پی ٹی ڈی سی ملازمین کو 15ماہ سے تنخواہیں نہ مل سکیں
18ویں ترمیم کو4 سال، حکومت کو ڈیڑھ سال گزرگئے ادارے کے مستقبل کا فیصلہ نہ ہوسکا
اٹھارہویں ترمیم کو چار سال گزرنے کے باوجود پاکستان ٹورازم ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے مستقبل کا فیصلہ نہ ہوسکا۔
موجودہ حکومت کے اٹھارہ ماہ میں بھی ملک میں سیاحت کے فروغ کے لیے اقدامات نہ اٹھائے جا سکے۔ پی ٹی ڈی سی کے سیکڑوں کی تعداد میں ملازمین پندرہ ماہ کی تنخواہوں سے محروم ہیں۔ ملازمین کی تنخواہوں سمیت تمام سابقہ واجبات کے ادائیگی کے لیے فنڈز کی منظوری کے لیے سمری دوبارہ ترمیم کے بعد وزیر اعظم کو بجھوائی گئی تاہم وزیر اعظم کی ملک کے دیگر معاملات میں مصروفیات کی وجہ سے پی ٹی ڈی سی اور ان کے ملازمین کے تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے فیصلے نہ ہوسکے۔
تنخواہوں نے عدم ادائیگی کی وجہ سے ملازمین اور ان کی خاندان انتہائی کسمپرسی کا شکار ہو گئے ہیں۔پاکستان ٹورازم ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے ذمے دار ذرائع نے ایکسپریس کو بتایا ہے کہ پی ٹی ڈی سی کی بورڈ میٹنگ میں کابینہ ڈویژن سے سفارش کی ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے تحت پی ٹی ڈی سی کو صوبوں کے حوالے کرنے کے نوٹیفکیشن پر نظر ثانی کرتے ہوئے اسے منسوخ کریں تاکہ پی ٹی ڈی سی وفاقی سطح پر رہتے ہوئے ملک اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی سیاحت کو فروغ کرنے میں اپنا کردار ادا کرسکے۔
پی ٹی ڈی سی حکام نے ادارے کے ملازمین کی سابقہ تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے ایک ارب پچاس کروڑ روپے کی ایک سمری وزیر اعظم سے منظوری کے لیے ترمیم کے بعد دوسری بار بجھوادی ہے، جس کی منظوری کے بعد ملازمین کی گزشتہ پندرہ سے سترہ ماہ کی تنخواہیں اور دیگر سابقہ واجبات ادا کیے جائیں گے۔
وفاقی حکومت کی طرف سے فنڈز کی منظوری کے بعد ادارے میں ملازمین کا بوجھ کم کرنے کے لیے گولڈن ہینڈ شیک طرز کی اسکیمیں بھی اناؤنس کی جائیں گی۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد تاحال وفاقی حکومت کی طرف سے ملکی وغیر ملکی سطح پر پاکستان کی سیاحت کے فروٓغ کے لیے کوئی سیاحتی پالیسی کا رخ متعین نہیں کیا جاسکا۔
ذرائع نے بتایا کہ پی ٹی ڈی سی کے سیاحتی مقامات ایوبیہ، ناران، سیدوشریف، میاندم، سکردو اور گلگت میں موجودہ موٹلوں کی مقامی سیاحوں کا رش رہا جس سے پی ٹی ڈی سی کو اچھا ریونیو حاصل ہوا جو ادارے کے موٹلز کے ملازمین کی کچھ تنخواہیں ادا کی گئیں، تاہم ادارے کے سیکڑوں ملازمین کی پندرہ سے سترہ ماہ تنخواہیں بقایہ ہیں۔
موجودہ حکومت کے اٹھارہ ماہ میں بھی ملک میں سیاحت کے فروغ کے لیے اقدامات نہ اٹھائے جا سکے۔ پی ٹی ڈی سی کے سیکڑوں کی تعداد میں ملازمین پندرہ ماہ کی تنخواہوں سے محروم ہیں۔ ملازمین کی تنخواہوں سمیت تمام سابقہ واجبات کے ادائیگی کے لیے فنڈز کی منظوری کے لیے سمری دوبارہ ترمیم کے بعد وزیر اعظم کو بجھوائی گئی تاہم وزیر اعظم کی ملک کے دیگر معاملات میں مصروفیات کی وجہ سے پی ٹی ڈی سی اور ان کے ملازمین کے تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے فیصلے نہ ہوسکے۔
تنخواہوں نے عدم ادائیگی کی وجہ سے ملازمین اور ان کی خاندان انتہائی کسمپرسی کا شکار ہو گئے ہیں۔پاکستان ٹورازم ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے ذمے دار ذرائع نے ایکسپریس کو بتایا ہے کہ پی ٹی ڈی سی کی بورڈ میٹنگ میں کابینہ ڈویژن سے سفارش کی ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے تحت پی ٹی ڈی سی کو صوبوں کے حوالے کرنے کے نوٹیفکیشن پر نظر ثانی کرتے ہوئے اسے منسوخ کریں تاکہ پی ٹی ڈی سی وفاقی سطح پر رہتے ہوئے ملک اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی سیاحت کو فروغ کرنے میں اپنا کردار ادا کرسکے۔
پی ٹی ڈی سی حکام نے ادارے کے ملازمین کی سابقہ تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے ایک ارب پچاس کروڑ روپے کی ایک سمری وزیر اعظم سے منظوری کے لیے ترمیم کے بعد دوسری بار بجھوادی ہے، جس کی منظوری کے بعد ملازمین کی گزشتہ پندرہ سے سترہ ماہ کی تنخواہیں اور دیگر سابقہ واجبات ادا کیے جائیں گے۔
وفاقی حکومت کی طرف سے فنڈز کی منظوری کے بعد ادارے میں ملازمین کا بوجھ کم کرنے کے لیے گولڈن ہینڈ شیک طرز کی اسکیمیں بھی اناؤنس کی جائیں گی۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد تاحال وفاقی حکومت کی طرف سے ملکی وغیر ملکی سطح پر پاکستان کی سیاحت کے فروٓغ کے لیے کوئی سیاحتی پالیسی کا رخ متعین نہیں کیا جاسکا۔
ذرائع نے بتایا کہ پی ٹی ڈی سی کے سیاحتی مقامات ایوبیہ، ناران، سیدوشریف، میاندم، سکردو اور گلگت میں موجودہ موٹلوں کی مقامی سیاحوں کا رش رہا جس سے پی ٹی ڈی سی کو اچھا ریونیو حاصل ہوا جو ادارے کے موٹلز کے ملازمین کی کچھ تنخواہیں ادا کی گئیں، تاہم ادارے کے سیکڑوں ملازمین کی پندرہ سے سترہ ماہ تنخواہیں بقایہ ہیں۔