راستے پر قائم رہنا

اس بحث کو دوبارہ شروع کرنے پر اتفاق رائے ہونے کے بعد حکومت کو انتظامی عمل کے لیے اپنے مینڈیٹ کو بروئے کار لانا ہو گا

ATTOCK:
پشاور کے آرمی اسکول کے ہولناک سانحہ کے بعد عوام کے غم و غصے اور رنج و الم کے سائے آرمی چیف جنرل راحیل کی بدن بولی پر دیکھے جا سکتے تھے جس کی بنا پر وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے سرعت سے اقدام کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف سخت کارروائی کا فیصلہ کر دیا جس میں آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) کی تمام سیاسی پارٹیوں کا عزم بھی شامل تھا اور وزیر اعظم نے سابق صدر آصف زرداری کی طرف سے پھانسی کی سزا پر عاید کی گئی پابندی کو ہٹا دیا۔

قبل اس کے کہ صاحبان دانش کی کمیٹی کی طرف سے تجویز کیا جانے والا نیشنل ایکشن پلان (این اے پی) زیرعمل لایا جاتا' مختلف جانب سے چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں۔ اب سیکڑوں دہشت گرد پھانسی کے پھندے پر جھولنے کے لیے انتظار میں ہیں ' قبل اس کے کہ پھانسی کو پھر سے بند کر دیا جاتا ان میں سے کچھ کو تختہ دار پر چڑھا بھی دیا گیا جب کہ پھانسی پانے والوں میں سے زیادہ افراد کو کال کوٹھریوں میں رکھنا بھی سیکیورٹی کا بہت بڑا مسئلہ ہے، اس حوالے سے جیل کے وارڈنوں سمیت اسیروں میں بھی تشویش کی سخت لہر دوڑ گئی تھی اور ان کے حامیوں کی طرف سے اہلکاروں کے گھر والوں کو دھمکیاں دینے کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ پھانسی کی سزا پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) میں موجود ہے لیکن اس کا پولیس کے مورال پر منفی اثر دیکھا جا سکتا ہے۔ خود کش بمبار ممکن ہے اپنی مرضی سے موت کو گلے لگا لے لیکن جو بزدل انھیں اس کام کے لیے بھیجتے ہیں وہ خود مرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔

ہمیں یہ سوچنے میں اطمینان محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کی نیت پرخلوص ہے۔ نیشنل ایکشن پلان (این اے پی) کمیٹی میں وزیر داخلہ چوہدری نثار علی کی طرف سے یکجہتی رکھنے والے افراد تک رسائی کے بعد بلند حوصلگی کا کتنا امکان ہے۔ وزیراعظم کی کیبنٹ کمیٹی میں خواجہ آصف کی شمولیت سے کیا پیغام دیا جا رہا ہے؟ اس چھ رکنی کور کمیٹی میں ان کی جگہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو شامل کرنا زیادہ مناسب ہو گا۔

اس بحث کو دوبارہ شروع کرنے پر اتفاق رائے ہونے کے بعد حکومت کو انتظامی عمل کے لیے اپنے مینڈیٹ کو بروئے کار لانا ہو گا۔ اگر حزب مخالف کی جماعتوں کے سیاستدانوں کو بھی سب کمیٹیوں میں شامل کر لیا جائے تو اس کا مطلب یہ لیا جا سکتا ہے کہ سخت اقدامات کے بارے میں جس قدر بھی بلند بانگ دعوے کیے گئے تھے ان کا کوئی مطلب نہیں تھا۔ اس کا اظہار گزشتہ پیر کے دن سینیٹ میں فوجی عدالتوں کے قیام کی شدید مخالفت کی شکل میں ہوا۔

بعض قانونی ماہرین بالعموم بلیک اسٹون کے اصول (سرولیم بلیک اسٹون 1765) کا حوالہ دیتے ہیں۔ جن کا کہنا تھا کہ دس قصور وار لوگوں کا چھوٹ جانا اس سے بہتر ہے کہ ایک بے قصور کو سزا دے دی جائے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ فوجی عدالتوں کی طرف سے کسی کو یکطرفہ طور پر سزا دینا انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے مترادف ہو گا۔ اس صورت میں عدالتوں کا فرض ہے کہ وہ بے گناہ ملزم کی طرف داری کریں لیکن آپ ان کے بارے میں کیا کہیں گے جنہوں نے نہایت وحشیانہ انداز میں 145 سے زیادہ بے گناہ لوگوں کو ہلاک کر دیا جن میں 132 اسکول کے بچے بھی شامل تھے؟ اس قانون کو برطانوی نظام قانون سے اخذ کیا گیا جو 19 ویں صدی میں قانون بن گیا۔


جس کو کہ بعدازاں امریکن کامن لاء میں بھی شامل کر لیا گیا۔ اس کے حوالے سے بہت سے متضاد نظریات بھی موجود ہیں مثال کے طور پر بسمارک کہتا ہے ''یہ بہتر ہے کہ دس بے گناہوں کو سزا دے دی جائے بجائے اس کے کہ ایک مجرم کو چھوڑ دیا جائے'' سابقہ جرمن وزیر خزانہ (جو بعد میں وزیر داخلہ بن گئے) Wolfgang Schauble نے بڑی شد و مد سے اظہار خیال کیا ہے کہ اس اصول پر عملدرآمد سے دہشت گردی کے حملے روکنے میں کوئی مدد نہیں مل سکتی۔

فوجی عدالتوں کا قیام اب ایک متنازع مسئلہ بن چکا ہے حکومت کو آئین کے آرٹیکل 8 (1) میں ترمیم کرنا ہو گی تاکہ خصوصی فوجی عدالتوں کے قیام کی قانونی طور پر اجازت حاصل کی جا سکے۔ نیشنل ایکشن پلان (این اے پی) 2014ء کا حوالہ دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ''دہشت گردی کے خلاف کارروائی پر اتفاق رائے کو اب کھویا نہیں جانا چاہیے۔ ہمارا عدم اتفاق اپنے شہیدوں کے خون سے دغا کے مترادف ہو گا''۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے بعض اعتراضات کے حوالے سے اعتزاز احسن اور رضا ربانی خلوص دل سے یقین رکھتے ہیں کہ ملٹری کی طرف سے یکطرفہ طور پر دیے جانے والے فیصلے حقوق انسانی کی صریح خلاف ورزی ہے جن کی ہمارا آئین اجازت نہیں دیتا جب کہ آصف علی زرداری کو اس بات کا خدشہ ہے کہ اگر دہشت گرد عناصر کے ساتھ تعلق رکھنے والے تمام لوگوں کو احتساب کے دائرے میں کھینچ لیا جائے تو اس سے نا جانے کون کون حصار میں آ جائے۔

پاکستانیوں کی ''خاموش اکثریت'' کو اس بات کا پورا یقین ہے کہ تیز رفتار اور مثالی انصاف اور سزاؤں پر عملدرآمد کے بغیر عوام دہشت گردوں کے ہاتھوں مسلسل زک اٹھاتے رہیں گے۔ آصف علی زرداری بھی احتساب سے بچنے کی مہارت رکھتے ہیں کیونکہ شہادتوں کو یا تو مجرمانہ طور پر ڈرا دھمکا کر (بلکہ بعض حالات میں تو قتل تک کر کے) گواہی سے باز رکھا جا سکتا ہے بلکہ رکھا بھی گیا۔ مطلوبہ ڈاکہ زن عزیر بلوچ کو دبئی میں انٹرپول پولیس کی طرف سے گرفتار کر لیا گیا۔ ذوالفقار مرزا نے لیاری میں پیپلز امن کمیٹی (پی اے سی) اپنی سرکردگی میں قائم کی تھی تاکہ ایم کیو ایم کے فعال کارکنوں کا توڑ کیا جا سکے۔

تب کیا صورت حال ہو گی اگر آصف زرداری کے قریب ترین ساتھی کو فوجی عدالت کی طرف سے سزا سنائی جائے؟-1 آصف زرداری نے فوجی عدالتوں کے خلاف اعتراضات شروع کر دیے ہیں جن میں کہ میاں نواز شریف اور خود آصف زرداری بھی زیر حراست رہے ہیں۔ -2 سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو سندھ حکومت کو غیرمستحکم کرنے کی سازش کا ذمے دار قرار دیا جا رہا ہے۔پاکستان میں سے کسی نے 30 لاکھ افغانیوں کی ہماری سرزمین پر موجودگی کو سنجیدہ طور پر کسی بین الاقوامی فورم پر پیش نہیں کیا جب کہ اس کی این اے پی 2014ء کے ایجنڈے میں شمولیت خطرناک ہے۔

ہمارے دشمن افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات کو بہتر بنتے ہوئے دیکھ کر انھیں پھر سے خراب کرنے کے اضطراب میں مبتلا ہیں۔ ہمیں اس بارے میں بے حد محتاط رہنا ہو گا کہ ہمارے دشمن باہمی تعاون کی موجودہ فضا کو خراب کرنے کے لیے گھٹیا ہتھکنڈے استعمال نہ کر سکیں جب کہ وزیراعظم دہشت گردی کے مسئلے کو حل کرنے میں سنجیدہ نظر آتے ہیں انھی کی پارٹی کا ایک حلقہ فوج کو اضافی اختیارات دیے جانے پر عدم اعتماد کا اظہار کر رہا ہے۔ وزیراعظم نے اس حوالے سے جو اتفاق رائے حاصل کر لیا ہے اپوزیشن بھی غلط انداز سے اس کو خراب کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ واضح رہے کہ کرپشن، منصوبہ بندی سے کیے جانے والے جرائم اور دہشت گردی میں ایک مضبوط تعلق ہے۔ آپ خود ہی اندازہ لگائیں کہ بعض سیاستدان خاکی وردی والوں کو مزید اختیارات دینے کے کیوں خلاف ہیں۔ وہ تمام سیاستدان جن کا کرپشن سے کوئی تعلق ہے وہ فوجی عدالتوں کے قیام کو کسی صورت قبول نہیں کر سکتے۔

آرمی جب یہ دیکھتی ہے کہ سیاستدان انھیں تو قربانیاں دینے پر دباؤ دیتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی ان کے خلاف منفی باتیں بھی کرتے ہیں تو اس طرح فوج کی برداشت میں بھی کمی واقع ہو جاتی ہے۔ دہشت گردی ایک موجود خطرہ ہے جب کہ ہمارے سیاستدان ذومعنی باتیں کرنے کی مہارت رکھتے ہیں لیکن انھیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اگر قومی ڈھانچہ متاثر ہوا تو پھر ان کا بھی کوئی بچاؤ ممکن نہیں رہے گا۔ انھوں نے دہشت گردی کو نیست و نابود کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے جسے انھیں ہر حالت میں ایفاء کرنا چاہیے۔
Load Next Story