بلدیاتی انتخابات سنجیدگی ناگزیر
جمہورکے لیے جمہوریت ہوتی ہے ، جمہوریت کے حصول کے لیے عوام نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں
جمہورکے لیے جمہوریت ہوتی ہے ، جمہوریت کے حصول کے لیے عوام نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں لیکن ایک سوال عوام کے ذہنوں میں اب بھی موجود ہے کہ ان کے بنیادی مسائل، پانی، بجلی وگیس کی فراہمی، سڑکیں، نکاسی آب کا نظام آخرکیوں حل نہیں ہو رہے ہیں اور جمہوریت کے ثمرات ان تک کیوں نہیں پہنچ رہے ہیں ۔ اس سوال کا جواب سیدھا سادا ہے کہ بلدیاتی نظام نہ ہونے کے سبب ۔ بلدیاتی الیکشن کروانے کے حوالے سے سب سیاسی جماعتوں میں ایکا ہے اور ٹال مٹول سے کام لے کر پچھلی حکومت نے پانچ سال گزار دیے اور موجودہ حکومت بھی ڈیڑھ سال گزار کر اسی راہ پر چل پڑی ہے، اسی تناظر میں چیف الیکشن کمشنر نے کہا ہے کہ کوئی غلط فہمی میں نہ رہے۔
الیکشن کمیشن اپنے احکام پرعملدرآمد کے لیے مکمل بااختیار ہے، انھوں نے صوبائی حکومتوں کی جانب سے بلدیاتی انتخابات کے لیے عدم تعاون پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ صوبائی حکومتیں بلدیاتی انتخابات کے لیے سنجیدہ نہیں ہیں ۔ چیف الیکشن کمشنر کی بات سچ ہے، ماسوائے بلوچستان کی حکومت کے باقی تین صوبائی اور وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کی جانب سے سخت ترین سرزنش کے باوجود کوئی نہ کوئی بہانہ تراش کر بلدیاتی انتخابات کو سرد خانے میں ڈالے رکھا ہے۔کبھی ووٹر لسٹوں کی تیاری میں تاخیر کا حربہ یا پھر نئی حلقہ بندیوں کا عذر تراش لیا۔خیبرپختونخوا والے تو بائیومیٹرک سسٹم کا بہانہ کر کے بلدیاتی انتخابات اپریل2015ء تک لے جانا چاہتے ہیں ۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بلدیاتی نظام اور انتخابات آمرانہ دور میں ہوئے ہیں،جب کہ جمہوری حکومتوں کا ریکارڈ اس حوالے سے قابل رشک نہیں رہا ہے۔ لیکن جمہوری حکومتوں کو اپنے مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عوام کے مفاد کو مدنظر رکھنا چاہیے ، لاہور، ملتان، رحیم یار ، کراچی ، حیدرآباد، سکھر پشاور، مردان،کوئٹہ ،سبی الغرض ملک کا کوئی بھی شہر ، قصبہ ، گاؤں ، گوٹھ ہوں اس وقت بلدیاتی نمایندوں کی عدم موجودگی کے باعث بے پناہ بنیادی مسائل کا شکار ہیں، یہ مسائل ان نمایندوں نے حل کرنے ہیں ، صوبائی، قومی اسمبلی کے ارکان تک تو غریب عوام کی رسائی ممکن ہی نہیں ہے جو وہ ان کی داد رسی کریں یا فریاد سنیں ۔ویسے بھی ان کا کام قانون سازی ہے نہ گلیاں اور نالیاں پکی کروانا ۔ فنڈز اپنے پاس رکھنے کی فکر چھوڑ کر عوام کے بنیادی مسائل کے حل کی فکر کی جانی چاہیے ۔
الیکشن کمیشن اپنے احکام پرعملدرآمد کے لیے مکمل بااختیار ہے، انھوں نے صوبائی حکومتوں کی جانب سے بلدیاتی انتخابات کے لیے عدم تعاون پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ صوبائی حکومتیں بلدیاتی انتخابات کے لیے سنجیدہ نہیں ہیں ۔ چیف الیکشن کمشنر کی بات سچ ہے، ماسوائے بلوچستان کی حکومت کے باقی تین صوبائی اور وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کی جانب سے سخت ترین سرزنش کے باوجود کوئی نہ کوئی بہانہ تراش کر بلدیاتی انتخابات کو سرد خانے میں ڈالے رکھا ہے۔کبھی ووٹر لسٹوں کی تیاری میں تاخیر کا حربہ یا پھر نئی حلقہ بندیوں کا عذر تراش لیا۔خیبرپختونخوا والے تو بائیومیٹرک سسٹم کا بہانہ کر کے بلدیاتی انتخابات اپریل2015ء تک لے جانا چاہتے ہیں ۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بلدیاتی نظام اور انتخابات آمرانہ دور میں ہوئے ہیں،جب کہ جمہوری حکومتوں کا ریکارڈ اس حوالے سے قابل رشک نہیں رہا ہے۔ لیکن جمہوری حکومتوں کو اپنے مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عوام کے مفاد کو مدنظر رکھنا چاہیے ، لاہور، ملتان، رحیم یار ، کراچی ، حیدرآباد، سکھر پشاور، مردان،کوئٹہ ،سبی الغرض ملک کا کوئی بھی شہر ، قصبہ ، گاؤں ، گوٹھ ہوں اس وقت بلدیاتی نمایندوں کی عدم موجودگی کے باعث بے پناہ بنیادی مسائل کا شکار ہیں، یہ مسائل ان نمایندوں نے حل کرنے ہیں ، صوبائی، قومی اسمبلی کے ارکان تک تو غریب عوام کی رسائی ممکن ہی نہیں ہے جو وہ ان کی داد رسی کریں یا فریاد سنیں ۔ویسے بھی ان کا کام قانون سازی ہے نہ گلیاں اور نالیاں پکی کروانا ۔ فنڈز اپنے پاس رکھنے کی فکر چھوڑ کر عوام کے بنیادی مسائل کے حل کی فکر کی جانی چاہیے ۔