ کبیرہ ہے۔ عدالتی تاریخ میں بلوچستان بدامنی کیس ایک تاریخ ساز اور منفرد حیثیت اختیار کرتا جا رہا ہے، چیف جسٹس سمیت دیگر ججز کسی ریاستی دبائو کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے یہ اہم نوعیت کا کیس انتہائی انہماک سے سن رہے ہیں اور یہ کیس ملکی تاریخ کے ایک اہم مرحلے میں داخل ہو رہا ہے، سردار اختر مینگل نے ریاستی اداروں پر سنگین نوعیت کے الزامات عائد کئے ہیں اور کہا ہے کہ حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ واپسی کا امکان نہیں، وہ کئی مواقعوں پر جذباتی نظر آئے اور ان کے لب و لہجہ میں احساس محرومی کا عنصر بھی غالب تھا، ان کے بیانات سے اس امر کی عکاسی ہو رہی تھی کہ وہ بھی باغی بننے کا فیصلہ کرنے والے ہیں ۔
بلوچستان بدامنی کیس میں نئے نئے انکشافات منظرِ عام پر آ رہے ہیں، ملک کی سب سے بڑی عدالت بلوچستان کے مسئلے کو حل کرنے کے تناظر میں سنجیدہ نظر آ رہی ہیں ۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ خفیہ ایجنسیاں ڈیتھ سکواڈ ختم کریں، آرڈر پر عمل نہ ہوا تو کیس ٹو کیس سماعت کریں گے، عدالتی حکم پر وفاقی حکومت اور خفیہ اداروں کی طرف سے جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان میں فوجی آپریشن نہیں ہو رہا ہے اور نہ لاپتہ افراد ہمارے پاس ہیں اور ایجنسیوں میں کوئی ڈیتھ سکواڈ نہیں ہے، وفاقی حکومت اور حساس اداروں نے سردار اختر مینگل کے بیان پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے عدالت سے استدعا کی ہے کہ سردار اختر مینگل نے ریاست کے خلاف سخت زبان استعمال کی ہے اور یہ ملکی سالمیت کے منافی ہے اس لئے ان کا بیان واپس کیا جائے اور آئینی طریقے کے ساتھ جواب لیا جائے۔
بلوچستان ہائوس اسلام آباد میں مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف پہلے سیاسی رہنما تھے جنہوں نے مینگل کے ساتھ ملاقات کی اور اپنی جماعت کی جانب سے ان کے ساتھ بھر پور اظہار یکجہتی کیا، لاپتہ افراد کے معاملہ پر دونوں رہنمائوں نے مشترکہ جدوجہد کرنے کے عزم کو دہرایا، عمران خان اور منور حسن سمیت دیگر حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے سرکردہ سیاستدانوں نے ان کے ساتھ ملاقاتیں کیں اوراظہار ہمدردی کیا، کسی حکومتی شخصیت نے ان کے ساتھ ملاقات نہیں کی، جس کی بڑی وجہ ان کے تند و تیز بیانات ہیں۔
بلوچستان کے معاملہ پر چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس افتخار محمد چوہدری نے انتہائی اہمیت کے حامل ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ سیاسی جماعتیں مل کر بلوچستان کے مسئلے کا حل تلاش کریں، یہ حقیقت ہے کہ اگر ملک کی تمام سیاسی جماعتیں ایک ہو کر بلوچستان کے مسئلے کو حل کرنے کیلئے کوششیں کریں تو یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے مگر ہمارے ہاں تمام جماعتیں مفادات کی سیاست کے گرداب میں پھنس کر رہ گئی ہیں، تمام سیاسی جماعتیں پولیٹیکل پوائنٹ سکورنگ پر لگی ہوئی ہیں، موجودہ حکومت گزشتہ ساڑھے چار سال سے بلوچستان کے مسئلہ پر تمام تر وعدوں اور واضح اعلانات کے ایک گول میز کانفرنس تک نہ طلب کر سکی، موجودہ وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف پہلے دن سے یہ فرما رہے ہیں کہ بلوچستان کا مسئلہ ہماری ترجیحات میں سرفہرست ہے مگر یہ صرف بیانات کی حد تک سرفہرست ہے۔
چیف جسٹس نے ایک بار پھر بلوچستان کے معاملہ پر گیند سیاستدانوں کی کورٹ میں پھینک دی ہے مگر سیاستدانوں نے کچھ بھی نہیں کرنا ہے اگر تمام سیاستدانوں نے روایتی بے حسی کا مظاہرہ جاری رکھا تو بلوچ قوم پرست رہنمائوں کو آپ کیسے علیحدگی کی تحریک چلانے سے روک سکتے ہیں؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام جماعتیں ون پوائنٹ ایجنڈے پر ایک ہو جائیں اور سیاسی ڈائیلاگ کا راستہ اختیار کر کے اس مسئلے کو حل کیا جائے ورنہ بہت دیر ہو جائے گی۔
سفارتی محاذ پر روس کے صدر کے دورہ پاکستان کے ملتوی ہونے کا واقعہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ روس کے صدر نے شیڈول کے مطابق پاکستان کا دورہ کرنا تھا مگر یہ دورہ ملتوی کر دیا گیا جس کی وجہ سے چار ملکی سربراہ کانفرنس بھی آخری وقت پر ملتوی کر دی گئی، یہ روس کے صدر کا پہلا دورہ پاکستان تھا جس کے لئے تمام تر تیاریاں مکمل کر لی گئی تھیں، روس کے صدر کے دورے کے التوا سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو خاصا دھچکا لگا ہے۔ سفارتی مبصرین کا خیال ہے کہ اس اہم دورے کو ملتوی کرنا دونوں ممالک کے مفادات کے منافی ہے، بعض حلقے یہ کہہ رہے ہیں کہ امریکہ اور بھارت نے سفارتی محاذ پر کوششیں کر کے یہ دورہ ملتوی کرایا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ روس کے صدر پاکستان کا دورہ کب کرتے ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے تناظر میں جو تنائو پیدا ہوا ہے وہ کیسے کم ہوگا؟ سفارتی چینل پر دونوں ممالک کی وزارت خارجہ کے حکام رابطے میں ہیں، روسی صدر کے دورہ پاکستان کے موقع پر بعض اہم نوعیت کے معاہدے ہونا تھے، امریکہ سمیت بعض ممالک کی قیادت ان دوطرفہ معاہدوں کے خلاف تھی اور باور کیا جا رہا ہے کہ بعض عالمی قوتوں کا اس دورے کو ملتوی کرانے میں کردار نمایاں ہو سکتا ہے جو پاکستانی قیادت کے علم میں یقیناً ہو گا۔
الیکشن کمیشن میں سیاسی رہنمائوں کے مشاورتی اجلاس میں اہم نوعیت کے معاملات پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے، چیف الیکشن کمشنر کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں اہم فیصلے کئے گئے ہیں تمام سیاسی جماعتوں نے موجودہ چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم کی قیادت پر جہاں مکمل اعتماد کا اظہار کیا ہے وہاں سیاسی جماعتوں نے مکمل تعاون فراہم کرنے کے عزم کو دہرایا ہے، چیف الیکشن کمشنر نے واضح کہا ہے کہ آزادانہ منصفانہ الیکشن کی راہ میں کسی کو رکاوٹ کھڑی نہیں کرنے دیں گے۔
حساس اداروں کے سربراہان کو بھی بلانا پڑا تو گریز نہیں کریں گے، باور کیا جا رہا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی مضبوطی آزادانہ انتخابات میں سنگ میل ثابت ہو گی، سیاسی جماعتوں نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ انتخابات میں تمام ریاستی انتظامی مشینری کو الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ماتحت کیا جائے، سیاسی جماعتوں کے قائدین کے ساتھ مشاورت کا عمل ہر لحاظ سے لائق تحسین ہے اس سے اعتماد سازی کو فروغ ملے گا۔