میرا ہاتھ اور آپ کا گریبان یادیں

ڈاکٹروں کا کہنا ہے دل کا معاملہ ہے ، کوئی دل لگی نہیں، میڈیکل بورڈ نے کیس اسلام آبادبھجوا دیا ہے ۔

جمعیت علمائے پاکستان کے سربراہ شاہ احمد نورانی سے میرا صحافتی تعارف بحیثیت چیف رپورٹر 1979ء میں ہوا جو کم از کم تین عشروں تک رہا ۔ وہ نہ صرف صحافیوں میں بے حد مقبول تھے بلکہ ان کی وضع داری اور شرافت بے مثل تھی ، ان کی شخصیت سے سیاسی اخلاقیات اور پارلیمانی آداب کے تمام دینی اور مذہبی آداب و نفاستوں کے دھارے بھرپور اظہار پاتے تھے ۔

روایتی واعظ شہر نہیں تھے ۔ دلنشیں انداز قرات و بیان تھا، غضب کا حس مزاح sense of humour رکھتے تھے ۔ بہت بڑے جمہوریت پسند تھے، جنرل ضیاء الحق کے حوالہ سے ایک بار یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ ''یوم حشر میرا ہاتھ اور آپ کا گریباں ہوگا ۔'' امن و رواداری ، انسان دوستی اور دینی اقدار کی اس روشن اور عدم تشدد کی روندی جانے والی اس روش پر بے خوف ہوکر چلے جس کی تکذیب و تضحیک آج کے انتہا پسند کرتے رہے جنھوں نے اسلام کے امن پسند مذہب ہونے کا آفاقی اعلان بھی قدموں تلے روند کر پشاور میں بربریت کا بازار گرم کردیا ۔

مگر اس کا نتیجہ بھی مکافات عمل کے آئینہ میں دیکھ لیا ۔آمروں کے خلاف نورانی میاں کی کج کلہی ، جرات اظہار اور دو ٹوک تنقید سے ماضی کے اخبارات کے صفحات بھرے پڑے ہیں ۔ وہ غفلت شعار حکمرانوں پر بلا کی چوٹ کرتے مگر ظرف و فصاحت کے ساتھ۔ ضیا کی آمریت کے بارے میں ان کا مشہور فقرہ تھا کہ حکومت بنجمن سسٹرز کی ہم آواز ہے ۔ ان دنوں تین ہم سُر گلوکاراؤں بنجمن سسٹرز کا طوطی بولتا تھا۔ وہ مختلف زبانوں اور بین المذاہب تاریخی حوالوں اور ماخذات کا گہرا شعور رکھتے تھے ۔ میں نے پہلی ملاقات ان سے گھر پر کی ۔ اخبار کے لیے مجھے انھوں نے نیوز انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ جب بھی وقت ملے اس غریب خانہ پر آجا یا کریں، فقیر کا در آپ کو ہمیشہ کھلا ملے گا۔ انھوں نے جب بھی کسی کو خط لکھا آخر میں اپنے نام سے پہلے فقیر ضرور لکھتے ۔

وہ صدر کی معروف میمن مسجد سے متصل دو منزلہ ایک نیم خستہ عمارت میں معہ اہل خانہ سکونت پزیر تھے، ایک دن میں عصر کی نماز پڑھ کر جب مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر جوتے کے تسمے باندھ رہا تھا تو میں نے محسوس کیا کہ میرے اطراف لوگ مجھے دیکھ رہے ہیں ، خیال آیا کہ کوئی گستاخی ہورہی ہے مگر پلٹ کر دیکھا تو حضرت ہاتھ باندھے مشفقانہ انداز میں میرے اٹھنے کے منتظر تھے، کیا کسر نفسی تھی ، عجز کا کیا مقام اور فقیری کس درجہ کی تھی ، میں ان کے پیچھے چل دیا اور گھر پر چائے اور ٹھنڈی برفی پیش کی۔

گفتگو کی ،خبر لے کر میں دفتر آیا ۔پھر میرا وطیرہ بن گیا کہ دس پندرہ دن میں ایک بار ٹیلی فون پر یا ملاقات کر کے سیاسی صورتحال پر ان کا بیان لے لیتا ، مجھے عبید اﷲ قادری نے بتایا کہ غلام محمد ڈوسل جو اسلحہ کے تاجر تھے اس مکان کو اس درخواست کے ساتھ حضرت کے سپرد کرچکے تھے کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ جب تک یہاں رہنا چاہیں رہ سکتے ہیں ۔وہ خستہ لکڑیوں کی ڈولتی جھومتی سیڑھی مجھے یاد ہے جہاں قدر آور سیاسی رہنما آکر ایک چھوٹے سے کمرے اور بالائی منزل پر بنے ہوئے ہال میں مکالمہ ، سیاسی ملاقاتیں اور اجلاس کرتے تھے ۔اب ان کی زندگی اور سیاست کے چند چشم کشا واقعات:

1983کی تحریک بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی) نے جنرل ضیاء الحق کی آمریت کو چیلنج کیا اور پورے ملک میں سیاسی ایجی ٹیشن جاری تھا۔ تحریک کے آخری دنوںمیں شاہ احمد نورانی کی قیادت میں ایک سیاسی وفد کے ہمراہ اندرون سندھ جانے کا موقع ملا ۔اس وفد میں پروفیسر شاہ فریدالحق ، مختلف دانشور ، سیاسی کارکن سمیت مسلم لیگ کے رہنما ہارون احمد شامل تھے، اختر رضوی بھی اس وفد کا حصہ تھے جو ایم کیو ایم کے نظریاتی ماسٹر مائنڈ شامل تھے۔ وفد سب سے پہلے نیو جتوئی پہنچا ۔جناب غلام مصطفیٰ جتوئی صاحب موجود نہ تھے مگر رابطہ مہم وہیں سے شروع ہوئی اور مولانا نے جمہوریت کا بھرپور دفاع کیا، مختلف سیاسی رہنما اور کارکن اس اجتماع میں شریک رہے ،پھر پولیس اور انٹیلی جنس ادارے متحرک ہوئے اور ایک ایس پی ، ڈی ایس پی اپنے پولیس اہلکاروں کے ساتھ وفد کا تعاقب کرتے رہے۔


قاضی احمد میں سردار علی نواز انڑ کے مہمان رہے، ان کی زیر ہدایت مسجد و مدرسہ کا معائنہ کرتے ہوئے انڑ صاحب نے مولانا کو بتایا کہ اس مدرسہ کے ٹائلز کی تنصیب اور زیبائش کے لیے ماہرین تعمیرات سے یہ ضمانت لی گئی ہے کہ یہ عمارت عجلت میں نہیں بنے گی بلکہ اس کی تعمیر میں مضمر خوبی اس کے در و دیوار کی نقاشی ، چوبکاری اور ٹائلز کی جڑت اور بنت کے جمالیاتی حسن سے ظاہر ہونی چاہیے ۔ مرد عاجز علی نواز انڑسندھ کے ان علم دوست وڈیروں میں سے تھے جن کا ادبی ، تاریخی اور دینی مشغلہ دنیا بھر سے قدیم نسخہ جات اور تحقیقی مواد منگانا تھا ۔ نواب شاہ میں کوچ کو روک کر پولیس نے باقاعدہ گنیں تان لیں، وہی پولیس افسر اندر داخل ہوکر مولانا سے مخاطب ہوا،''مولانا صاحب آپ کہاں جا رہے ہیں؟'' '' یہ ہمارا وطن ہے۔

جہاں جی چاہے گا جائیں گے،آپ کیوں پوچھ رہے ہیں؟''کئی تلخ سوال جواب ہوئے ،اور آخر کار پولیس کی گنیں نیچے ہوئیں اور قافلہ عدالحمید جتوئی کے گھر پہنچا ، لیاقت جتوئی نے خیر مقدم کیا ، حمید جتوئی صاحب انتہائی لائق سیاست دان تھے، وہاں سے وفد ہالا گیا، مخدوم امین فہیم ، خلیق الزماں اور دیگر مخدوم بھائیوں نے تبادلہ خیال، کیا مولانا نے جمہوریت کے حوالہ سے سندھی مہاجر یک جہتی اور بقائے باہمی کے نئے امکانات اور زمینی حقائق پر مدلل تقریر کی ، رہنماؤں کی بڑی تعداد سے ملاقات کی ، شاہ لطیف بھٹائی کے مزار پر حاضری دی، پنہل خان چانڈیو کا علاقہ دیکھا ، رات بھر وہاں سیاسی کارکنوں اور شہیدوں کے اہل خانہ سے دکھ شیئر کیے ، اس علاقے میں ہولناک فوجی کارروائی ہوئی تھی ۔یہ وفد پانچ روزہ دورے کے بعد کراچی پہنچا ۔

مولانا اپنے بیٹوں انس اور اویس دونوں سے بے پناہ محبت کرتے تھے، انس نورانی قدرے متین و بردبار اور اویس کی طبیعت میں شوخی تھی ، صحافیوں سے چھیڑچھاڑ کرتے ، ہمیں اکثر گھر میں حضرت کے انتظار میں بیٹھا دیکھتے تو شرارتاً یہ کہتے ہوئے کمرے میں بھاگ جاتے کہ ''آپ لوگوں کو کوئی اور کام نہیں ہے۔''ایک دن کار کے دردناک حادثہ میں انس نورانی شدید زخمی ہوکر جناح اسپتال داخل کیے گئے ،ان کے سر پر گہری چوٹ آئی ، بے ہوش ہوگئے تھے، ہوا یوں کہ اپنی پھوپھی ڈاکٹر فریدہ احمد کی کار چپکے سے لے کر لکی اسٹار چورنگی پر گھومنے نکلے تھے کہ کسی گاڑی سے ٹکرا گئے۔

مولانا کو خبر ہوئی تو سخت رنجیدہ ہوئے ، مگر برہمی کا یہ عالم تھا کہ جناح اسپتال انھیں دیکھنے نہیں گئے صوفی ایاز خان نیازی ، پرفیسر شاہ فریدالحق ، صدیق راٹھور ، سید ارشاد علی ، مفتی جمیل نعیمی اور عبید اﷲ قادری نے مل کر مولانا عبدالستار خان نیازی سے درخواست کی کہ وہ جلد کراچی آکر حضرت کو منالیں اور بچے کی خیریت دریافت کرنے حضرت کو اسپتال لے جائیں، یوں مولانا ستار نیازی کی التجا پر مولانا جناح اسپتال گئے لیکن ہدایت کی کہ انس کا علاج عام مریضوں کی طرح جنرل وارڈ ہی میں ہوگا ۔ 82 ء میں سینئر صحافی عبدالجبار خان کے برادر نسبتی ایک جرمن دوشیزہ ایلکے کو کراچی لائے اورقبول اسلام کے لیے میں نے مولانا سے وقت لیا ،جرمن خاتون کی اسلام قبول کرتے وقت اس وقت خوشی دیدنی تھی جب مولانا نے ان کو کلمہ پڑھایا اورکہا کہ Now You are ٕ

Muslim ۔ ان کا نام نادیہ رکھا گیا، جرمن دوشیزہ صرف اتنا کہہ سکی So simple ! ، پھر دعا کے لیے ہم سب کے ہاتھ اٹھ گئے۔بعد ازاں ایک اور خاتون یاسمین کے نام سے مسلمان ہوئیں، ان کا ایک بیٹا محمد جنید دیار غیر میں اسلام کا نام لیوا ہے ۔ عارضہ قلب کے باعث مولانا امراض قلب کے اسپتال کارڈیو ویسکولر میں داخل ہوئے ، فوٹو گرافر سجاد ساتھ تھے ، ہم کڑی دھوپ میں انتہائی نگہداشت کے یونٹ پہنچ گئے ، ڈاکٹر نے ملاقات سے منع کردیا، سجاد نے راستہ نکالتے ہوئے مسیحا سے منت کی کہ دروازہ اگر کھلا اور مولانا نے خود ہمیں اندر بلایا تب جائیں گے، لہٰذا دروازہ اسٹریچر جانے کے لیے کھلا تو حضرت کی نظر ہم پر پڑی ، مسکرائے ، ہاتھ کے اشارے سے بلایا ، دھیرے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ''ڈاکٹروں کا کہنا ہے دل کا معاملہ ہے ، کوئی دل لگی نہیں، میڈیکل بورڈ نے کیس اسلام آبادبھجوا دیا ہے ۔'' بہت سارے قصے ہیں ، کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں ۔

اک سخن اور کہ پھر رنگِ تکلم تیرا
حر ف ِسادہ کو عنایت کرے اعجاز کوئی
Load Next Story