سندھی کلچر اوطاق کا الوداع
بڑے مزے کی بات یہ ہے کہ یہ شاعر پڑھے لکھے نہیں ہوتے تھے مگر ان کے لفظوں کی ادائیگی بڑی صحیح ہوتی تھی.
صدیوں سے سندھ کی مہمان نوازی پوری دنیا میں مشہور ہے لیکن جس طرح سے پوری دنیا کو مادیت پرستی (میٹریل ازم) نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اسی طرح سندھ بھی اس بھیانک وبا سے متاثر ہوا ہے، جس کی وجہ سے سندھ سے تاریخی کلچر اوطاق آخری سانسیں لے رہی ہے، ورنہ پاکستان بننے کے بعد بھی تقریباً 1980 تک اوطاق جسے وہ جگہ کہا جاتا ہے جہاں پر باہر سے آنے والے مہمانوں کو ٹھہرایا جاتا ہے حتیٰ کہ اپنے قریبی رشتے داروں میں بھی عورتیں گھر پر ٹھہرتی ہیں اور مرد اوطاق میں رہتے ہیں۔ اوطاق کی مزید تفصیل آگے بتاؤںگا۔
ایک وقت تھا کہ سندھ کے ہر گاؤں اور شہر میں ایک یا ایک سے زیادہ اوطاقیں ہوتی تھیں جہاں پر صبح سے رات کے دیر تک لوگوں کا آنا جانا رہتا تھا مگر اس کی رونق میں اضافہ شام سے آدھی رات تک رہتا تھا۔ ہمارے لوگ اتنے مہمان نواز ہوتے تھے کہ ہر روز شام کو سورج غروب ہونے کے وقت گاؤں کے باہر داخلی جگہ پر کھڑے ہوجاتے تھے کہ جیسے ہی کوئی اپنا یا پھر پرایا مہمان نظر آئے تو اسے اپنی اوطاق پر لے جائیں اور اس کی خدمت کریں۔ اس سلسلے میں وہ دعائیں بھی مانگتے تھے اور اگر مہمان کم ہوں اور میزبان زیادہ تو آپس میں کہتے تھے کہ وہ ان کا مہمان بنے گا۔ آخر کار یہ طے ہوتا تھا کہ وہ سب کے پاس ایک دن اور ایک رات ٹھہریں گے۔ اوطاق زیادہ تر زمیندار یا پھر خوش حال لوگ رکھتے تھے۔
جہاں پر شام ہوتے ہی کچھ لوگ جھاڑو دیتے، کچھ پانی بھر کر رکھتے اور باقی چارپائیاں ٹھیک کرکے اس کے اوپر روایتی سندھی چادر جسے رلھی کہتے ہیں وہ بچھائی جاتی تھی اس کے علاوہ کرسیاں تنکوں کے بنے ہوئے موڑے (Chair) اور نیچے ہلال سے بنے ہوئے یا پھر لکڑی کی بنی ہوئی بیٹھنے کی سندلی صاف کرکے اپنی جگہ پر رکھی جاتی تھی۔ اوطاق کا مالک اور آنے والے مہمان ایک ساتھ ایک طرف بیٹھتے تھے اور باقی لوگ ان کے ارد گرد بیٹھے رہتے تھے۔ اوطاق میں ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ وہاں پر حقہ بھی پڑا رہتا تھا کیوں کہ اس زمانے میں سگریٹ پینے کا رواج نہیں تھا یا پھر پتے کی بیڑی پی جاتی تھی جو اگر مہمان چاہے تو اسے پیش کی جاتی تھی۔
اگر گرمی کا موسم ہے تو ہاتھ کے پنکھے رکھے ہوتے تھے جس سے مہمان کو ہوا دی جاتی تھی اور اگر سردی ہے تو پھر سارے لوگ زمیندار سمیت آگ کے ارد گرد بیٹھ جاتے تھے اور اس کے لیے جنگل سے لکڑیاں لے کر آنا اور اسے سنبھال کر رکھنا کسی ایک کی ذمے داری ہوتی تھی اگر گرمیاں ہیں اور مچھروں کا موسم ہے تو پھر کونے پر گوبر کی بنائی ہوئی سوکھی ٹکیاں جلاکر اس کے دھویں سے مچھروں کو بھگایا جاتا تھا اور یہ سلسلہ رات بھر جاری رہتا تھا۔ تاکہ مہمان آرام سے اپنی نیند پوری کرسکے۔ اوطاق کی دوسری چیزوں میں ریڈیو بھی اہم تھا جس میں سے شام ہوتے ہی ریڈیو پاکستان حیدرآباد سے کچہری کے نام سے گاؤں والوں کے لیے پروگرام شروع ہوتا تھا جسے سید صالح محمد شاہ پیش کرتے تھے۔
مہمان کو بڑے پرتپاک سے اوطاق میں لایا جاتاتھا جسے چارپائی پر بٹھانے سے پہلے ہاتھ منہ دھلواکر پانی پلایاجاتا اور اس کے بعد کلچر کے حساب سے اس کی خیریت پوچھی جاتی جو اتنی طویل ہوتی تھی کہ اس میں 5منٹ لگ جاتے تھے جس میں اس کی گھر کی خیریت، گاؤں یا شہر کی خیریت، اس کے کام کا حال، راستے میں آتے یہاں تک پہنچنے کا حال احوال، اس کے بعد میزبان سے آنے کا مطلب پوچھا جاتاتھا۔اب باری باری ہر گاؤں والا گلے ملکر، ادب سے مہمان کو ملتے تھے اور ہر آدمی اپنی طرف سے چھوٹا موٹا تحفہ اس لیے لاتا تھا جتنے بھی دن مہمان اوطاق پر قیام کرتا تھا مختلف لوگ مختلف کھانے لایا کرتے تھے اور سب ملکر کھاتے تھے۔
اوطاق گاؤں اور شہروں میں ایک ادبی، فنی، ثقافتی اور تعلیمی انسٹیٹیوٹ کے طور پر کام کرتی تھی، ہاری، مزدور، بزنس کرنے والے ، دکاندار اور ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ وہاں پر جمع ہوجاتے تھے جیسے جیسے سورج غروب ہوتا تھا اس سے تھوڑا پہلے ریڈیو پاکستان کا پروگرام کچہری سنتے تھے جس میں سید صالح محمد شاہ ،فتح محمد کا رول ادا کرنا شروع کردیتا تھا جس میں سب سے پہلے زراعت کے بارے میں ہاریوں کو معلومات فراہم کرتے اس کے بعد موسیقی کا رنگ پیش ہوتا تھا پھر خبریں اور حالات حاضرہ پر تبصرہ کرتاتھا۔ اس پروگرام کو سارے لوگ بڑے توجہ سے سنتے تھے۔
اب مرحلہ شروع ہوتا تھا جنگ، بوٹنڈا اور بانسری بجانے کا۔ اس کے بعد لوگ ادب کے شاعر اپنی شاعری پڑھتے تھے جو مستند اور ثقافتی اہمیت کی حامل ہوتی تھی اس پروگرام میں وہ پہیلیاں شاعری میں دیتے تھے اور اسے پوچھنے والے بھی شاعری میں جواب دیتے تھے، بڑے مزے کی بات یہ ہے کہ یہ شاعر پڑھے لکھے نہیں ہوتے تھے مگر ان کے لفظوں کی ادائیگی بڑی صحیح ہوتی تھی کیوں کہ یہ فن ان کے پاس نسل در نسل چلتا آتا ہے ان کی شاعری سندھی زبان کی اصلیت کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اس مرحلے کے ختم ہونے کے بعد حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی اور سچل سرمست کی شاعری پڑھی جاتی تھی۔
آخر میں گاؤں کے سنگر جو خود بخود گاتے تھے بھٹائی کے کلام اور دوسرے اس وقت کے مشہور گانے والوں کے کلام گاکر محفل کو گرمادیتے تھے۔ اس دور میں ایک بات بہت اچھی تھی کہ شاعری بزرگ شاعروں کی پڑھی جاتی تھی، اسی دوران حقہ کی باری چاروں طرف گھومتی رہتی تھی اور اس کی گڑگڑ میں ایک دلنواز آواز ہوتی تھی اس اوطاق میں گاؤں کے لڑکے بھی آکر کھڑے ہوجاتے تھے جو ہلکا پھلکا اوطاق کا کام کرتے تھے جس میں گھر سے انگارے لانا جو حقے میں ڈالے جاتے تھے۔
اب جب رات ایک بجے تک پہنچ جاتی تو لوگ کھلے آسمان میں تاروں کی طرف دیکھ کر محفل کو برخواست کرنے کے لیے مہمان سے اجازت مانگتے تھے اور کہتے تھے کہ اب وہ آرام کرے کیوں کہ دن بھر کا سفر تھکاوٹ پیدا کرچکا ہوگا۔ سونے سے پہلے مہمان کو دودھ کا ایک بڑا کٹورا پینے کے لیے دیاجاتا تھا کیوں کہ اگر انھیں دودھ نہیں دیا گیا تو اس کا مطلب ہے کہ یہ گاؤں خوش حال نہیں ہے۔ مہمان کو صبح کو مکھن اور لسی دی جاتی تھی یا اس کے ساتھ دیسی انڈا تلا ہوا ہوتا تھا اور دوپہر کے کھانے مرغی کیوں کہ اس زمانے میں یہ اصول تھا کہ مرغی اس وقت پکائی جاتی تھی جب کوئی مہمان آجاتے۔ ورنہ مچھلی، گوشت، دال سبزی کھانا زیادہ پسند کرتے تھے جب مہمان خود تنگ نہ آجائے اسے جانے نہیں دیاجاتاتھا اور جب وہ رخصت ہوتے تو انھیں تحائف سے بھر دیا جاتا تھا ۔
گاؤں کے مقابلے میں شہروں کی اوطاق تھوڑی سی مختلف ہوتی تھی کیوں کہ وہاں پر دوسری چیزوں کے ساتھ ساتھ سیاسی محفلیں بھی ہوتی تھیں جو کبھی کبھار ادبی سرگرمیوں اور میٹنگ کو بھی اہمیت دے کر انھیں منعقد کروانے میں اپنا کردار ادا کرتی رہی ہیں۔ لاڑکانہ شہر میں قادریوں کی اوطاق، عباسیوں کی اوطاق، پیرزادہ کی اوطاق، قاضیوں کی اوطاق، انڑکی اوطاق، جعفریوں کی اوطاق، بگھیوں کی اوطاق اور لاہوری کی اوطاق کے علاوہ اور بہت ساری اوطاقیں ہوتی تھی جہاں پر لوگ صبح سے لے کر شام تک اپنے سیاسی اور سماجی مسائل کے حل کے لیے آتے تھے جب کہ شام کے وقت صرف ادبی اور تعلیمی محفلوں کے ساتھ ثقافتی محفل بھی منعقد ہوتی تھی۔
اب 1980 کا زمانہ جب آیا تو اس کے بعد اوطاقیں ویران ہونے لگیں، گاؤں میں ڈاکوؤں نے اپنے ڈیرے ڈالنے شروع کیے جس کی وجہ سے لوگوں نے وہاں جانا چھوڑدیا اس کے بعد جب کیبل کا سسٹم آیا تو لوگوں نے گاؤں میں ہوٹلوں کی طرف رخ کیا جو جھونپڑی نما تھے وہاں پر صبح سے لے کر رات گئے دیر تک چائے کے کپ پر بیٹھے رہتے جس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اب زرعی پرانا نظام ختم ہوگیا تھا، جس کی جگہ مشینری نے لے لی تھی اور ہاری کام سے 90فی صد فارغ ہوگئے تھے۔ لوگوں کے ذہن میں بھی تبدیلی آگئی تھی وہ اب بالی ووڈ اور ہالی ووڈ کی فلمیں اور ڈرامے دیکھنے لگے تھے۔
جس نے انھیں اپنے کلچر سے کافی دور کردیا تھا۔ شہروں میں بھی اوطاقیں ختم ہوتی گئیں اور لوگوں نے ہوٹلوں کا رخ کیا ۔ اس کے بعد جیسے جیسے ترقی ہوتی گئی شہریوں نے اپنے گھر میں ڈرائنگ روم بنائے اور وہاں پر اپنی ادبی، سماجی اور سیاسی نشستیں چھوٹے پیمانے پر منعقد کرتے رہے لیکن پھر ایک ایسا وقت آیا کہ شہروں میں بڑے بڑے اے سی (Air Conditioner) والے ہوٹل بن گئے جہاں پر لوگ اپنے پروگرام کرنے لگے اور انھیں اوطاق کے طورپر استعمال کرنے لگے ۔
میں اب اتنا کہوںگا کہ اگر ہمیں اپنے ثقافتی ورثے کو جس میں اوطاق کا کلچر بھی ہے اگر دوبارہ بحال اور زندہ کردیا تو ہم اس وقت کی دہشت گردی اور خوف والی صورت حال سے نکل سکتے ہیں جس کے لیے ہمیں حکومت سے ملکر کام کرنا ہوگا اور اس میں نوجوانوں کا کردار سرفہرست ہونا چاہیے۔
ایک وقت تھا کہ سندھ کے ہر گاؤں اور شہر میں ایک یا ایک سے زیادہ اوطاقیں ہوتی تھیں جہاں پر صبح سے رات کے دیر تک لوگوں کا آنا جانا رہتا تھا مگر اس کی رونق میں اضافہ شام سے آدھی رات تک رہتا تھا۔ ہمارے لوگ اتنے مہمان نواز ہوتے تھے کہ ہر روز شام کو سورج غروب ہونے کے وقت گاؤں کے باہر داخلی جگہ پر کھڑے ہوجاتے تھے کہ جیسے ہی کوئی اپنا یا پھر پرایا مہمان نظر آئے تو اسے اپنی اوطاق پر لے جائیں اور اس کی خدمت کریں۔ اس سلسلے میں وہ دعائیں بھی مانگتے تھے اور اگر مہمان کم ہوں اور میزبان زیادہ تو آپس میں کہتے تھے کہ وہ ان کا مہمان بنے گا۔ آخر کار یہ طے ہوتا تھا کہ وہ سب کے پاس ایک دن اور ایک رات ٹھہریں گے۔ اوطاق زیادہ تر زمیندار یا پھر خوش حال لوگ رکھتے تھے۔
جہاں پر شام ہوتے ہی کچھ لوگ جھاڑو دیتے، کچھ پانی بھر کر رکھتے اور باقی چارپائیاں ٹھیک کرکے اس کے اوپر روایتی سندھی چادر جسے رلھی کہتے ہیں وہ بچھائی جاتی تھی اس کے علاوہ کرسیاں تنکوں کے بنے ہوئے موڑے (Chair) اور نیچے ہلال سے بنے ہوئے یا پھر لکڑی کی بنی ہوئی بیٹھنے کی سندلی صاف کرکے اپنی جگہ پر رکھی جاتی تھی۔ اوطاق کا مالک اور آنے والے مہمان ایک ساتھ ایک طرف بیٹھتے تھے اور باقی لوگ ان کے ارد گرد بیٹھے رہتے تھے۔ اوطاق میں ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ وہاں پر حقہ بھی پڑا رہتا تھا کیوں کہ اس زمانے میں سگریٹ پینے کا رواج نہیں تھا یا پھر پتے کی بیڑی پی جاتی تھی جو اگر مہمان چاہے تو اسے پیش کی جاتی تھی۔
اگر گرمی کا موسم ہے تو ہاتھ کے پنکھے رکھے ہوتے تھے جس سے مہمان کو ہوا دی جاتی تھی اور اگر سردی ہے تو پھر سارے لوگ زمیندار سمیت آگ کے ارد گرد بیٹھ جاتے تھے اور اس کے لیے جنگل سے لکڑیاں لے کر آنا اور اسے سنبھال کر رکھنا کسی ایک کی ذمے داری ہوتی تھی اگر گرمیاں ہیں اور مچھروں کا موسم ہے تو پھر کونے پر گوبر کی بنائی ہوئی سوکھی ٹکیاں جلاکر اس کے دھویں سے مچھروں کو بھگایا جاتا تھا اور یہ سلسلہ رات بھر جاری رہتا تھا۔ تاکہ مہمان آرام سے اپنی نیند پوری کرسکے۔ اوطاق کی دوسری چیزوں میں ریڈیو بھی اہم تھا جس میں سے شام ہوتے ہی ریڈیو پاکستان حیدرآباد سے کچہری کے نام سے گاؤں والوں کے لیے پروگرام شروع ہوتا تھا جسے سید صالح محمد شاہ پیش کرتے تھے۔
مہمان کو بڑے پرتپاک سے اوطاق میں لایا جاتاتھا جسے چارپائی پر بٹھانے سے پہلے ہاتھ منہ دھلواکر پانی پلایاجاتا اور اس کے بعد کلچر کے حساب سے اس کی خیریت پوچھی جاتی جو اتنی طویل ہوتی تھی کہ اس میں 5منٹ لگ جاتے تھے جس میں اس کی گھر کی خیریت، گاؤں یا شہر کی خیریت، اس کے کام کا حال، راستے میں آتے یہاں تک پہنچنے کا حال احوال، اس کے بعد میزبان سے آنے کا مطلب پوچھا جاتاتھا۔اب باری باری ہر گاؤں والا گلے ملکر، ادب سے مہمان کو ملتے تھے اور ہر آدمی اپنی طرف سے چھوٹا موٹا تحفہ اس لیے لاتا تھا جتنے بھی دن مہمان اوطاق پر قیام کرتا تھا مختلف لوگ مختلف کھانے لایا کرتے تھے اور سب ملکر کھاتے تھے۔
اوطاق گاؤں اور شہروں میں ایک ادبی، فنی، ثقافتی اور تعلیمی انسٹیٹیوٹ کے طور پر کام کرتی تھی، ہاری، مزدور، بزنس کرنے والے ، دکاندار اور ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ وہاں پر جمع ہوجاتے تھے جیسے جیسے سورج غروب ہوتا تھا اس سے تھوڑا پہلے ریڈیو پاکستان کا پروگرام کچہری سنتے تھے جس میں سید صالح محمد شاہ ،فتح محمد کا رول ادا کرنا شروع کردیتا تھا جس میں سب سے پہلے زراعت کے بارے میں ہاریوں کو معلومات فراہم کرتے اس کے بعد موسیقی کا رنگ پیش ہوتا تھا پھر خبریں اور حالات حاضرہ پر تبصرہ کرتاتھا۔ اس پروگرام کو سارے لوگ بڑے توجہ سے سنتے تھے۔
اب مرحلہ شروع ہوتا تھا جنگ، بوٹنڈا اور بانسری بجانے کا۔ اس کے بعد لوگ ادب کے شاعر اپنی شاعری پڑھتے تھے جو مستند اور ثقافتی اہمیت کی حامل ہوتی تھی اس پروگرام میں وہ پہیلیاں شاعری میں دیتے تھے اور اسے پوچھنے والے بھی شاعری میں جواب دیتے تھے، بڑے مزے کی بات یہ ہے کہ یہ شاعر پڑھے لکھے نہیں ہوتے تھے مگر ان کے لفظوں کی ادائیگی بڑی صحیح ہوتی تھی کیوں کہ یہ فن ان کے پاس نسل در نسل چلتا آتا ہے ان کی شاعری سندھی زبان کی اصلیت کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اس مرحلے کے ختم ہونے کے بعد حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی اور سچل سرمست کی شاعری پڑھی جاتی تھی۔
آخر میں گاؤں کے سنگر جو خود بخود گاتے تھے بھٹائی کے کلام اور دوسرے اس وقت کے مشہور گانے والوں کے کلام گاکر محفل کو گرمادیتے تھے۔ اس دور میں ایک بات بہت اچھی تھی کہ شاعری بزرگ شاعروں کی پڑھی جاتی تھی، اسی دوران حقہ کی باری چاروں طرف گھومتی رہتی تھی اور اس کی گڑگڑ میں ایک دلنواز آواز ہوتی تھی اس اوطاق میں گاؤں کے لڑکے بھی آکر کھڑے ہوجاتے تھے جو ہلکا پھلکا اوطاق کا کام کرتے تھے جس میں گھر سے انگارے لانا جو حقے میں ڈالے جاتے تھے۔
اب جب رات ایک بجے تک پہنچ جاتی تو لوگ کھلے آسمان میں تاروں کی طرف دیکھ کر محفل کو برخواست کرنے کے لیے مہمان سے اجازت مانگتے تھے اور کہتے تھے کہ اب وہ آرام کرے کیوں کہ دن بھر کا سفر تھکاوٹ پیدا کرچکا ہوگا۔ سونے سے پہلے مہمان کو دودھ کا ایک بڑا کٹورا پینے کے لیے دیاجاتا تھا کیوں کہ اگر انھیں دودھ نہیں دیا گیا تو اس کا مطلب ہے کہ یہ گاؤں خوش حال نہیں ہے۔ مہمان کو صبح کو مکھن اور لسی دی جاتی تھی یا اس کے ساتھ دیسی انڈا تلا ہوا ہوتا تھا اور دوپہر کے کھانے مرغی کیوں کہ اس زمانے میں یہ اصول تھا کہ مرغی اس وقت پکائی جاتی تھی جب کوئی مہمان آجاتے۔ ورنہ مچھلی، گوشت، دال سبزی کھانا زیادہ پسند کرتے تھے جب مہمان خود تنگ نہ آجائے اسے جانے نہیں دیاجاتاتھا اور جب وہ رخصت ہوتے تو انھیں تحائف سے بھر دیا جاتا تھا ۔
گاؤں کے مقابلے میں شہروں کی اوطاق تھوڑی سی مختلف ہوتی تھی کیوں کہ وہاں پر دوسری چیزوں کے ساتھ ساتھ سیاسی محفلیں بھی ہوتی تھیں جو کبھی کبھار ادبی سرگرمیوں اور میٹنگ کو بھی اہمیت دے کر انھیں منعقد کروانے میں اپنا کردار ادا کرتی رہی ہیں۔ لاڑکانہ شہر میں قادریوں کی اوطاق، عباسیوں کی اوطاق، پیرزادہ کی اوطاق، قاضیوں کی اوطاق، انڑکی اوطاق، جعفریوں کی اوطاق، بگھیوں کی اوطاق اور لاہوری کی اوطاق کے علاوہ اور بہت ساری اوطاقیں ہوتی تھی جہاں پر لوگ صبح سے لے کر شام تک اپنے سیاسی اور سماجی مسائل کے حل کے لیے آتے تھے جب کہ شام کے وقت صرف ادبی اور تعلیمی محفلوں کے ساتھ ثقافتی محفل بھی منعقد ہوتی تھی۔
اب 1980 کا زمانہ جب آیا تو اس کے بعد اوطاقیں ویران ہونے لگیں، گاؤں میں ڈاکوؤں نے اپنے ڈیرے ڈالنے شروع کیے جس کی وجہ سے لوگوں نے وہاں جانا چھوڑدیا اس کے بعد جب کیبل کا سسٹم آیا تو لوگوں نے گاؤں میں ہوٹلوں کی طرف رخ کیا جو جھونپڑی نما تھے وہاں پر صبح سے لے کر رات گئے دیر تک چائے کے کپ پر بیٹھے رہتے جس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اب زرعی پرانا نظام ختم ہوگیا تھا، جس کی جگہ مشینری نے لے لی تھی اور ہاری کام سے 90فی صد فارغ ہوگئے تھے۔ لوگوں کے ذہن میں بھی تبدیلی آگئی تھی وہ اب بالی ووڈ اور ہالی ووڈ کی فلمیں اور ڈرامے دیکھنے لگے تھے۔
جس نے انھیں اپنے کلچر سے کافی دور کردیا تھا۔ شہروں میں بھی اوطاقیں ختم ہوتی گئیں اور لوگوں نے ہوٹلوں کا رخ کیا ۔ اس کے بعد جیسے جیسے ترقی ہوتی گئی شہریوں نے اپنے گھر میں ڈرائنگ روم بنائے اور وہاں پر اپنی ادبی، سماجی اور سیاسی نشستیں چھوٹے پیمانے پر منعقد کرتے رہے لیکن پھر ایک ایسا وقت آیا کہ شہروں میں بڑے بڑے اے سی (Air Conditioner) والے ہوٹل بن گئے جہاں پر لوگ اپنے پروگرام کرنے لگے اور انھیں اوطاق کے طورپر استعمال کرنے لگے ۔
میں اب اتنا کہوںگا کہ اگر ہمیں اپنے ثقافتی ورثے کو جس میں اوطاق کا کلچر بھی ہے اگر دوبارہ بحال اور زندہ کردیا تو ہم اس وقت کی دہشت گردی اور خوف والی صورت حال سے نکل سکتے ہیں جس کے لیے ہمیں حکومت سے ملکر کام کرنا ہوگا اور اس میں نوجوانوں کا کردار سرفہرست ہونا چاہیے۔