پاکستان ایک نظر میں روشن کرنیں

مایوسی کے اندھیروں میں روشی کی کرن بن کر چمکنے والے ہی دنیا کے لئے مثال بنتے، کہلائے اور جانے جاتے ہیں۔

مایوسی کے اندھیروں میں روشی کی کرن بن کر چمکنے والے ہی دنیا کے لئے مثال بنتے، کہلائے اور جانے جاتے ہیں۔

کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہر طرف برا ہی ہو رہا ہو، اگر ایسا ہوتا تو دنیا اس حالت میں نہ ہوتی جس میں آج ہم اسے دیکھ رہے ہیں۔ ایک طرٖف حیرت انگیز کامیابیاں اور کامرانیاں ہیں تو دوسری جانب انسانیت کی خدمت کے حوالے سے کی جانی والی جدید سائنسی تحقییق نے انسان کو حیرت کے سمندر میں غرق کر رکھا ہے، اگر ہم مہذب اور ترقی یافتہ دنیا کی بات کریں تو وہاں تو ہر لمحے کچھ نہ کچھ ایسا نیا ہو رہا ہوتا ہے جس پر وہ بجا طور پر فخر کرسکتے ہیں جبکہ سائنسی ایجادات کے حوالے سے بھی ترقی یافتہ دنیا ہر روز انسانیت کی فلاح اور بقاء کے لئے محیر القول کارنامے سر انجام دے رہی ہے۔

ایسا نہیں کہ ہم جیسے ملک جہاں کے حالات کے بارے دنیا ہر وقت فکر مند رہتی ہے وہاں کوئی اچھا کام نہ ہو رہا ہو۔ کچھ نہ کچھ اچھا کہیں نہ کہیں ہو رہا ہوتا ہے مگر ہم اچھا دیکھ کر بھی اچھا کہنے کی عادت سے محروم معاشرہ بنتے جارہے ہیں جس کی بنا پر ہمارے اندر مایوسی بڑھتی جا رہی ہے جس سے نکلنا بہت ضروری ہے۔



اب یہی دیکھ لیجیے دنیا بھر میں پاکستان کے سوفٹ امیج کو ابھارنے اور پاکستانیوں کا روشن چہرہ دکھانے کے حوالے سے ہمارے پاس نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی کا نام سر فہرست ہے اس معصوم بچی نے جہالت کی کوکھ میں جنم لیا دہشت اور بارود برستی زمین پر نہ صرف پرورش پائی بلکہ خود بھی زخم کھائے یہاں تک کہ زندگی اور موت کی کشمکش میں کئی مہینے مبتلا رہنے کے بعد موت کو شکست ہی نہ دی بلکہ زندگی کو کامیابیوں اور کامرانیوں کے نئے معنی پہنائے۔ ملالہ اب تک درجنوں نیشنل اور انٹرنیشنل اعزازات حاصل کرچکی ہیں جن میں نوبل انعام برائے امن 2014 بھی شامل ہے۔





اسی طرح پاکستان کے ہی دو نوجوان پاکستانی سائنسدانوں ڈاکٹر اسد محمود اور ڈاکٹر محمد سیف الرحمان ''گرین ٹیلنٹس 2014'' ایوارڈ کے حامل قرار پائے جرمنی کی طرف سے دیے جانے والے چھٹے گرین ٹیلینٹ ایوارڈ کے لیے دنیا بھرکے 100ممالک سے 800 امیدواروں نے اپنی سائنسی تحقیق پیش کی۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والے دو محققین اپنی تحقیق پر ایوارڈ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔یہ انعام ہر سال پائیدار ریسرچ کے شعبے میں نوجوان محققین کو دیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد دنیا بھر سے مختلف شعبوں میں پائیدار ترقی کے حوالے سے منفرد خیالات اور تحقیق و جستجو رکھنے والے نوجوان سائنس دانوں کی حوصلہ افزائی کرنا اور ان کے کام کو بین الاقوامی سطح پر متعارف کرانا ان سائنسدانوں کو ایک گلوبل پلیٹ فراہم کرنا ہے۔



پاکستانی نوجوان اپنے بے پناہ ٹیلنٹ سے آئے روز ایسے کارنامے سرانجام دے رہے ہیں کہ دنیا جس کی داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ شہر لاہور میں معروف تعلیمی ادارے کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے طالب علم عزیر بھی ایک ایسی ہی مثال ہیں کہ جنہوں نے زمانہ طالب علمی میں ہی کروڑوں روپے مالیت کی بین الاقوامی کمپنی قائم کر دی ہے۔عزیر کا کہنا ہے کہ ایم بی بی ایس میں داخلے سے پہلے ان کے پاس کچھ فارغ وقت تھا جسے وہ عموماً سو کر گزارتے تھے۔ ایک دن ان کی والدہ نے انہیں اپنے وقت کا مثبت استعمال کرنے کی تنبیہہ کی تو انہوں نے فری لانس کاروبار کیلئے مشہور ویب سائٹ elance پر تلاش شروع کی اور ترجمے کے کام کو اپنے لئے بہترین پایا۔ وہ کہتے ہیں کہ مقابلہ بہت سخت تھا لیکن انہوں نے کم معاوضہ طلب کیا اور بہترین کوالٹی کا کام شروع کردیا۔ کچھ ہی عرصہ میں انہیں بہت زیادہ پراجیکٹ ملنے لگے لیکن انہوں نے کبھی بھی کوالٹی میں کمی نہ آنے دی۔ جب کام بہت زیادہ ملنے لگا تو انہوں نے دوست احباب کو شامل کر کے ایک کمپنی قائم کر لی جس کیلئے کام کرنے والے آج 30 ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اگرچہ وہ ابھی ایم بی بی ایس کے چوتھے سال میں ہیں لیکن ان کی دولت پانچ کروڑ روپے سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ محنت، ایمانداری اور صبر سے ہر منزل کا حصول ممکن ہے اور پاکستانی طالب علموں کو ان خوبیوں سے کام لیتے ہوئے فری لانسنگ پر بھرپور توجہ دینی چاہئے۔




اب آئیے فلمی صنعت کی اداکارہ ریما خان کے بارے میں بات کرتے ہیں جنہوں نے اپنی ڈرامہ سیریل ''ریما خان کا امریکا'' میں شاندار کارکردگی پر امریکا کا سب سے بڑا 'امریکا ایبراڈ میڈیا' ایوارڈ جیت لیا ہے۔ اس ٹی وی سیریل میں ریما خان نے ایک ایسی لڑکی کا کردار ادا کیا ہے جو امریکا میں رہائش پزیر پاکستانیوں کی نظر سے اپنے ایک نئے ملک کی تلاش کی کوشش کرتی ہے اور وہاں رہائش پزیر مشرقی تہذیب کو اپنائے ہوئے لوگوں سے امریکا کے بارے میں ان کے خیالات جانچنے کی کوشش کرتی ہے۔اس موقع پر اداکارہ ریما کا کہنا تھا کہ امریکا کا سب سے بڑا ایوارڈ جیتنا اعزاز کی بات ہے اور میں اپنے ملک کا نام مزید روشن کرنا چاہتی ہوں۔



اسی طرح اسپورٹس کے شعبے میں قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان مصباح الحق کو تیز ترین نصف سنچری اور تیز ترین سنچری کرنے پر ''ماسٹر بلاسٹر'' کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔



پاکستانی سیاست پر نظر دوڑائیں تو مورثی سیاستدانوں کو عمران خان نے نہ صرف چیلنج کیا بلکہ ملکی تاریخ میں پہلی بار اپنی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو ملک کی ایک بڑی سیاست پارٹی اور قومی و صوبائی اسمبلی میں اپوزشن کے طور منوایا جبکہ سیاسی جگیرداروں سے مایوس عوام خصوصاً نوجوانوں کو ایک نئی امید دی۔ اس وقت نوجوان عمران خان کی تحریک کا ہر اول دستہ ہیں اور وہ لوگ جو کبھی ووٹ ڈالنے بھی نہیں جاتے تھے آج سڑکوں پر عمران خان کے ساتھ تبدیلی کا خواب لئے ایک نیا پاکستان بنانے کا جتن کر رہے ہیں۔



دوسری جانب ملکی معشیت کے حوالے سے اگرچہ پاکستان میں سیاسی اور سیکیورٹی خدشات معیشت کے لئے سنگین خطرہ ہیں، لیکن اس کے باوجود عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ رواں مالی سال میں پاکستان کی معیشت پانچ فیصد ترقی کرے گی۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کی مالی اور کرنٹ اکاؤنٹ میں کمی اور توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کے امکانات سے ایسے اشاریوں کی نشاندہی کی ہے جن کے باعث ملکی معیشت کی ترقی کی شرح میں پانچ فیصد تک اضافہ متوقع ہے۔جبکہ پاکستان کے اقتصادی جائزہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی مالیاتی پالیسی میں سختی کے باعث افراط زر بھی آٹھ فیصد سے کم رہنے کی توقع ہے، ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی بہتری دیکھی جا رہی ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے کے مطابق خام تیل کی قیمتوں میں عالمی سطح پر کمی کے باعث پاکستان میں بھی پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں نمایاں کمی کی گئی ہے جب کہ اطلاعات کے مطابق مزید کمی بھی متوقع ہے جس کا ملکی معیشت کو یقیناً فائدہ پہنچے گا اور اس کمی کا اثر دیگر اشیائے ضرورت پر بھی لامحالہ پڑے گا کیونکہ ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں بھی کمی کا رجحان ہے۔

میں اگر پاکستانیوں کی کامیابیاں گنوانے بیٹھ جائوں تو کئی کتابیں بن سکتی ہیں لیکن یہاں چند ایک کا تذکرہ کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہماری قوم کو اگر مساوی موقعے اور اچھی حکمرانی نصیب ہوجائے تو یہاں کا نوجوان دنیا بھر کے ٹیلنٹ سے کم نہیں جس کی چند مثالیں اوپر دی گئی ہیں۔ مایوسی کے اندھیروں میں روشی کی کرن بن کر چمکنے والے ہی دنیا کے لئے مثال بنتے، کہلاتے اور جانے جاتے ہیں جو ملکوں اور معاشروں کا مان اور نام ہوتے ہیں۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story