داعش کی ’’خلافت‘‘ کا قیام
عراق اور شام کے درمیانی علاقے میں وسیع و عریض رقبے پر خودساختہ ریاست کیسے معرض وجودمیں آئی، اہداف کیا ہیں
سن 2014ء میں داعش(دولت اسلامیہ عراق وشام) ایک ایسا بڑا خطرہ بن کر ابھری ہے جس نے ایک طرف امریکا کو چکرا کر رکھ دیا، دوسری طرف ایران کو بھی امریکی اتحادی بننے پرمجبورکردیا۔
شام اور عراق میں اس کی کہانی تب شروع ہوئی جب عرب بہار کے سلسلہ کی ایک کڑی شام میں بھی شروع ہوئی، قریباً نصف صدی سے برسراقتدار ڈکٹیٹر بشارالاسد کے خلاف شامی قوم کا ایک بڑا حصہ اٹھ کھڑا ہوا اور ملک میں جمہوریت کے لئے وسیع پیمانے پر جدوجہد شروع ہوگئی۔ ابتدا میں جمہوری تحریک چلانے والوں کو چند اصلاحات اور کچھ سیاسی قیدیوں کی رہائی کے وعدوں کے ساتھ ٹرخانے کی کوششیں ناکام ہوئیں تو اسے انتہائی بے دردی سے کچلنے کے تمام تر حربے اختیارکئے گئے۔
شامی فوج نے تحریک میں شامل مرد وخواتین کو قتل کرنا شروع کردیا، بڑے بڑے گڑھے کھود کر مخالفین کے بچوں کو زندہ دفن کیاگیا۔ ایسے میں عوامی تحریک مسلح جدوجہد میں تبدیل ہوگئی۔ اس میں سیکولر گروہ بھی تھے اور جہادی بھی۔امریکی اور بعض عرب ممالک بشارالاسد کی حکمرانی ختم کرنا چاہتے تھے تاہم یہ نہیں چاہتے تھے کہ اس کے بعد اقتدار اسلام پسندوں کے ہاتھ میں آئے۔
یہ مسئلہ بھی تھا کہ شامی ڈکٹیٹر کے خلاف موثرمسلح جدوجہد جہادی ہی کررہے تھے، سیکولرگروہ اس معاملے میں خاصے نااہل واقع ہوئے تھے۔ یادرہے کہ شام میں ہونے والی خانہ جنگی کے نتیجے میں پونے چاربرسوں کے دوران میں مختلف اندازوں کے مطابق دو لاکھ 82 ہزار افراد ہلاک ہوچکے ہیں، ایک لاکھ تیس ہزار گرفتار یالاپتہ ہیں، 4 سے50 لاکھ لوگوں کو اپنا گھربارچھوڑناپڑا جن میں سے 33 لاکھ باقاعدہ مہاجر کیمپوں میں مقیم ہوچکے ہیں۔
دوسری طرف عراق میں شام سے ملحقہ وسیع وعریض علاقے میں نوری المالکی کے آٹھ سالہ دور حکومت کے ظلم وستم کے شکار سنی اور کرد لوگوں سے جب کچھ بن نہیں پڑا تو انھوں نے یہاں متحرک جہادی گروہوں کے جھنڈے تلے رہنے کا فیصلہ کرلیا۔ مغربی ذرائع بھی اعتراف کرتے ہیں کہ بشارالاسد اور نوری المالکی کے مظالم کا نشانہ بننے والے لوگ یہ امید بھی کھو چکے تھے کہ ایک دن مغرب ان کی مدد کو آئے گا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ لوگ ان جہادیوں کی جانب متوجہ ہو گئے جنھیں خلیجی ریاستوں کی زبردست مالی مدد حاصل تھی۔
قطر کے رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل سٹیونز کا کہنا ہے کہ اس جنگ میں واضح نہیں کون کیا کر رہا ہے۔ مغربی اور ایرانی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس گروہ کو بنانے اور قائم رکھنے کی تمام ذمہ داری قطر، ترکی اور سعودی عرب پر عائد ہوتی ہے۔ تاہم حقیقت اس الزام سے زیادہ پیچیدہ ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ شام میں برسِرپیکار شدت پسند گروہوں کی مالی معاونت خلیجی ریاستوں کے کچھ امرا کرتے رہے ہیں جو بھاری رقوم سے بھرے ہوئے تھیلے ترکی لے جا کر لاکھوں ڈالر اس گروہ کے حوالے کرتے رہے ہیں۔
گزشتہ دو تین برسوں میں لوا التوحید، احرار الشام اور جیش الاسلام نامی گروہ یہ کام کرتے رہے ہیں اور ان تینوں گروہوں کے النصرۃ فرنٹ اور شام میں موجود القاعدہ سے کسی نہ کسی قسم کے روابط رہے ہیں۔ سعودی عرب پر الزام ہے کہ وہ اس سارے عرصے میں دولتِ اسلامیہ کے نام کے تحت کام کرنے والے اسلام پسند گروہوں کو مالی مدد فراہم کرتا رہا ہے، لیکن سعودی عرب اس الزام کی سختی سے تردید کرتا ہے۔ جہاں تک خلیجی ریاستوں سے دولت اسلامیہ کی مدد کا تعلق ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ بشار الاسد کے خلاف جاری شورش کے ابتدائی دنوں سے ہی یہاں سے باغی گروہوں کو رقوم فراہم کی جاتی رہی ہیں۔
قطر پر خصوصاً یہ الزام ہے کہ دولتِ اسلامیہ کے ساتھ اس کے خفیہ روابط رہے ہیں۔ اسی طرح ترکی کے کردار پر بھی بہت سے سوالیہ نشان موجود ہیں کہ اس نے سعودی عرب اور قطر کی پشت پناہی کو راستہ دیا اور اس کی سرحد کے راستے دولت اسلامیہ تک اسلحہ اور بھاری رقوم پہنچائی جاتی رہی ہیں۔ تمام لوگوں کا خیال تھا کہ ترکی کی اس حکمت عملی کی بدولت بشارالاسد کے دور کا خاتمہ ہو جائے گا اور شام میں سنی اکثریت کو غلبہ حاصل ہو جائے گا جس کے بعد شیعہ ایران اور بحیرہ روم کے درمیان رابطے کٹ جائیں گے لیکن جب سنہ 2013 میں دولت اسلامیہ کا زور بڑھ گیا تو شام میں برسر پیکار چھوٹے چھوٹے گروہ یا تو دولتِ اسلامیہ کے زور تلے دب گئے یا انھوں نے اپنے اسلحے اور دولت سمیت اس تنظیم میں شمولیت اختیار کر لی۔
قطر کی طرح سعودی عرب پر بھی الزام ہے کہ اس نے دولت اسلامیہ کی پشت پناہی کی ان گروہوں میں سے النصرۃ ہی وہ واحد گروہ تھا جو اپنے پاؤں پر کھڑا رہا، تاہم اس کی مضبوط تنظیم بھی دولتِ اسلامیہ کے سامنے زیادہ دیر نہ ٹھہر سکی اور گزشتہ دو برسوں میں اس کے کم از کم تین ہزار جنگجو اسے چھوڑ کر دولت اسلامیہ سے مل چکے ہیں۔
ایک مغربی نشریاتی ادارے سے وابستہ صحافی پال وْڈ کے مطابق سْنی دیہاتوں میں پھیلے ہوئے دولت اسلامیہ کے جنگجو زیادہ تر مقامی قبائلی افراد پر ہی مشتمل ہیں۔ یہ لوگ غیر ملکی نہیں بلکہ ان کا خمیر عراق اور شام کی مٹی سے ہی اٹھا تھا۔امریکی افسران کا خیال ہے کہ دولت اسلامی کے جنگجوؤں کی تعداد تقریباً 15ہزار ہے، تاہم عراقی ماہر ہشام الہشامی کہتے ہیں کہ دولت اسلامیہ کے پاس 30 سے 50 ہزار جنگجو موجود ہیں جن میں سے تقریباً 30 فیصد پکے 'نظریاتی' ہیں جبکہ باقی خوف یا دباؤ کے تحت تنظیم میں شامل ہوئے۔
تاہم غیرملکی جنگجوؤں کی تعداد 12 ہزار کے لگ بھگ ہے جن کا تعلق دنیا کے 81 ممالک سے ہے،ان میں ڈھائی ہزار ایسے ہیں جو مغربی ممالک سے آئے ہیں اور وہ گزشتہ تین برس سے شام میں سرگرم ہیں۔ یہ تناظر ہے داعش کا جس نے بعدازاں 'دولت اسلامیہ عراق وشام' کے نام سے ایک مملکت کی صورت اختیار کرلی، ا س کے قبضہ میں فوری طورپر مشرقی شام اور شمالی عراق آگئے، بعدازاں باقی علاقے بھی اس میں شامل ہونے لگے۔
دولت اسلامیہ کی جڑیں اردن کے ابو مصعب الزرقاوی کی تنظیم سے ملتی ہیں جنھوں نے سن 2002ء میں 'توحید والجہاد' نامی تنظیم کی بنیاد رکھی تھی۔ عراق پر امریکی قبضے کے بعد زرقاوی نے القاعدہ کے بانی سربراہ اسامہ بن لادن کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور پھر عراق میں القاعدہ قائم کی جو اتحادی فوجوں کے خلاف سب سے بڑی مزاحمتی تحریک ثابت ہوئی۔ سن2006 میں زرقاوی کے انتقال کے بعد 'القاعدہ فی العراق' نے 'داعش کے نام سے تنظیم قائم کی جو عراق میں مزاحمتی گروہوں کی نمائندہ تنظیم تھی۔
عراق سے امریکی افواج کے نکل جانے کے بعد تنظیم کی سرگرمیوں میں خاصی کمی واقع ہوگئی تاہم 2010 میں جب ابوبکر البغدادی(پورا نام: ابوبکرالبغدادی الحسینی الہاشمی القریشی) تنظیم کے سربراہ بنے تو تنظیم میں نئی جان پڑگئی۔ وہ 1971ء میںعراق کے صوبہ سمارا میں پیدا ہوئے، انھوں نے اسلامی یونیورسٹی بغداد سے مطالعہ علوم اسلامی میں بی اے، ایم اے اور پھر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ بعض دیگرذرائع کا کہناہے کہ انھوں نے بغداد یونیورسٹی سے ایجوکیشن میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔
وہ صدام حسین کے دور میں ہی جہادی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگے تاہم یہ معلومات مصدقہ نہیں ہیں۔ یہ بھی کہاجاتاہے کہ جب سن 2003ء میں امریکا نے عراق پر جارحیت کی تو ابوبکر البغدادی کسی مسجد میں خطیب تھے۔ امریکی جارحیت کے خلاف انھوں نے فوراً ' جماعت جیش اہل سنۃ والجماعۃ' کے نام سے ایک مزاحمتی تنظیم قائم کرنے والوں سے تعاون کیا، انھیں اس تنظیم کی شریعہ کمیٹی کا سربراہ بنایاگیا۔ ابوبکر البغدادی 2005ء تا 2009ء چار سال کے عرصہ تک ایران کے زیرتسلط عراق کے علاقے ام القصر کے نزدیک واقع بوکا جیل میں قید و بندکی صعوبتیں برداشت کرتے رہے۔
داعش کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کا حسب و نسب رسول اکرم ﷺ کے قبیلے سے ملتا ہے، وہ شریعت اور علوم اسلامی پر عبور رکھتے ہیں۔ سن 2013 تک تنظیم نے ایک طرف عراق میں فوج کے خلاف کامیاب کارروائیاں کیں، دوسری طرف شام کے مزاحمت کاروں سے بھی روابط قائم کرلئے اور نئی تنظیم 'النصرہ' بھی قائم کر لی۔ اپریل 2013 ء میں ابوبکر البغدادی نے عراق اور شام میں اپنی تنظیموں کو متحد کرنے کا اعلان کیا اور داعش کے نام سے ایک بڑی تنظیم کھڑی کرلی۔
اس کے بعد داعش کی فتوحات کا سلسلہ چل نکلا، اس نے عراق کے مرکزی شہر فلوجہ، شمالی شہر موصل، تکریت اور تل عفر سمیت درجنوں شہروں پر اپنا پرچم لہراتے ہوئے بغداد کی جانب پیش قدمی شروع کردی۔ اورپھر جون 2014ء میں خلافت قائم کرنے کا اعلان بھی کر دیا اور نیا نام 'دولتِ اسلامیہ' رکھ لیا۔ ان کی قائم کردہ ریاست میں انھیں 'خلیفہ ابراہیم' کے نام سے جانا جاتا ہے۔
خلیفہ بننے کے فوراً بعد انھوں نے ایک پیغام میں کہا کہ وہ مشرق وسطیٰ سے یورپ تک اسلامی خلافت قائم کریں گے ۔پھردولت اسلامیہ نے دعویٰ کیا کہ اسے دنیا بھر سے مسلمانوں کی حمایت حاصل ہو رہی ہے اور مطالبہ کیا کہ ہر مسلمان ان کے رہنما ابو بکر البغدادی کے ہاتھ پر بیعت کر لے۔ 5 نومبر 2014ء کو ابوبکر البغدادی نے القاعدہ کے سربراہ ڈاکٹرایمن الظواہری کو ایک پیغام بھیجا کہ وہ ان کے ساتھ اتحاد قائم کریں۔ تاہم الظواہری نے اس پیغام کا کوئی جواب نہیں دیا۔
ابوعمر الشیشانی دولت اسلامیہ کے فیلڈ کمانڈر ہیں۔ وہ شام میں زیادہ تر لڑائی میں حصہ لیتے رہے ہیں۔ اس سے پہلے وہ جارجیا کی فوج میں سارجنٹ تھے۔ شام میں مہاجرین بریگیڈ کے کمانڈر رہے۔ انھوں نے شام میں بشارالاسد کی فوج کے خلاف کئی ایک اہم کامیابیاں حاصل کیں۔ ابوعبدالرحمن البلاوی الانبری کے بعد جون 2014ء میں انھیں دولت اسلامیہ کی فوج کا سربراہ مقرر کیا گیا۔
اب تک شام اور عراق کے تقریباً 40 ہزار مربع کلومیٹر کے علاقہ پر اس کی عمل داری قائم ہوچکی ہے جو بیلجئم کے کل رقبے کے برابر ہے۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ رقبہ 90 ہزار مربع کلومیٹر ہے جو اردن کے کل رقبے کے برابر ہے۔ تیل کے کئی کنویں، ڈیم، مرکزی سڑکیں اور سرحدی چوکیاں دولت اسلامیہ کے پاس ہیں۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق اس وقت دولت اسلامیہ کے زیرقبضہ علاقے میں 80 لاکھ لوگ آباد ہیں۔
دولت اسلامیہ کے پاس نہ صرف مختلف انواع کے چھوٹے اور بڑے ہتھیار موجود ہیں بلکہ اس کے جنگجو ان ہتھیاروں کا استعمال بھی بخوبی جانتے ہیں۔ ان ہتھیاروں میں ٹرکوں پر لگی ہوئی مشین گنیں، راکٹ لانچرز، طیارہ شکن بڑی توپیں اور زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل شامل ہیں جنہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جایا جا سکتا ہے۔ ان کے پاس وہ ٹینک اور بکتربند گاڑیاں بھی موجود ہیں جو انھوں نے شامی اور عراقی فوجیوں سے چھینی ہیں۔
اس کے علاوہ دولت اسلامیہ نے بارود اور چھوٹے ہتھیاروں کی ترسیل کا ایک نظام بھی ترتیب دے رکھا ہے جس کے تحت وہ جب چاہیں نیا اسلحہ اور بارود منگوا سکتے ہیں۔ یہ دولت اسلامیہ کی بے پناہ عسکری طاقت ہی تھی جس کی بدولت اس نے اگست میں شمالی عراق میں کرد پیش مرگہ فوجی کی چوکیوں پر قبضہ کر کے سب کو حیران کر دیا تھا۔
اطلاعات کے مطابق دولتِ اسلامیہ کے پاس دو ارب ڈالر کیش کی شکل میں موجود ہیں، اس کا مطلب ہے کہ وہ اس وقت دنیا کا امیر ترین شدت پسند گروہ ہے۔ شروع میں اسے زیادہ تر مالی مدد خلیجی ریاستوں کے مخیر افراد سے ملی، تاہم آج کل یہ تنظیم کافی حد تک خود کفیل ہو چکی ہے اور لاکھوں ڈالر کما رہی ہے۔ تیل اور گیس کی فروخت، اپنے زیر اثر علاقوں میں ٹیکسوں کی آمدنی، چونگی، سمگلنگ اور اغوا برائے تاوان تنظیم کے مختلف ذرائع آمدن ہیں۔
اقوامِ متحدہ جہاں شامی حکومت کومختلف مواقع پر کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کا ذمہ دار قراردیتی رہی، وہاںداعش پر بھی الزام عائد کرتی رہی کہ اس نے متعدد بار لوگوں کو شہریوں کے سامنے قتل کیا ہے۔ اقوام متحدہ نے پاؤلو پِنیرو کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی کمیشن بنایا جس نے قراردیا کہ'عالمی برادری اپنی انتہائی بنیادی ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکام رہی ہے جن میں عام شہریوں کا تحفظ، ظالمانہ کارروائیوں کو روکنا اور احتساب کے لیے راستہ ہموار کرنا شامل تھے۔
سب کچھ اس حد تک حالات کے رحم و کرم پر ہے کہ اب عالمی قوانین کی پاسداری کا دکھاوا تک نہیں رہا۔' کمیشن کے تفتیش کاروں نے خبردار کیا کہ یہ تنازع پہلے ہی عراق تک پھیل چکا ہے اور اب تمام خطے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔متعددماہرین کیمطابق اب شام اور عراق کے متعدد شہروں اور قصبوں میں دولت اسلامیہ کے پرچم لہرا رہے ہیں اورکئی مغربی سیاسی رہنما بار بار اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ دولتِ اسلامیہ کے خلاف جنگ ایک طویل جنگ ثابت ہو گی۔
سوال یہ ہے کہ داعش کے خلاف اب تک ہونے والی کارروائی کے نتائج کیارہے اور آگے کیاہوگا؟
دولتِ اسلامیہ عراق و شام کی سرحدوں سے دْور دنیا بھر کے سنی نوجوانوں کو اپنا گرویدہ بنا چکی ہے کیونکہ یہ نوجوان داعش کو وہ ہراول دستہ سمجھ رہے ہیں جو انھیں دائمی فتح سے ہمکنار کر سکتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ دولتِ اسلامیہ کا رعب و دبدبہ ہی ہے کہ جس نے اسلام کے دشمنوں پر خوف اور حیرت طاری کر رکھی ہے۔ گزشتہ چند ماہ میں ہر روز سامنے آنے والے نئے شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ النصرہ فرنٹ اور اسلامک فرنٹ جیسے وہ اسلامی شدت پسند گروہ جو دولتِ اسلامیہ کا نام نہیں سننا چاہتے تھے، وہ بھی اب البغدادی کی آواز پر لبیک کہہ چکے ہیں۔
دولت اسلامیہ کی فتح کی دھوم اتنی زیادہ ہے کہ اس کے دروازے پر بھرتی کے لیے تیار نوجوانوں کی طویل قطار نظر آتی ہے۔ مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے مسلمان نوجوانوں کی دولتِ اسلامیہ اور دیگر شدت پسند گروہوں میں شمولیت کی وجہ یہ ہے کہ وہ ان گروہوں میں شمولیت کے بعد خود کو ایک عظیم تحریک کا حصہ سمجھنے لگتے ہیں جس کا مقصد ماضی کی کھوئی ہوئی خلافت کا دوبارہ قیام ہے۔
شروع شروع میں لندن، پیرس، برلن اور دیگر مغربی شہروں سے ہجرت کرنے والے نوجوانوں نے عراق اور شام کا رخ اس وجہ سے کیا تھا کہ وہ اپنے عراقی اور شامی مسلمانوں کو جابر حکمرانوں سے بچاسکیں، لیکن اب وہ نئی مملکت کا حصہ بن چکے ہیں۔
اب تو ابوبکر بغدادی نے اپنے گروہ کے عسکری بازو کی تشکیل نو بھی کی ہے۔ صدام حسین دور کے سابق فوجیوں کی شمولیت کے بعد داعش ایک پیشہ ور فوجی طاقت بن چکی ہے۔ اگرچہ فی الحال یہ گروہ عراق اور شام تک محدود ہے لیکن اس کا عہد ہے کہ وہ 'اردن اور لبنان کی سرحدوں کو مسمار کر کے فلسطین کو آزاد کرائے گا۔ انھوں نے سپین اور روم کا خصوصی طور پر ذکر کیا کہ انھیں اسلامی خلافت میں شامل کیاجائے گا۔
داعش کو بڑے پیمانے پر ملنے والی حمایت کے سبب سن 2014ء میں اس کی کامیابیوں کا دائرہ پھیلتا چلاگیا۔ اس دوران اس کے باقی جہادی گروہوں کے ساتھ اختلافات بھی پیدا ہوئے لیکن ختم بھی ہوئے، متعدد جنگجوگروہ اس کے حلقہ اطاعت میں آئے۔
فروری 2014ء میں القاعدہ اور داعش کے درمیان باقاعدہ قطع تعلقی ہوگئی۔ القاعدہ کی حامی تنظیم النصرہ کے ذرائع کہتے ہیں کہ تمام تر جدوجہد بشارالاسد حکومت کے خاتمہ کے لئے ہونی چاہئے لیکن داعش اپنی طاقت اور اپنی ریاست قائم کرنے میں کوشاں نظرآئی۔ دونوں گروہوں کے مابین لڑائی بھی ہوتی رہی۔ تاہم مئی 2014ء میں ایمن الظواہری نے النصرہ کو داعش پر حملے کرنے سے روک دیا۔
جون 2014ء کے وسط میں داعش نے عراق اردن سرحد پر واقع ایک اہم علاقے ترابیل پر قبضہ کرلیا۔ یہ دونوں ملکوں کو ملانے والی اہم گزرگاہ ہے۔ اس واقعہ کے فوراً بعد اردن اورسعودی عرب کی افواج نے عراقی سرحدوں پر اکٹھ کرلیا۔
جولائی 2014ء میں ساڑھے چھ ہزار ایسے جنگجوؤں نے داعش میں شمولیت اختیارکی جو اس سے پہلے آزاد شامی فوج کے جھنڈے تلے بشارالاسد کے خلاف مسلح جدوجہد کرتے رہے تھے۔
تین اگست 2014ء کو داعش نے شمالی عراق کے بڑے شہر زمر، سنجر اور وانا پر قبضہ کرلیا۔
گیارہ اکتوبر 2014ء کو داعش نے شام اور موصل سے دس ہزار جنگجوؤں کو عراقی دارالحکومت بغداد پر قبضہ کرنے کے لئے بھیجا، تب عراقی فوج اور الانبار کے قبائلیوں نے امریکا کو خبردار کیا کہ داعش کا حملہ روکنے کے لئے زمینی فوج نہ بھیجی گئی تو وہ داعش کے سامنے ہتھیار پھینکنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ تیرہ اکتوبر کو داعش کے جنگجوؤں نے بغداد ائرپورٹ کی طرف 25 کلومیٹر تک پیش قدمی کی۔
دوسری طرف اکتوبر ہی میں لیبیا میں بھی داعش کے800 جنگجوؤں نے شہر درنا کا کنٹرول سنبھال لیا۔ درنا شام اور عراق سے باہر پہلا شہر تھا جو دولت اسلامیہ کے کنٹرول میں آیا۔
دو نومبر 2014ء کوایسوسی ایٹڈ پریس نے ایک خبرچلائی تھی کہ امریکی حملوں کے جواب میں داعش، النصرہ فرنٹ، خراسان گروپ جند الاقصیٰ کا ایک اہم مشترکہ اجلاس ہوا جس میں امریکی حمایت یافتہ اور سیکولر باغی گروہوں کے خلاف متحد ہونے پر زور دیاگیا۔ 10 نومبر کو مصری جہادیوں کے ایک اہم گروپ 'انصاربیت المقدسہ' نے داعش کی اطاعت کااعلان کردیا۔ 23 نومبر کو عراقی فوج اور پیش مرگہ فورسز نے ایک خونریز لڑائی کے بعد عراقی صوبہ دیالہ کے دوشہر جوالہ اور سادیہ داعش سے واپس حاصل کرلئے۔ اسی روز بغداد سمارا روڈ کو بھی داعش کے کنٹرول سے آزاد کرالیا گیا۔
تیرہ دسمبرکو داعش کے جنگجوؤں نے عراقی صوبہ الانبار کے شہر رمادی کی طرف 32 کلو میٹر تک پیش قدمی کی۔ شہر 'ھیت' تادم تحریر داعش کے زیرکنٹرول ہے۔
سترہ دسمبر پیشمرگہ فورسز نے سنجر اور زمر کے شہر داعش سے واپس لینے کے لئے حملہ کیا، انھوں نے تل عفر کے قرب میں سات سو مربع کلومیٹر علاقہ واپس لینے کا دعویٰ کیا۔
اٹھارہ دسمبر کو گولان کی پہاڑیوں کے قریب اثرورسوخ رکھنے والے تین باغی گروہ جنھیں اس سے پہلے امریکا اور اسرائیل سے امداد ملتی تھی، نے داعش کی اطاعت قبول کرلی۔
سال 2014ء میں داعش کو سعودی عرب، انڈونیشیا، متحدہ عرب امارات ، مصر اور بھارت کی حکومتوں نے دہشت گرد گروہ قراردیا۔ یادرہے کہ ترکی، کینیڈا، آسٹریلیا، امریکا، برطانیہ، یورپی یونین اور اقوام متحدہ پہلے ہی اسے دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرچکے ہیں۔
امریکا کے وزیرِ دفاع چک ہیگل دعویٰ کرتے ہیںکہ شدت پسندوں کی پیش قدمی روک دی گئی ہے تاہم انھوں نے اعتراف کیا کہ اب بھی عراق اور شام کے بڑے حصے پر شدت پسند تنظیم کا اثرونفوذ باقی ہے۔ امریکی فوج کے سربراہ جنرل جیک ڈیمپسی کا کہنا ہے کہ داعش کے خلاف کارروائی پر امریکا روزانہ 80 لاکھ ڈالر خرچ کر رہا ہے۔عراق اور شام میں داعش کے خلاف جنگ میں امریکی فورسز کی کمان کرنے والے لیفٹیننٹ جنرل جیمز ٹیری کاکہنا ہے کہ اس جنگ میں ٹرننگ پوائنٹ کے حصول میں کم سے کم تین سال لگ سکتے ہیں۔
داعش کے جنگجوؤں کی پیش قدمی کو روک دیا گیا ہے اور فضائی حملوں کے نتیجے میں اب انھیں نقل وحرکت اور آپس میں ابلاغ میں دشواری کا سامنا ہے۔ وہ اپنے زیر نگیں علاقوں پر ہی اپنا قبضہ برقرار رکھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان کے بقول ''ہم نے داعش کے خلاف جنگ میں ایک راز تو یہ پالیا ہے کہ عراقی سکیورٹی فورسز کی صلاحیت میں اضافہ کیا جائے اور جارحانہ حکمت عملی اپنانے کے لیے ان کی ذہنی ساخت تبدیل کی جائے''۔
کچھ عرصہ پہلے امریکی حکام نے ایک کارروائی کے دوران داعش کے سربراہ ابوبکرالبغدادی کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تاہم بعدازاں یہ دعویٰ غلط ثابت ہوا۔ ابوبکر البغدادی نے ایک آڈیو ٹیپ جاری کی، آڈیو پیغام میں دولتِ اسلامیہ کے خلاف کارروائیوں کے لیے قائم امریکی اتحاد میں شامل خلیجی ممالک کے حکمرانوں کو غدار کہا گیا۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ شام اور عراق میں امریکا کی قیادت میں فوجی کارروائیاں ناکام ہو رہی ہیں۔ آڈیو پیغام میں دولتِ اسلامیہ کے حامیوں کو دنیا بھر میں جہاد شروع کرنے کا کہا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب میں بھی حملے کرنے کا کہتے ہوئے سعودی حکمرانوں کو 'سانپ کا سر' کہا گیا ہے۔ آڈیو پیغام میں دولتِ اسلامیہ کے خلاف کارروائیوں کے لیے قائم امریکی اتحاد میں شامل خلیجی ممالک کے حکمرانوں کو غدار کہا گیا ہے۔
دسمبر کے آخری ہفتے دولت اسلامیہ سے واپس لوٹنے والے معروف جرمن صحافی جورگن ٹوڈن ہوفر نے کہاہے کہ داعش کے بارے میں مغرب کے اندازے غلط ہیں، وہ ان اندازوں سے کہیں زیادہ مضبوط اور خطرناک ہے۔ یہ پہلے مغربی صحافی ہیں جنھیں مہینوں تک دولت اسلامیہ کے حکام سے مذاکرات کے بعد خطے میں داخل ہونے کی اجازت ملی تھی۔ 74 سالہ جرمن صحافی ترکی کے راستے موصل پہنچے تھے اور انھوں نے وہاں دس روز گزارے تھے۔ جرمن میڈیا کے توسط سے ان کے خیالات معروف برطانوی اخبار 'انڈیپینڈنٹ' میں بھی شائع ہوئے۔
انھوں نے بتایا کہ وہ اسی ہوٹل میں ٹھہرے تھے جہاں امریکی صحافی جیمز فولی ٹھہرا تھا اور جسے داعش نے گزشتہ اگست میں ہلاک کردیاتھا۔ جرمن صحافی نے بتایا کہ میں نے کسی دوسرے وارزون میں لوگوں کا ایسا جوش وجذبہ نہیں دیکھا۔ دنیا بھر سے یہاں سینکڑوں رضاکار جنگجو آرہے تھے۔ یہ صورت حال میرے وہم وگمان میں بھی نہیں تھی۔ جورگن نے جنگجوؤں کا انداز رہن سہن دیکھا اور ان کے زیراستعمال اسلحہ بھی۔ موصل میں پانچ ہزار جنگجو ہیں جو اس طرح وسیع پیمانے پر پھیلے ہوئے ہیں کہ امریکی بمباری ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔
ان کی حکمت عملی دیکھ کر فوری طورپر اندازہ ہوجاتا ہے کہ مغربی فوجوں کی زمینی مداخلت یا فضائی حملے انھیں نقصان نہیں پہنچاسکتے۔ فضائی حملوں میں گرنے والا ہر بم صرف اور صرف سویلینز کی جان لے گا۔ اور اس کا منطقی نتیجہ دہشت گردی میں اضافہ کی صورت ہی میں نکلے گا۔ ان کاکہنا ہے کہ داعش اپنی ریاست کو ایک مکمل مملکت کا روپ دینے کے لئے سخت محنت کررہی ہے۔ رفاہ عامہ اور تعلیمی نظام ان کی پہلی ترجیحات ہیں، میں یہ جان کر حیران ہوا کہ وہ لڑکیوں کو بھی تعلیم دینے کے منصوبے بنارہے ہیں۔
داعش اس قدرمقبولیت اختیارکررہی ہے اور اس قدر اعتماد سے بھرپور ہے کہ جیسے وہ پوری دنیا کو بھی فتح کرسکتی ہے۔ جورگن نے بتایا کہ داعش کا خطرناک ترین عقیدہ یہ ہے کہ وہ تمام مذاہب جو جمہوریت کے ساتھ ہم آہنگ ہوں گے، ختم ہوجائیں گے۔دہشت گردی کے خلاف کام کرنے والے تھنک ٹینک 'کوئلیم' کے ریسرچر چارلی ونٹر کہتے ہیں کہ جرمن صحافی کی فراہم کردہ اطلاعات ایسی کڑوی گولیاں ہیں جو پالیسی سازوں کے لئے نگلنامشکل ہوں گی۔
جرمن صحافی کا کہنا ہے کہ وہ وقت قریب ہے جب داعش مغرب کے ساتھ بقائے باہمی کے لئے مذاکرات کرے گی۔ امریکی ٹی وی چینل' سی این این' سے گفتگو کرتے ہوئے جرمن صحافی نے بتایا کہ دولت اسلامیہ کے لوگ پرجوش اور اس یقین سے سرشار ہیں کہ یورپ کی فتح زیادہ دیر کی بات نہیں ہے۔ ان کے نزدیک یہ سوال ہی نہیں ہے کہ یورپ فتح ہوسکے گا یا نہیں، سوال صرف یہ ہے کہ کب فتح ہوگا؟
شام اور عراق میں اس کی کہانی تب شروع ہوئی جب عرب بہار کے سلسلہ کی ایک کڑی شام میں بھی شروع ہوئی، قریباً نصف صدی سے برسراقتدار ڈکٹیٹر بشارالاسد کے خلاف شامی قوم کا ایک بڑا حصہ اٹھ کھڑا ہوا اور ملک میں جمہوریت کے لئے وسیع پیمانے پر جدوجہد شروع ہوگئی۔ ابتدا میں جمہوری تحریک چلانے والوں کو چند اصلاحات اور کچھ سیاسی قیدیوں کی رہائی کے وعدوں کے ساتھ ٹرخانے کی کوششیں ناکام ہوئیں تو اسے انتہائی بے دردی سے کچلنے کے تمام تر حربے اختیارکئے گئے۔
شامی فوج نے تحریک میں شامل مرد وخواتین کو قتل کرنا شروع کردیا، بڑے بڑے گڑھے کھود کر مخالفین کے بچوں کو زندہ دفن کیاگیا۔ ایسے میں عوامی تحریک مسلح جدوجہد میں تبدیل ہوگئی۔ اس میں سیکولر گروہ بھی تھے اور جہادی بھی۔امریکی اور بعض عرب ممالک بشارالاسد کی حکمرانی ختم کرنا چاہتے تھے تاہم یہ نہیں چاہتے تھے کہ اس کے بعد اقتدار اسلام پسندوں کے ہاتھ میں آئے۔
یہ مسئلہ بھی تھا کہ شامی ڈکٹیٹر کے خلاف موثرمسلح جدوجہد جہادی ہی کررہے تھے، سیکولرگروہ اس معاملے میں خاصے نااہل واقع ہوئے تھے۔ یادرہے کہ شام میں ہونے والی خانہ جنگی کے نتیجے میں پونے چاربرسوں کے دوران میں مختلف اندازوں کے مطابق دو لاکھ 82 ہزار افراد ہلاک ہوچکے ہیں، ایک لاکھ تیس ہزار گرفتار یالاپتہ ہیں، 4 سے50 لاکھ لوگوں کو اپنا گھربارچھوڑناپڑا جن میں سے 33 لاکھ باقاعدہ مہاجر کیمپوں میں مقیم ہوچکے ہیں۔
دوسری طرف عراق میں شام سے ملحقہ وسیع وعریض علاقے میں نوری المالکی کے آٹھ سالہ دور حکومت کے ظلم وستم کے شکار سنی اور کرد لوگوں سے جب کچھ بن نہیں پڑا تو انھوں نے یہاں متحرک جہادی گروہوں کے جھنڈے تلے رہنے کا فیصلہ کرلیا۔ مغربی ذرائع بھی اعتراف کرتے ہیں کہ بشارالاسد اور نوری المالکی کے مظالم کا نشانہ بننے والے لوگ یہ امید بھی کھو چکے تھے کہ ایک دن مغرب ان کی مدد کو آئے گا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ لوگ ان جہادیوں کی جانب متوجہ ہو گئے جنھیں خلیجی ریاستوں کی زبردست مالی مدد حاصل تھی۔
قطر کے رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل سٹیونز کا کہنا ہے کہ اس جنگ میں واضح نہیں کون کیا کر رہا ہے۔ مغربی اور ایرانی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس گروہ کو بنانے اور قائم رکھنے کی تمام ذمہ داری قطر، ترکی اور سعودی عرب پر عائد ہوتی ہے۔ تاہم حقیقت اس الزام سے زیادہ پیچیدہ ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ شام میں برسِرپیکار شدت پسند گروہوں کی مالی معاونت خلیجی ریاستوں کے کچھ امرا کرتے رہے ہیں جو بھاری رقوم سے بھرے ہوئے تھیلے ترکی لے جا کر لاکھوں ڈالر اس گروہ کے حوالے کرتے رہے ہیں۔
گزشتہ دو تین برسوں میں لوا التوحید، احرار الشام اور جیش الاسلام نامی گروہ یہ کام کرتے رہے ہیں اور ان تینوں گروہوں کے النصرۃ فرنٹ اور شام میں موجود القاعدہ سے کسی نہ کسی قسم کے روابط رہے ہیں۔ سعودی عرب پر الزام ہے کہ وہ اس سارے عرصے میں دولتِ اسلامیہ کے نام کے تحت کام کرنے والے اسلام پسند گروہوں کو مالی مدد فراہم کرتا رہا ہے، لیکن سعودی عرب اس الزام کی سختی سے تردید کرتا ہے۔ جہاں تک خلیجی ریاستوں سے دولت اسلامیہ کی مدد کا تعلق ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ بشار الاسد کے خلاف جاری شورش کے ابتدائی دنوں سے ہی یہاں سے باغی گروہوں کو رقوم فراہم کی جاتی رہی ہیں۔
قطر پر خصوصاً یہ الزام ہے کہ دولتِ اسلامیہ کے ساتھ اس کے خفیہ روابط رہے ہیں۔ اسی طرح ترکی کے کردار پر بھی بہت سے سوالیہ نشان موجود ہیں کہ اس نے سعودی عرب اور قطر کی پشت پناہی کو راستہ دیا اور اس کی سرحد کے راستے دولت اسلامیہ تک اسلحہ اور بھاری رقوم پہنچائی جاتی رہی ہیں۔ تمام لوگوں کا خیال تھا کہ ترکی کی اس حکمت عملی کی بدولت بشارالاسد کے دور کا خاتمہ ہو جائے گا اور شام میں سنی اکثریت کو غلبہ حاصل ہو جائے گا جس کے بعد شیعہ ایران اور بحیرہ روم کے درمیان رابطے کٹ جائیں گے لیکن جب سنہ 2013 میں دولت اسلامیہ کا زور بڑھ گیا تو شام میں برسر پیکار چھوٹے چھوٹے گروہ یا تو دولتِ اسلامیہ کے زور تلے دب گئے یا انھوں نے اپنے اسلحے اور دولت سمیت اس تنظیم میں شمولیت اختیار کر لی۔
قطر کی طرح سعودی عرب پر بھی الزام ہے کہ اس نے دولت اسلامیہ کی پشت پناہی کی ان گروہوں میں سے النصرۃ ہی وہ واحد گروہ تھا جو اپنے پاؤں پر کھڑا رہا، تاہم اس کی مضبوط تنظیم بھی دولتِ اسلامیہ کے سامنے زیادہ دیر نہ ٹھہر سکی اور گزشتہ دو برسوں میں اس کے کم از کم تین ہزار جنگجو اسے چھوڑ کر دولت اسلامیہ سے مل چکے ہیں۔
ایک مغربی نشریاتی ادارے سے وابستہ صحافی پال وْڈ کے مطابق سْنی دیہاتوں میں پھیلے ہوئے دولت اسلامیہ کے جنگجو زیادہ تر مقامی قبائلی افراد پر ہی مشتمل ہیں۔ یہ لوگ غیر ملکی نہیں بلکہ ان کا خمیر عراق اور شام کی مٹی سے ہی اٹھا تھا۔امریکی افسران کا خیال ہے کہ دولت اسلامی کے جنگجوؤں کی تعداد تقریباً 15ہزار ہے، تاہم عراقی ماہر ہشام الہشامی کہتے ہیں کہ دولت اسلامیہ کے پاس 30 سے 50 ہزار جنگجو موجود ہیں جن میں سے تقریباً 30 فیصد پکے 'نظریاتی' ہیں جبکہ باقی خوف یا دباؤ کے تحت تنظیم میں شامل ہوئے۔
تاہم غیرملکی جنگجوؤں کی تعداد 12 ہزار کے لگ بھگ ہے جن کا تعلق دنیا کے 81 ممالک سے ہے،ان میں ڈھائی ہزار ایسے ہیں جو مغربی ممالک سے آئے ہیں اور وہ گزشتہ تین برس سے شام میں سرگرم ہیں۔ یہ تناظر ہے داعش کا جس نے بعدازاں 'دولت اسلامیہ عراق وشام' کے نام سے ایک مملکت کی صورت اختیار کرلی، ا س کے قبضہ میں فوری طورپر مشرقی شام اور شمالی عراق آگئے، بعدازاں باقی علاقے بھی اس میں شامل ہونے لگے۔
دولت اسلامیہ کی جڑیں اردن کے ابو مصعب الزرقاوی کی تنظیم سے ملتی ہیں جنھوں نے سن 2002ء میں 'توحید والجہاد' نامی تنظیم کی بنیاد رکھی تھی۔ عراق پر امریکی قبضے کے بعد زرقاوی نے القاعدہ کے بانی سربراہ اسامہ بن لادن کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور پھر عراق میں القاعدہ قائم کی جو اتحادی فوجوں کے خلاف سب سے بڑی مزاحمتی تحریک ثابت ہوئی۔ سن2006 میں زرقاوی کے انتقال کے بعد 'القاعدہ فی العراق' نے 'داعش کے نام سے تنظیم قائم کی جو عراق میں مزاحمتی گروہوں کی نمائندہ تنظیم تھی۔
عراق سے امریکی افواج کے نکل جانے کے بعد تنظیم کی سرگرمیوں میں خاصی کمی واقع ہوگئی تاہم 2010 میں جب ابوبکر البغدادی(پورا نام: ابوبکرالبغدادی الحسینی الہاشمی القریشی) تنظیم کے سربراہ بنے تو تنظیم میں نئی جان پڑگئی۔ وہ 1971ء میںعراق کے صوبہ سمارا میں پیدا ہوئے، انھوں نے اسلامی یونیورسٹی بغداد سے مطالعہ علوم اسلامی میں بی اے، ایم اے اور پھر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ بعض دیگرذرائع کا کہناہے کہ انھوں نے بغداد یونیورسٹی سے ایجوکیشن میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔
وہ صدام حسین کے دور میں ہی جہادی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگے تاہم یہ معلومات مصدقہ نہیں ہیں۔ یہ بھی کہاجاتاہے کہ جب سن 2003ء میں امریکا نے عراق پر جارحیت کی تو ابوبکر البغدادی کسی مسجد میں خطیب تھے۔ امریکی جارحیت کے خلاف انھوں نے فوراً ' جماعت جیش اہل سنۃ والجماعۃ' کے نام سے ایک مزاحمتی تنظیم قائم کرنے والوں سے تعاون کیا، انھیں اس تنظیم کی شریعہ کمیٹی کا سربراہ بنایاگیا۔ ابوبکر البغدادی 2005ء تا 2009ء چار سال کے عرصہ تک ایران کے زیرتسلط عراق کے علاقے ام القصر کے نزدیک واقع بوکا جیل میں قید و بندکی صعوبتیں برداشت کرتے رہے۔
داعش کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کا حسب و نسب رسول اکرم ﷺ کے قبیلے سے ملتا ہے، وہ شریعت اور علوم اسلامی پر عبور رکھتے ہیں۔ سن 2013 تک تنظیم نے ایک طرف عراق میں فوج کے خلاف کامیاب کارروائیاں کیں، دوسری طرف شام کے مزاحمت کاروں سے بھی روابط قائم کرلئے اور نئی تنظیم 'النصرہ' بھی قائم کر لی۔ اپریل 2013 ء میں ابوبکر البغدادی نے عراق اور شام میں اپنی تنظیموں کو متحد کرنے کا اعلان کیا اور داعش کے نام سے ایک بڑی تنظیم کھڑی کرلی۔
اس کے بعد داعش کی فتوحات کا سلسلہ چل نکلا، اس نے عراق کے مرکزی شہر فلوجہ، شمالی شہر موصل، تکریت اور تل عفر سمیت درجنوں شہروں پر اپنا پرچم لہراتے ہوئے بغداد کی جانب پیش قدمی شروع کردی۔ اورپھر جون 2014ء میں خلافت قائم کرنے کا اعلان بھی کر دیا اور نیا نام 'دولتِ اسلامیہ' رکھ لیا۔ ان کی قائم کردہ ریاست میں انھیں 'خلیفہ ابراہیم' کے نام سے جانا جاتا ہے۔
خلیفہ بننے کے فوراً بعد انھوں نے ایک پیغام میں کہا کہ وہ مشرق وسطیٰ سے یورپ تک اسلامی خلافت قائم کریں گے ۔پھردولت اسلامیہ نے دعویٰ کیا کہ اسے دنیا بھر سے مسلمانوں کی حمایت حاصل ہو رہی ہے اور مطالبہ کیا کہ ہر مسلمان ان کے رہنما ابو بکر البغدادی کے ہاتھ پر بیعت کر لے۔ 5 نومبر 2014ء کو ابوبکر البغدادی نے القاعدہ کے سربراہ ڈاکٹرایمن الظواہری کو ایک پیغام بھیجا کہ وہ ان کے ساتھ اتحاد قائم کریں۔ تاہم الظواہری نے اس پیغام کا کوئی جواب نہیں دیا۔
ابوعمر الشیشانی دولت اسلامیہ کے فیلڈ کمانڈر ہیں۔ وہ شام میں زیادہ تر لڑائی میں حصہ لیتے رہے ہیں۔ اس سے پہلے وہ جارجیا کی فوج میں سارجنٹ تھے۔ شام میں مہاجرین بریگیڈ کے کمانڈر رہے۔ انھوں نے شام میں بشارالاسد کی فوج کے خلاف کئی ایک اہم کامیابیاں حاصل کیں۔ ابوعبدالرحمن البلاوی الانبری کے بعد جون 2014ء میں انھیں دولت اسلامیہ کی فوج کا سربراہ مقرر کیا گیا۔
اب تک شام اور عراق کے تقریباً 40 ہزار مربع کلومیٹر کے علاقہ پر اس کی عمل داری قائم ہوچکی ہے جو بیلجئم کے کل رقبے کے برابر ہے۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ رقبہ 90 ہزار مربع کلومیٹر ہے جو اردن کے کل رقبے کے برابر ہے۔ تیل کے کئی کنویں، ڈیم، مرکزی سڑکیں اور سرحدی چوکیاں دولت اسلامیہ کے پاس ہیں۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق اس وقت دولت اسلامیہ کے زیرقبضہ علاقے میں 80 لاکھ لوگ آباد ہیں۔
دولت اسلامیہ کے پاس نہ صرف مختلف انواع کے چھوٹے اور بڑے ہتھیار موجود ہیں بلکہ اس کے جنگجو ان ہتھیاروں کا استعمال بھی بخوبی جانتے ہیں۔ ان ہتھیاروں میں ٹرکوں پر لگی ہوئی مشین گنیں، راکٹ لانچرز، طیارہ شکن بڑی توپیں اور زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل شامل ہیں جنہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جایا جا سکتا ہے۔ ان کے پاس وہ ٹینک اور بکتربند گاڑیاں بھی موجود ہیں جو انھوں نے شامی اور عراقی فوجیوں سے چھینی ہیں۔
اس کے علاوہ دولت اسلامیہ نے بارود اور چھوٹے ہتھیاروں کی ترسیل کا ایک نظام بھی ترتیب دے رکھا ہے جس کے تحت وہ جب چاہیں نیا اسلحہ اور بارود منگوا سکتے ہیں۔ یہ دولت اسلامیہ کی بے پناہ عسکری طاقت ہی تھی جس کی بدولت اس نے اگست میں شمالی عراق میں کرد پیش مرگہ فوجی کی چوکیوں پر قبضہ کر کے سب کو حیران کر دیا تھا۔
اطلاعات کے مطابق دولتِ اسلامیہ کے پاس دو ارب ڈالر کیش کی شکل میں موجود ہیں، اس کا مطلب ہے کہ وہ اس وقت دنیا کا امیر ترین شدت پسند گروہ ہے۔ شروع میں اسے زیادہ تر مالی مدد خلیجی ریاستوں کے مخیر افراد سے ملی، تاہم آج کل یہ تنظیم کافی حد تک خود کفیل ہو چکی ہے اور لاکھوں ڈالر کما رہی ہے۔ تیل اور گیس کی فروخت، اپنے زیر اثر علاقوں میں ٹیکسوں کی آمدنی، چونگی، سمگلنگ اور اغوا برائے تاوان تنظیم کے مختلف ذرائع آمدن ہیں۔
اقوامِ متحدہ جہاں شامی حکومت کومختلف مواقع پر کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کا ذمہ دار قراردیتی رہی، وہاںداعش پر بھی الزام عائد کرتی رہی کہ اس نے متعدد بار لوگوں کو شہریوں کے سامنے قتل کیا ہے۔ اقوام متحدہ نے پاؤلو پِنیرو کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی کمیشن بنایا جس نے قراردیا کہ'عالمی برادری اپنی انتہائی بنیادی ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکام رہی ہے جن میں عام شہریوں کا تحفظ، ظالمانہ کارروائیوں کو روکنا اور احتساب کے لیے راستہ ہموار کرنا شامل تھے۔
سب کچھ اس حد تک حالات کے رحم و کرم پر ہے کہ اب عالمی قوانین کی پاسداری کا دکھاوا تک نہیں رہا۔' کمیشن کے تفتیش کاروں نے خبردار کیا کہ یہ تنازع پہلے ہی عراق تک پھیل چکا ہے اور اب تمام خطے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔متعددماہرین کیمطابق اب شام اور عراق کے متعدد شہروں اور قصبوں میں دولت اسلامیہ کے پرچم لہرا رہے ہیں اورکئی مغربی سیاسی رہنما بار بار اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ دولتِ اسلامیہ کے خلاف جنگ ایک طویل جنگ ثابت ہو گی۔
سوال یہ ہے کہ داعش کے خلاف اب تک ہونے والی کارروائی کے نتائج کیارہے اور آگے کیاہوگا؟
دولتِ اسلامیہ عراق و شام کی سرحدوں سے دْور دنیا بھر کے سنی نوجوانوں کو اپنا گرویدہ بنا چکی ہے کیونکہ یہ نوجوان داعش کو وہ ہراول دستہ سمجھ رہے ہیں جو انھیں دائمی فتح سے ہمکنار کر سکتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ دولتِ اسلامیہ کا رعب و دبدبہ ہی ہے کہ جس نے اسلام کے دشمنوں پر خوف اور حیرت طاری کر رکھی ہے۔ گزشتہ چند ماہ میں ہر روز سامنے آنے والے نئے شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ النصرہ فرنٹ اور اسلامک فرنٹ جیسے وہ اسلامی شدت پسند گروہ جو دولتِ اسلامیہ کا نام نہیں سننا چاہتے تھے، وہ بھی اب البغدادی کی آواز پر لبیک کہہ چکے ہیں۔
دولت اسلامیہ کی فتح کی دھوم اتنی زیادہ ہے کہ اس کے دروازے پر بھرتی کے لیے تیار نوجوانوں کی طویل قطار نظر آتی ہے۔ مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے مسلمان نوجوانوں کی دولتِ اسلامیہ اور دیگر شدت پسند گروہوں میں شمولیت کی وجہ یہ ہے کہ وہ ان گروہوں میں شمولیت کے بعد خود کو ایک عظیم تحریک کا حصہ سمجھنے لگتے ہیں جس کا مقصد ماضی کی کھوئی ہوئی خلافت کا دوبارہ قیام ہے۔
شروع شروع میں لندن، پیرس، برلن اور دیگر مغربی شہروں سے ہجرت کرنے والے نوجوانوں نے عراق اور شام کا رخ اس وجہ سے کیا تھا کہ وہ اپنے عراقی اور شامی مسلمانوں کو جابر حکمرانوں سے بچاسکیں، لیکن اب وہ نئی مملکت کا حصہ بن چکے ہیں۔
اب تو ابوبکر بغدادی نے اپنے گروہ کے عسکری بازو کی تشکیل نو بھی کی ہے۔ صدام حسین دور کے سابق فوجیوں کی شمولیت کے بعد داعش ایک پیشہ ور فوجی طاقت بن چکی ہے۔ اگرچہ فی الحال یہ گروہ عراق اور شام تک محدود ہے لیکن اس کا عہد ہے کہ وہ 'اردن اور لبنان کی سرحدوں کو مسمار کر کے فلسطین کو آزاد کرائے گا۔ انھوں نے سپین اور روم کا خصوصی طور پر ذکر کیا کہ انھیں اسلامی خلافت میں شامل کیاجائے گا۔
داعش کو بڑے پیمانے پر ملنے والی حمایت کے سبب سن 2014ء میں اس کی کامیابیوں کا دائرہ پھیلتا چلاگیا۔ اس دوران اس کے باقی جہادی گروہوں کے ساتھ اختلافات بھی پیدا ہوئے لیکن ختم بھی ہوئے، متعدد جنگجوگروہ اس کے حلقہ اطاعت میں آئے۔
فروری 2014ء میں القاعدہ اور داعش کے درمیان باقاعدہ قطع تعلقی ہوگئی۔ القاعدہ کی حامی تنظیم النصرہ کے ذرائع کہتے ہیں کہ تمام تر جدوجہد بشارالاسد حکومت کے خاتمہ کے لئے ہونی چاہئے لیکن داعش اپنی طاقت اور اپنی ریاست قائم کرنے میں کوشاں نظرآئی۔ دونوں گروہوں کے مابین لڑائی بھی ہوتی رہی۔ تاہم مئی 2014ء میں ایمن الظواہری نے النصرہ کو داعش پر حملے کرنے سے روک دیا۔
جون 2014ء کے وسط میں داعش نے عراق اردن سرحد پر واقع ایک اہم علاقے ترابیل پر قبضہ کرلیا۔ یہ دونوں ملکوں کو ملانے والی اہم گزرگاہ ہے۔ اس واقعہ کے فوراً بعد اردن اورسعودی عرب کی افواج نے عراقی سرحدوں پر اکٹھ کرلیا۔
جولائی 2014ء میں ساڑھے چھ ہزار ایسے جنگجوؤں نے داعش میں شمولیت اختیارکی جو اس سے پہلے آزاد شامی فوج کے جھنڈے تلے بشارالاسد کے خلاف مسلح جدوجہد کرتے رہے تھے۔
تین اگست 2014ء کو داعش نے شمالی عراق کے بڑے شہر زمر، سنجر اور وانا پر قبضہ کرلیا۔
گیارہ اکتوبر 2014ء کو داعش نے شام اور موصل سے دس ہزار جنگجوؤں کو عراقی دارالحکومت بغداد پر قبضہ کرنے کے لئے بھیجا، تب عراقی فوج اور الانبار کے قبائلیوں نے امریکا کو خبردار کیا کہ داعش کا حملہ روکنے کے لئے زمینی فوج نہ بھیجی گئی تو وہ داعش کے سامنے ہتھیار پھینکنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ تیرہ اکتوبر کو داعش کے جنگجوؤں نے بغداد ائرپورٹ کی طرف 25 کلومیٹر تک پیش قدمی کی۔
دوسری طرف اکتوبر ہی میں لیبیا میں بھی داعش کے800 جنگجوؤں نے شہر درنا کا کنٹرول سنبھال لیا۔ درنا شام اور عراق سے باہر پہلا شہر تھا جو دولت اسلامیہ کے کنٹرول میں آیا۔
دو نومبر 2014ء کوایسوسی ایٹڈ پریس نے ایک خبرچلائی تھی کہ امریکی حملوں کے جواب میں داعش، النصرہ فرنٹ، خراسان گروپ جند الاقصیٰ کا ایک اہم مشترکہ اجلاس ہوا جس میں امریکی حمایت یافتہ اور سیکولر باغی گروہوں کے خلاف متحد ہونے پر زور دیاگیا۔ 10 نومبر کو مصری جہادیوں کے ایک اہم گروپ 'انصاربیت المقدسہ' نے داعش کی اطاعت کااعلان کردیا۔ 23 نومبر کو عراقی فوج اور پیش مرگہ فورسز نے ایک خونریز لڑائی کے بعد عراقی صوبہ دیالہ کے دوشہر جوالہ اور سادیہ داعش سے واپس حاصل کرلئے۔ اسی روز بغداد سمارا روڈ کو بھی داعش کے کنٹرول سے آزاد کرالیا گیا۔
تیرہ دسمبرکو داعش کے جنگجوؤں نے عراقی صوبہ الانبار کے شہر رمادی کی طرف 32 کلو میٹر تک پیش قدمی کی۔ شہر 'ھیت' تادم تحریر داعش کے زیرکنٹرول ہے۔
سترہ دسمبر پیشمرگہ فورسز نے سنجر اور زمر کے شہر داعش سے واپس لینے کے لئے حملہ کیا، انھوں نے تل عفر کے قرب میں سات سو مربع کلومیٹر علاقہ واپس لینے کا دعویٰ کیا۔
اٹھارہ دسمبر کو گولان کی پہاڑیوں کے قریب اثرورسوخ رکھنے والے تین باغی گروہ جنھیں اس سے پہلے امریکا اور اسرائیل سے امداد ملتی تھی، نے داعش کی اطاعت قبول کرلی۔
سال 2014ء میں داعش کو سعودی عرب، انڈونیشیا، متحدہ عرب امارات ، مصر اور بھارت کی حکومتوں نے دہشت گرد گروہ قراردیا۔ یادرہے کہ ترکی، کینیڈا، آسٹریلیا، امریکا، برطانیہ، یورپی یونین اور اقوام متحدہ پہلے ہی اسے دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرچکے ہیں۔
امریکا کے وزیرِ دفاع چک ہیگل دعویٰ کرتے ہیںکہ شدت پسندوں کی پیش قدمی روک دی گئی ہے تاہم انھوں نے اعتراف کیا کہ اب بھی عراق اور شام کے بڑے حصے پر شدت پسند تنظیم کا اثرونفوذ باقی ہے۔ امریکی فوج کے سربراہ جنرل جیک ڈیمپسی کا کہنا ہے کہ داعش کے خلاف کارروائی پر امریکا روزانہ 80 لاکھ ڈالر خرچ کر رہا ہے۔عراق اور شام میں داعش کے خلاف جنگ میں امریکی فورسز کی کمان کرنے والے لیفٹیننٹ جنرل جیمز ٹیری کاکہنا ہے کہ اس جنگ میں ٹرننگ پوائنٹ کے حصول میں کم سے کم تین سال لگ سکتے ہیں۔
داعش کے جنگجوؤں کی پیش قدمی کو روک دیا گیا ہے اور فضائی حملوں کے نتیجے میں اب انھیں نقل وحرکت اور آپس میں ابلاغ میں دشواری کا سامنا ہے۔ وہ اپنے زیر نگیں علاقوں پر ہی اپنا قبضہ برقرار رکھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان کے بقول ''ہم نے داعش کے خلاف جنگ میں ایک راز تو یہ پالیا ہے کہ عراقی سکیورٹی فورسز کی صلاحیت میں اضافہ کیا جائے اور جارحانہ حکمت عملی اپنانے کے لیے ان کی ذہنی ساخت تبدیل کی جائے''۔
کچھ عرصہ پہلے امریکی حکام نے ایک کارروائی کے دوران داعش کے سربراہ ابوبکرالبغدادی کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تاہم بعدازاں یہ دعویٰ غلط ثابت ہوا۔ ابوبکر البغدادی نے ایک آڈیو ٹیپ جاری کی، آڈیو پیغام میں دولتِ اسلامیہ کے خلاف کارروائیوں کے لیے قائم امریکی اتحاد میں شامل خلیجی ممالک کے حکمرانوں کو غدار کہا گیا۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ شام اور عراق میں امریکا کی قیادت میں فوجی کارروائیاں ناکام ہو رہی ہیں۔ آڈیو پیغام میں دولتِ اسلامیہ کے حامیوں کو دنیا بھر میں جہاد شروع کرنے کا کہا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب میں بھی حملے کرنے کا کہتے ہوئے سعودی حکمرانوں کو 'سانپ کا سر' کہا گیا ہے۔ آڈیو پیغام میں دولتِ اسلامیہ کے خلاف کارروائیوں کے لیے قائم امریکی اتحاد میں شامل خلیجی ممالک کے حکمرانوں کو غدار کہا گیا ہے۔
دسمبر کے آخری ہفتے دولت اسلامیہ سے واپس لوٹنے والے معروف جرمن صحافی جورگن ٹوڈن ہوفر نے کہاہے کہ داعش کے بارے میں مغرب کے اندازے غلط ہیں، وہ ان اندازوں سے کہیں زیادہ مضبوط اور خطرناک ہے۔ یہ پہلے مغربی صحافی ہیں جنھیں مہینوں تک دولت اسلامیہ کے حکام سے مذاکرات کے بعد خطے میں داخل ہونے کی اجازت ملی تھی۔ 74 سالہ جرمن صحافی ترکی کے راستے موصل پہنچے تھے اور انھوں نے وہاں دس روز گزارے تھے۔ جرمن میڈیا کے توسط سے ان کے خیالات معروف برطانوی اخبار 'انڈیپینڈنٹ' میں بھی شائع ہوئے۔
انھوں نے بتایا کہ وہ اسی ہوٹل میں ٹھہرے تھے جہاں امریکی صحافی جیمز فولی ٹھہرا تھا اور جسے داعش نے گزشتہ اگست میں ہلاک کردیاتھا۔ جرمن صحافی نے بتایا کہ میں نے کسی دوسرے وارزون میں لوگوں کا ایسا جوش وجذبہ نہیں دیکھا۔ دنیا بھر سے یہاں سینکڑوں رضاکار جنگجو آرہے تھے۔ یہ صورت حال میرے وہم وگمان میں بھی نہیں تھی۔ جورگن نے جنگجوؤں کا انداز رہن سہن دیکھا اور ان کے زیراستعمال اسلحہ بھی۔ موصل میں پانچ ہزار جنگجو ہیں جو اس طرح وسیع پیمانے پر پھیلے ہوئے ہیں کہ امریکی بمباری ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔
ان کی حکمت عملی دیکھ کر فوری طورپر اندازہ ہوجاتا ہے کہ مغربی فوجوں کی زمینی مداخلت یا فضائی حملے انھیں نقصان نہیں پہنچاسکتے۔ فضائی حملوں میں گرنے والا ہر بم صرف اور صرف سویلینز کی جان لے گا۔ اور اس کا منطقی نتیجہ دہشت گردی میں اضافہ کی صورت ہی میں نکلے گا۔ ان کاکہنا ہے کہ داعش اپنی ریاست کو ایک مکمل مملکت کا روپ دینے کے لئے سخت محنت کررہی ہے۔ رفاہ عامہ اور تعلیمی نظام ان کی پہلی ترجیحات ہیں، میں یہ جان کر حیران ہوا کہ وہ لڑکیوں کو بھی تعلیم دینے کے منصوبے بنارہے ہیں۔
داعش اس قدرمقبولیت اختیارکررہی ہے اور اس قدر اعتماد سے بھرپور ہے کہ جیسے وہ پوری دنیا کو بھی فتح کرسکتی ہے۔ جورگن نے بتایا کہ داعش کا خطرناک ترین عقیدہ یہ ہے کہ وہ تمام مذاہب جو جمہوریت کے ساتھ ہم آہنگ ہوں گے، ختم ہوجائیں گے۔دہشت گردی کے خلاف کام کرنے والے تھنک ٹینک 'کوئلیم' کے ریسرچر چارلی ونٹر کہتے ہیں کہ جرمن صحافی کی فراہم کردہ اطلاعات ایسی کڑوی گولیاں ہیں جو پالیسی سازوں کے لئے نگلنامشکل ہوں گی۔
جرمن صحافی کا کہنا ہے کہ وہ وقت قریب ہے جب داعش مغرب کے ساتھ بقائے باہمی کے لئے مذاکرات کرے گی۔ امریکی ٹی وی چینل' سی این این' سے گفتگو کرتے ہوئے جرمن صحافی نے بتایا کہ دولت اسلامیہ کے لوگ پرجوش اور اس یقین سے سرشار ہیں کہ یورپ کی فتح زیادہ دیر کی بات نہیں ہے۔ ان کے نزدیک یہ سوال ہی نہیں ہے کہ یورپ فتح ہوسکے گا یا نہیں، سوال صرف یہ ہے کہ کب فتح ہوگا؟