ہمت حوصلے اور بہادری کا اعتراف
ایبولا سے لڑنے والے 5 انسان، جنھیں ٹائم میگزین نے سال کے بہترین افراد قرار دیا
کسی بھی قسم کی تکلیف، مشکلات یا بیماری اﷲ کی طرف سے آتی ہے، ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دیکھا جائے کہ خالق کائنات کی مخلوق خاص طور پر انسان ان مشکلات و تکالیف پر کیسا ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔
جن کا اپنے پروردگار پر ایمان کم زور ہوتا ہے، جن کی ناامیدی حد سے بڑھ جاتی ہے وہ تو کسی بیماری یا پریشانی کی وجہ سے جینا چھوڑدیتے ہیں اور خود کو ہمیشہ کے لیے اس تکلیف کا اسیر سمجھ لیتے ہیں۔ لیکن دنیا میں ایسے بھی بے شمار لوگ ہیں جو کسی بیماری یا پریشانی کو دنیا والوں کی زیادہ سے زیادہ مدد کرنے اور دوسروں کو اس پریشانی یا تکلیف سے بچانے کا موقع سمجھ کر کام شروع کردیتے ہیں، ایسے ہی لوگ سراہے جانے کے قابل ہوتے ہیں۔
عالمی شہرت یافتہ امریکی ہفت روزہ ''ٹائم'' نے ہر سال کی طرح گذشتہ سال 2014 کے لیے بھی ''سال کی بہترین شخصیات'' کے ایوارڈ کا اعلان کیا اور اس بار یہ اعزاز اُن 5 افراد کے نام کیا گیا جو انتہائی مہلک بیماری ایبولا وائرس کے خلاف لڑرہے ہیں۔
ان پانچوں افراد نے اپنی بیماری کے باوجود ہمت نہیں ہاری، اُن کی اسی جرأت و ہمت کا اعتراف عالمی سطح پر ''ٹائم میگزین '' کے ذریعے کیا گیا ہے۔ ٹائم میگزین ہر سال ایسی شخصیات یا افراد یا کسی چیز کو اس ایوارڈ سے نوازتا ہے، جو پورے سال خبروں میں رہے ہوں۔ 2014 میں ٹائم میگزین کی منتخب کردہ یہ پانچوں شخصیات ڈاکٹر جیری برائون (Dr Jerry Brown)، ڈاکٹر کینٹ برینٹلی (Dr Kant Brantly)، فودے گالا (Foday Galla)، ایلا واٹسن اسٹرائیکر(Ella Watson Stryker) اور سیلوم کاروا (Salome Karwah) ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جنگیں چمک دار ہتھیاروں سے نہیں بل کہ حوصلہ مند دلوں سے جیتی جاتی ہیں، ایبولا وائرس کے خلاف کام کرنے والے یہ لوگ بھی اس مشکل جنگ کو حوصلے سے لڑرہے ہیں۔
آئیے ان پانچوں شخصیات کے بارے میں ضروری تفصیلات جانتے ہیں:
٭ ڈاکٹر کینٹ برینٹلی (Dr Kant Brantly)
لائبیریا میں ایبولا وائرس کے شکار مریضوںکا علاج کرتے ہوئے خود اس وائرس کا شکار ہوئے۔ جب انھیں یہ خبر ملی کہ اُن کا نام بھی ''ٹائم میگزین '' نے سال کی سب سے نمایاں شخصیات میں شامل کیا ہے تو ڈاکٹر کینٹ برینٹلی کا کہنا تھا،''یہ میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔'' ڈاکٹر کینٹ کہتے ہیں کہ مجھے صحیح طرح اندازہ نہیں کہ میں کب اور کس طرح اس بیماری کا شکار ہوا۔ ہم تو روزانہ ہی بہت سے مریضوں کا چیک اپ کرتے تھے، لیکن مجھے کچھ کچھ احساس ہورہا ہے کہ جب مجھے بخار کی شدت نے جکڑا تو اُس سے 9 روز قبل ایک لڑکی اپنی والدہ کو لے کر آئی تھی، اُس کی والدہ کی حالت بہت خراب تھی۔ کچھ گھنٹوں کے علاج کے بعد وہ عورت انتقال کرگئی۔ اُس کے ایک ہفتے بعد ہی میں بیمار ہوا اور چند میڈیکل ٹیسٹ کرانے کے بعد چلا کہ میں جس بیماری سے لوگوں کو بچانے کی کوشش کررہا ہوں، وہ مجھے لاحق ہوگئی ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ میں زندہ ہوں اور کوشش کررہا ہوں کہ لوگوں کو اس وائرس سے بچائوں۔
٭ڈاکٹر جیری براؤن (Dr Jerry Brown)
افریقی ملک لائبیریا کے دارالحکومت مونروویا کے اسپتال میں میڈیکل ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کررہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب 2014 ء کے مارچ میں ہمیں اس ایبولا کے تیزی سے پھیلنے کا پتہ چلا توہم نے فوری طور پر اس سے بچائو کے اقدامات شروع کردیے تھے۔ ابتدائی دنوں میں تو بہت سے لوگ ایبولا وائرس کی سنگینی کا احساس نہیں کرپائے ۔ جب لوگوں میں کچھ شعور بڑھا تو اس وقت بہت سے لوگوں کے لیے دیر ہوچکی تھی۔
٭ فودے گالا (Foday Galla)
میڈیکل کے طالب علم اور ایمبولینس ڈرائیور کی حیثیت سے فودے گالا نے درجنوں مریضوں کو ان کے گھروں سے اسپتال منتقل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ایک مریض کو اسپتال لے جاتے ہوئے ہی وہ ایبولا کا شکار ہوا۔ فودے گالا کا کہنا ہے کہ ڈاکٹروں اور نیم طبی عملے کی بھرپور محنت اور حوصلہ افزائی کا ہی نتیجہ ہے کہ میں ایبولا کا مریض ہوتے ہوئے بھی دوسروں کے لیے کام کررہا ہوں۔
٭ایلا واٹسن اسٹرائیکر(Ella Watson Stryker)
(ڈاکٹروں کے ساتھ کام کرنے والی ہیلتھ پروموٹر)
ایلا واٹسن کہتی ہیں کہ مجھے گذشتہ سال مارچ (2014) میں ایبولا وائرس کے بارے میں پہلی بار پتا چلا۔ مجھے اپنے ادارے کی جانب سے افریقی ملک گنی میں ایبولا وائرس پھیلنے کی خبر ملی ۔ میں ایک لمبا سفر کرکے متاثرہ علاقوں میں پہنچی، میرے ذہن میں بہت سے سوالات تھے، جب میں متاثرہ مریضوں سے ملتی رہی، ان کے ساتھ وقت گزار ا تو مجھے کافی سوالات کے جواب مل گئی۔ مجھے اپنی بھی فکر تھی، گھر والے بھی اس حوالے سے کافی پریشان تھے، لیکن میں ان لوگوں کی پریشانیاں دور کرنا چاہتی ہوں جو ایبولا کی وجہ سے اپنی خوشیوں کو خود سے دور کربیٹھے ہیں۔
٭ سیلوم کاروا (Salome Karwah)
سیلوم کاروا بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ افریقہ میں ایبولا کے مریضوں کی امداد میں مصروف ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں اس مہلک مرض کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوئی، جس کا کریڈٹ ان ڈاکٹروں کو بھی جاتا ہے جنھوں نے میرا علاج کیا۔ اب میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں ایبولا کے مریضوں سے زیادہ سے زیادہ ملاقاتیں کروں گی، کیوںکہ میں جتنا زیادہ لوگوں سے ملوں گی، ان سے باتیں کروں گی، ان کے دکھ درد سنوں گی تو میری اپنی تکالیف اور پریشانیاں ختم ہوجائیں گی۔
ایبولا ہے کیا؟
ناظرین کی معلومات میں اضافے کے لیے بتاتے چلیں کہ آخر ایبولا ہے کیا؟، یہ ہلکے سے بخار، گلے، پٹھوں اور سر میں درد کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور پھر مریض کو قے آنا شروع ہوجاتی ہے۔ جیسے جیسے مرض کی شدت بڑھتی ہے، ایبولا تیزی سے مریض کے جگر اور گردوں کو متاثر کرنا شروع کردیتا ہے۔
کس کس کو ملا یہ اعزاز
1923 سے ٹائم میگزین کی اشاعت کا آغاز ہوا، اس کا صدر دفتر امریکی شہر نیویارک میں ہے اور اسے دنیا کے موقر ترین جرائد میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے۔ سال کی بہترین شخصیت کا ایوارڈ دینے کا سلسلہ 1927 میں شروع کیا گیا۔ ٹائم میگزین کی پہلی بہترین شخصیت کے لیے امریکی پائلٹ چارلس لنڈنبرگ کو نام زد کیا گیا، جس نے نیویارک سے پیرس تک اکیلے نان اسٹاپ جہاز اڑایا۔ ٹائم میگزین کی اس طویل فہرست میں مہاتما گاندھی (1930) ، امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ (1932, 1934) ، جرمن چانسلر ایڈولف ہٹلر (1938)، روسی راہ نما جوزف اسٹالن (1939) ، برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل (1940) ، ایرانی وزیراعظم محمد مصدق (1951) ، جان ایف کینیڈی(1961) ، پوپ جان (1962) ، مارٹن لوتھر کنگ (1963)، اپالو کے خلاباز (1968) ، امریکی صدر رچرڈ نکسن (1971) ، سعودی عرب کے شاہ فیصل (1974) ، امریکی صدر جمی کارٹر (1976)، مصر کے صدر انور سادات (1977) ، ایرانی انقلاب کے بانی آیت اﷲ خمینی(1979) ، امریکی صدر رونالڈ ریگن (1980) ، کمپیوٹر بطور ایک مشین (1982) ، سابق سوویت یونین (روس) کے صدر میخائیل گورباچوف (1987)، زمین (1988) ، امریکی صدر جارج بش سنیئر (1990) ، دنیا کے مختلف علاقوں میں کام کرنے والے امن رضاکار (1993) ، جارج بش جونیئر (2000)، روسی صدر ولادیمر پوتن (2007) ، امریکی صدر بارک اوباما (2008) ، فیس بک کا بانی مارک زکربرگ (2010) ، دنیا کے مختلف ممالک میں احتجاجی تحریک چلانے والے مظاہرین (2011) ، پوپ فرانسس (2013) شامل ہیں۔n
سال 2014 کے ایوارڈ کے لیے ٹائم میگزین کا ایوارڈ جیتنے کے لیے نام زد کیے جانے والوں میں 8 امیدوار شامل تھے۔ ان میں امریکا میں سیاہ فام نوجوان کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت پر فرگوسن میں احتجاج کرنے والے مظاہرین، ایبولا وائرس سے لڑنے والے، روسی صدر ولادیمر پوتن، پاپ موسیقی کی دنیا میں سب سے مقبول پاپ اسٹار ٹیلر سوئفٹ (Taylor Swift) ، چین میں ای کامرس کمپنی ''علی باباAlibaba '' کی سی ای او جیک ما(Jack Ma) جو استاد ہیں، ایپل آئی فون متعارف کرانے والے ٹم کُک (Tim Cook) ، عراق میں کرد علاقے کے 2005 سے صدر مسعود بارزانی (Maoud Barzani)، اور امریکا کی نیشنل فٹبال لیگ کے کمشنر روجر گڈڈیل (Roger Goodell) شامل تھے۔
ٹائم میگزین کی منیجنگ ایڈیٹر نینسی گبز (Nancy Gibbs) نے ایوارڈ جیتنے والوں کے ناموں کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو انتہائی مشکل حالات میں انتہائی کٹھن اور خطرناک کام انجام دے رہے ہیں، تاکہ دنیا کے دیگر لوگوں کو اس وبا (ایبولا وائرس) سے محفوظ رکھ سکیں۔ دوسرے نمبر پر امریکی ریاست میسوری کے علاقے فرگوسن میں سیاہ فام نوجوان کی ہلاکت پر احتجاج کرنے والے مظاہرین کو رکھا گیا، جب کہ روسی صدر پوتن تیسرے نمبر پر رہے۔
ٹائم میگزین کی انتظامیہ نے ایبولاوائرس کے شکار افراد کو منتخب کرنے کے حوالے سے بتایا کہ سال 2014 میں افریقی ممالک گنی، سیرالیون، لائبیریا میں ایبولا ایک چھوٹے سے وائرس سے مہلک اور موذی وبا بن گیا ہے، جہاں کئی ہزار افراد اس مرض کا شکار ہوکر موت کی نیند سوچکے ہی۔ اب یہ مرض آہستہ آہستہ دنیا کے دیگر ممالک کی جانب بھی بڑھ رہا ہے۔
دنیا کے مختلف ملکوں میں ایبولا وائرس پھیل رہا ہے اورعالمی ادارۂ صحت کے ڈاکٹروں نے اس بات کا خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ایبولا وائرس 2015 کے آخر تک اپنی تباہ کاریوں کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ مختلف افریقی علاقوں میں یہ مرض تیزی سے پھیل رہا ہے۔ بہت سے لوگ روزانہ کی بنیاد پر اس مہلک مرض کی وجہ سے ہلاک ہورہے ہیں اور درجنوں لوگ اس بیماری کا شکار بن رہے ہیں۔
جو بھی ایبولا کے مریضوں کا علاج کرنا چاہتا ہے، اس کے بھی ایبولا کا مریض بننے کا قوی امکان رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے سوچا کہ وہ لوگ واقعی بہت جرأت مند اور انسان دوست ہیں جو خود کی پروا کیے بغیر دوسروں کی بھلائی کے لیے آگے بڑھ کر کام کررہے ہیں۔ انھیں متنبہ بھی کیا جاتا ہے، میڈیکل کی فیلڈ میں رہتے ہوئے وہ خود بھی موذی اور متعدی امراض کے خطرات سے آگاہ ہیں، لیکن دوسروں کو محفوظ رکھنے اور اس وبائی مرض سے لڑنے کے لیے انھوں نے زیادہ سوچا نہ خود کو بچانے کی کوشش کی، بس انھوں نے اپنا کام شروع کردیا۔ ان پانچوں شخصیات نے ٹائم میگزین میں اپنا نام منتخب ہونے پر خوشی کا اظہار بھی کیا ہے اور ایبولا وائرس کو مکمل ختم کرنے کے عزم کا اظہار بھی کیا ہے۔
ڈاکٹرکینٹ برینٹلی، ڈاکٹر جیری برائون، فودے گالا، سیلوم کاروا اور ایلا واٹسن جیسے لوگ واقعی سراہے جانے کے قابل ہیں جو خود کو مصیبت میں ڈال کر دوسری کی مصیبتیں اور پریشانیاں ختم کرنے یا انھیں کم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے شاعر نے کہا ہے :
ہیں وہی لوگ جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے
جن کا اپنے پروردگار پر ایمان کم زور ہوتا ہے، جن کی ناامیدی حد سے بڑھ جاتی ہے وہ تو کسی بیماری یا پریشانی کی وجہ سے جینا چھوڑدیتے ہیں اور خود کو ہمیشہ کے لیے اس تکلیف کا اسیر سمجھ لیتے ہیں۔ لیکن دنیا میں ایسے بھی بے شمار لوگ ہیں جو کسی بیماری یا پریشانی کو دنیا والوں کی زیادہ سے زیادہ مدد کرنے اور دوسروں کو اس پریشانی یا تکلیف سے بچانے کا موقع سمجھ کر کام شروع کردیتے ہیں، ایسے ہی لوگ سراہے جانے کے قابل ہوتے ہیں۔
عالمی شہرت یافتہ امریکی ہفت روزہ ''ٹائم'' نے ہر سال کی طرح گذشتہ سال 2014 کے لیے بھی ''سال کی بہترین شخصیات'' کے ایوارڈ کا اعلان کیا اور اس بار یہ اعزاز اُن 5 افراد کے نام کیا گیا جو انتہائی مہلک بیماری ایبولا وائرس کے خلاف لڑرہے ہیں۔
ان پانچوں افراد نے اپنی بیماری کے باوجود ہمت نہیں ہاری، اُن کی اسی جرأت و ہمت کا اعتراف عالمی سطح پر ''ٹائم میگزین '' کے ذریعے کیا گیا ہے۔ ٹائم میگزین ہر سال ایسی شخصیات یا افراد یا کسی چیز کو اس ایوارڈ سے نوازتا ہے، جو پورے سال خبروں میں رہے ہوں۔ 2014 میں ٹائم میگزین کی منتخب کردہ یہ پانچوں شخصیات ڈاکٹر جیری برائون (Dr Jerry Brown)، ڈاکٹر کینٹ برینٹلی (Dr Kant Brantly)، فودے گالا (Foday Galla)، ایلا واٹسن اسٹرائیکر(Ella Watson Stryker) اور سیلوم کاروا (Salome Karwah) ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جنگیں چمک دار ہتھیاروں سے نہیں بل کہ حوصلہ مند دلوں سے جیتی جاتی ہیں، ایبولا وائرس کے خلاف کام کرنے والے یہ لوگ بھی اس مشکل جنگ کو حوصلے سے لڑرہے ہیں۔
آئیے ان پانچوں شخصیات کے بارے میں ضروری تفصیلات جانتے ہیں:
٭ ڈاکٹر کینٹ برینٹلی (Dr Kant Brantly)
لائبیریا میں ایبولا وائرس کے شکار مریضوںکا علاج کرتے ہوئے خود اس وائرس کا شکار ہوئے۔ جب انھیں یہ خبر ملی کہ اُن کا نام بھی ''ٹائم میگزین '' نے سال کی سب سے نمایاں شخصیات میں شامل کیا ہے تو ڈاکٹر کینٹ برینٹلی کا کہنا تھا،''یہ میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔'' ڈاکٹر کینٹ کہتے ہیں کہ مجھے صحیح طرح اندازہ نہیں کہ میں کب اور کس طرح اس بیماری کا شکار ہوا۔ ہم تو روزانہ ہی بہت سے مریضوں کا چیک اپ کرتے تھے، لیکن مجھے کچھ کچھ احساس ہورہا ہے کہ جب مجھے بخار کی شدت نے جکڑا تو اُس سے 9 روز قبل ایک لڑکی اپنی والدہ کو لے کر آئی تھی، اُس کی والدہ کی حالت بہت خراب تھی۔ کچھ گھنٹوں کے علاج کے بعد وہ عورت انتقال کرگئی۔ اُس کے ایک ہفتے بعد ہی میں بیمار ہوا اور چند میڈیکل ٹیسٹ کرانے کے بعد چلا کہ میں جس بیماری سے لوگوں کو بچانے کی کوشش کررہا ہوں، وہ مجھے لاحق ہوگئی ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ میں زندہ ہوں اور کوشش کررہا ہوں کہ لوگوں کو اس وائرس سے بچائوں۔
٭ڈاکٹر جیری براؤن (Dr Jerry Brown)
افریقی ملک لائبیریا کے دارالحکومت مونروویا کے اسپتال میں میڈیکل ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کررہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب 2014 ء کے مارچ میں ہمیں اس ایبولا کے تیزی سے پھیلنے کا پتہ چلا توہم نے فوری طور پر اس سے بچائو کے اقدامات شروع کردیے تھے۔ ابتدائی دنوں میں تو بہت سے لوگ ایبولا وائرس کی سنگینی کا احساس نہیں کرپائے ۔ جب لوگوں میں کچھ شعور بڑھا تو اس وقت بہت سے لوگوں کے لیے دیر ہوچکی تھی۔
٭ فودے گالا (Foday Galla)
میڈیکل کے طالب علم اور ایمبولینس ڈرائیور کی حیثیت سے فودے گالا نے درجنوں مریضوں کو ان کے گھروں سے اسپتال منتقل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ایک مریض کو اسپتال لے جاتے ہوئے ہی وہ ایبولا کا شکار ہوا۔ فودے گالا کا کہنا ہے کہ ڈاکٹروں اور نیم طبی عملے کی بھرپور محنت اور حوصلہ افزائی کا ہی نتیجہ ہے کہ میں ایبولا کا مریض ہوتے ہوئے بھی دوسروں کے لیے کام کررہا ہوں۔
٭ایلا واٹسن اسٹرائیکر(Ella Watson Stryker)
(ڈاکٹروں کے ساتھ کام کرنے والی ہیلتھ پروموٹر)
ایلا واٹسن کہتی ہیں کہ مجھے گذشتہ سال مارچ (2014) میں ایبولا وائرس کے بارے میں پہلی بار پتا چلا۔ مجھے اپنے ادارے کی جانب سے افریقی ملک گنی میں ایبولا وائرس پھیلنے کی خبر ملی ۔ میں ایک لمبا سفر کرکے متاثرہ علاقوں میں پہنچی، میرے ذہن میں بہت سے سوالات تھے، جب میں متاثرہ مریضوں سے ملتی رہی، ان کے ساتھ وقت گزار ا تو مجھے کافی سوالات کے جواب مل گئی۔ مجھے اپنی بھی فکر تھی، گھر والے بھی اس حوالے سے کافی پریشان تھے، لیکن میں ان لوگوں کی پریشانیاں دور کرنا چاہتی ہوں جو ایبولا کی وجہ سے اپنی خوشیوں کو خود سے دور کربیٹھے ہیں۔
٭ سیلوم کاروا (Salome Karwah)
سیلوم کاروا بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ افریقہ میں ایبولا کے مریضوں کی امداد میں مصروف ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں اس مہلک مرض کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوئی، جس کا کریڈٹ ان ڈاکٹروں کو بھی جاتا ہے جنھوں نے میرا علاج کیا۔ اب میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں ایبولا کے مریضوں سے زیادہ سے زیادہ ملاقاتیں کروں گی، کیوںکہ میں جتنا زیادہ لوگوں سے ملوں گی، ان سے باتیں کروں گی، ان کے دکھ درد سنوں گی تو میری اپنی تکالیف اور پریشانیاں ختم ہوجائیں گی۔
ایبولا ہے کیا؟
ناظرین کی معلومات میں اضافے کے لیے بتاتے چلیں کہ آخر ایبولا ہے کیا؟، یہ ہلکے سے بخار، گلے، پٹھوں اور سر میں درد کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور پھر مریض کو قے آنا شروع ہوجاتی ہے۔ جیسے جیسے مرض کی شدت بڑھتی ہے، ایبولا تیزی سے مریض کے جگر اور گردوں کو متاثر کرنا شروع کردیتا ہے۔
کس کس کو ملا یہ اعزاز
1923 سے ٹائم میگزین کی اشاعت کا آغاز ہوا، اس کا صدر دفتر امریکی شہر نیویارک میں ہے اور اسے دنیا کے موقر ترین جرائد میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے۔ سال کی بہترین شخصیت کا ایوارڈ دینے کا سلسلہ 1927 میں شروع کیا گیا۔ ٹائم میگزین کی پہلی بہترین شخصیت کے لیے امریکی پائلٹ چارلس لنڈنبرگ کو نام زد کیا گیا، جس نے نیویارک سے پیرس تک اکیلے نان اسٹاپ جہاز اڑایا۔ ٹائم میگزین کی اس طویل فہرست میں مہاتما گاندھی (1930) ، امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ (1932, 1934) ، جرمن چانسلر ایڈولف ہٹلر (1938)، روسی راہ نما جوزف اسٹالن (1939) ، برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل (1940) ، ایرانی وزیراعظم محمد مصدق (1951) ، جان ایف کینیڈی(1961) ، پوپ جان (1962) ، مارٹن لوتھر کنگ (1963)، اپالو کے خلاباز (1968) ، امریکی صدر رچرڈ نکسن (1971) ، سعودی عرب کے شاہ فیصل (1974) ، امریکی صدر جمی کارٹر (1976)، مصر کے صدر انور سادات (1977) ، ایرانی انقلاب کے بانی آیت اﷲ خمینی(1979) ، امریکی صدر رونالڈ ریگن (1980) ، کمپیوٹر بطور ایک مشین (1982) ، سابق سوویت یونین (روس) کے صدر میخائیل گورباچوف (1987)، زمین (1988) ، امریکی صدر جارج بش سنیئر (1990) ، دنیا کے مختلف علاقوں میں کام کرنے والے امن رضاکار (1993) ، جارج بش جونیئر (2000)، روسی صدر ولادیمر پوتن (2007) ، امریکی صدر بارک اوباما (2008) ، فیس بک کا بانی مارک زکربرگ (2010) ، دنیا کے مختلف ممالک میں احتجاجی تحریک چلانے والے مظاہرین (2011) ، پوپ فرانسس (2013) شامل ہیں۔n
سال 2014 کے ایوارڈ کے لیے ٹائم میگزین کا ایوارڈ جیتنے کے لیے نام زد کیے جانے والوں میں 8 امیدوار شامل تھے۔ ان میں امریکا میں سیاہ فام نوجوان کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت پر فرگوسن میں احتجاج کرنے والے مظاہرین، ایبولا وائرس سے لڑنے والے، روسی صدر ولادیمر پوتن، پاپ موسیقی کی دنیا میں سب سے مقبول پاپ اسٹار ٹیلر سوئفٹ (Taylor Swift) ، چین میں ای کامرس کمپنی ''علی باباAlibaba '' کی سی ای او جیک ما(Jack Ma) جو استاد ہیں، ایپل آئی فون متعارف کرانے والے ٹم کُک (Tim Cook) ، عراق میں کرد علاقے کے 2005 سے صدر مسعود بارزانی (Maoud Barzani)، اور امریکا کی نیشنل فٹبال لیگ کے کمشنر روجر گڈڈیل (Roger Goodell) شامل تھے۔
ٹائم میگزین کی منیجنگ ایڈیٹر نینسی گبز (Nancy Gibbs) نے ایوارڈ جیتنے والوں کے ناموں کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو انتہائی مشکل حالات میں انتہائی کٹھن اور خطرناک کام انجام دے رہے ہیں، تاکہ دنیا کے دیگر لوگوں کو اس وبا (ایبولا وائرس) سے محفوظ رکھ سکیں۔ دوسرے نمبر پر امریکی ریاست میسوری کے علاقے فرگوسن میں سیاہ فام نوجوان کی ہلاکت پر احتجاج کرنے والے مظاہرین کو رکھا گیا، جب کہ روسی صدر پوتن تیسرے نمبر پر رہے۔
ٹائم میگزین کی انتظامیہ نے ایبولاوائرس کے شکار افراد کو منتخب کرنے کے حوالے سے بتایا کہ سال 2014 میں افریقی ممالک گنی، سیرالیون، لائبیریا میں ایبولا ایک چھوٹے سے وائرس سے مہلک اور موذی وبا بن گیا ہے، جہاں کئی ہزار افراد اس مرض کا شکار ہوکر موت کی نیند سوچکے ہی۔ اب یہ مرض آہستہ آہستہ دنیا کے دیگر ممالک کی جانب بھی بڑھ رہا ہے۔
دنیا کے مختلف ملکوں میں ایبولا وائرس پھیل رہا ہے اورعالمی ادارۂ صحت کے ڈاکٹروں نے اس بات کا خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ایبولا وائرس 2015 کے آخر تک اپنی تباہ کاریوں کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ مختلف افریقی علاقوں میں یہ مرض تیزی سے پھیل رہا ہے۔ بہت سے لوگ روزانہ کی بنیاد پر اس مہلک مرض کی وجہ سے ہلاک ہورہے ہیں اور درجنوں لوگ اس بیماری کا شکار بن رہے ہیں۔
جو بھی ایبولا کے مریضوں کا علاج کرنا چاہتا ہے، اس کے بھی ایبولا کا مریض بننے کا قوی امکان رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے سوچا کہ وہ لوگ واقعی بہت جرأت مند اور انسان دوست ہیں جو خود کی پروا کیے بغیر دوسروں کی بھلائی کے لیے آگے بڑھ کر کام کررہے ہیں۔ انھیں متنبہ بھی کیا جاتا ہے، میڈیکل کی فیلڈ میں رہتے ہوئے وہ خود بھی موذی اور متعدی امراض کے خطرات سے آگاہ ہیں، لیکن دوسروں کو محفوظ رکھنے اور اس وبائی مرض سے لڑنے کے لیے انھوں نے زیادہ سوچا نہ خود کو بچانے کی کوشش کی، بس انھوں نے اپنا کام شروع کردیا۔ ان پانچوں شخصیات نے ٹائم میگزین میں اپنا نام منتخب ہونے پر خوشی کا اظہار بھی کیا ہے اور ایبولا وائرس کو مکمل ختم کرنے کے عزم کا اظہار بھی کیا ہے۔
ڈاکٹرکینٹ برینٹلی، ڈاکٹر جیری برائون، فودے گالا، سیلوم کاروا اور ایلا واٹسن جیسے لوگ واقعی سراہے جانے کے قابل ہیں جو خود کو مصیبت میں ڈال کر دوسری کی مصیبتیں اور پریشانیاں ختم کرنے یا انھیں کم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے شاعر نے کہا ہے :
ہیں وہی لوگ جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے