یہ آمر کیوں بن جاتے ہیں
کہا جاتا ہے کہ جمہوریت میں ہر ایک کو اظہار رائے کا حق ہوتا ہے اور جمہوریت عوام کے ذریعے اور عوام ہی کے لیے ہوتی ہے۔
متحدہ کے قائد الطاف حسین نے گزشتہ دنوں جمہوریت کو آمریت سے بد ترین قرار دیا تھا کیونکہ موجودہ اور گزشتہ حکومتوں نے بلدیاتی انتخابات جان بوجھ کر نہیں کرائے جس کے باعث الطاف حسین کے نزدیک ساڑھے چھ سالوں سے ملک میں قائم نام نہاد اور خود ساختہ جمہوریت آمریت سے بھی بد ترین قرار پائی اور واقعی ملک میں پیپلز پارٹی کے بعد مسلم لیگ ن کی ایسی جمہوری حکومتیں ہیں جو خود جمہوریت کی بنیاد بلدیاتی جمہوریت کی مخالف ہے نہیں بلکہ دشمن ہیں۔ نام نہاد جمہوریت حقیقی جمہوریت کو برداشت کرنے پر تیار نہیں کیونکہ یہ نام نہاد جمہوریت پسند خود جو آمر بنے ہوئے ہیں اور بنیادی جمہوریت میں آمریت پھر بھی بہت کم ہوتی ہے۔ کیوں کہ یوسی چیئرمین کا عہدہ اتنا اہم نہیں ہوتا کہ وہ آمر بن کر اپنے علاقے کے لوگوں کی ناراضگی کا متحمل ہو سکے۔
کہا جاتا ہے کہ جمہوریت میں ہر ایک کو اظہار رائے کا حق ہوتا ہے اور جمہوریت عوام کے ذریعے اور عوام ہی کے لیے ہوتی ہے یہ سب کہنے کی حد تک ہے جمہوریت عوام کے ذریعے تو قائم ہوتی ہے کیونکہ عوام ہی ووٹ دیتے ہیں تو عوام کے ذریعے منتخب ہونے والے جمہوریت کے نام پر جمہوری حکومت قائم کرتے ہیں اور پھر جمہوریت بھول جاتے ہیں اور پھر اکثر اپنی اپنی جگہ خود آمر بن جاتا ہے اس کا عوام سے رویہ تبدیل ہو جاتا ہے وہ عوام سے دور ہو جاتا ہے بلدیاتی جمہوریت سے محروم موجودہ جمہوریت میں عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے دو ابتدائی عہدے رکن صوبائی اور رکن قومی اسمبلی کے ہوتے ہیں اور جو لوگ ان عہدوں پر عوام کے ووٹ لے کر منتخب ہوتے ہیں۔
ان کا پہلا کام اپنا انتخابی حلقہ چھوڑ کر صوبائی اور وفاقی دارالحکومتوں میں پہنچنا ہو جاتا ہے تا کہ اجلاس ہوتے ہی وہ حلف اٹھائیں اور اسپیکر یا ڈپٹی اسپیکر بننے کی کوشش کریں اور پھر وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ منتخب کر کے متوقع وزرا کی دوڑ میں شامل ہو جائیں، ہر رکن اسمبلی تو وزیر نہیں بن سکتا کیوں کہ آئینی ترمیم کے بعد ہر حکومت میں وزیروں کی تعداد محدود ہو گئی ہے۔ وزارت سے مایوسی کے بعد وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کا مشیر یا معاون خصوصی بننے کی کوشش کی جاتی ہے مگر ان عہدوں پر وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کو اپنے غیر منتخب رشتے داروں، دوستوں اور پارٹی رہنماؤں کو بھی سیاسی طور پر نوازنا ہوتا ہے۔
اس لیے عہدے کم مگر خواہش مند زیادہ ہوتے ہیں کیوں کہ یہاں بھی تعداد محدود ہو گئی ہے اور اب گزشتہ بلوچستان حکومت والا دور نہیں رہا کہ صرف ایک رکن اپوزیشن میں اور باقی سرکاری عہدوں پر ہوں پھر بھی وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ خود ساختہ عہدے تخلیق کر کے اپنوں کو نواز رہے ہیں ہوتے ہیں۔ ارکان اسمبلی کی آخری امید قائمہ کمیٹیوں کا چیئرمین بننے کی ہوتی ہے کیوں کہ اس صورت میں بھی سرکاری مراعات مل ہی جاتی ہیں اور خرچہ نکلنے کی امید ہو ہی جاتی ہے۔ عوام کے ذریعے منتخب ہونے والی سینیٹ اور سینیٹروں کا بھی یہی حال ہے اور بالا ادارہ قرار دیے گئے ہیں۔
حکومتی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی میں سے کچھ کو عہدے مل جائیں تو ان کے اطوار آمروں جیسے ہو جاتے ہیں اور باقی ارکان اسمبلی تو خود کو وی آئی پی سمجھتے ہی ہیں اور عوام سے دور رہنے کا تکبر آ جانے سے وہ بھی اپنے ووٹروں کے لیے آمر سے کم نہیں ہوتے اور سرکاری اداروں اور سرکاری اہلکاروں کو ان کے استحقاق کا خیال بھی رکھنا پڑتا ہے ورنہ ان پر ارکان اسمبلی کا استحقاق مجروح کرنے کا الزام بھی لگ سکتا ہے۔
آمر کسی عہدے کا نام نہیں بلکہ رویے کا نام ہے اور عام لوگوں سے مختلف عہدے ملنے پر ہی رعونت آ جانا قدرتی عمل سمجھ لیا جاتا ہے حالانکہ ایسا ہے ہی نہیں کیوں کہ پھل دار درخت ہی جھکتا ہے اور پھل دیتا ہے اور پھل دار درختوں کا ہی معاشرے میں خیال رکھا جاتا ہے اس کی حفاظت کی جاتی ہے ان کی تعداد بڑھائی جاتی ہے بعض درخت پھل نہیں دیتے مگر عوام کو سایہ ہی فراہم کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے لوگ ان کی اس خوبی سے فیض یاب ہوتے ہیں جب کہ کانٹے دار و دیگر درختوں کو عوام اہمیت نہیں دیتے۔ ہمارے ارکان اسمبلی، سینیٹروں، حکمرانوں اور اہم سرکاری عہدوں پر فائز لوگ ہر وقت مالا تو عوام عوام کی جپتے ہیں مگر رہتے عوام سے دور ہیں۔ عوامی عہدوں پر فائز بڑے لوگ وی آئی پی بھی عوام کے ووٹوں سے بنتے ہیں، جمہوریت خدمت کا نام ہے مگر صرف کہنے کی حد تک، جمہوریت کے نام پر اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے والوں اور کسی سرکاری یا اہم عہدوں پر آ جانے والوں کی گردنوں میں اکثر سریا آ جاتا ہے اور وہ خود کو مختلف مخلوق تصور کر لیتے ہیں اور عوام کے لیے آمر بن جاتے ہیں۔
ہمارے یہاں فوجی حکمرانوں ہی کو آمر قرار دیا جاتا ہے اور جمہوری طریقے سے حکمران اور ان کے حلیف بن کر بھی جمہوری لوگ آمر بن جاتے ہیں۔ 1970ء کی دہائی کے بعد سے اب تک دو فوجی حکمران آئے جنرل ضیا الحق تو عوام میں گھل مل جانے میں مشہور تھے اور وہ فوجی وردی میں بھی عوام میں آ جاتے تھے مگر ان کا رویہ آمروں جیسا نظر نہیں آتا تھا۔ جب کہ ان کے برعکس جمہوریت کے ذریعے منتخب ہونے والے ذوالفقار علی بھٹو، محمد خان جونیجو، بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف عوامی رہنما تو قرار پاتے ہیں مگر جونیجو کے علاوہ باقی وزرائے اعظم من مانیوں کے عادی تھے اور دوسروں کی کوئی بات سننے کے بجائے اپنے ہر لفظ کو حرف آخر سمجھتے تھے اسی لیے ان تمام کا شمار جمہوریت آمروں میں کیا جاتا ہے۔
آج بھی میاں صاحبان، عمران خان، آصف زرداری، طاہر القادری ان رہنماؤں میں شامل ہیں جو اپنے ہر فیصلے کو ہی درست سمجھتے ہیں۔ جمہوریت من مانیوں کا نام نہیں اظہار رائے اور دوسروں کی تنقید سننے اور برداشت کا نام ہے کسی اعلیٰ عہدے پر فائز ہوکر کوئی بھی عقل کُل نہیں بن جاتا کہ اس کی بات ہی حرف آخر ہو اور دوسروں کی بات ہی نہ سنی جائے۔ آج نواز شریف کو جو مسائل درپیش ہیں اس کی وجہ بھی دوسروں کی نہ سننا ہے، صدر زرداری اگر دوسروں کی سنتے تو ملک دو کرپٹ وزرائے اعظم سے بچ جاتا اور عمران خان کچھ اور انتظار کرلیتے تو حکومت نے مزید خراب ہونا ہی تھا۔
کہا جاتا ہے کہ جمہوریت میں ہر ایک کو اظہار رائے کا حق ہوتا ہے اور جمہوریت عوام کے ذریعے اور عوام ہی کے لیے ہوتی ہے یہ سب کہنے کی حد تک ہے جمہوریت عوام کے ذریعے تو قائم ہوتی ہے کیونکہ عوام ہی ووٹ دیتے ہیں تو عوام کے ذریعے منتخب ہونے والے جمہوریت کے نام پر جمہوری حکومت قائم کرتے ہیں اور پھر جمہوریت بھول جاتے ہیں اور پھر اکثر اپنی اپنی جگہ خود آمر بن جاتا ہے اس کا عوام سے رویہ تبدیل ہو جاتا ہے وہ عوام سے دور ہو جاتا ہے بلدیاتی جمہوریت سے محروم موجودہ جمہوریت میں عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے دو ابتدائی عہدے رکن صوبائی اور رکن قومی اسمبلی کے ہوتے ہیں اور جو لوگ ان عہدوں پر عوام کے ووٹ لے کر منتخب ہوتے ہیں۔
ان کا پہلا کام اپنا انتخابی حلقہ چھوڑ کر صوبائی اور وفاقی دارالحکومتوں میں پہنچنا ہو جاتا ہے تا کہ اجلاس ہوتے ہی وہ حلف اٹھائیں اور اسپیکر یا ڈپٹی اسپیکر بننے کی کوشش کریں اور پھر وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ منتخب کر کے متوقع وزرا کی دوڑ میں شامل ہو جائیں، ہر رکن اسمبلی تو وزیر نہیں بن سکتا کیوں کہ آئینی ترمیم کے بعد ہر حکومت میں وزیروں کی تعداد محدود ہو گئی ہے۔ وزارت سے مایوسی کے بعد وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کا مشیر یا معاون خصوصی بننے کی کوشش کی جاتی ہے مگر ان عہدوں پر وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کو اپنے غیر منتخب رشتے داروں، دوستوں اور پارٹی رہنماؤں کو بھی سیاسی طور پر نوازنا ہوتا ہے۔
اس لیے عہدے کم مگر خواہش مند زیادہ ہوتے ہیں کیوں کہ یہاں بھی تعداد محدود ہو گئی ہے اور اب گزشتہ بلوچستان حکومت والا دور نہیں رہا کہ صرف ایک رکن اپوزیشن میں اور باقی سرکاری عہدوں پر ہوں پھر بھی وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ خود ساختہ عہدے تخلیق کر کے اپنوں کو نواز رہے ہیں ہوتے ہیں۔ ارکان اسمبلی کی آخری امید قائمہ کمیٹیوں کا چیئرمین بننے کی ہوتی ہے کیوں کہ اس صورت میں بھی سرکاری مراعات مل ہی جاتی ہیں اور خرچہ نکلنے کی امید ہو ہی جاتی ہے۔ عوام کے ذریعے منتخب ہونے والی سینیٹ اور سینیٹروں کا بھی یہی حال ہے اور بالا ادارہ قرار دیے گئے ہیں۔
حکومتی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی میں سے کچھ کو عہدے مل جائیں تو ان کے اطوار آمروں جیسے ہو جاتے ہیں اور باقی ارکان اسمبلی تو خود کو وی آئی پی سمجھتے ہی ہیں اور عوام سے دور رہنے کا تکبر آ جانے سے وہ بھی اپنے ووٹروں کے لیے آمر سے کم نہیں ہوتے اور سرکاری اداروں اور سرکاری اہلکاروں کو ان کے استحقاق کا خیال بھی رکھنا پڑتا ہے ورنہ ان پر ارکان اسمبلی کا استحقاق مجروح کرنے کا الزام بھی لگ سکتا ہے۔
آمر کسی عہدے کا نام نہیں بلکہ رویے کا نام ہے اور عام لوگوں سے مختلف عہدے ملنے پر ہی رعونت آ جانا قدرتی عمل سمجھ لیا جاتا ہے حالانکہ ایسا ہے ہی نہیں کیوں کہ پھل دار درخت ہی جھکتا ہے اور پھل دیتا ہے اور پھل دار درختوں کا ہی معاشرے میں خیال رکھا جاتا ہے اس کی حفاظت کی جاتی ہے ان کی تعداد بڑھائی جاتی ہے بعض درخت پھل نہیں دیتے مگر عوام کو سایہ ہی فراہم کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے لوگ ان کی اس خوبی سے فیض یاب ہوتے ہیں جب کہ کانٹے دار و دیگر درختوں کو عوام اہمیت نہیں دیتے۔ ہمارے ارکان اسمبلی، سینیٹروں، حکمرانوں اور اہم سرکاری عہدوں پر فائز لوگ ہر وقت مالا تو عوام عوام کی جپتے ہیں مگر رہتے عوام سے دور ہیں۔ عوامی عہدوں پر فائز بڑے لوگ وی آئی پی بھی عوام کے ووٹوں سے بنتے ہیں، جمہوریت خدمت کا نام ہے مگر صرف کہنے کی حد تک، جمہوریت کے نام پر اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے والوں اور کسی سرکاری یا اہم عہدوں پر آ جانے والوں کی گردنوں میں اکثر سریا آ جاتا ہے اور وہ خود کو مختلف مخلوق تصور کر لیتے ہیں اور عوام کے لیے آمر بن جاتے ہیں۔
ہمارے یہاں فوجی حکمرانوں ہی کو آمر قرار دیا جاتا ہے اور جمہوری طریقے سے حکمران اور ان کے حلیف بن کر بھی جمہوری لوگ آمر بن جاتے ہیں۔ 1970ء کی دہائی کے بعد سے اب تک دو فوجی حکمران آئے جنرل ضیا الحق تو عوام میں گھل مل جانے میں مشہور تھے اور وہ فوجی وردی میں بھی عوام میں آ جاتے تھے مگر ان کا رویہ آمروں جیسا نظر نہیں آتا تھا۔ جب کہ ان کے برعکس جمہوریت کے ذریعے منتخب ہونے والے ذوالفقار علی بھٹو، محمد خان جونیجو، بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف عوامی رہنما تو قرار پاتے ہیں مگر جونیجو کے علاوہ باقی وزرائے اعظم من مانیوں کے عادی تھے اور دوسروں کی کوئی بات سننے کے بجائے اپنے ہر لفظ کو حرف آخر سمجھتے تھے اسی لیے ان تمام کا شمار جمہوریت آمروں میں کیا جاتا ہے۔
آج بھی میاں صاحبان، عمران خان، آصف زرداری، طاہر القادری ان رہنماؤں میں شامل ہیں جو اپنے ہر فیصلے کو ہی درست سمجھتے ہیں۔ جمہوریت من مانیوں کا نام نہیں اظہار رائے اور دوسروں کی تنقید سننے اور برداشت کا نام ہے کسی اعلیٰ عہدے پر فائز ہوکر کوئی بھی عقل کُل نہیں بن جاتا کہ اس کی بات ہی حرف آخر ہو اور دوسروں کی بات ہی نہ سنی جائے۔ آج نواز شریف کو جو مسائل درپیش ہیں اس کی وجہ بھی دوسروں کی نہ سننا ہے، صدر زرداری اگر دوسروں کی سنتے تو ملک دو کرپٹ وزرائے اعظم سے بچ جاتا اور عمران خان کچھ اور انتظار کرلیتے تو حکومت نے مزید خراب ہونا ہی تھا۔