سرکار دوعالم ﷺ کا خلق عظیم آپ دشمنوں کے لیے بھی سراپا رحمت تھے

آپ ﷺ نے ایک مقدمے کا فیصلہ بغیر مذہب اور عقیدے کے لحاظ کے حقائق کی بنا پر یہودی کے حق میں فرمایا۔

آپ ﷺ نے ایک مقدمے کا فیصلہ بغیر مذہب اور عقیدے کے لحاظ کے حقائق کی بنا پر یہودی کے حق میں فرمایا۔ فوٹو : فائل

ISLAMABAD:
یہ عام سی بات ہے کہ انسان اپنے عزیزوں، رشتے داروں اور دوست احباب سے تو حسن سلوک کرتا ہے، مگر اپنے کسی دشمن سے تو شاید ہی کوئی حسن سلوک کرے۔ مگر جن کا ہم کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوئے اور جن کی غلامی پر ہم کو ناز ہے، وہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفٰی ﷺ کا حسن سلوک دشمنوں اور جانی دشمنوں تک کے لیے بھی، اس قدر وسیع اور عام ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔

ایک بار ایک یہودی اور ایک مسلمان کا مقدمہ حضور ﷺ کی خدمت اقدس میں پیش ہوا، آپ ﷺ نے مذہب اور عقیدے کا لحاظ کیے بغیر حقائق کی بنا پر یہودی کے حق میں فیصلہ فرمایا۔ عدل و انصاف پر زور دیتے ہوئے آپ ﷺ نے قرآن کریم کی یہ تعلیم پیش فرمائی ہے کہ (سورہ مائدہ ) کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم بے انصافی سے کام لو، ہمیشہ عدل و انصاف کو قائم کرو، یہی تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔

صلح حدیبیہ کے موقع پر حضور نبی کریم ﷺ نے مشرکین مکہ سے معاہدہ کیا تھا کہ اگر مکہ سے کوئی شخص مسلمان ہوکر مدینہ حضور ﷺ کے پاس پہنچے گا تو اسے واپس بھیجا جائے گا اور اگر کوئی مسلمان مدینہ سے واپس مکہ چلا جائے گا تو اسے واپس نہیں کیا جائے گا۔ بہت سے مسلمانوں کو مکہ میں اذیتیں دی جاتی تھیں اور وہ مجبور تھے کہ مکہ سے ہجرت کرکے حضور ﷺ کے پاس مدینہ آجائیں، ایسے ہی لوگوں میں ابو جندلؓ اور سہیلؓؓ بھی شامل تھے، جن کو مکہ میں اسلام قبول کرنے کی وجہ سے سخت اذیتیں دی جاتی تھی اس لیے وہ مدینہ آگئے تھے۔ لیکن آپ ﷺ نے دشمنوں سے بھی معاہدے کی اس حد تک پاسداری کی کہ ابوجندل کو واپس مکہ بھجوادیا حالاںکہ انہیں وہاں سخت اذیتیں دی جاتی تھیں۔

فتح خیبر کے موقع پر مفتوح یہودیوں نے درخواست کی کہ ہمیں بے دخل نہ کیا جائے، ہم نصف پیداوار مسلمانوں کے حوالے کردیا کریں گے، حضور ﷺ نے ان کی درخواست کو قبول فرمالیا۔ مگر یہودیوں نے اس احسان کے باوجود حضور ﷺ سے یہ سلوک کیا کہ ایک یہودی عورت نے حضور ﷺ کو زہرملا گوشت کھلا کر شہید کرنے کی کوشش کی۔ حضور ﷺ کو جب اس خوف ناک سازش کا علم ہوا تو آپ ﷺ نے اسے طلب فرمایا اور اس نے اقرار کیا کہ بے شک میری نیت آپ کو قتل کرنا تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا مگر اﷲ کی منشا نہ تھی کہ تیری آرزو پوری ہوجائے۔ صحابہؓ نے اسے قتل کرنا چاہا تو آپ ﷺ نے منع فرمادیا۔ حضور ﷺ نے جب اس عورت سے پوچھا کہ تمہیں اس ناپسندیدہ فعل پر کس بات نے آمادہ کیا تو اس نے جواب دیا، میری قوم سے آپ ﷺ کی لڑائی ہوئی تھی، میرے دل میں آیا کہ آپ ﷺ کو زہر دے دیتی ہوں اگر واقعی آپ نبی ہوئے تو بچ جائیں گے۔ رسول ﷺ نے اسے معاف فرمادیا۔ جانی دشمنوں کے ساتھ ایسا سلوک یقینا عفو کی مثال کامل ہے جو تاریخ عالم میں کہیں نہیں مل سکتی۔

جنگ خیبر میں ابھی محاصرہ جاری تھا کہ ایک یہودی رئیس کا گلہ بان جو اس کی بکریاں چرایا کرتا تھا، مسلمان ہو گیا۔ مسلمان ہونے کے بعد اس نے کہا یارسول اﷲ ﷺ! اب میں ان لوگوں کے پاس تو جا نہیں سکتا اور یہ بکریاں اس یہودی رئیس کی امانت ہیں اب میں کیا کروں؟ سرکار ﷺ نے فرمایا بکریوں کا منہ قلعے کی طرف کر دو اور ان کو پیچھے سے ہانک دو، اﷲ خود انہیں ان کے مالک کے پاس پہنچادے گا۔ چناںچہ اس نے ایسا ہی کیا اور بکریاں قلعے کے پاس چلی گئیں جہاں سے قلعے والوں نے ان کو اندر داخل کرلیا۔ اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ نبی پاک ﷺ کس قدر امانت اور دیانت کے اصولوں پر عمل پیرا تھے۔


کیا آج بھی ایسی کوئی مثال مل سکتی ہے کہ دشمن کے جانور ہاتھ آجائیں اور پھر انہیں واپس لوٹادیا جائے، کیا اس کے صاف معنی یہ نہ تھے کہ دشمن کے لیے مہینوں کی غذا کا سامان مہیا کر دیا جائے۔ مگر رحمت عالم ﷺ نے یہ خطرہ مول لے لیا، لیکن یہ پسند نہیں فرمایا کہ اس مسلمان کی امانت داری میں فرق آئے جس کے سپرد وہ بکریاں تھیں۔ ایک اور موقع پر آپ ﷺ جہاد میں مشغول تھے، دشمنوں نے آپ ﷺ کی صفوں میں کچھ بدنظمی پائی اور ایک کافر تلوار لے کر آپ ﷺ کے سر پر آگیا اور کہنے لگا، محمد ﷺ اب آپ کو کون بچاسکتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا اﷲ۔ یہ سن کر اس پر ایسی دہشت طاری ہوئی کہ تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر گرگئی، آپ ﷺ نے فورا اس کی تلوار اٹھالی اور فرمایا اب تجھے کون بچا سکتا ہے؟ وہ کافر بولا آپ نے مجھے اسیر کرلیا اب دوسرے قید کرنے والوں سے بہتر سلوک مجھ سے کیجیے۔



آپ ﷺ نے اسے معاف فرما دیا۔ جب وہ کافر اپنے لوگوں میں واپس آیا تو کہنے لگا میں اس وقت دنیا کے سب سے بڑے انسان کے پاس سے آرہا ہوں۔ جس کسی نے حضور ﷺ کو آزار پہنچایا، اگرچہ آپ ﷺ بااختیار تھے، لیکن آپ ﷺ نے انہیں معاف فرمادیا۔ آپ ﷺ سب سے زیادہ حلیم اور معاف فرمانے والے تھے۔ ہر مخلوق پر ہمیشہ رحم فرماتے۔ ایک موقع پر ایک یہودی نے حضور اکرم ﷺ سے قرض کی ادائی میں سختی کرتے ہوئے گستاخی کے کلمات کہے اور حضور ﷺ کے گلے میں چادر ڈال کر بل دیا، آپ ﷺ کی رگیں ابھر آئیں، حضرت عمرؓ اس موقع پر موجود تھے، وہ یہ صورت حال دیکھ کر بے قابو ہوگئے، انہوں نے بڑی سختی سے یہودی کو ڈانٹا، یہ سن کر رحمت عالم ﷺ نے حضرت عمرؓ سے فرمایا عمر! تمہیں ایسا نہیںکرنا چاہیے تھا، تمہیں چاہیے تھا کہ اسے نرمی سے سمجھاتے، کیوںکہ ابھی اس کے قرض کی ادائی کی میعاد میں تین دن باقی ہیں اور تمہیں مجھے یہ کہنا چاہیے تھا کہ قرض وقت پر ادا کرو۔ اس کے بعد حضرت عمر ؓ کو حکم دیا کہ تم میری طرف سے اس کا قرض بے باق کر دو اور بیس صاع کھجور مزید اپنی طرف سے اس سخت کلامی کے تاوان کے طور پر اسے ادا کرو۔

یہ رحمت دوعالم ﷺ کا کردار ہے کہ کس طرح آپ ﷺ نے اپنے دشمنوں سے معاملہ فرمایا۔ کعب بن زبیر جو عرب کا مشہور شاعر تھا اور ہمیشہ سرکار دوعالم ﷺ اور اسلام کی مخالفت میں شعر کہہ کر لوگوں کو اشتعال دلایا کرتا تھا، اس کے دل کو اﷲ نے بدل دیا، اسے بھی آپ ﷺ نے معاف فرمادیا۔ وہ آپ ﷺ کی مدح میں ایک مشہور قصیدہ لے کر حاضر ہوا اور اسلام قبول کیا۔ یہ وہی قصیدہ ہے جو بانت سعاد کے نام سے مشہور ہے۔ غزوہ بنو مصطلق میں رئیس المنافقین عبداﷲ بن ابی سلول نے سرکار دوعالم ﷺ کی شان میں گستاخی کا یہ فقرہ کہا کہ مدینہ جا کر میں جو سب سے زیادہ معزز ہوں سب سے زیادہ ذلیل شخص کو مدینہ سے نکلوادوں گا۔

ایسی گستاخی پر صحابہ کرام ؓ نے چاہا کہ اسے قتل کر دیا جائے، کیوںکہ یہ گستاخ رسول ﷺ ہے۔ مگر حضور پاک ﷺ نے انہیں اس کی اجازت نہیں دی۔ گستاخی کے اس فقرے کا جب اس کے مخلص بیٹے کو علم ہوا تو اس نے حضور ﷺ سے اپنے گستاخ باپ کو خود قتل کردینے کی اجازت طلب کی، آپ ﷺ نے اسے بھی منع کردیا اور فرمایا کہ ہم تمہارے باپ سے نرمی اور احسان کا معاملہ کریں گے۔ اس کے باوجود غیرت مند بیٹے نے مدینہ میں داخل ہونے سے قبل اپنے باپ کو گھوڑے سے اتار لیا اور اس سے جب تک یہ نہیں کہلوایا کہ وہ خود مدینہ کا سب سے زیادہ ذلیل اور محمد ﷺ سب سے زیادہ معزز ہیں، اسے نہیں چھوڑا۔ یہی عبداﷲ بن ابی سلول جب فوت ہوا تو اس کے بیٹے نے حضور پاک ﷺ سے جنازہ پڑھنے کی درخواست فرمائی، حضور ﷺ نے فرمایا کہ میں جنازہ پڑھا دیتا ہوں، یہ سن کو حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اﷲ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ اگر آپ ﷺ ستر بار بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا کریں، پھر بھی اﷲ ان کی مغفرت نہیں فرمائے گا۔ یہ سن کر سراپا رحمت ﷺ نے فرمایا کہ میں اس کے لیے اس سے زیادہ بار مغفرت کی دعا کروں گا۔

آج کا مقدس دن بھی ہم سے یہی تقاضا کر رہا ہے کہ ہم سب اپنے نبی پاک ﷺ کی بتائی ہوئی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں اور آپس میں پیار، رواداری، محبت اور بھائی چارہ قائم کریں۔
اﷲ ہمیں اپنے محبوب پاک ﷺ کے صدقے اور آج کے دن کی عظمتوں کے طفیل معاف فرمائے اور پاکستان کی حفاظت فرمائے، آمین۔
Load Next Story