اب اسی کی کسر رہ گئی تھی…
اس ثقافتی جنگ کا آغاز درحقیقت آج سے37 سال قبل اس وقت ہوا… جب پاکستان پر ضیاء کا دور مسلط ہوا۔
بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ پاکستان کو تو اس نے آج تک دل سے تسلیم نہیں کیا مگر اس کے ساتھ ساتھ اس خطے کے دیگر ممالک جن کے ساتھ اس کی سرحدیں جڑی ہوئی ہیں، وہ بھی اس کی ریشہ دوانیوں سے محفوظ نہیں ہیں۔ اپنے ملک سے غربت ختم کرنے کی بجائے اسلحے کے بڑے بڑے ڈھیر لگا کر پاکستان کو مرعوب کرنے کی ناکام کوشش کے بعد اس نے پاکستان پر ایک نئے انداز کا حملہ کیا اور یہ تھا ثقافتی حملہ... باعث افسوس یہ ہے کہ انڈیا اپنی اس کوشش میں صد فیصدکامیاب رہا، اور اپنی اسی کامیابی کے بارے میں ہی سونیا گاندھی نے فخریہ کہا تھا کہ ''ہم نے پاکستان کے خلاف اپنی ثقافتی جنگ جیت لی ہے۔''
اس ثقافتی جنگ کا آغاز درحقیقت آج سے37 سال قبل اس وقت ہوا... جب پاکستان پر ضیاء کا دور مسلط ہوا۔ اسلام کی آڑ لے کر آنے والے ضیاء نے پاکستان فلمی صنعت پر جو اس وقت عروج پر تھی، کاری وار کیا اور اپنی نام نہاد اسلامائزیشن پالیسی کا شکار کیا۔1970ء کی دہائی میں پاکستان ٹیلی ویژن سے ہر ہفتے پاکستانی اردو فیچر فلم پیش کی جاتی تھی جسے عوام انتہائی ذوق و شوق اور اہتمام سے دیکھا کرتے تھے مگر ضیاء کی پاکستانی فلموں سے مخاصمت کا عالم یہ تھا کہ اُس دور میں اُن پاکستانی فلموں کے لیے بھی ٹی وی کے دروازے بند کر دیے گئے۔
کئی سال کی بندش کے بعد غالباً1986ء یا 1987ء میں یہ سلسلہ دوبارہ شروع ہوا مگر اس وقت تک انڈین فلمیں ہمارے معاشرے میں سرایت کر چکی تھیں۔ ضیائی دور کے آغاز کے ساتھ ہی معاشرے کے حساس موضوعات پر بننے والی فلموں پر مارشل لا کے سنسر کی بے رحم قینچی چلنے لگی اور سینئر پروڈیوسرز و ڈائریکٹرزکے راستوں میں مشکلات کھڑی کی جانے لگیں تو ان جہاندیدہ لوگوں نے فلمی صنعت سے کنارہ کشی میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔
مارشل لا کی سختیوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ1985ء میں بننے والی ایک فلم کا جب نام ''بینظیر'' رکھا گیا تو فلم سنسر بورڈ نے اسے نمائش کا سرٹیفکیٹ دینے سے انکار کر دیا حالانکہ اس فلم کا محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی سیاسی جدوجہد سے قطعاً کوئی تعلق نہیں تھا اور نہ ہی اس کی کہانی کا کوئی سیاسی پس منظر تھا۔ یہ ایک خالصتاً سوشل فلم تھی۔ سنسر بورڈ کے اعتراض کے بعد فلم کے پروڈیوسر و ڈائریکٹر نے اس فلم کے نام میں تبدیلی کی اور اس کا نیا نام ''بینظیر قربانی'' رکھا گیا۔
اس کے بعد فلم کو سنسر سرٹیفکیٹ ملا مگر اس شرط کے ساتھ کہ لفظ ''بینظیر'' کو خفی لکھا جائے گا۔ راقم کو آج تک اچھی طرح یاد ہے کہ جب اس فلم کے پوسٹر چھپے اور اس کی اخباری تشہیر کی گئی تو اس میں لفظ ''بینظیر'' خفی اور ''قربانی'' جلی لکھا گیا۔ اپنے ملک کی فلمی صنعت کے لیے سخت رول ادا کرنے والے ضیاء کے دل میں انڈین فلموں کے لیے ازحد نرم گوشہ تھا ۔'' غیروں کو بانٹنا اور اپنوں کو ڈانٹنا'' کے مصداق وی سی آر کو ملک میں عام کرکے انڈین فلموں کے لیے راستہ بنایا گیا اور انڈین اداکاروں کو ''سرکاری مہمان'' کا درجہ دیا گیا۔
پاکستان کی تاریخ کا شعور رکھنے والوں کو آج بھی اچھی طرح یاد ہوگا کہ شترو گھن سنہا جب بھی پاکستان آتے تو وہ پریذیڈنٹ ہائوس میں سرکاری مہمان کے طور قیام کرتے اور پریذیڈنٹ ہائوس میں ان کی فلمیں باقاعدگی سے دیکھی جاتی تھیں۔ گیارہ سالہ جابرانہ دور میں فلمی صنعت ناموافق حالات کا سامنا کرتے کرتے نیم جاں ہوگئی۔ فلمی صنعت کی بدحالی نے سنیما مالکان کو اپنے سنیما مسمار کرکے وہاں شاپنگ سینٹرز قائم کرنے پر مجبور کر دیا۔
بعد میں آنے والی سیاسی حکومتوں نے بھی فلمی صنعت کی بحالی کے لیے سنجیدہ کوششیں نہیں کیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شاپنگ سینٹر بننے سے بچ جانے والے سنیما گھروں میں تواتر سے انڈین فلموں کی نمائش ہونے لگی۔ اس کڑوی حقیقت کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اب ان ہی سنیما گھروں کے مالکان ان میں پاکستانی فلموں کی نمائش سے انکاری ہیں۔
یہ سلسلہ یہیں پر نہیں تھما بلکہ سیٹلائٹ پر ٹی وی چینلز کی آمد نے انڈین ثقافتی یلغار کو اور تیز کر دیا۔ پاکستان میں ان تمام چینلز کو مکمل آزادی سے دکھایا جانے لگاکیونکہ ہمارے ارباب اختیار کی ساری حب الوطنی صرف تقریروں تک محدود رہتی ہے۔ اس کے برعکس انڈیا میں پاکستانی چینلز کو فری ہینڈ نہیں دیا گیا اور کوئی ایک آدھ ہی چینل انڈین ناظرین دیکھ سکے۔
انڈین پالیسی ساز جانتے ہیں کہ ان کے عوام پر پاکستانی ٹی وی ڈراموں کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے، اس لیے انھوں نے پاکستانی چینلز کو یہ موقع ہی فراہم نہیں کیا کہ وہ اپنے ڈراموں سے انڈین ناظرین کو سحر زدہ کر سکیں۔اس طرح یہ یکطرفہ ٹریفک چلتی رہی۔ بہرحال پاکستان میں انڈین انٹرٹینمنٹ چینلز نے اپنے مذہب و ثقافت اور لچر پن کو گلیمر کے رنگین لبادوں میں لپیٹ کر پاکستانی ناظرین کو اپنے سحر میں جکڑنے کی کوشش کی مگر انڈین ڈراموں کی حقیقت سے دوری نے جلد ہی پاکستانی ناظرین کو ان ڈراموں سے دور کر دیا۔
آخر کب تک... لوگ 500 کروڑ کے اثاثوں کی گردان یا بنارسی ساڑھیوں و بھاری بھرکم زیورات کو برداشت کرتے ۔ ان ڈراموں کے رائٹر انڈین معاشرے میں پائی جانے والی معاشی و معاشرتی ناہمواریوں اور وہاں کے حساس موضوعات کو کبھی چھوٹے اسکرین پر پیش نہیں کر سکے جب کہ ان کے معاشرے میں برہمن، اچھوت، شودر کے معاملے پر بھی کافی تقسیم پائی جاتی ہے۔ اس کے برعکس پاکستانی ڈرامہ رائٹرز(امجد اسلام امجد و دیگر) نے پنجاب کے جاگیر دارانہ سسٹم پر ''وارث''، ''سمندر''،'' دہلیز'' اورسندھ کے وڈیرانہ سسٹم پر عبدالقادر جونیجو، نورالہدیٰ شاہ وغیرہ نے ''جنگل''، ''دیواریں''،'' کارواں'' جیسے معرکۃ الٓارا سیریل تحریر کیے۔
شہری مسائل پر حسینہ معین کے قلم کے شاہکار ڈراموں ''ان کہی''، ''تنہائیاں''،''دھوپ کنارے''، ''کسک''، ''کرن کہانی'' ،'' شہزوری'' اور فاطمہ ثریا بجیا کے ''افشاں''، ''عروسہ'' بلاشبہ وہ سیریل تھے جن کے آن ایئر ٹائم پر سڑکیں سنسان ہو جایا کرتی تھیں۔ پھر اگر لطیف وشستہ مزاح لکھنے کی بات کی جائے تو انور مقصود جیسا گوہرِ نایاب انڈیا کے پاس بھلا کہاں... ''آنگن ٹیڑھا''،''ففٹی ففٹی'' اور عطاء الحق قاسمی کا ''خواجہ اینڈ سن''بھلا آج تک کون بھول سکا ہے ۔ اخلاقی و ثقافتی اقدار کے دائرے میں رہتے ہوئے اس سے بہتر کامیڈی کی مثال بھلا کیا دی جا سکتی ہے جب کہ انڈین کامیڈی ڈراموں کو صرف''پھکڑ پن'' سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
اس ثقافتی جنگ کا آغاز درحقیقت آج سے37 سال قبل اس وقت ہوا... جب پاکستان پر ضیاء کا دور مسلط ہوا۔ اسلام کی آڑ لے کر آنے والے ضیاء نے پاکستان فلمی صنعت پر جو اس وقت عروج پر تھی، کاری وار کیا اور اپنی نام نہاد اسلامائزیشن پالیسی کا شکار کیا۔1970ء کی دہائی میں پاکستان ٹیلی ویژن سے ہر ہفتے پاکستانی اردو فیچر فلم پیش کی جاتی تھی جسے عوام انتہائی ذوق و شوق اور اہتمام سے دیکھا کرتے تھے مگر ضیاء کی پاکستانی فلموں سے مخاصمت کا عالم یہ تھا کہ اُس دور میں اُن پاکستانی فلموں کے لیے بھی ٹی وی کے دروازے بند کر دیے گئے۔
کئی سال کی بندش کے بعد غالباً1986ء یا 1987ء میں یہ سلسلہ دوبارہ شروع ہوا مگر اس وقت تک انڈین فلمیں ہمارے معاشرے میں سرایت کر چکی تھیں۔ ضیائی دور کے آغاز کے ساتھ ہی معاشرے کے حساس موضوعات پر بننے والی فلموں پر مارشل لا کے سنسر کی بے رحم قینچی چلنے لگی اور سینئر پروڈیوسرز و ڈائریکٹرزکے راستوں میں مشکلات کھڑی کی جانے لگیں تو ان جہاندیدہ لوگوں نے فلمی صنعت سے کنارہ کشی میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔
مارشل لا کی سختیوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ1985ء میں بننے والی ایک فلم کا جب نام ''بینظیر'' رکھا گیا تو فلم سنسر بورڈ نے اسے نمائش کا سرٹیفکیٹ دینے سے انکار کر دیا حالانکہ اس فلم کا محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی سیاسی جدوجہد سے قطعاً کوئی تعلق نہیں تھا اور نہ ہی اس کی کہانی کا کوئی سیاسی پس منظر تھا۔ یہ ایک خالصتاً سوشل فلم تھی۔ سنسر بورڈ کے اعتراض کے بعد فلم کے پروڈیوسر و ڈائریکٹر نے اس فلم کے نام میں تبدیلی کی اور اس کا نیا نام ''بینظیر قربانی'' رکھا گیا۔
اس کے بعد فلم کو سنسر سرٹیفکیٹ ملا مگر اس شرط کے ساتھ کہ لفظ ''بینظیر'' کو خفی لکھا جائے گا۔ راقم کو آج تک اچھی طرح یاد ہے کہ جب اس فلم کے پوسٹر چھپے اور اس کی اخباری تشہیر کی گئی تو اس میں لفظ ''بینظیر'' خفی اور ''قربانی'' جلی لکھا گیا۔ اپنے ملک کی فلمی صنعت کے لیے سخت رول ادا کرنے والے ضیاء کے دل میں انڈین فلموں کے لیے ازحد نرم گوشہ تھا ۔'' غیروں کو بانٹنا اور اپنوں کو ڈانٹنا'' کے مصداق وی سی آر کو ملک میں عام کرکے انڈین فلموں کے لیے راستہ بنایا گیا اور انڈین اداکاروں کو ''سرکاری مہمان'' کا درجہ دیا گیا۔
پاکستان کی تاریخ کا شعور رکھنے والوں کو آج بھی اچھی طرح یاد ہوگا کہ شترو گھن سنہا جب بھی پاکستان آتے تو وہ پریذیڈنٹ ہائوس میں سرکاری مہمان کے طور قیام کرتے اور پریذیڈنٹ ہائوس میں ان کی فلمیں باقاعدگی سے دیکھی جاتی تھیں۔ گیارہ سالہ جابرانہ دور میں فلمی صنعت ناموافق حالات کا سامنا کرتے کرتے نیم جاں ہوگئی۔ فلمی صنعت کی بدحالی نے سنیما مالکان کو اپنے سنیما مسمار کرکے وہاں شاپنگ سینٹرز قائم کرنے پر مجبور کر دیا۔
بعد میں آنے والی سیاسی حکومتوں نے بھی فلمی صنعت کی بحالی کے لیے سنجیدہ کوششیں نہیں کیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شاپنگ سینٹر بننے سے بچ جانے والے سنیما گھروں میں تواتر سے انڈین فلموں کی نمائش ہونے لگی۔ اس کڑوی حقیقت کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اب ان ہی سنیما گھروں کے مالکان ان میں پاکستانی فلموں کی نمائش سے انکاری ہیں۔
یہ سلسلہ یہیں پر نہیں تھما بلکہ سیٹلائٹ پر ٹی وی چینلز کی آمد نے انڈین ثقافتی یلغار کو اور تیز کر دیا۔ پاکستان میں ان تمام چینلز کو مکمل آزادی سے دکھایا جانے لگاکیونکہ ہمارے ارباب اختیار کی ساری حب الوطنی صرف تقریروں تک محدود رہتی ہے۔ اس کے برعکس انڈیا میں پاکستانی چینلز کو فری ہینڈ نہیں دیا گیا اور کوئی ایک آدھ ہی چینل انڈین ناظرین دیکھ سکے۔
انڈین پالیسی ساز جانتے ہیں کہ ان کے عوام پر پاکستانی ٹی وی ڈراموں کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے، اس لیے انھوں نے پاکستانی چینلز کو یہ موقع ہی فراہم نہیں کیا کہ وہ اپنے ڈراموں سے انڈین ناظرین کو سحر زدہ کر سکیں۔اس طرح یہ یکطرفہ ٹریفک چلتی رہی۔ بہرحال پاکستان میں انڈین انٹرٹینمنٹ چینلز نے اپنے مذہب و ثقافت اور لچر پن کو گلیمر کے رنگین لبادوں میں لپیٹ کر پاکستانی ناظرین کو اپنے سحر میں جکڑنے کی کوشش کی مگر انڈین ڈراموں کی حقیقت سے دوری نے جلد ہی پاکستانی ناظرین کو ان ڈراموں سے دور کر دیا۔
آخر کب تک... لوگ 500 کروڑ کے اثاثوں کی گردان یا بنارسی ساڑھیوں و بھاری بھرکم زیورات کو برداشت کرتے ۔ ان ڈراموں کے رائٹر انڈین معاشرے میں پائی جانے والی معاشی و معاشرتی ناہمواریوں اور وہاں کے حساس موضوعات کو کبھی چھوٹے اسکرین پر پیش نہیں کر سکے جب کہ ان کے معاشرے میں برہمن، اچھوت، شودر کے معاملے پر بھی کافی تقسیم پائی جاتی ہے۔ اس کے برعکس پاکستانی ڈرامہ رائٹرز(امجد اسلام امجد و دیگر) نے پنجاب کے جاگیر دارانہ سسٹم پر ''وارث''، ''سمندر''،'' دہلیز'' اورسندھ کے وڈیرانہ سسٹم پر عبدالقادر جونیجو، نورالہدیٰ شاہ وغیرہ نے ''جنگل''، ''دیواریں''،'' کارواں'' جیسے معرکۃ الٓارا سیریل تحریر کیے۔
شہری مسائل پر حسینہ معین کے قلم کے شاہکار ڈراموں ''ان کہی''، ''تنہائیاں''،''دھوپ کنارے''، ''کسک''، ''کرن کہانی'' ،'' شہزوری'' اور فاطمہ ثریا بجیا کے ''افشاں''، ''عروسہ'' بلاشبہ وہ سیریل تھے جن کے آن ایئر ٹائم پر سڑکیں سنسان ہو جایا کرتی تھیں۔ پھر اگر لطیف وشستہ مزاح لکھنے کی بات کی جائے تو انور مقصود جیسا گوہرِ نایاب انڈیا کے پاس بھلا کہاں... ''آنگن ٹیڑھا''،''ففٹی ففٹی'' اور عطاء الحق قاسمی کا ''خواجہ اینڈ سن''بھلا آج تک کون بھول سکا ہے ۔ اخلاقی و ثقافتی اقدار کے دائرے میں رہتے ہوئے اس سے بہتر کامیڈی کی مثال بھلا کیا دی جا سکتی ہے جب کہ انڈین کامیڈی ڈراموں کو صرف''پھکڑ پن'' سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔