وہ مجھے بھی پیارے تھے
اب تو حکمرانوں کے یا ان کے شہزادوں کے دوست یا مصاحب جلد ہی بزنس پارٹنر کے زمرے میں آ جاتے ہیں۔
KARACHI:
عرصہ 33 سال بحیثیت سول سرونٹ گزری' ملازمت پر غور کیا تو ہنسی آئی کہ ملازمت کی ابتدا ہوئی تو پاکستان میں فوجی حکومت تھی اور جب ملازمت سے فراغت کا دن آیا تو ایک اور جرنیل صاحب اقتدار تھا۔ اس عرصہ ملازمت میں صدور دیکھے وزیراعظم دیکھے اور وزراء اعلیٰ کے علاوہ گورنروں کو بھی دور و نزدیک سے دیکھا مذکورہ حکمرانوں کے پسران معتبر کے بارے میں بھی بہت کچھ دیکھا سنا ان کی زر زمین میں دلچسپی کے قصے کچھ سچے کچھ جھوٹے لوگوں کی زبانی سنے اور کئی ایک کا بچشم خود ملاحظہ کرنے کا موقع ملا۔
رہا ان کا زر زمین کے علاوہ زن میں دلچسپی کا احوال تو اس پر پردہ ہی پڑا رہنے دیں کیوں ان کے رنگوں میں بھنگ ڈالیں پردہ نشینوں کا ذکر غیروں کی زبان اور تحریر سے یوں بھی دور ہی رہے تو اچھا ہے۔اب تو یہ بات زبان زدِ عام ہے لہٰذا میرے علم کو چھوڑیے گزشتہ چالیس پنتالیس سال کے دوران فوجی صدور' وزرائے اعظموں اور وزرائے اعلیٰ میں سے بیشتر کے لاڈلے جو اب پچاس ساٹھ سال عمر کے پٹیے میں ہونگے اور ان میں سے کئی جھنڈے والی یا بلٹ پروف گاڑیوں کے مزے بھی لوٹ چکے ہیں اب وہ بے حساب دولت کے مالک ہیں۔ اگر ان کے اپنے اور زندہ یا مردہ حاکمان وقت کے کیرئیر شروع کرنے کے وقت کے وہ اثاثے یا کاروبار منظر عام پر لائے جا سکیں جو بہر حال Declaration of Asserts کی فائلوں یا محکمہ انکم ٹیکس کے ریکارڈ میں تو موجود ہیں اور پھر ان کا موازنہ ان کی موجودہ ظاہری اور چھپی ہوئی دولت سے کیا جا سکے تو عوام الناس کی حیرت کے عالم میں چیخیں نکل جائیں گی یا پھر انھیں دندل پڑ جائے گی۔
لیکن یہ تو میرا آج کا موضوع تھا ہی نہیں' نہ جانے کہاں سے ٹپک پڑا' دراصل مجھے شاہ کا مصاحب بننے والا شعر یاد آیا تو اس موضوع پر لکھنے کی تحریک ہوئی۔ شعر یوں ہے؎
بنا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اِتراتا
وگرنہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے
اب تو حکمرانوں کے یا ان کے شہزادوں کے دوست یا مصاحب جلد ہی بزنس پارٹنر کے زمرے میں آ جاتے ہیں اس کے نتیجے میں شہ اور مصاحب دونوں راضی رہتے ہیں۔ لوگوں کے علم میں ایسی دوستیوں کی کہانیاں پہلے بھی آتی رہتی تھیں لیکن آئندہ کے ممکنہ وزیراعظم عمران خاں کے جلسوں اور دھرنوں نے گزشتہ چھ ماہ میں تو کئی ڈھولوں کے پول کھول دیے ہیں اور آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا اور وہ اس لیے بھی کہ میں نے اپنے صدا بہار (مرحوم) بزرگ دوست میجر شریف کے صاحبزادے COS راحیل شریف کی ایک بھی وڈیو یا تصویر ہنستی یا مسکراتی ہوئی نہیں دیکھی جو ایک سنجیدہ اور معتبر شخصیت کی علامت ہے۔ ہمارے جمہوری حکمران جو ڈنڈی مارنے میں خود کو یکتا سمجھتے ہیں ڈنڈا دیکھ کر اپنا عمل اور رستہ راست کر لیتے ہیں اس کی مثال آپ ہمارے سامنے ہے۔ اگر حکمران اب بھی قوم کو ڈاج کریں گے تو اس کا نتیجہ اور نشانیاں اسی سہ ماہی یعنی سن 2015ء کے شروع میں نظر آ جائیں گی۔ کیونکہ میں ایک ہفتہ قبل بھی لکھ چکا ہوں کہ ''ابھی نہیں تو کبھی نہیں''۔
سن 1968-9ء کا ذکر ہے محترم اختر سے میری ملاقات ہوئی جو دوستی میں تبدیل ہو گئی۔ انھیں شعر و ادب اور ہسٹری میں دلچسپی تھی۔ ہماری ملاقات حسب پروگرام صدر راولپنڈی میں رہتی جہاں میری تعیناتی سروس کے ابتدئی دنوں بطور مجسٹریٹ تھی ہم شام کو راولپنڈی میں پریذیڈنٹ ہاؤس کے گردونواح میں فٹ پاتھوں پر گھومتے پھرتے اور تبادلہ خیال کے دوران تھکاوٹ محسوس کرتے تو کسی عام سے ریستوران میں بیٹھ کر چائے کا کپ پیتے۔ یہ سلسلہ سال دو سال چلتا رہا نہ کوئی ہمیں پہچانتا نہ ہم کسی سے اپنا تعارف کراتے۔ ہمیں کوئی کامپلیکس بھی نہ تھا خاص طور پر اختر صاحب کو۔ مجھے ان سے نہ کوئی لالچ تھا نہ انھیں مجھ سے ملنے میں کوئی پریشانی۔ پھر وہ ایک روز مجھے بتا کر اپنے آبائی گاؤں گئے تو ملاقاتوں کا سلسلہ منقطع ہو گیا ۔
ان سے آئندہ ملاقات ان کے والد کی تدفین کے دن ہوئی۔ میرے قاری جاننا چاہیں گے کہ اختر سے ملاقاتوں کا احوال بیان کرنے میں کیا اچھوتا پن ہے لیکن محترم قاری صاحب یہ اختر پاکستان کے صدر فیلڈ مارشل ایوب خاں کے فرزند اختر ایوب تھے جو پریذیڈنسی سے میرے ساتھ چہل قدمی کے لیے نکلنے سے پہلے مجھے اطلاع دیتے تھے لیکن ہماری گفتگو میں کبھی صدر مملکت کا ذکر آیا نہ میرے دل میں اختر صاحب سے کوئی مراعات حاصل کرنے کا خیال آیا نہ لالچ۔ خود مجھے بھی اختر ایوب سے وہ ملاقاتوں کے دن خواب سا محسوس ہوتے ہیں۔
لیکن اختر ایوب سے زیادہ حیران کن قریباً اسی عرصہ اور کئی سال بعد تک قائم میرے وہ تعلقات جو دوستی میں بدل گئے' آج شوکت ایوب کو یاد کرتے ہوئے مجھے ایک اور خواب کی دنیا میں لیے جاتے ہیں۔
صدر بازار راولپنڈی میں ناردرن موٹرز کے مالک نیاز صاحب اور ان کے چند دوستوں نے ایک پرائیویٹ کلب قائم کر کے انڈور گیمز کی سہولت اور تمبولا کا اہتمام کر رکھا تھا میں بھی اس کا ممبر تھا۔ وہاں پر شوکت ایوب سے ملاقات ہوئی جو دوستی میں بدل گئی۔ اکثر ملاقات رہتی شوکت ایوب اچھی عادات کا مالک اور کلب کا ریگولر ممبر تھا اس نے کبھی اس بنا پر کہ وہ صدر ایوب کا بیٹا ہے نہ شیخی ماری اور نہ کبھی ناجائز حرکات کیں۔
وہ میری شادی میں بھی شریک ہوا اور باوجود میری چھوٹی سی ملازمت کے کبھی تعظیم دینے سے انحراف نہ کیا۔ مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب چینی کی قیمت میں معمولی اضافے پر جلوس نکلنے لگے اور میں ایک جلوس کے ہمراہ امن عامہ کی ڈیوٹی پر تھا تو اس کی کار میرے قریب آن رکی اور اس نے دروازے کا شیشہ نیچے کر کے بڑی معصومیت سے پوچھا ''بھاپے ایہہ کس چیز دا جلوس اے'' تو میں نے کہا ''بھاپے ایتھوں نکل جا تیرے ابا جی دی شان وچ گستاخی ہو رہی اے'' اس وقت ایوب خاں کے خلاف نعرے لگ رہے تھے۔
شوکت ایوب سے تین چار سال تک دوستی رہی کبھی تصور بھی نہ کیا کہ اس کے ذریعے کسی بھی قسم کا مفاد اٹھایا جائے۔ جنرل ایوب خان کے انتقال پر تدفین کے لیے گاؤں ریحانہ جانا ہوا۔ شوکت ایوب اور اختر ایوب اچھی شہرت رکھتے تھے۔ ان کے تیسرے بھائی طاہر کو بھی میں جانتا تھا۔ گوہر ایوب سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی انھیں زمانہ جانتا ہے۔ میرے دونوں دوست شوکت اور اختر ایوب اللہ کو پیارے ہو چکے۔ وہ دونوں مجھے بھی پیارے تھے۔
عرصہ 33 سال بحیثیت سول سرونٹ گزری' ملازمت پر غور کیا تو ہنسی آئی کہ ملازمت کی ابتدا ہوئی تو پاکستان میں فوجی حکومت تھی اور جب ملازمت سے فراغت کا دن آیا تو ایک اور جرنیل صاحب اقتدار تھا۔ اس عرصہ ملازمت میں صدور دیکھے وزیراعظم دیکھے اور وزراء اعلیٰ کے علاوہ گورنروں کو بھی دور و نزدیک سے دیکھا مذکورہ حکمرانوں کے پسران معتبر کے بارے میں بھی بہت کچھ دیکھا سنا ان کی زر زمین میں دلچسپی کے قصے کچھ سچے کچھ جھوٹے لوگوں کی زبانی سنے اور کئی ایک کا بچشم خود ملاحظہ کرنے کا موقع ملا۔
رہا ان کا زر زمین کے علاوہ زن میں دلچسپی کا احوال تو اس پر پردہ ہی پڑا رہنے دیں کیوں ان کے رنگوں میں بھنگ ڈالیں پردہ نشینوں کا ذکر غیروں کی زبان اور تحریر سے یوں بھی دور ہی رہے تو اچھا ہے۔اب تو یہ بات زبان زدِ عام ہے لہٰذا میرے علم کو چھوڑیے گزشتہ چالیس پنتالیس سال کے دوران فوجی صدور' وزرائے اعظموں اور وزرائے اعلیٰ میں سے بیشتر کے لاڈلے جو اب پچاس ساٹھ سال عمر کے پٹیے میں ہونگے اور ان میں سے کئی جھنڈے والی یا بلٹ پروف گاڑیوں کے مزے بھی لوٹ چکے ہیں اب وہ بے حساب دولت کے مالک ہیں۔ اگر ان کے اپنے اور زندہ یا مردہ حاکمان وقت کے کیرئیر شروع کرنے کے وقت کے وہ اثاثے یا کاروبار منظر عام پر لائے جا سکیں جو بہر حال Declaration of Asserts کی فائلوں یا محکمہ انکم ٹیکس کے ریکارڈ میں تو موجود ہیں اور پھر ان کا موازنہ ان کی موجودہ ظاہری اور چھپی ہوئی دولت سے کیا جا سکے تو عوام الناس کی حیرت کے عالم میں چیخیں نکل جائیں گی یا پھر انھیں دندل پڑ جائے گی۔
لیکن یہ تو میرا آج کا موضوع تھا ہی نہیں' نہ جانے کہاں سے ٹپک پڑا' دراصل مجھے شاہ کا مصاحب بننے والا شعر یاد آیا تو اس موضوع پر لکھنے کی تحریک ہوئی۔ شعر یوں ہے؎
بنا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اِتراتا
وگرنہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے
اب تو حکمرانوں کے یا ان کے شہزادوں کے دوست یا مصاحب جلد ہی بزنس پارٹنر کے زمرے میں آ جاتے ہیں اس کے نتیجے میں شہ اور مصاحب دونوں راضی رہتے ہیں۔ لوگوں کے علم میں ایسی دوستیوں کی کہانیاں پہلے بھی آتی رہتی تھیں لیکن آئندہ کے ممکنہ وزیراعظم عمران خاں کے جلسوں اور دھرنوں نے گزشتہ چھ ماہ میں تو کئی ڈھولوں کے پول کھول دیے ہیں اور آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا اور وہ اس لیے بھی کہ میں نے اپنے صدا بہار (مرحوم) بزرگ دوست میجر شریف کے صاحبزادے COS راحیل شریف کی ایک بھی وڈیو یا تصویر ہنستی یا مسکراتی ہوئی نہیں دیکھی جو ایک سنجیدہ اور معتبر شخصیت کی علامت ہے۔ ہمارے جمہوری حکمران جو ڈنڈی مارنے میں خود کو یکتا سمجھتے ہیں ڈنڈا دیکھ کر اپنا عمل اور رستہ راست کر لیتے ہیں اس کی مثال آپ ہمارے سامنے ہے۔ اگر حکمران اب بھی قوم کو ڈاج کریں گے تو اس کا نتیجہ اور نشانیاں اسی سہ ماہی یعنی سن 2015ء کے شروع میں نظر آ جائیں گی۔ کیونکہ میں ایک ہفتہ قبل بھی لکھ چکا ہوں کہ ''ابھی نہیں تو کبھی نہیں''۔
سن 1968-9ء کا ذکر ہے محترم اختر سے میری ملاقات ہوئی جو دوستی میں تبدیل ہو گئی۔ انھیں شعر و ادب اور ہسٹری میں دلچسپی تھی۔ ہماری ملاقات حسب پروگرام صدر راولپنڈی میں رہتی جہاں میری تعیناتی سروس کے ابتدئی دنوں بطور مجسٹریٹ تھی ہم شام کو راولپنڈی میں پریذیڈنٹ ہاؤس کے گردونواح میں فٹ پاتھوں پر گھومتے پھرتے اور تبادلہ خیال کے دوران تھکاوٹ محسوس کرتے تو کسی عام سے ریستوران میں بیٹھ کر چائے کا کپ پیتے۔ یہ سلسلہ سال دو سال چلتا رہا نہ کوئی ہمیں پہچانتا نہ ہم کسی سے اپنا تعارف کراتے۔ ہمیں کوئی کامپلیکس بھی نہ تھا خاص طور پر اختر صاحب کو۔ مجھے ان سے نہ کوئی لالچ تھا نہ انھیں مجھ سے ملنے میں کوئی پریشانی۔ پھر وہ ایک روز مجھے بتا کر اپنے آبائی گاؤں گئے تو ملاقاتوں کا سلسلہ منقطع ہو گیا ۔
ان سے آئندہ ملاقات ان کے والد کی تدفین کے دن ہوئی۔ میرے قاری جاننا چاہیں گے کہ اختر سے ملاقاتوں کا احوال بیان کرنے میں کیا اچھوتا پن ہے لیکن محترم قاری صاحب یہ اختر پاکستان کے صدر فیلڈ مارشل ایوب خاں کے فرزند اختر ایوب تھے جو پریذیڈنسی سے میرے ساتھ چہل قدمی کے لیے نکلنے سے پہلے مجھے اطلاع دیتے تھے لیکن ہماری گفتگو میں کبھی صدر مملکت کا ذکر آیا نہ میرے دل میں اختر صاحب سے کوئی مراعات حاصل کرنے کا خیال آیا نہ لالچ۔ خود مجھے بھی اختر ایوب سے وہ ملاقاتوں کے دن خواب سا محسوس ہوتے ہیں۔
لیکن اختر ایوب سے زیادہ حیران کن قریباً اسی عرصہ اور کئی سال بعد تک قائم میرے وہ تعلقات جو دوستی میں بدل گئے' آج شوکت ایوب کو یاد کرتے ہوئے مجھے ایک اور خواب کی دنیا میں لیے جاتے ہیں۔
صدر بازار راولپنڈی میں ناردرن موٹرز کے مالک نیاز صاحب اور ان کے چند دوستوں نے ایک پرائیویٹ کلب قائم کر کے انڈور گیمز کی سہولت اور تمبولا کا اہتمام کر رکھا تھا میں بھی اس کا ممبر تھا۔ وہاں پر شوکت ایوب سے ملاقات ہوئی جو دوستی میں بدل گئی۔ اکثر ملاقات رہتی شوکت ایوب اچھی عادات کا مالک اور کلب کا ریگولر ممبر تھا اس نے کبھی اس بنا پر کہ وہ صدر ایوب کا بیٹا ہے نہ شیخی ماری اور نہ کبھی ناجائز حرکات کیں۔
وہ میری شادی میں بھی شریک ہوا اور باوجود میری چھوٹی سی ملازمت کے کبھی تعظیم دینے سے انحراف نہ کیا۔ مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب چینی کی قیمت میں معمولی اضافے پر جلوس نکلنے لگے اور میں ایک جلوس کے ہمراہ امن عامہ کی ڈیوٹی پر تھا تو اس کی کار میرے قریب آن رکی اور اس نے دروازے کا شیشہ نیچے کر کے بڑی معصومیت سے پوچھا ''بھاپے ایہہ کس چیز دا جلوس اے'' تو میں نے کہا ''بھاپے ایتھوں نکل جا تیرے ابا جی دی شان وچ گستاخی ہو رہی اے'' اس وقت ایوب خاں کے خلاف نعرے لگ رہے تھے۔
شوکت ایوب سے تین چار سال تک دوستی رہی کبھی تصور بھی نہ کیا کہ اس کے ذریعے کسی بھی قسم کا مفاد اٹھایا جائے۔ جنرل ایوب خان کے انتقال پر تدفین کے لیے گاؤں ریحانہ جانا ہوا۔ شوکت ایوب اور اختر ایوب اچھی شہرت رکھتے تھے۔ ان کے تیسرے بھائی طاہر کو بھی میں جانتا تھا۔ گوہر ایوب سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی انھیں زمانہ جانتا ہے۔ میرے دونوں دوست شوکت اور اختر ایوب اللہ کو پیارے ہو چکے۔ وہ دونوں مجھے بھی پیارے تھے۔