پاکستان ایک نظر میں غیر ضروری خبریں
میڈیا کی آزاد ی اچھا امرہے لیکن اب یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ اس آزادی کے مثبت ثمرات حاصل ہو رہے ہیں یا منفی۔
گزشتہ کچھ روز سے عمران خان دوبارہ بریکنگ نیوز اور اخباری سرخیوں کی زینت بن گئے ہیں۔ ان خبروں میں ان کے کسی نئے پاکستان کا ذکر نہیں ۔ بلکہ جنگل میں آگ کی طرح پھیلنے والی اس خبر کا تعلق عمران خان کی شادی سے متعلق ہے۔
جس طرح شادی کی دھنوں ، پس منظر میں چلائے جانے والے شادی کے گانوں کے ساتھ عمران خان اور ایک میڈیا اینکر کی بار بار تصاویر دکھائی جا رہی ہیں۔ وہ ہمارے ذرائع ابلاغ کے غیر سنجیدہ رویوں کی ایک واضح مثال ہیں۔
اگرچہ شادی کرنا کوئی جرم نہیں۔ یہ ایک فطری ضرورت اور انسانی معاشرے کی بنیادی اکائی ہے جس کا تسلسل آدم علیہ السلام سے چلا آ رہا ہے، اور عمران خان اپنے ماضی کے کرکٹر اور اہم سیاسی شخصیت ہونے کے باعث اس قدر ضرور اہم ہیں کہ ان کی شادی کی خبروں کو اتنی اہمیت دی جائے ۔ لیکن جب دونوں فریق اس بات کا انکار کر رہے ہیں کہ شادی کے متعلق تمام خبریں غیر مصدقہ اور من گھڑت ہیں تو پھربار بار ان خبروں کو نشر کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ عمران خان اس پر برہم بھی ہوئے اور اس شرمناک الزام کو مسترد بھی کر دیا لیکن میڈیا خان صاحب کی نجی زندگی کو اچھالتا رہا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے میڈیا کی آزادی اسے بلندی کے بجائے پستی کی طرف لے کر جا رہی ہے اور اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ سچ اور جھوٹ، صحیح یا غلط کے درمیان تمیز ختم ہوئے تو ایک دور گزر چکا۔ چونکہ میڈیا آزاد ہے، میڈیا سے میری مراد پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل تینوں ہیں۔ اب تو اہم اس منزل پر پہنچ چکے ہیں کہ کسی کو گندہ کرنے کے لیے بات ذاتیات تک چلی جاتی ہے۔ اب تو کسی کے گھر کو بھی نہیں بخشا جاتا۔ بلکہ ماں بہن، بیٹی بیوی ،جس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں، ان کی عزت کا بھی خیال نہیں رکھا جاتا۔
یہ صرف عمران خان کی شادی کا ایشو نہیں بلکہ مجموعی طور پر گزشتہ چند سالوں میں پاکستانی میڈیا کی کارکردگی پر نظر دوڑائی جائے تواس کے اچھے اقدمات کم اوربے ضابطگیوں اور غیر سنجیدہ رویوں کی بہتات دکھائی دیتی ہے۔
میڈیا کی آزاد ی اچھا امرہے لیکن اب یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ اس آزادی کے مثبت ثمرات حاصل ہو رہے ہیں یا منفی۔ ہمارے سماجی رویے ، برادشت کی حداور معاشرتی معیارات بہتر ہوئے ہیں یا مزید بے حسی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
صحافتی اخلاقیا ت کا تعین بہت ضروری ہے۔ معلومات کا حصول اور اسے عوام تک پہنچانا یہ تمام ذرائع ابلاغ کا فرض بنتا ہے۔ کوئی بھی ابلاغی ادارہ چاہے وہ سمعی ہو یا بصری یا پھر تحریری، اس کے سامعین، ناظرین اور قارئین اس کی سب سے بڑی طاقت ہوتے ہیں۔
لیکن افسوس ! آج سامعین، ناظرین اور قارئین کو اپنی طاقت کا اندازہ نہیں۔ ہرادارہ فیڈ بیک کے لیے کوئی رابطہ نمبر، ای میل ایڈریس یا اپنے سوشل میڈیا کا رابطہ ضرور دیتے ہیں۔ عوام کو چاہیے کہ کوئی بھی ناپسندیدہ پروگرام، غیر اخلاقی بات،یا حقائق کے منافی کوئی خبر دیکھیں تو ! وہاں بیٹھے بیٹھے اپنا خون جلانے کے بعدبجائے اپنا کمپیوٹر کھولیں۔ متعلقہ ادارے کو اپنی رائے پر مبنی ای میل کریں۔ ان کے سوشل میڈیا پیج پر اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں۔ یا فون یا فیکس کریں اور اس اخبار، چینل ، ریڈیو یا ویب سائٹ کو اس کے غیر ذمہ دارانہ عمل کی جانب توجہ دلائیں۔
یقین مانیں اگر عملی طور پر لوگ اپنا ردعمل دینے لگ جائیں تو بہت سے ادارے ناصرف اپنی اصلاح بھی کریں گے بلکہ کوئی بھی خبر یا مواد شائع یا نشر کرنے سے پہلے سوچیں گے ضرور!اب آپ کی مرضی ہے کہ گھر بیٹھ کر اپنا خون جلاتے رہیں یا اصلاح و بہتری کے لیے کوئی عملی اقدامات کریں۔
یاد رکھیں ہمارا مستقبل ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ کسی دوسرے کو الزام دینے سے قبل ہمیں ایک بار یہ ضرور سوچناہو گا کہ اس معاملے میں ہم نے کیا کردار اد ا کیا۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
جس طرح شادی کی دھنوں ، پس منظر میں چلائے جانے والے شادی کے گانوں کے ساتھ عمران خان اور ایک میڈیا اینکر کی بار بار تصاویر دکھائی جا رہی ہیں۔ وہ ہمارے ذرائع ابلاغ کے غیر سنجیدہ رویوں کی ایک واضح مثال ہیں۔
اگرچہ شادی کرنا کوئی جرم نہیں۔ یہ ایک فطری ضرورت اور انسانی معاشرے کی بنیادی اکائی ہے جس کا تسلسل آدم علیہ السلام سے چلا آ رہا ہے، اور عمران خان اپنے ماضی کے کرکٹر اور اہم سیاسی شخصیت ہونے کے باعث اس قدر ضرور اہم ہیں کہ ان کی شادی کی خبروں کو اتنی اہمیت دی جائے ۔ لیکن جب دونوں فریق اس بات کا انکار کر رہے ہیں کہ شادی کے متعلق تمام خبریں غیر مصدقہ اور من گھڑت ہیں تو پھربار بار ان خبروں کو نشر کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ عمران خان اس پر برہم بھی ہوئے اور اس شرمناک الزام کو مسترد بھی کر دیا لیکن میڈیا خان صاحب کی نجی زندگی کو اچھالتا رہا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے میڈیا کی آزادی اسے بلندی کے بجائے پستی کی طرف لے کر جا رہی ہے اور اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ سچ اور جھوٹ، صحیح یا غلط کے درمیان تمیز ختم ہوئے تو ایک دور گزر چکا۔ چونکہ میڈیا آزاد ہے، میڈیا سے میری مراد پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل تینوں ہیں۔ اب تو اہم اس منزل پر پہنچ چکے ہیں کہ کسی کو گندہ کرنے کے لیے بات ذاتیات تک چلی جاتی ہے۔ اب تو کسی کے گھر کو بھی نہیں بخشا جاتا۔ بلکہ ماں بہن، بیٹی بیوی ،جس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں، ان کی عزت کا بھی خیال نہیں رکھا جاتا۔
یہ صرف عمران خان کی شادی کا ایشو نہیں بلکہ مجموعی طور پر گزشتہ چند سالوں میں پاکستانی میڈیا کی کارکردگی پر نظر دوڑائی جائے تواس کے اچھے اقدمات کم اوربے ضابطگیوں اور غیر سنجیدہ رویوں کی بہتات دکھائی دیتی ہے۔
میڈیا کی آزاد ی اچھا امرہے لیکن اب یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ اس آزادی کے مثبت ثمرات حاصل ہو رہے ہیں یا منفی۔ ہمارے سماجی رویے ، برادشت کی حداور معاشرتی معیارات بہتر ہوئے ہیں یا مزید بے حسی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
صحافتی اخلاقیا ت کا تعین بہت ضروری ہے۔ معلومات کا حصول اور اسے عوام تک پہنچانا یہ تمام ذرائع ابلاغ کا فرض بنتا ہے۔ کوئی بھی ابلاغی ادارہ چاہے وہ سمعی ہو یا بصری یا پھر تحریری، اس کے سامعین، ناظرین اور قارئین اس کی سب سے بڑی طاقت ہوتے ہیں۔
لیکن افسوس ! آج سامعین، ناظرین اور قارئین کو اپنی طاقت کا اندازہ نہیں۔ ہرادارہ فیڈ بیک کے لیے کوئی رابطہ نمبر، ای میل ایڈریس یا اپنے سوشل میڈیا کا رابطہ ضرور دیتے ہیں۔ عوام کو چاہیے کہ کوئی بھی ناپسندیدہ پروگرام، غیر اخلاقی بات،یا حقائق کے منافی کوئی خبر دیکھیں تو ! وہاں بیٹھے بیٹھے اپنا خون جلانے کے بعدبجائے اپنا کمپیوٹر کھولیں۔ متعلقہ ادارے کو اپنی رائے پر مبنی ای میل کریں۔ ان کے سوشل میڈیا پیج پر اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں۔ یا فون یا فیکس کریں اور اس اخبار، چینل ، ریڈیو یا ویب سائٹ کو اس کے غیر ذمہ دارانہ عمل کی جانب توجہ دلائیں۔
یقین مانیں اگر عملی طور پر لوگ اپنا ردعمل دینے لگ جائیں تو بہت سے ادارے ناصرف اپنی اصلاح بھی کریں گے بلکہ کوئی بھی خبر یا مواد شائع یا نشر کرنے سے پہلے سوچیں گے ضرور!اب آپ کی مرضی ہے کہ گھر بیٹھ کر اپنا خون جلاتے رہیں یا اصلاح و بہتری کے لیے کوئی عملی اقدامات کریں۔
یاد رکھیں ہمارا مستقبل ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ کسی دوسرے کو الزام دینے سے قبل ہمیں ایک بار یہ ضرور سوچناہو گا کہ اس معاملے میں ہم نے کیا کردار اد ا کیا۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔