آئین کا بنیادی ڈھانچہ آخری حصہ
کوئی بھی آئین تب تک اپنی جڑ نہیں پکڑ سکتا جب تک وہ اپنا بنیادی ڈھانچہ نہ وضع کرسکے ۔
سرجان مارشل نے Marbury Vs Madison کا فیصلہ تحریر کرتے ہوئے کہا کہ Written Constitution ایک سائنس ہے اس لیے وہ سپریم ہے ۔ John Marshal اس کیس میں لکھتے ہیں:
It is the theory of written constitution that an Act of legislative repugnant to the constitution is void.
یہ وہ بات تھی جس نے تحریری آئین کو برطانیہ کے غیر تحریری آئین سے الگ کردیا کیونکہ برطانیہ میں ہر ایکٹ وہ آئین والا ہو یا سادہ قانون ہو سادہ اکثریت سے پاس کیا جاسکتا ہے ۔ جب کہ تحریری آئین میں ترمیم خاص قرارداد دو تہائی اکثریت سے پاس کی جاتی ہے اور برطانیہ میں پارلیمنٹ سپریم ہے ۔ اس کا اپنا ایک تاریخی تناظر ہے۔ کیونکہ وہاں کے پارلیمنٹ نے بادشاہ سے سارے اختیارات چھینے تھے ۔
اور اس طرح آئین کی آفاقی تھیوری میں بنیادی ڈھانچہ Basic Structure وضع ہوا اور اس طرح سے یہ بات واضح ہوئی کہ وہ آئین جس سے بنیادی حقوق نکل جائیں وہ پھر آئین ہی ہوتا اور اس طرح کہیں چار ستون اور نہیں ہیں جو وضع ہیں ۔ ہندوستان نے سیکیولرزم کو بھی ایک ستون قرار دے دیا جوکہ آئین میں ترمیم کرکے نہیں نکالا جاسکتا۔ یہ ہندوستان کی سپریم کورٹ کا کمال ہے جس نے ریاست کو مذہب سے الگ کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ۔
ہمارے آئین کا بھی Basic Structure ہے ۔ اور وہ بنیادی ڈھانچہ اچکزئی کیس ہو یا ظفر علی شاہ کیس ہو اس میں دہرایا گیا ہے۔ مگر بد نصیبی سے ہمارے ہاں اب تک نظریہ ضرورت Doctrine of Necessity کا اطلاق ہوتا ہے۔ 1973 کا آئین دو مرتبہ براہ راست اس کا شکار ہوا ۔ اور پھر تین مرتبہ آرٹیکل 58(2)(B) کے ذریعے اس کا شکار ہوا ۔ آرٹیکل 58(2)(B) بنیادی ڈھانچے سے تصادم میں تھی مگر کورٹ خاموش رہی۔ بنیادی ڈھانچے کا سوال دراصل کورٹ کے اختیارات کو پارلیمنٹ کے اختیارات کے برابر کرتا ہے اور مقننہ کے علاوہ بنیادی آئینی اداروں کی رہنمائی آئین کرتا ہے اور اس طرح آئین سپریم ہوجاتا ہے ۔
سر جان مارشل کے ماربری کیس میں فیصلہ سنانے کے پچاس سال بعد امریکا کے چیف جسٹس Ear Warren لکھتے ہیں:"Marbury Vs Madison rooted this fundamental principle in American constitution Law as our original contribution to the science of law"
کوئی بھی آئین تب تک اپنی جڑ نہیں پکڑ سکتا جب تک وہ اپنا بنیادی ڈھانچہ نہ وضع کرسکے ۔ اور پھر یہ نہیں کہ یہ پارلیمنٹ یا عدالتوں کے درمیان اختیارات کی رسہ کشی ایک رات میں ختم ہوتی ہے اس میں دہائیاں، کبھی کبھی تو صدیاں لگ جاتی ہیں ۔ پارلیمنٹ صرف وہ ترامیم کرسکتی ہے جس سے آئین کی روح اور زندہ ہو۔ کورٹس اپنی تشریح کے اختیارات کو بھی اس تناظر میں دیکھے ۔ جس طرح پارلیمنٹ اپنی حد سے تجاوز کرسکتی ہے اپنی ترمیم کے حق کو غلط استعمال کرکے اس طرح کورٹس بھی تشریح کے اختیار کو غلط استعمال کرکے judicial tyrany(عدالتی آمریت) مسلط کرسکتی ہے ۔
بات واضح ہے فوجی عدالتیں "Due Process" سے گریزاں و عاری ہیں ۔ اس طرح وہ آئین کے آرٹیکل چار اور پانچ سے تصادم میں ہیں۔ شیخ لیاقت حسین کیس کہتا ہے کہ ایک دہشتگرد جب کسی معصوم کی جان لیتا ہے وہ آئین کے آرٹیکل 9 کی خلاف ورزی کرتا ہے کیونکہ کسی کی جان اگر لی بھی جائے تو قانون کے پورے تقاضے (Due Process) دے کر لی جائے اور اس طرح اگر کوئی عدالت بھی کسی ملزم کی جان بغیر Due Processلے تو وہ بھی آئین کے آرٹیکل 9 کے تصادم میں ہے ۔
اب بھی جس طرح فوجی عدالتیں Army Act 1952 کے تحت جس طرح چل رہی ہیں وہ آئین سے تصادم میں ہیں خصوصاً اس کا سیکشن 133 جو اپیل کا حق چھینتا ہے لیکن فوجی عدالتیں صرف فوجی لوگوں کے لیے ہوتی ہیں ۔ انھیں سول سماج سے الگ رکھنا ہوتا ہے۔ اگر آئین میں ترمیم کرکے ان عدالتوں کا دائرہ کار سول سماج تک وسیع کیا جائے گا تو پھر آپ کو آئین کے آرٹیکل 8(1)میں ترمیم کرنی پڑ جائے گی جو ہر شہری کو بنیادی حقوق دیتا ہے تو پھر آپ کو آئین کے 199(1) میں بھی ترمیم کرنی پڑ جائے گی۔
تو جب ایسے حقوق کی انحرافی اگر ریاست کرے تو آپ کو اعلیٰ عدالت میں جانے کا حق دیتی ہے ۔ آپ کو پھر آرٹیکل چار اور پانچ میں بھی ترمیم کرنی پڑ جائے گی۔ تو خود آئین کے آرٹیکل 245 میں بھی ترمیم کرنی پڑ جائے گی جو آپ کو فوج کی معاونت کے لیے منگوانے کا حق دیتا ہے ۔ فوج معاونت کے لیے منگوانا اگر عدالتوں کو بھی پڑے تو وہ بھی آئین کے آرٹیکل 90 کے تحت کرسکتی ہے مگر کیا فوجی عدالتیں Due Process دے سکتی ہیں ۔ کیا ان پر Cr.Pc کا اطلاق ہوتا ہے۔
کیا وہاں پر آئین میں دیے ہوئے حقوق کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ ہمارے آئین میں آرٹیکل 9 سے لے کر آرٹیکل 28 تک جو بنیادی حقوق ہیں اس میں سے 70 فیصد کا اطلاق کرمنل ٹرائل پر ہوتا ہے اور فوجی عدالتیں، دہشتگردوں کے لیے امریکا کی طرح دوسرے ملکوں کے شہریوں کے لیے نہیں بلکہ اپنے شہریوں کو لائیں گی۔ یہ اتنا آسان سوال نہیں ہے جس کا آسان حل ہو ۔ اگر آئین میں اتنی ترامیم کرکے فوجی عدالتوں کو آئین میں جذب کیا جائے گا توآئین کی ہئیت تبدیل ہو سکتی ہے۔
ایک ایسا آئین جو ابھی تک ضیا الحق کی لائی ہوئی غیر آئینی ترامیم کو نہیں نکال سکا اس لیے کہ وہ مذہب کے لبادے میں کی گئی ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ ان ترامیم نے آئین کی آدھی روح مسخ کردی ہے۔ باقی بچی آدھی روح اگر آپ مسخ کرنا چاہتے ہیں تو یہ شوق بھی پورا کرلیجیے اور اس طرح بال کورٹس کی ''ڈی'' میں آجائے گی۔ پھر دیکھتے ہیں کہ کورٹس کیا کرتی ہیں ۔
ہمارے ہاں Act کورٹس کا قانون پڑا ہے ۔ ضرورت اس کو اور بہتر کرنے کی ہے ۔ فوجی عدالتیں اس وسیع تناظر میں چھوٹی سی بات ہے۔ ابھی میڈیا کے اندر بہت سے اصول وضع کرنے ہیں ۔ پولیس کے اندر انقلابی اصلاحات کی ضرورت ہے ۔ مدرسوں پر قابو پانا ہے اور تاریخ کو درست کرنا ہے، بچوں کے نصاب سے نفرتیں نکالنی ہیں ۔ ہمیں فوجی عدالتوں میں نہیں الجھنا چاہیے ۔ یہ بالکل صحیح کہا آپ نے کہ چھوٹا معاملہ ہے ۔ میاں صاحب کے لیے ضروری ہے کہ وہ Statesman بننے کی کوشش کریں نا کہ Score Setting کریں ۔
It is the theory of written constitution that an Act of legislative repugnant to the constitution is void.
یہ وہ بات تھی جس نے تحریری آئین کو برطانیہ کے غیر تحریری آئین سے الگ کردیا کیونکہ برطانیہ میں ہر ایکٹ وہ آئین والا ہو یا سادہ قانون ہو سادہ اکثریت سے پاس کیا جاسکتا ہے ۔ جب کہ تحریری آئین میں ترمیم خاص قرارداد دو تہائی اکثریت سے پاس کی جاتی ہے اور برطانیہ میں پارلیمنٹ سپریم ہے ۔ اس کا اپنا ایک تاریخی تناظر ہے۔ کیونکہ وہاں کے پارلیمنٹ نے بادشاہ سے سارے اختیارات چھینے تھے ۔
اور اس طرح آئین کی آفاقی تھیوری میں بنیادی ڈھانچہ Basic Structure وضع ہوا اور اس طرح سے یہ بات واضح ہوئی کہ وہ آئین جس سے بنیادی حقوق نکل جائیں وہ پھر آئین ہی ہوتا اور اس طرح کہیں چار ستون اور نہیں ہیں جو وضع ہیں ۔ ہندوستان نے سیکیولرزم کو بھی ایک ستون قرار دے دیا جوکہ آئین میں ترمیم کرکے نہیں نکالا جاسکتا۔ یہ ہندوستان کی سپریم کورٹ کا کمال ہے جس نے ریاست کو مذہب سے الگ کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ۔
ہمارے آئین کا بھی Basic Structure ہے ۔ اور وہ بنیادی ڈھانچہ اچکزئی کیس ہو یا ظفر علی شاہ کیس ہو اس میں دہرایا گیا ہے۔ مگر بد نصیبی سے ہمارے ہاں اب تک نظریہ ضرورت Doctrine of Necessity کا اطلاق ہوتا ہے۔ 1973 کا آئین دو مرتبہ براہ راست اس کا شکار ہوا ۔ اور پھر تین مرتبہ آرٹیکل 58(2)(B) کے ذریعے اس کا شکار ہوا ۔ آرٹیکل 58(2)(B) بنیادی ڈھانچے سے تصادم میں تھی مگر کورٹ خاموش رہی۔ بنیادی ڈھانچے کا سوال دراصل کورٹ کے اختیارات کو پارلیمنٹ کے اختیارات کے برابر کرتا ہے اور مقننہ کے علاوہ بنیادی آئینی اداروں کی رہنمائی آئین کرتا ہے اور اس طرح آئین سپریم ہوجاتا ہے ۔
سر جان مارشل کے ماربری کیس میں فیصلہ سنانے کے پچاس سال بعد امریکا کے چیف جسٹس Ear Warren لکھتے ہیں:"Marbury Vs Madison rooted this fundamental principle in American constitution Law as our original contribution to the science of law"
کوئی بھی آئین تب تک اپنی جڑ نہیں پکڑ سکتا جب تک وہ اپنا بنیادی ڈھانچہ نہ وضع کرسکے ۔ اور پھر یہ نہیں کہ یہ پارلیمنٹ یا عدالتوں کے درمیان اختیارات کی رسہ کشی ایک رات میں ختم ہوتی ہے اس میں دہائیاں، کبھی کبھی تو صدیاں لگ جاتی ہیں ۔ پارلیمنٹ صرف وہ ترامیم کرسکتی ہے جس سے آئین کی روح اور زندہ ہو۔ کورٹس اپنی تشریح کے اختیارات کو بھی اس تناظر میں دیکھے ۔ جس طرح پارلیمنٹ اپنی حد سے تجاوز کرسکتی ہے اپنی ترمیم کے حق کو غلط استعمال کرکے اس طرح کورٹس بھی تشریح کے اختیار کو غلط استعمال کرکے judicial tyrany(عدالتی آمریت) مسلط کرسکتی ہے ۔
بات واضح ہے فوجی عدالتیں "Due Process" سے گریزاں و عاری ہیں ۔ اس طرح وہ آئین کے آرٹیکل چار اور پانچ سے تصادم میں ہیں۔ شیخ لیاقت حسین کیس کہتا ہے کہ ایک دہشتگرد جب کسی معصوم کی جان لیتا ہے وہ آئین کے آرٹیکل 9 کی خلاف ورزی کرتا ہے کیونکہ کسی کی جان اگر لی بھی جائے تو قانون کے پورے تقاضے (Due Process) دے کر لی جائے اور اس طرح اگر کوئی عدالت بھی کسی ملزم کی جان بغیر Due Processلے تو وہ بھی آئین کے آرٹیکل 9 کے تصادم میں ہے ۔
اب بھی جس طرح فوجی عدالتیں Army Act 1952 کے تحت جس طرح چل رہی ہیں وہ آئین سے تصادم میں ہیں خصوصاً اس کا سیکشن 133 جو اپیل کا حق چھینتا ہے لیکن فوجی عدالتیں صرف فوجی لوگوں کے لیے ہوتی ہیں ۔ انھیں سول سماج سے الگ رکھنا ہوتا ہے۔ اگر آئین میں ترمیم کرکے ان عدالتوں کا دائرہ کار سول سماج تک وسیع کیا جائے گا تو پھر آپ کو آئین کے آرٹیکل 8(1)میں ترمیم کرنی پڑ جائے گی جو ہر شہری کو بنیادی حقوق دیتا ہے تو پھر آپ کو آئین کے 199(1) میں بھی ترمیم کرنی پڑ جائے گی۔
تو جب ایسے حقوق کی انحرافی اگر ریاست کرے تو آپ کو اعلیٰ عدالت میں جانے کا حق دیتی ہے ۔ آپ کو پھر آرٹیکل چار اور پانچ میں بھی ترمیم کرنی پڑ جائے گی۔ تو خود آئین کے آرٹیکل 245 میں بھی ترمیم کرنی پڑ جائے گی جو آپ کو فوج کی معاونت کے لیے منگوانے کا حق دیتا ہے ۔ فوج معاونت کے لیے منگوانا اگر عدالتوں کو بھی پڑے تو وہ بھی آئین کے آرٹیکل 90 کے تحت کرسکتی ہے مگر کیا فوجی عدالتیں Due Process دے سکتی ہیں ۔ کیا ان پر Cr.Pc کا اطلاق ہوتا ہے۔
کیا وہاں پر آئین میں دیے ہوئے حقوق کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ ہمارے آئین میں آرٹیکل 9 سے لے کر آرٹیکل 28 تک جو بنیادی حقوق ہیں اس میں سے 70 فیصد کا اطلاق کرمنل ٹرائل پر ہوتا ہے اور فوجی عدالتیں، دہشتگردوں کے لیے امریکا کی طرح دوسرے ملکوں کے شہریوں کے لیے نہیں بلکہ اپنے شہریوں کو لائیں گی۔ یہ اتنا آسان سوال نہیں ہے جس کا آسان حل ہو ۔ اگر آئین میں اتنی ترامیم کرکے فوجی عدالتوں کو آئین میں جذب کیا جائے گا توآئین کی ہئیت تبدیل ہو سکتی ہے۔
ایک ایسا آئین جو ابھی تک ضیا الحق کی لائی ہوئی غیر آئینی ترامیم کو نہیں نکال سکا اس لیے کہ وہ مذہب کے لبادے میں کی گئی ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ ان ترامیم نے آئین کی آدھی روح مسخ کردی ہے۔ باقی بچی آدھی روح اگر آپ مسخ کرنا چاہتے ہیں تو یہ شوق بھی پورا کرلیجیے اور اس طرح بال کورٹس کی ''ڈی'' میں آجائے گی۔ پھر دیکھتے ہیں کہ کورٹس کیا کرتی ہیں ۔
ہمارے ہاں Act کورٹس کا قانون پڑا ہے ۔ ضرورت اس کو اور بہتر کرنے کی ہے ۔ فوجی عدالتیں اس وسیع تناظر میں چھوٹی سی بات ہے۔ ابھی میڈیا کے اندر بہت سے اصول وضع کرنے ہیں ۔ پولیس کے اندر انقلابی اصلاحات کی ضرورت ہے ۔ مدرسوں پر قابو پانا ہے اور تاریخ کو درست کرنا ہے، بچوں کے نصاب سے نفرتیں نکالنی ہیں ۔ ہمیں فوجی عدالتوں میں نہیں الجھنا چاہیے ۔ یہ بالکل صحیح کہا آپ نے کہ چھوٹا معاملہ ہے ۔ میاں صاحب کے لیے ضروری ہے کہ وہ Statesman بننے کی کوشش کریں نا کہ Score Setting کریں ۔