لبرل انتہا پسندی دہشت اور جنگیں
دہشت گرد تنظیمیں ریاست کےحقیقی مخالف کا روپ اس وقت اختیار کرتی ہیں جب قانونی عدم تحفظ سےان کی بقا خطرے سےدوچارہوتی ہے۔
ریاست کی حیثیت ایک ایسے 'پہلے' کی سی ہوتی ہے جو سماج میں جنم لینے والے تمام عقائد، نظریات اور رجحانات اور شناختوں کا تعین اپنے نظریاتی اور جبری اداروں کی وساطت سے کرتی ہے۔ ریاست کا 'مخالف' اس کے بطن میں پرورش پاتا ہے۔ وہ اسے اپنی امیج پر تخلیق کرتی ہے۔اس کے اندر وہی اوصاف پیدا کرتی ہے جو اس کے اپنے اندر موجود ہوتے ہیں۔ اس کے وجود کی تشکیل اورسماج میں اس کے کردار اور شناخت کو مستحکم کرنے میں ریاست کا کردار فیصلہ کن ہوتا ہے۔
ریاست اپنے مخالف کی تشکیل کبھی تو شعوری طور پر کرتی ہے اور کبھی اس کا مخالف اس پر براجمان حکمران طبقات کی معاشی، سیاسی اور سماجی پالیسیوں اور آئیڈیولاجیکل ترجیحات کے نتیجے میں ازخود صورت پذیر ہوتا ہے۔ دونوں ہی صورتوں میں ریاست اپنے مخالف کی تشکیل پذیری کی ذمے دار ہوتی ہے۔ ریاستیں دہشت گرد تنظیموں کی پرورش اپنی علاقائی و قومی بالادستی، سیاسی و معاشی مفادات کے تحفظ اور اپنے آئیڈیولوجیکل غلبے اور ان کی توسیع کے لیے شعوری طور پر کام کرتی ہیں۔قانونی الفاظ میں انھیں ایجنسیاں کہا جاتا ہے اور غیر قانونی مفہوم میں یہ دہشت گرد تنظیمیں کہلاتی ہیں۔ ایسے میں ریاست دہشت گرد تنظیموں اورگروہوں کو اپنے وجود کا حصہ تصور کرتے ہوئے ان کا اثبات کرتی ہے۔ ایجنسیاں چونکہ ریاست کا حصہ ہوتی ہیں اس لیے انھیں قانونی تحفظ حاصل ہوتا ہے۔
دہشت گرد تنظیمیں ریاست کے حقیقی مخالف کا روپ اس وقت اختیار کرتی ہیں جب قانونی عدم تحفظ سے ان کی بقا خطرے سے دوچار ہوتی ہے۔ تاہم جونہی ان کے مابین سیاسی، معاشی اور آئیڈیولوجیکل مفادات الگ ہوجاتے ہیں تو ٹکراؤ کا مرحلہ آن پہنچتا ہے۔ ٹکراؤ کے اس مرحلے پر بھی ریاست ہی انھیں شناخت دیتی ہے اور وہی شناخت سماج کے غالب شعور میں راسخ ہوجاتی ہے۔ وہ 'دوسرا' جو ریاست کے وجود میں شعوری یا لاشعوری سطح پرتشکیل پاتا ہے، حقیقت میں وہ اس کا حقیقی مخالف نہیں ہوتا جو سماج کو معیاری (Qualitative) سطح پر تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ نہ ہی یہ طاقتیں اجتماعی انصاف، مساوات، آزادی اور انفرادیت کی خاطر ایک دوسرے سے برسرِ پیکار ہوتی ہیں، بلکہ سماج کی اجتماعی ساخت پر بذریعہ شعور اور طاقت متمکن ہونا ہی ان کی اولین ترجیح ہوتی ہے۔
باہمی ٹکراؤ کا تصور بھی کوئی الگ تصور نہیں ہوتا، یہ تصور بھی ریاست ہی نے اس کے بطن میں راسخ کیا ہوتا ہے۔دونوں ہی صورتوں میں توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ دہشت گرد تنظیموں کی شناخت کا تعلق ریاست کی تعقلی پالیسی کے ساتھ ہوتا ہے، جو جدید سرمایہ داری کی تشکیل و ارتقا کے ساتھ اس وقت پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں رائج ہے۔ اس تناظر میں دیکھیں تو عہد حاضر کا بحران حقیقت میں اس نظام کا بحران ہے جو سرمایہ داری طریقہ پیداوار اس کی سیاسی آئیڈیالوجی یعنی جدید لبرل جمہوریت کی نمایندگی کرتا ہے۔
عہد حاضر کی دہشت گردی اور جنگیں اپنی سرشت میں لبرل اور جمہوری ہیں۔ مذہبی قوتیں مزاحمت تو کرتی ہیں مگر وہ سماج کی اجتماعی ہیئت کو تبدیل کرنے سے قاصر ہیں۔ حکمران مذہب کا استعمال اپنی مرضی سے کرتے ہیں۔ کیونکہ حقیقی قوت ریاست کی ساخت میں مضمر ہے نہ کہ کسی عقیدے میں! عقیدے کی حدود کا تعین ریاست کی ساخت ہی کرتی ہے۔ لبرل عقلیت نام تو مذہب کا استعمال کررہی ہے مگر حقیقت میں یہ اپنے ہی پیدا کردہ مسائل میں الجھی ہوئی ہے۔پاکستانی ریاست نے اپنی تشکیل سے لے کر عہد حاضر تک امریکی سامراجی پالیسیوں کے تحفظ کو یقینی بنایا ہے، یعنی پاکستانی ریاست مذہب کی شبیہ پر نہیں سب سے بڑے لبرل جمہوریت کے تصور پر صورت پذیر ہوئی ہے۔سرد جنگ کے دوران دہشت گردوں کی تنظیم سازی اور بعد ازاں نائن الیون کے امریکی حملوں کے بعد ان دہشت گرد گروہوں کے حوالے سے یوٹرن پاکستانی ریاست کے لبرل جمہوری کردار کو عیاں کردیتی ہے۔
جدید دہشت گردی، جو نائن الیون کے امریکی حملوں کے ساتھ ایک نئی کروٹ لیتی ہوئی دکھائی دیتی ہے، وہ مذہبی نہیں بلکہ لبرل اور جمہوری ہے۔ جس کی تفہیم کے لیے ضروری ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکی و مغربی حکمرانوں کے بیانات پر غور کیا جائے۔ سرد جنگ میں کس کے بھیجے ہوئے بیٹے استعمال ہوئے تھے اور انھیں کیسے امریکی ایجنسیوں نے اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر تیار کیا تھا؟ جان ایشکرافٹ کے یہ الفاظ بہت اہم تھے کہ ''دہشت گردی کے خلاف جنگ کا مقصد اپنی آزادی اور اخلاقیات کا تحفظ کرنا ہے۔'' مسیحی اخلاقی و انسانی اقدار کا فہم رکھنے والے جانتے ہیں کہ امریکا میں جو 'اقدار' رائج ہیں ان کا تعلق مسیحیت سے نہیں بلکہ وہ لبرل آئیڈیالوجی کا لازمی جزو ہیں۔ لہذا جس 'آزادی اور 'اخلاقیات' کے تحفظ کو یقینی بنانے کی کوشش کررہا ہے وہ لبرل جمہوریت کی تخلیق کردہ ہیں۔
اس لیے جو جنگیں ان اقدار کے تحفظ کے نام پر مظلوم اقوام پر مسلط کی گئی ہیں یا کی جائیں گی، وہ اپنی فطرت میں لبرل جنگیں ہی ہونگی، ان جنگوں کی احتیاج کہیں باہر سے جنم نہیں لے رہی بلکہ یہ جدید سرمایہ داری پر استوار لبرل جمہوریت کے باطنی تضادات کا نتیجہ ہیں۔ نائن الیون کے فوراً بعدامریکی صدر جارج ڈبلیو بش اور برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر ہمہ وقت ٹی وی کی اسکرین پر یہ کہتے ہوئے دکھائی دیتے رہے کہ اسلامی دہشت پسندوں نے مغرب کی ان اقدار پر حملہ کیا ہے جنھیں بہت دیر کے بعد امریکی و مغربی معاشروں نے اپنے لیے قابل عمل بنایا ہے۔ ان اقدار میں لبرل جمہوریت ، آزادی کا تصور اور وہ اخلاقیات شامل ہے جن کی ترویج لبرل اور روشن خیال آئیڈیالوجی کے تحت کی جاچکی تھی۔
اس پس منظر میں اس بات کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ایک اسامہ بن لادن کو پکڑنے یا ہلاک کرنے کے لیے افغانستان پر جو جنگ مسلط کی گئی ، جس کے نتیجے میں بے شمار معصوم لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، اسے مسیحی نہیں،لبرل اقدار کے دفاع کے لیے ضروری قرار دیا گیا تھا۔ لہذا ذہن میں یہ بات رہنی ضروری ہے کہ لبرل اقدار کے دفاع میں جو سفاکیت اور قتال برپا کیا جاتا ہے وہ اپنی فطرت میں لبرل ہی ہوتا ہے۔ بعض لوگ یہ سوال اٹھا سکتے ہیں کہ برطانیہ کا وزیر اعظم اور امریکی صدرمذہبی رجحان رکھنے والے لوگ تھے، لیکن یہ دلیل درست نہیں ہے۔ کوئی بھی نظام شخصی خواہشات کے تحت نہیں بلکہ اپنی باطنی میکانیات کے تحت منقلب ہوتا ہے۔
اس کی بقا، تسلسل اور انہدام کے تمام پہلو انفرادی خواہشات کے برعکس اس نظام کے وسط میں موجود طبقاتی اور آئیڈیولاجیکل تضادات کی نوعیت اور ان کی شدت سے جنم لیتے ہیں اور ان کی تحلیل صرف اسی سمت میں ہوتی ہے جس سمت میں تضادات کا بہاؤ رہنمائی کررہا ہوتا ہے۔ مختصر یہ کہ بیسویں صدی کی ہر وہ جنگ جو مغربی و امریکی لبرل جمہوریت کی بقا و تحفظ یا بہتر الفاظ میں سرمایہ داری نظام اور اس کے آدرشوں کی بقا اور تسلسل کے لیے لڑی گئی وہ اپنی سرشت میں ایک لبرل جنگ تھی۔ بالکل اسی طرح بیسویں صدی کی دو عظیم جنگیں بھی اپنی سرشت میں لبرل تھیں۔
سولہ دسمبر کو پشاور سانحہ رونما ہوا، جس میں ایک اندازے کے مطابق132 معصوم بچوں کو شہید کردیا گیا۔ پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں اس سانحے پر دکھ اور افسوس کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔ پاکستان میں بھی وہی عمل شروع ہوچکا ہے جو امریکا یا برطانیہ میں ہوا تھا۔ لیکن پاکستان میں گروہی دہشت گردی کو ریاستی دہشت گردی یعنی جنگوں میںسے تبدیل کرنے کا وہی رجحان پیدا ہورہا ہے جو امریکا اور برطانیہ میں ہوا اور جس کی ان ممالک کی انسان دوست تنظیموں نے شدید مذمت کی تھی۔ہمارے ہاں قتال وسفاکیت کے تسلسل کو روکنے کے حق میں بہت کم آوازیں بلند ہوئی ہیں۔لبرل آئیڈیالوجی کا تعین اس کے مثالی آدرشوں میں نہیں اس کے پیروکاروں کے افعال اور جنگی جنون کو پروان چڑھانے والے نعروں کے تحت ہی کیا جاسکتا ہے۔قتال کی وکالت اور انسان دوستی کے تصورات ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔
قتال کے تسلسل کو روکنے کے لیے جو چند ایک آوازیں بلند ہوتی ہیں انھیں لبرل اور روشن خیال طالبان اور القاعدہ کی وکالت کرنے والے کہہ کر خاموش کرادیتے ہیں، جب کہ خود جنگی جنون کو ہوا دیتے ہوئے لبرل ازم کو طالبانیت کے زمرے میں لے آتے ہیں۔ آزادی کی وکالت کرنے والے دوسروں کی آزادی کا شیرازہ بکھیرنے پر مصر ہیں۔ متضاد خیالات رکھنے والوں کو نیست و نابود کردینا چاہتے ہیں۔
لبرل اور روشن خیال حلقوں کی جانب سے جس انتہا پسندی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے اس سے تو تاثر یہی جنم لیتا ہے کہ آزادی کا مفہوم ان کے لیے صرف یہ ہے کہ وہ خود آزاد ہوں اور ان کے مخالفین کا گلا گھونٹ دیا جائے۔ دہشت گردی کی مذمت کرنا اور اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھنا ہر اعتدال پسندانسان کا اخلاقی فریضہ ہے۔ تاہم اپنے آئیڈیولاجیکل مخالفین کا منظم قتال اور افکار کی روشنی میں اس کی نظریاتی توثیق خواہ مذہبی کتابوں سے کی جائے یا لبرل اور سیکولر دانشوروں کے حوالوں کی روشنی، میں ایک ہی جیسی قابل مذمت ہے۔
ریاست اپنے مخالف کی تشکیل کبھی تو شعوری طور پر کرتی ہے اور کبھی اس کا مخالف اس پر براجمان حکمران طبقات کی معاشی، سیاسی اور سماجی پالیسیوں اور آئیڈیولاجیکل ترجیحات کے نتیجے میں ازخود صورت پذیر ہوتا ہے۔ دونوں ہی صورتوں میں ریاست اپنے مخالف کی تشکیل پذیری کی ذمے دار ہوتی ہے۔ ریاستیں دہشت گرد تنظیموں کی پرورش اپنی علاقائی و قومی بالادستی، سیاسی و معاشی مفادات کے تحفظ اور اپنے آئیڈیولوجیکل غلبے اور ان کی توسیع کے لیے شعوری طور پر کام کرتی ہیں۔قانونی الفاظ میں انھیں ایجنسیاں کہا جاتا ہے اور غیر قانونی مفہوم میں یہ دہشت گرد تنظیمیں کہلاتی ہیں۔ ایسے میں ریاست دہشت گرد تنظیموں اورگروہوں کو اپنے وجود کا حصہ تصور کرتے ہوئے ان کا اثبات کرتی ہے۔ ایجنسیاں چونکہ ریاست کا حصہ ہوتی ہیں اس لیے انھیں قانونی تحفظ حاصل ہوتا ہے۔
دہشت گرد تنظیمیں ریاست کے حقیقی مخالف کا روپ اس وقت اختیار کرتی ہیں جب قانونی عدم تحفظ سے ان کی بقا خطرے سے دوچار ہوتی ہے۔ تاہم جونہی ان کے مابین سیاسی، معاشی اور آئیڈیولوجیکل مفادات الگ ہوجاتے ہیں تو ٹکراؤ کا مرحلہ آن پہنچتا ہے۔ ٹکراؤ کے اس مرحلے پر بھی ریاست ہی انھیں شناخت دیتی ہے اور وہی شناخت سماج کے غالب شعور میں راسخ ہوجاتی ہے۔ وہ 'دوسرا' جو ریاست کے وجود میں شعوری یا لاشعوری سطح پرتشکیل پاتا ہے، حقیقت میں وہ اس کا حقیقی مخالف نہیں ہوتا جو سماج کو معیاری (Qualitative) سطح پر تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ نہ ہی یہ طاقتیں اجتماعی انصاف، مساوات، آزادی اور انفرادیت کی خاطر ایک دوسرے سے برسرِ پیکار ہوتی ہیں، بلکہ سماج کی اجتماعی ساخت پر بذریعہ شعور اور طاقت متمکن ہونا ہی ان کی اولین ترجیح ہوتی ہے۔
باہمی ٹکراؤ کا تصور بھی کوئی الگ تصور نہیں ہوتا، یہ تصور بھی ریاست ہی نے اس کے بطن میں راسخ کیا ہوتا ہے۔دونوں ہی صورتوں میں توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ دہشت گرد تنظیموں کی شناخت کا تعلق ریاست کی تعقلی پالیسی کے ساتھ ہوتا ہے، جو جدید سرمایہ داری کی تشکیل و ارتقا کے ساتھ اس وقت پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں رائج ہے۔ اس تناظر میں دیکھیں تو عہد حاضر کا بحران حقیقت میں اس نظام کا بحران ہے جو سرمایہ داری طریقہ پیداوار اس کی سیاسی آئیڈیالوجی یعنی جدید لبرل جمہوریت کی نمایندگی کرتا ہے۔
عہد حاضر کی دہشت گردی اور جنگیں اپنی سرشت میں لبرل اور جمہوری ہیں۔ مذہبی قوتیں مزاحمت تو کرتی ہیں مگر وہ سماج کی اجتماعی ہیئت کو تبدیل کرنے سے قاصر ہیں۔ حکمران مذہب کا استعمال اپنی مرضی سے کرتے ہیں۔ کیونکہ حقیقی قوت ریاست کی ساخت میں مضمر ہے نہ کہ کسی عقیدے میں! عقیدے کی حدود کا تعین ریاست کی ساخت ہی کرتی ہے۔ لبرل عقلیت نام تو مذہب کا استعمال کررہی ہے مگر حقیقت میں یہ اپنے ہی پیدا کردہ مسائل میں الجھی ہوئی ہے۔پاکستانی ریاست نے اپنی تشکیل سے لے کر عہد حاضر تک امریکی سامراجی پالیسیوں کے تحفظ کو یقینی بنایا ہے، یعنی پاکستانی ریاست مذہب کی شبیہ پر نہیں سب سے بڑے لبرل جمہوریت کے تصور پر صورت پذیر ہوئی ہے۔سرد جنگ کے دوران دہشت گردوں کی تنظیم سازی اور بعد ازاں نائن الیون کے امریکی حملوں کے بعد ان دہشت گرد گروہوں کے حوالے سے یوٹرن پاکستانی ریاست کے لبرل جمہوری کردار کو عیاں کردیتی ہے۔
جدید دہشت گردی، جو نائن الیون کے امریکی حملوں کے ساتھ ایک نئی کروٹ لیتی ہوئی دکھائی دیتی ہے، وہ مذہبی نہیں بلکہ لبرل اور جمہوری ہے۔ جس کی تفہیم کے لیے ضروری ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکی و مغربی حکمرانوں کے بیانات پر غور کیا جائے۔ سرد جنگ میں کس کے بھیجے ہوئے بیٹے استعمال ہوئے تھے اور انھیں کیسے امریکی ایجنسیوں نے اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر تیار کیا تھا؟ جان ایشکرافٹ کے یہ الفاظ بہت اہم تھے کہ ''دہشت گردی کے خلاف جنگ کا مقصد اپنی آزادی اور اخلاقیات کا تحفظ کرنا ہے۔'' مسیحی اخلاقی و انسانی اقدار کا فہم رکھنے والے جانتے ہیں کہ امریکا میں جو 'اقدار' رائج ہیں ان کا تعلق مسیحیت سے نہیں بلکہ وہ لبرل آئیڈیالوجی کا لازمی جزو ہیں۔ لہذا جس 'آزادی اور 'اخلاقیات' کے تحفظ کو یقینی بنانے کی کوشش کررہا ہے وہ لبرل جمہوریت کی تخلیق کردہ ہیں۔
اس لیے جو جنگیں ان اقدار کے تحفظ کے نام پر مظلوم اقوام پر مسلط کی گئی ہیں یا کی جائیں گی، وہ اپنی فطرت میں لبرل جنگیں ہی ہونگی، ان جنگوں کی احتیاج کہیں باہر سے جنم نہیں لے رہی بلکہ یہ جدید سرمایہ داری پر استوار لبرل جمہوریت کے باطنی تضادات کا نتیجہ ہیں۔ نائن الیون کے فوراً بعدامریکی صدر جارج ڈبلیو بش اور برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر ہمہ وقت ٹی وی کی اسکرین پر یہ کہتے ہوئے دکھائی دیتے رہے کہ اسلامی دہشت پسندوں نے مغرب کی ان اقدار پر حملہ کیا ہے جنھیں بہت دیر کے بعد امریکی و مغربی معاشروں نے اپنے لیے قابل عمل بنایا ہے۔ ان اقدار میں لبرل جمہوریت ، آزادی کا تصور اور وہ اخلاقیات شامل ہے جن کی ترویج لبرل اور روشن خیال آئیڈیالوجی کے تحت کی جاچکی تھی۔
اس پس منظر میں اس بات کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ایک اسامہ بن لادن کو پکڑنے یا ہلاک کرنے کے لیے افغانستان پر جو جنگ مسلط کی گئی ، جس کے نتیجے میں بے شمار معصوم لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، اسے مسیحی نہیں،لبرل اقدار کے دفاع کے لیے ضروری قرار دیا گیا تھا۔ لہذا ذہن میں یہ بات رہنی ضروری ہے کہ لبرل اقدار کے دفاع میں جو سفاکیت اور قتال برپا کیا جاتا ہے وہ اپنی فطرت میں لبرل ہی ہوتا ہے۔ بعض لوگ یہ سوال اٹھا سکتے ہیں کہ برطانیہ کا وزیر اعظم اور امریکی صدرمذہبی رجحان رکھنے والے لوگ تھے، لیکن یہ دلیل درست نہیں ہے۔ کوئی بھی نظام شخصی خواہشات کے تحت نہیں بلکہ اپنی باطنی میکانیات کے تحت منقلب ہوتا ہے۔
اس کی بقا، تسلسل اور انہدام کے تمام پہلو انفرادی خواہشات کے برعکس اس نظام کے وسط میں موجود طبقاتی اور آئیڈیولاجیکل تضادات کی نوعیت اور ان کی شدت سے جنم لیتے ہیں اور ان کی تحلیل صرف اسی سمت میں ہوتی ہے جس سمت میں تضادات کا بہاؤ رہنمائی کررہا ہوتا ہے۔ مختصر یہ کہ بیسویں صدی کی ہر وہ جنگ جو مغربی و امریکی لبرل جمہوریت کی بقا و تحفظ یا بہتر الفاظ میں سرمایہ داری نظام اور اس کے آدرشوں کی بقا اور تسلسل کے لیے لڑی گئی وہ اپنی سرشت میں ایک لبرل جنگ تھی۔ بالکل اسی طرح بیسویں صدی کی دو عظیم جنگیں بھی اپنی سرشت میں لبرل تھیں۔
سولہ دسمبر کو پشاور سانحہ رونما ہوا، جس میں ایک اندازے کے مطابق132 معصوم بچوں کو شہید کردیا گیا۔ پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں اس سانحے پر دکھ اور افسوس کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔ پاکستان میں بھی وہی عمل شروع ہوچکا ہے جو امریکا یا برطانیہ میں ہوا تھا۔ لیکن پاکستان میں گروہی دہشت گردی کو ریاستی دہشت گردی یعنی جنگوں میںسے تبدیل کرنے کا وہی رجحان پیدا ہورہا ہے جو امریکا اور برطانیہ میں ہوا اور جس کی ان ممالک کی انسان دوست تنظیموں نے شدید مذمت کی تھی۔ہمارے ہاں قتال وسفاکیت کے تسلسل کو روکنے کے حق میں بہت کم آوازیں بلند ہوئی ہیں۔لبرل آئیڈیالوجی کا تعین اس کے مثالی آدرشوں میں نہیں اس کے پیروکاروں کے افعال اور جنگی جنون کو پروان چڑھانے والے نعروں کے تحت ہی کیا جاسکتا ہے۔قتال کی وکالت اور انسان دوستی کے تصورات ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔
قتال کے تسلسل کو روکنے کے لیے جو چند ایک آوازیں بلند ہوتی ہیں انھیں لبرل اور روشن خیال طالبان اور القاعدہ کی وکالت کرنے والے کہہ کر خاموش کرادیتے ہیں، جب کہ خود جنگی جنون کو ہوا دیتے ہوئے لبرل ازم کو طالبانیت کے زمرے میں لے آتے ہیں۔ آزادی کی وکالت کرنے والے دوسروں کی آزادی کا شیرازہ بکھیرنے پر مصر ہیں۔ متضاد خیالات رکھنے والوں کو نیست و نابود کردینا چاہتے ہیں۔
لبرل اور روشن خیال حلقوں کی جانب سے جس انتہا پسندی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے اس سے تو تاثر یہی جنم لیتا ہے کہ آزادی کا مفہوم ان کے لیے صرف یہ ہے کہ وہ خود آزاد ہوں اور ان کے مخالفین کا گلا گھونٹ دیا جائے۔ دہشت گردی کی مذمت کرنا اور اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھنا ہر اعتدال پسندانسان کا اخلاقی فریضہ ہے۔ تاہم اپنے آئیڈیولاجیکل مخالفین کا منظم قتال اور افکار کی روشنی میں اس کی نظریاتی توثیق خواہ مذہبی کتابوں سے کی جائے یا لبرل اور سیکولر دانشوروں کے حوالوں کی روشنی، میں ایک ہی جیسی قابل مذمت ہے۔