اور اندھیرا چھا گیا
ہمارےاعمال برے ہیں،تم کو ایک قوت بننا ہے،اسلام کے لشکرکا سپاہی بننا ہے،ان دہشت گردوں سےڈرنا نہیں ان کا مقابلہ کرنا ہے۔
پچھلے مہینے سوشل میڈیا پر ایک نیوز کافی گردش کر رہی تھی جو NASAکے ہیڈ Charles Frank Bolden کی طرف سے تھی اس خبر میں کتنی سچائی ہے ہر کوئی یہ ضرور سوچ رہا تھا۔ NASAکے مطابق 16 دسمبر کو ساری دنیا میں ایک سولر اسٹروم کی وجہ سے اندھیرا چھا جانا تھا جوکہ 22 دسمبر تک رہنا تھا۔ اس خبر کو بار بار پڑھ کر اور شیئر کر کے میں سوچ رہی تھی کہ اگر ایسا ہوا تو کیا ہوگا؟ 16 دسمبر کی صبح آئی بظاہر روشنی رہی مگر پھر براعظم ایشیا کے جنوب میں واقع ایک ملک جسے لوگ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام سے جانتے ہیں، اُس کے ایک شہر میں NASAکی پیشنگوئی درست ثابت ہوگئی فرق صرف اتنا ہے کہ پشاور میں سولر اسٹروم نہیں آیا دہشت گردی کا طوفان آیا ۔
خلائی ملبہSpace Debris تو نہیں گرا مگر ماؤں کے دلوں کے ٹکڑے ٹکڑے ہوکر بکھر گئے۔ NASAکے مطابق تو اندھیرا 16 سے 22 دسمبر تک رہنا تھا مگر یہ اندھیرا تو ساری زندگی کے لیے چھا گیا۔ NASAکا کہنا تھا کہ چھ دن Artificial لائٹ پر آسانی سے گزارا ہوجائے گا مگر یہاں پر ماؤں کے کلیجوں کے ٹکڑوں کا نعم البدل کہاں سے لائیں، حیران ہوتی ہوں کہ یہ اتفاق ہے یا واقعی NASA کی پہنچ اتنی ہے کہ اس حد تک پیشنگوئی سچ ثابت ہوگئی، آسمان ہل گیا، ذات کرچی کرچی ہوگئی الفاظ ختم ہوگئے اور اندھیرا چھا گیا۔ حوصلہ ہمت کہاں سے لائیں گی وہ مائیں ۔
اولاد جو ماں کے وجود کا حصہ ہے جب وہ ختم ہوتی ہے تو ماں بھی ختم ہوجاتی ہے۔ TTPنے ایک سو بتیس بچوں کے ساتھ 132 ماؤں کو بھی قتل کردیا۔ 132 تو جنت کی راہ ہو لیے مگر مائیں دکھ کی اس آگ میں جلتی رہیں گی جب تک کہ ان کی ملاقات ان کے بچوں سے نہ ہو جائے گی۔ مگر کیا فرق پڑتا ہے ہمارے یہ حکمران جو کمیٹیاں بنا رہے ہیں اپنے گھروں میں بیٹھے کیا سوچ رہے ہوں گے ۔
پتہ نہیں ان کو اس رات نیند کیسے آئی ہوگی 132بچوں نے انھیں کیسے سونے دیا ہوگا، ناجانے کتنی بوتلیں خالی ہوئی ہوں گی۔ مگر میں یہ کس سے کہہ رہی ہوں اور کیوں کہہ رہی ہوں، اس ملک میں کون سنے گا، ان سیاستدانوں سے جن کا دین ایمان صرف اور صرف پیسہ ہے۔ یا پھر ان مذہبی رہنماؤں سے جو فرقہ واریت کو فروغ دیتے ہیں اور ڈالر اور ریال کی لے پر اپنے بیانات بدلتے ہیں ۔ نہیں میں ان میں سے کسی سے مخاطب نہیں۔
میں مخاطب ہوں ماؤں سے کہ آج سے اپنے بچوں کو روٹی کے ساتھ یہ تربیت بھی دو کہ بیٹا! امتحان کڑا ہے، ہمارے اعمال برے ہیں ، تم کو ایک قوت بننا ہے، اسلام کے لشکر کا سپاہی بننا ہے، ان دہشت گردوں سے ڈرنا نہیں ان کا مقابلہ کرنا ہے، اپنے اندر اللہ اور اس کے رسولؐ کی محبت کو بیدار کرنا ہے، موت تو بیٹا ! آنی ہے ، زندگی فانی ہے، اپنا ایمان سلامت رکھنا، اپنا کردار بلند رکھنا، اپنے حوصلے مضبوط اور جوان رکھنا، تمہاری ماں تمہارے ساتھ ہے۔ اللہ اور اس کے رسولؐ تمہارے ساتھ ہیں۔ ایک ماں کے دل کو تو سکون صرف اس وقت ملے گا جب یہ دہشت گرد مارے جائیں گے۔ ہمارے بچوں اور جوانوں کی قربانیاں رائیگاں نہ جائیں۔ چند روپوں کی رشوت اور چند سالوں کی زندگی کے لیے اتنی جانوں کو داؤ پر لگا دینا کہاں کا انصاف ہے۔
آج یہ غیر ملکی ہمارے ملک میں داخل ہوتے ہیں تو کسی نہ کسی کا ایمان خرید کر داخل ہوتے ہیں ۔ کیا مل جاتا ہے چند لاکھ میں جو کسی کی زندگی کی تمام پونجی ختم کردیتے ہیں ۔ کیا یہ رشوت لیتے ہوئے کبھی یہ سوچ آتی ہے کہ واپسی کے سفر پر کیا منہ دکھائیں گے، مگر شاید ان کو پتہ ہوتا ہے کہ وہ دوزخ کا ایندھن ہیں اسی لیے اس دنیا کو پرآسائش بنانے میں دن رات لگے رہتے ہیں مگر میری بہنوں ! تم حوصلہ نہ ہارنا کیونکہ اب امتحان ہماری تربیتوں کا ہوگا ہم وہ اولاد پروان چڑھائیں گے جو اپنی زندگی کی خوشیوں کے لیے دوسرے کی خوشی نہ چھینیں، اپنے گھر میں روشنی کے گھر کو لیے کسی اور کے گھر کو آگ کا ایندھن نہ بنائیں، وہ سچے ہوں ، پہاڑ کی طرح مضبوط ہوں ، تم میں آگے بڑھ کر برائی ختم کرنے کا حوصلہ ہو ۔
پاکستان دنیا کی واحد اسلامی ریاست جہاں پر اسلام پھر بھی صحیح معنوں میں لاگو ہے اور اس کو ختم کرنا تو بہت پرانی سازش ہے ۔ چودہ سو سال پہلے ایک اسلامی ریاست مدینہ میں قائم ہوئی تھی اس کے بعد پاکستان میں قائم ہوئی ۔ اس کو بچانا ہے، دشمن بہت ہیں دوست کوئی نہیں اب بھروسہ صرف اللہ اور اس کے رسولؐ کی ذات اور تعلیمات پر کرنا ہے۔ اسلام تو اسلام ہے اس کو بچانا ۔ اور درخواست ضرور کروں گی اپنے So Called Moderate بھائی بہنوں سے اور نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی سے اور ہاں David Cameron سے بھی کہ خدارا! ان بچوں کی شہادت کو اس بات سے منسلک نہ کیجیے کہ یہ اس لیے مارے گئے کہ تعلیم حاصل کر رہے تھے، یہ اس لیے نہیں مارے گئے، ان کا قصور یہ تھا کہ یا تو ان کا تعلق فوجی خاندانوں سے تھا اور وہ ان کی درسگاہ سے منسلک تھے جو ضرب عضب کا حصہ ہیں اور جنھوں نے دہشت گردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔
شیروں تک تو پہنچ نہ سکے اس لیے ننھے منے شیروں کو آکر ختم کردیا بالکل ان لگڑ بھگوں کی طرح جو شیر کا انتظار کرتے ہیں کہ وہ ذرا غافل ہو تو اس کے بچوں پر حملہ کریں کیونکہ شیر سے سینہ بہ سینہ لڑنے کی ان کی اوقات نہیں ہوتی، ہمیں کہنا ہوگا کہ تم TTP ہو یا ISIS(داعش) چاہے جتنا خوف کا بازار گرم رکھو فتح ہماری ہوگی ، تم تو صرف خاک میں ملا دیے جاؤگے ہم مائیں وہ جوان بنائیں گی ۔
تم اور تمہاری اوقات کیا، رات کے اندھیروں میں بم باندھ کر گھستے ہو، معصوم بچوں اور نہتی عورتوں پر وار کرتے ہو، ان کو جلاتے ہو، ان کے گلے ذبح کرتے ہو، تم تو اس قابل ہی نہیں کہ کوئی تم کو انسان بلائے تم کو حیوان کہو تو شاید حیوان بھی ناراض ہوجائیں، جنگل کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں تم تو ان سے بھی بدتر نکلے، تم میں سے جو ہلاک ہوئے وہ تو جہنم کی آگ کو بھڑکا گئے باقی اپنی باری کا انتظار کرو اللہ کے شیر تم کو بہت جلد تمہارے برے ٹھکانوں پر پہنچا دیں گے ۔ میری بہنو! پاکستان کی ہر ماں تمہارے دکھ، تمہارے درد، تمہارے ننھے فرشتوں کی شہادت میں تمہارے ساتھ ہے۔ ان معصوموں کا خون رنگ لائے گا اور پاکستان کی سلامتی میں ایسا کردار ادا کرے گا جس کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔
خلائی ملبہSpace Debris تو نہیں گرا مگر ماؤں کے دلوں کے ٹکڑے ٹکڑے ہوکر بکھر گئے۔ NASAکے مطابق تو اندھیرا 16 سے 22 دسمبر تک رہنا تھا مگر یہ اندھیرا تو ساری زندگی کے لیے چھا گیا۔ NASAکا کہنا تھا کہ چھ دن Artificial لائٹ پر آسانی سے گزارا ہوجائے گا مگر یہاں پر ماؤں کے کلیجوں کے ٹکڑوں کا نعم البدل کہاں سے لائیں، حیران ہوتی ہوں کہ یہ اتفاق ہے یا واقعی NASA کی پہنچ اتنی ہے کہ اس حد تک پیشنگوئی سچ ثابت ہوگئی، آسمان ہل گیا، ذات کرچی کرچی ہوگئی الفاظ ختم ہوگئے اور اندھیرا چھا گیا۔ حوصلہ ہمت کہاں سے لائیں گی وہ مائیں ۔
اولاد جو ماں کے وجود کا حصہ ہے جب وہ ختم ہوتی ہے تو ماں بھی ختم ہوجاتی ہے۔ TTPنے ایک سو بتیس بچوں کے ساتھ 132 ماؤں کو بھی قتل کردیا۔ 132 تو جنت کی راہ ہو لیے مگر مائیں دکھ کی اس آگ میں جلتی رہیں گی جب تک کہ ان کی ملاقات ان کے بچوں سے نہ ہو جائے گی۔ مگر کیا فرق پڑتا ہے ہمارے یہ حکمران جو کمیٹیاں بنا رہے ہیں اپنے گھروں میں بیٹھے کیا سوچ رہے ہوں گے ۔
پتہ نہیں ان کو اس رات نیند کیسے آئی ہوگی 132بچوں نے انھیں کیسے سونے دیا ہوگا، ناجانے کتنی بوتلیں خالی ہوئی ہوں گی۔ مگر میں یہ کس سے کہہ رہی ہوں اور کیوں کہہ رہی ہوں، اس ملک میں کون سنے گا، ان سیاستدانوں سے جن کا دین ایمان صرف اور صرف پیسہ ہے۔ یا پھر ان مذہبی رہنماؤں سے جو فرقہ واریت کو فروغ دیتے ہیں اور ڈالر اور ریال کی لے پر اپنے بیانات بدلتے ہیں ۔ نہیں میں ان میں سے کسی سے مخاطب نہیں۔
میں مخاطب ہوں ماؤں سے کہ آج سے اپنے بچوں کو روٹی کے ساتھ یہ تربیت بھی دو کہ بیٹا! امتحان کڑا ہے، ہمارے اعمال برے ہیں ، تم کو ایک قوت بننا ہے، اسلام کے لشکر کا سپاہی بننا ہے، ان دہشت گردوں سے ڈرنا نہیں ان کا مقابلہ کرنا ہے، اپنے اندر اللہ اور اس کے رسولؐ کی محبت کو بیدار کرنا ہے، موت تو بیٹا ! آنی ہے ، زندگی فانی ہے، اپنا ایمان سلامت رکھنا، اپنا کردار بلند رکھنا، اپنے حوصلے مضبوط اور جوان رکھنا، تمہاری ماں تمہارے ساتھ ہے۔ اللہ اور اس کے رسولؐ تمہارے ساتھ ہیں۔ ایک ماں کے دل کو تو سکون صرف اس وقت ملے گا جب یہ دہشت گرد مارے جائیں گے۔ ہمارے بچوں اور جوانوں کی قربانیاں رائیگاں نہ جائیں۔ چند روپوں کی رشوت اور چند سالوں کی زندگی کے لیے اتنی جانوں کو داؤ پر لگا دینا کہاں کا انصاف ہے۔
آج یہ غیر ملکی ہمارے ملک میں داخل ہوتے ہیں تو کسی نہ کسی کا ایمان خرید کر داخل ہوتے ہیں ۔ کیا مل جاتا ہے چند لاکھ میں جو کسی کی زندگی کی تمام پونجی ختم کردیتے ہیں ۔ کیا یہ رشوت لیتے ہوئے کبھی یہ سوچ آتی ہے کہ واپسی کے سفر پر کیا منہ دکھائیں گے، مگر شاید ان کو پتہ ہوتا ہے کہ وہ دوزخ کا ایندھن ہیں اسی لیے اس دنیا کو پرآسائش بنانے میں دن رات لگے رہتے ہیں مگر میری بہنوں ! تم حوصلہ نہ ہارنا کیونکہ اب امتحان ہماری تربیتوں کا ہوگا ہم وہ اولاد پروان چڑھائیں گے جو اپنی زندگی کی خوشیوں کے لیے دوسرے کی خوشی نہ چھینیں، اپنے گھر میں روشنی کے گھر کو لیے کسی اور کے گھر کو آگ کا ایندھن نہ بنائیں، وہ سچے ہوں ، پہاڑ کی طرح مضبوط ہوں ، تم میں آگے بڑھ کر برائی ختم کرنے کا حوصلہ ہو ۔
پاکستان دنیا کی واحد اسلامی ریاست جہاں پر اسلام پھر بھی صحیح معنوں میں لاگو ہے اور اس کو ختم کرنا تو بہت پرانی سازش ہے ۔ چودہ سو سال پہلے ایک اسلامی ریاست مدینہ میں قائم ہوئی تھی اس کے بعد پاکستان میں قائم ہوئی ۔ اس کو بچانا ہے، دشمن بہت ہیں دوست کوئی نہیں اب بھروسہ صرف اللہ اور اس کے رسولؐ کی ذات اور تعلیمات پر کرنا ہے۔ اسلام تو اسلام ہے اس کو بچانا ۔ اور درخواست ضرور کروں گی اپنے So Called Moderate بھائی بہنوں سے اور نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی سے اور ہاں David Cameron سے بھی کہ خدارا! ان بچوں کی شہادت کو اس بات سے منسلک نہ کیجیے کہ یہ اس لیے مارے گئے کہ تعلیم حاصل کر رہے تھے، یہ اس لیے نہیں مارے گئے، ان کا قصور یہ تھا کہ یا تو ان کا تعلق فوجی خاندانوں سے تھا اور وہ ان کی درسگاہ سے منسلک تھے جو ضرب عضب کا حصہ ہیں اور جنھوں نے دہشت گردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔
شیروں تک تو پہنچ نہ سکے اس لیے ننھے منے شیروں کو آکر ختم کردیا بالکل ان لگڑ بھگوں کی طرح جو شیر کا انتظار کرتے ہیں کہ وہ ذرا غافل ہو تو اس کے بچوں پر حملہ کریں کیونکہ شیر سے سینہ بہ سینہ لڑنے کی ان کی اوقات نہیں ہوتی، ہمیں کہنا ہوگا کہ تم TTP ہو یا ISIS(داعش) چاہے جتنا خوف کا بازار گرم رکھو فتح ہماری ہوگی ، تم تو صرف خاک میں ملا دیے جاؤگے ہم مائیں وہ جوان بنائیں گی ۔
تم اور تمہاری اوقات کیا، رات کے اندھیروں میں بم باندھ کر گھستے ہو، معصوم بچوں اور نہتی عورتوں پر وار کرتے ہو، ان کو جلاتے ہو، ان کے گلے ذبح کرتے ہو، تم تو اس قابل ہی نہیں کہ کوئی تم کو انسان بلائے تم کو حیوان کہو تو شاید حیوان بھی ناراض ہوجائیں، جنگل کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں تم تو ان سے بھی بدتر نکلے، تم میں سے جو ہلاک ہوئے وہ تو جہنم کی آگ کو بھڑکا گئے باقی اپنی باری کا انتظار کرو اللہ کے شیر تم کو بہت جلد تمہارے برے ٹھکانوں پر پہنچا دیں گے ۔ میری بہنو! پاکستان کی ہر ماں تمہارے دکھ، تمہارے درد، تمہارے ننھے فرشتوں کی شہادت میں تمہارے ساتھ ہے۔ ان معصوموں کا خون رنگ لائے گا اور پاکستان کی سلامتی میں ایسا کردار ادا کرے گا جس کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔