ٹیکس چوری روکنے کیلیے شوگر ملز میں افسران کی تعیناتی بے سود
افسران فرائض نہیں نبھارہے، مل انتظامیہ کے ساتھ مل جاتے ہیں، تجربہ کامیاب نہیں رہا
MIRPURKHAS:
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ماتحت اداروں نے ٹیکس چوری روکنے کے لیے ملک کی شوگر ملز کی پیداوار مانیٹر کرنے کیلیے ملز میں ٹیکس افسران کی تعیناتیوں کو بے سو اور بے نتیجہ قرار دے دیا ہے۔
''ایکسپریس'' کو دستیاب دستاویز کے مطابق فیلڈ فارمشنز کی جانب سے ایف بی آر ہیڈکوارٹرز سے شوگر ملز میں ٹیکس افسران کی تعیناتیاں جاری رکھنے یا ٹیکس افسران واپس بلانے کے حوالے سے ہدایات مانگی گئی ہیں۔ چیف کمشنر آر ٹی او ملتان کی جانب سے لکھے جانیوالے لیٹر میں چیف کمشنر ایل ٹی یو لاہور کے لیٹر کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 کی سیکشن 40 بی اور فیڈرل ایکسائز ایکٹ 2005کی سیکشن کے 45(2) تحت شوگر ملوں کی پیداوار اور قابل ٹیکس اشیا کی فروخت، اسٹاک پوزیشن سمیت شوگر ملوں کی اصل ریکوری کی شرح کی مانیٹرنگ کے لیے 5 افسران کے نام مانگے گئے تھے۔
لیٹر میں کہا گیا کہ ایل ٹی یو لاہور کے خط کے جواب میں شوگر ملوں کی پیداوار، اسٹاک پوزیشن و ریکوری اور قابل ٹیکس اشیا کی سیل کی مانیٹرنگ کے لیے ٹیم کی تشکیل کے لیے آر ٹی او ملتان نے 24 دسمبر 2014 کو 5 افسروں کے نام بھجوادیے ہیں لیکن ماضی میں گزشتہ کئی سال سے شوگر ملوں میں ٹیکس افسران کی تعیناتیوں کے تجربات کیے جا چکے ہیں جو کامیاب نہیں رہے ہیں اور شوگر ملوں میں ٹیکس افسران کی تعیناتیاں نہ صرف بے سود رہی ہیں بلکہ شوگر ملوں میں تعینات کیے جانیوالے ٹیکس افسران ملز انتظامیہ سے مل جاتے ہیں۔
ایف بی آر ہیڈ کوارٹرز کو موصولہ لیٹر میں بتایا گیا کہ شوگر ملوں میں پیداوار کی مانیٹرنگ کیلیے تعینات کیے جانے والے ٹیکس افسران عام طور پر اپنے فرائض تندہی سے ادا نہیں کرتے اور شوگر ملز انتظامیہ کے ساتھ مل جاتے ہیں۔ فیلڈ فارمشنز کی جانب سے تجویز دی گئی کہ شوگر ملوں کی پیداوار کی مانیٹرنگ کیلیے ملوں سے لوڈ ہو کر نکلنے چینی کی نگرانی کی کوئی منطق نہیں تاہم ایف بی آر سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ اس بارے میں مناسب ہدایات جاری کرے۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ماتحت اداروں نے ٹیکس چوری روکنے کے لیے ملک کی شوگر ملز کی پیداوار مانیٹر کرنے کیلیے ملز میں ٹیکس افسران کی تعیناتیوں کو بے سو اور بے نتیجہ قرار دے دیا ہے۔
''ایکسپریس'' کو دستیاب دستاویز کے مطابق فیلڈ فارمشنز کی جانب سے ایف بی آر ہیڈکوارٹرز سے شوگر ملز میں ٹیکس افسران کی تعیناتیاں جاری رکھنے یا ٹیکس افسران واپس بلانے کے حوالے سے ہدایات مانگی گئی ہیں۔ چیف کمشنر آر ٹی او ملتان کی جانب سے لکھے جانیوالے لیٹر میں چیف کمشنر ایل ٹی یو لاہور کے لیٹر کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 کی سیکشن 40 بی اور فیڈرل ایکسائز ایکٹ 2005کی سیکشن کے 45(2) تحت شوگر ملوں کی پیداوار اور قابل ٹیکس اشیا کی فروخت، اسٹاک پوزیشن سمیت شوگر ملوں کی اصل ریکوری کی شرح کی مانیٹرنگ کے لیے 5 افسران کے نام مانگے گئے تھے۔
لیٹر میں کہا گیا کہ ایل ٹی یو لاہور کے خط کے جواب میں شوگر ملوں کی پیداوار، اسٹاک پوزیشن و ریکوری اور قابل ٹیکس اشیا کی سیل کی مانیٹرنگ کے لیے ٹیم کی تشکیل کے لیے آر ٹی او ملتان نے 24 دسمبر 2014 کو 5 افسروں کے نام بھجوادیے ہیں لیکن ماضی میں گزشتہ کئی سال سے شوگر ملوں میں ٹیکس افسران کی تعیناتیوں کے تجربات کیے جا چکے ہیں جو کامیاب نہیں رہے ہیں اور شوگر ملوں میں ٹیکس افسران کی تعیناتیاں نہ صرف بے سود رہی ہیں بلکہ شوگر ملوں میں تعینات کیے جانیوالے ٹیکس افسران ملز انتظامیہ سے مل جاتے ہیں۔
ایف بی آر ہیڈ کوارٹرز کو موصولہ لیٹر میں بتایا گیا کہ شوگر ملوں میں پیداوار کی مانیٹرنگ کیلیے تعینات کیے جانے والے ٹیکس افسران عام طور پر اپنے فرائض تندہی سے ادا نہیں کرتے اور شوگر ملز انتظامیہ کے ساتھ مل جاتے ہیں۔ فیلڈ فارمشنز کی جانب سے تجویز دی گئی کہ شوگر ملوں کی پیداوار کی مانیٹرنگ کیلیے ملوں سے لوڈ ہو کر نکلنے چینی کی نگرانی کی کوئی منطق نہیں تاہم ایف بی آر سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ اس بارے میں مناسب ہدایات جاری کرے۔