فتح مبین
وارفتگی کی انتہا یہ کہ لعاب دہن تک زمین پر نہیں گرتا، یہ کیفیت کسی دنیوی بادشاہ کے دربار میں نہیں دیکھی۔
کالم ''خوابوں کا بیوپاری'' 8 دسمبر 2014 کو شایع ہواتھا جس میں چھوٹے لوگوں یعنی تاجروں، ڈاکٹروں، وکلا، صحافیوں اور سیاست دانوں کے خوابوں کی بات کی گئی تھی۔ بڑے لوگوں میں قائد اعظم، گاندھی، مصطفی کمال اتاترک، امام خمینی، مائوزے تنگ اور نیلسن منڈیلا کے خوابوں کا تذکرہ تھا۔ عظیم لوگوں میں حضرت یوسفؑ اور حضرت ابراہیم کے خوابوں کی بات تھی، ایک عظیم المرتبت خواب تو ہم نے مختصر طور پر بیان کیا تھا، آج ہم دس سطروں میں کی گئی گفتگو کا تفصیلاً ذکر کریںگے۔
رسول اکرمؐ نے خواب دیکھا کہ آپؐ بیت اﷲ شریف کا طواف فرما رہے ہیں اور خانہ کعبہ کی چابی آپ کے دست مبارک میں ہے۔ صحابہ کرامؓ نے بھی بال کٹوائے ہیں اور سب قربانی کررہے ہیں (مدارج النبوتؐ) آپؐ نے یہ خواب اپنے ساتھیوں کو سنایا تو وہ بے حد خوش ہوئے، خیال کیا کہ یہ واقعہ اسی سال ظہور پذیر ہوگا، انبیا کے خواب ہمیشہ سچے ہوتے ہیں اسی لیے سب نے تیاریاں شروع کردیں۔ بیت اﷲ کی زیارت اور وطن کی یاد دلوں میں چٹکیاں لینے لگی۔ یکم ذی القعد 6 ہجری کو آنحضرت ؐ نے غسل کرکے لباس تبدیل فرمایا اور عمرے کے ارادے سے اپنی اونٹنی قصوا پر سوار ہوئے۔
(رسالت مآبؐ) قربانی کے ستر اونٹ ساتھ رکھے، مدینہ سے روانہ ہوکر ظہر کی نماز ادا فرمائی اور عمرے کا احرام باندھا۔ قریش کو پیغام بھجوایا کہ یہ عمرے کا مہینہ ہے اور احرام باندھ کر مکے آنے والے کو روکنے کا حق کسی کو نہیں پہنچتا۔ صحابہ کرام کی تعداد چودہ سو تھی۔ (صحیح بخاری) کفار نے قسم کھائی کہ ہم مسلمانوں کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیںگے۔ قریش اور حلیف جانبازوں کی تعداد آٹھ ہزار تھی۔ وادی ختم ہونے کی جگہ حدیبیہ کا میدان نظر آیا۔ اونٹنی قصوا بیٹھ گئی۔ ارشاد ہوا کہ نہ قصوا سرکش ہے اور نہ تھک کر بیٹھ گئی ہے۔ اسے اس ذات نے روک دیا ہے جس نے اصحاب فیل والوں کو روکا تھا۔ (تاریخ الاسلام والمسلمین)
حدیبیہ مکہ سے نو میل کے فاصلے پر ہے۔ مسلمانوں کو علم ہوا کہ قریش آپ کو بیت اﷲ سے روکنے پر بضد ہیں۔ خواہ خون خرابہ کیوں نہ ہو۔ آپؐ نے فرمایا کہ یہ حرام مہینہ ہے اور ہم کسی سے لڑنے نہیں آئے۔ زیارت ہمارا مقصد ہے (قصائص الکبریٰ) ثالث نے قریش کو جنگ نہ کرنے کی تجویز دی اور کہاکہ مسلمان احرام باندھے ہوئے ہیں وہ خون خرابے کے لیے نہیں آئے۔ ثالث نے کہا مذاکرات کی ابتدا میں بحران بڑھ جائے تو ذمے داری کس کی ہوگی۔ (صلح حدیبیہ۔ محمد احمد) مشرکین کے حامی عروہ نے کہاکہ جب تک مکہ میں قریش کی حکومت ہے بیت اﷲ کے طواف کی امید کم رکھیے۔
رسول اﷲ ؐ نے فرمایا کہ ہم سے طواف کا حق کوئی نہیں چھین سکتا۔ وہ اس یقین سے ہو کہ مسلمان خون ریزی کرنا نہیں چاہتے ان کا مقصد صرف عمرہ ادا کرنا ہے۔ قریش کے درمیان بیٹھ کر اس نے کہاکہ قیصر کی شان اور کسریٰ کا جاہ و حشم میں نے دیکھا ہے، نجاشی کے پاس بھی جاچکا ہوں لیکن سچ کہتاہوں کہ محمدؐ جیسا احترام دیکھا اور نہ ان کے ساتھیوں جیسی عقیدت کہیں نظر آئی۔ فرماں برداری کا یہ عالم کہ ہر کوئی اشارہ ابرو کا منتظر۔ محبت ایسی کہ جان نچھاور کرنے پر ہر دم تیار۔ تعظیم اس طرح کی کہ نگاہیں جھکی ہوئی اور آواز پست۔ عقیدت بے مثال کہ وضو کا پانی بھی اپنے چہروں اور جسموں پر مل لیتے ہیں۔
وارفتگی کی انتہا یہ کہ لعاب دہن تک زمین پر نہیں گرتا، یہ کیفیت کسی دنیوی بادشاہ کے دربار میں نہیں دیکھی۔ محمدؐ کی پیش کش انصاف پر مبنی ہے۔ اسے قبول کرنے کا مشورہ دیا۔ آخر کفار نے اپنا ایک اور سفیر بھیجا جو منفی انداز میں سوچنے والا تھا۔ (تاریخ طبری) مسلمانوں نے طے فرمایا کہ اپنا ایک سفیر گفتگو کے لیے روانہ کیا جائے۔ حضرت عثمانؓ کو حکم دیاگیا کہ مکے کے رئیسوں سے مذاکرات کریں۔ ان کے کزن ابن سعید نے کہاکہ عثمان تم کتنے خوش نصیب ہو کہ سب سے پہلے بیت اﷲ کا طواف کروگے۔
فرمایا جب تک رسولؐ کعبۃ اﷲ کا طواف نہیں کرتے عثمان ادھر دیکھے گا بھی نہیں۔ قریش برہم ہوئے اور حضرت عثمانؓ کو مکہ میں روک لیا۔ قید کے بعد افواہ پھیلی کہ انھیں شہید کردیاگیا ہے، مسلمانوں میں بے چینی پھیل گئی۔ حضورؐ نے فرمایا کہ ہم اس مقام سے اس وقت تک نہیں ٹل سکتے جب تک بدلہ نہ لے لیں۔ ایک درخت کے نیچے صحابہ کرامؓ سے بیعت لی گئی۔ (مغازی رسول اﷲؐ) ایک ایک کرکے چودہ سو آدمیوں نے یہ شرف حاصل کیا۔
آخر میں آپ نے ارشاد فرمایا کہ عثمان اﷲ اور اس کے رسولؐ کے کام پر گئے ہوئے ہیں یہ کہہ کر اپنے سیدھے ہاتھ کو عثمانؓ کا ہاتھ قرار دیا اور پھر اس کو اپنے بائیں ہاتھ پر مار کر فرمایا ''یہ عثمانؓ کی بیعت ہے۔ یہ ایک طرح سے اشارہ تھا کہ عثمان زندہ ہیں کیوں کہ بیعت زندوں سے ہوتی ہے۔ مسلمانوں کے عزم کی اطلاع کفار کو پہنچانے کا مقصد تھا کہ برائی ان کے ذہن میں ہے تو نکال دیں اور صلح پر آمادہ ہوجائیں۔ اس بیعت کو ''بیعت رضوان'' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جس کے بارے میں سورۂ فتح میں ذکر ہے۔ اطلاع آئی کہ عثمانؓ زندہ ہیں تو مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
قریش نے مان لیا کہ حج کے دنوں میں زیارت کعبہ پر کوئی پابندی نہیں لگائی جاسکتی۔ انھیں تسلیم تھا کہ مسلمان عمرہ کی نیت سے آئے ہیں۔ قریش نے سہیل بن عمرو کو اپنا نمایندہ بناکر معاہدہ طے کرنے کے لیے روانہ کیا۔ اس نے تجویز کیا کہ آئندہ سال اس عمرہ کی قضا کریں۔ آپؐ کی خاطر مکہ تین دن کے لیے خالی کردیا جائے تاکہ کسی تصادم کا اندیشہ نہ رہے۔ حضورؐ نے اس شرط کو منظور فرمایا۔
گفت و شنید کے بعد معاہدے کی شرائط پر اتفاق ہوا تو حضورؐ نے حضرت علیؓ کو معاہدہ لکھنے کا حکم دیا۔ جس کے مطابق یہ سب کچھ محمد رسول اﷲ ؐ اور اہل مکہ کے درمیان قرار پایا۔ سہیل نے کہاکہ ہم آپ کو پیغمبر مان لیتے تو جھگڑا کس بات کا تھا۔ یہاں اپنا اور اپنے والد کا نام لکھیے۔ حضرت علیؓ سے ارشاد ہوا کہ اسی طرح لکھ دو جس طرح یہ چاہتا ہے، حضرت علیؓ نے کہاکہ مجھ سے یہ نہ ہوسکے گا۔
رسول اﷲؐ نے خود اپنے دست مبارک سے رسول اﷲ مٹاکر محمد بن عبداﷲ لکھ دیا۔ دوسری روایات میں ہے کہ حضرت علیؓ سے لکھوایا۔ (صحیح مسلم) معاہدے کے مطابق دس سال تک جنگ روک دی جائے۔ مسلمانوں کو مکے میں اور قریش کو مدینے کی گزر گاہ پر امان حاصل ہوگا۔ اگلے سال آئیں اس سال واپس چلے جائیں۔ تین راتیں ٹھہریں اور تلوار میان میں ہو۔ قریش کا کوئی شخص آئے تو مسلمان واپس کریںگے لیکن محمدؐ کے ساتھیوں میں سے کوئی کفار کے پاس آئے تو سپرد نہیں کیاجائے گا۔
زخمی مسلمان قیدی ابو جندلؓ اس دوران آئے لیکن قریش نے واپس مکے بھجوا دیا۔ مسلمان تڑپ کر رہ گئے۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا کہ ہم حق پر نہیں۔ آنحضرتؐ نے فرمایا کہ میں وہی کرتا ہوں جو اﷲ کا حکم ہوتا ہے۔ (سیرت نبی کاملؐ) مسلمان بجھے بجھے سے تھے۔ بصیرت نبویؐ دور رس نتائج دیکھ رہی تھی۔ حضورؐ کے بعد صحابہ کرامؓ نے اپنے اپنے قربانی کے جانور ذبح کیے۔ (رسالت مآبؐ) دو سال بعد فتح مکہ نے ثابت کیا کہ صلح حدیبیہ واقعی مسلمانوں کے لیے ثابت ہوئی فتح مبین۔
رسول اکرمؐ نے خواب دیکھا کہ آپؐ بیت اﷲ شریف کا طواف فرما رہے ہیں اور خانہ کعبہ کی چابی آپ کے دست مبارک میں ہے۔ صحابہ کرامؓ نے بھی بال کٹوائے ہیں اور سب قربانی کررہے ہیں (مدارج النبوتؐ) آپؐ نے یہ خواب اپنے ساتھیوں کو سنایا تو وہ بے حد خوش ہوئے، خیال کیا کہ یہ واقعہ اسی سال ظہور پذیر ہوگا، انبیا کے خواب ہمیشہ سچے ہوتے ہیں اسی لیے سب نے تیاریاں شروع کردیں۔ بیت اﷲ کی زیارت اور وطن کی یاد دلوں میں چٹکیاں لینے لگی۔ یکم ذی القعد 6 ہجری کو آنحضرت ؐ نے غسل کرکے لباس تبدیل فرمایا اور عمرے کے ارادے سے اپنی اونٹنی قصوا پر سوار ہوئے۔
(رسالت مآبؐ) قربانی کے ستر اونٹ ساتھ رکھے، مدینہ سے روانہ ہوکر ظہر کی نماز ادا فرمائی اور عمرے کا احرام باندھا۔ قریش کو پیغام بھجوایا کہ یہ عمرے کا مہینہ ہے اور احرام باندھ کر مکے آنے والے کو روکنے کا حق کسی کو نہیں پہنچتا۔ صحابہ کرام کی تعداد چودہ سو تھی۔ (صحیح بخاری) کفار نے قسم کھائی کہ ہم مسلمانوں کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیںگے۔ قریش اور حلیف جانبازوں کی تعداد آٹھ ہزار تھی۔ وادی ختم ہونے کی جگہ حدیبیہ کا میدان نظر آیا۔ اونٹنی قصوا بیٹھ گئی۔ ارشاد ہوا کہ نہ قصوا سرکش ہے اور نہ تھک کر بیٹھ گئی ہے۔ اسے اس ذات نے روک دیا ہے جس نے اصحاب فیل والوں کو روکا تھا۔ (تاریخ الاسلام والمسلمین)
حدیبیہ مکہ سے نو میل کے فاصلے پر ہے۔ مسلمانوں کو علم ہوا کہ قریش آپ کو بیت اﷲ سے روکنے پر بضد ہیں۔ خواہ خون خرابہ کیوں نہ ہو۔ آپؐ نے فرمایا کہ یہ حرام مہینہ ہے اور ہم کسی سے لڑنے نہیں آئے۔ زیارت ہمارا مقصد ہے (قصائص الکبریٰ) ثالث نے قریش کو جنگ نہ کرنے کی تجویز دی اور کہاکہ مسلمان احرام باندھے ہوئے ہیں وہ خون خرابے کے لیے نہیں آئے۔ ثالث نے کہا مذاکرات کی ابتدا میں بحران بڑھ جائے تو ذمے داری کس کی ہوگی۔ (صلح حدیبیہ۔ محمد احمد) مشرکین کے حامی عروہ نے کہاکہ جب تک مکہ میں قریش کی حکومت ہے بیت اﷲ کے طواف کی امید کم رکھیے۔
رسول اﷲ ؐ نے فرمایا کہ ہم سے طواف کا حق کوئی نہیں چھین سکتا۔ وہ اس یقین سے ہو کہ مسلمان خون ریزی کرنا نہیں چاہتے ان کا مقصد صرف عمرہ ادا کرنا ہے۔ قریش کے درمیان بیٹھ کر اس نے کہاکہ قیصر کی شان اور کسریٰ کا جاہ و حشم میں نے دیکھا ہے، نجاشی کے پاس بھی جاچکا ہوں لیکن سچ کہتاہوں کہ محمدؐ جیسا احترام دیکھا اور نہ ان کے ساتھیوں جیسی عقیدت کہیں نظر آئی۔ فرماں برداری کا یہ عالم کہ ہر کوئی اشارہ ابرو کا منتظر۔ محبت ایسی کہ جان نچھاور کرنے پر ہر دم تیار۔ تعظیم اس طرح کی کہ نگاہیں جھکی ہوئی اور آواز پست۔ عقیدت بے مثال کہ وضو کا پانی بھی اپنے چہروں اور جسموں پر مل لیتے ہیں۔
وارفتگی کی انتہا یہ کہ لعاب دہن تک زمین پر نہیں گرتا، یہ کیفیت کسی دنیوی بادشاہ کے دربار میں نہیں دیکھی۔ محمدؐ کی پیش کش انصاف پر مبنی ہے۔ اسے قبول کرنے کا مشورہ دیا۔ آخر کفار نے اپنا ایک اور سفیر بھیجا جو منفی انداز میں سوچنے والا تھا۔ (تاریخ طبری) مسلمانوں نے طے فرمایا کہ اپنا ایک سفیر گفتگو کے لیے روانہ کیا جائے۔ حضرت عثمانؓ کو حکم دیاگیا کہ مکے کے رئیسوں سے مذاکرات کریں۔ ان کے کزن ابن سعید نے کہاکہ عثمان تم کتنے خوش نصیب ہو کہ سب سے پہلے بیت اﷲ کا طواف کروگے۔
فرمایا جب تک رسولؐ کعبۃ اﷲ کا طواف نہیں کرتے عثمان ادھر دیکھے گا بھی نہیں۔ قریش برہم ہوئے اور حضرت عثمانؓ کو مکہ میں روک لیا۔ قید کے بعد افواہ پھیلی کہ انھیں شہید کردیاگیا ہے، مسلمانوں میں بے چینی پھیل گئی۔ حضورؐ نے فرمایا کہ ہم اس مقام سے اس وقت تک نہیں ٹل سکتے جب تک بدلہ نہ لے لیں۔ ایک درخت کے نیچے صحابہ کرامؓ سے بیعت لی گئی۔ (مغازی رسول اﷲؐ) ایک ایک کرکے چودہ سو آدمیوں نے یہ شرف حاصل کیا۔
آخر میں آپ نے ارشاد فرمایا کہ عثمان اﷲ اور اس کے رسولؐ کے کام پر گئے ہوئے ہیں یہ کہہ کر اپنے سیدھے ہاتھ کو عثمانؓ کا ہاتھ قرار دیا اور پھر اس کو اپنے بائیں ہاتھ پر مار کر فرمایا ''یہ عثمانؓ کی بیعت ہے۔ یہ ایک طرح سے اشارہ تھا کہ عثمان زندہ ہیں کیوں کہ بیعت زندوں سے ہوتی ہے۔ مسلمانوں کے عزم کی اطلاع کفار کو پہنچانے کا مقصد تھا کہ برائی ان کے ذہن میں ہے تو نکال دیں اور صلح پر آمادہ ہوجائیں۔ اس بیعت کو ''بیعت رضوان'' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جس کے بارے میں سورۂ فتح میں ذکر ہے۔ اطلاع آئی کہ عثمانؓ زندہ ہیں تو مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
قریش نے مان لیا کہ حج کے دنوں میں زیارت کعبہ پر کوئی پابندی نہیں لگائی جاسکتی۔ انھیں تسلیم تھا کہ مسلمان عمرہ کی نیت سے آئے ہیں۔ قریش نے سہیل بن عمرو کو اپنا نمایندہ بناکر معاہدہ طے کرنے کے لیے روانہ کیا۔ اس نے تجویز کیا کہ آئندہ سال اس عمرہ کی قضا کریں۔ آپؐ کی خاطر مکہ تین دن کے لیے خالی کردیا جائے تاکہ کسی تصادم کا اندیشہ نہ رہے۔ حضورؐ نے اس شرط کو منظور فرمایا۔
گفت و شنید کے بعد معاہدے کی شرائط پر اتفاق ہوا تو حضورؐ نے حضرت علیؓ کو معاہدہ لکھنے کا حکم دیا۔ جس کے مطابق یہ سب کچھ محمد رسول اﷲ ؐ اور اہل مکہ کے درمیان قرار پایا۔ سہیل نے کہاکہ ہم آپ کو پیغمبر مان لیتے تو جھگڑا کس بات کا تھا۔ یہاں اپنا اور اپنے والد کا نام لکھیے۔ حضرت علیؓ سے ارشاد ہوا کہ اسی طرح لکھ دو جس طرح یہ چاہتا ہے، حضرت علیؓ نے کہاکہ مجھ سے یہ نہ ہوسکے گا۔
رسول اﷲؐ نے خود اپنے دست مبارک سے رسول اﷲ مٹاکر محمد بن عبداﷲ لکھ دیا۔ دوسری روایات میں ہے کہ حضرت علیؓ سے لکھوایا۔ (صحیح مسلم) معاہدے کے مطابق دس سال تک جنگ روک دی جائے۔ مسلمانوں کو مکے میں اور قریش کو مدینے کی گزر گاہ پر امان حاصل ہوگا۔ اگلے سال آئیں اس سال واپس چلے جائیں۔ تین راتیں ٹھہریں اور تلوار میان میں ہو۔ قریش کا کوئی شخص آئے تو مسلمان واپس کریںگے لیکن محمدؐ کے ساتھیوں میں سے کوئی کفار کے پاس آئے تو سپرد نہیں کیاجائے گا۔
زخمی مسلمان قیدی ابو جندلؓ اس دوران آئے لیکن قریش نے واپس مکے بھجوا دیا۔ مسلمان تڑپ کر رہ گئے۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا کہ ہم حق پر نہیں۔ آنحضرتؐ نے فرمایا کہ میں وہی کرتا ہوں جو اﷲ کا حکم ہوتا ہے۔ (سیرت نبی کاملؐ) مسلمان بجھے بجھے سے تھے۔ بصیرت نبویؐ دور رس نتائج دیکھ رہی تھی۔ حضورؐ کے بعد صحابہ کرامؓ نے اپنے اپنے قربانی کے جانور ذبح کیے۔ (رسالت مآبؐ) دو سال بعد فتح مکہ نے ثابت کیا کہ صلح حدیبیہ واقعی مسلمانوں کے لیے ثابت ہوئی فتح مبین۔