امریکانے طالبان سے امن معاہدے کاآپشن ختم کردیانیویارک ٹائمز
امریکی چاہتے ہیں اتحادیوں کے جانے کے بعدافغان خود آپس میں کوئی معاہدہ کریں
افغانستان میں امریکی فوجیوں میں اضافے کے باوجود طالبان کا خطرہ موجود ہے۔
امریکی جنرلزاورسویلین حکام اس بات کوتسلیم کرتے ہیں کہ وہ افغانستان میں امن کیلیے طالبان سے امن معاہدہ نہ کرسکے اور امن معاہدے کیلیے امیدیں بھی کم ہورہی ہیں، جنگ کے خاتمے کے سابقہ امریکی منصوبے کے برعکس اب ایسے اہداف سیٹ کیے جارہے ہیں کہ مغربی فورسز کے جانے کے بعد افغان خود آپس میں کوئی معاہدہ کریں اور پاکستان کو بھی اعتماد میں لیا جائے، فوجی اور سفارتی حکام کاکہنا ہے کہ رواں سال طالبان رہنمائوں سے براہ راست مذاکرات کی کوششیں کی گئیں مگرنمایاں پیش رفت کی توقع 2014ء کے بعدہی ہے جب نیٹو فوجیوں کی بڑی تعداد افغانستان چھوڑچکی ہوگی۔
ایک اتحادی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ آئندہ کچھ سالوں تک امن معاہدہ کاامکان نہیں ہے، طالبان ایک بہت ہی لچک والادشمن ہے اوریہ ایک مستقل جنگ ہے اورکئی سالوں تک جاری رہ سکتی ہے۔طالبان سے مذاکرات میں ناکامی صدر اوباما کے حکم پر بڑھائے گئے فوجیوں کی کامیابیوں کو مشکوک کرتی ہے جبکہ 2009ء کے بعد اضافی30 ہزار فوجیوں نے طالبان کے زیرقبضہ کافی بڑے علاقے کو واپس لیا ہے مگر بہت سے اندازے غلط بھی ثابت ہوئے ہیں۔
اوباما حکومت کے نقادوں کا کہنا ہے کہ 2014ء کی ڈیڈلائن پراتفاق کرکے امریکاکی طاقت کو کم کیاگیا،یہ طالبان کو ایسے انعام کے مترادف ہے جسے وہ ایک دہائی سے ڈھونڈ رہے تھے، اوباما انتظامیہ اپنے موقف کا دفاع اس طرح کرتی ہے کہ وہ افغان حکومت اور فوج کے مکمل ذمے داریاں سنبھالنے پرہی یہاں سے جائیگی۔
امریکی جنرلزاورسویلین حکام اس بات کوتسلیم کرتے ہیں کہ وہ افغانستان میں امن کیلیے طالبان سے امن معاہدہ نہ کرسکے اور امن معاہدے کیلیے امیدیں بھی کم ہورہی ہیں، جنگ کے خاتمے کے سابقہ امریکی منصوبے کے برعکس اب ایسے اہداف سیٹ کیے جارہے ہیں کہ مغربی فورسز کے جانے کے بعد افغان خود آپس میں کوئی معاہدہ کریں اور پاکستان کو بھی اعتماد میں لیا جائے، فوجی اور سفارتی حکام کاکہنا ہے کہ رواں سال طالبان رہنمائوں سے براہ راست مذاکرات کی کوششیں کی گئیں مگرنمایاں پیش رفت کی توقع 2014ء کے بعدہی ہے جب نیٹو فوجیوں کی بڑی تعداد افغانستان چھوڑچکی ہوگی۔
ایک اتحادی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ آئندہ کچھ سالوں تک امن معاہدہ کاامکان نہیں ہے، طالبان ایک بہت ہی لچک والادشمن ہے اوریہ ایک مستقل جنگ ہے اورکئی سالوں تک جاری رہ سکتی ہے۔طالبان سے مذاکرات میں ناکامی صدر اوباما کے حکم پر بڑھائے گئے فوجیوں کی کامیابیوں کو مشکوک کرتی ہے جبکہ 2009ء کے بعد اضافی30 ہزار فوجیوں نے طالبان کے زیرقبضہ کافی بڑے علاقے کو واپس لیا ہے مگر بہت سے اندازے غلط بھی ثابت ہوئے ہیں۔
اوباما حکومت کے نقادوں کا کہنا ہے کہ 2014ء کی ڈیڈلائن پراتفاق کرکے امریکاکی طاقت کو کم کیاگیا،یہ طالبان کو ایسے انعام کے مترادف ہے جسے وہ ایک دہائی سے ڈھونڈ رہے تھے، اوباما انتظامیہ اپنے موقف کا دفاع اس طرح کرتی ہے کہ وہ افغان حکومت اور فوج کے مکمل ذمے داریاں سنبھالنے پرہی یہاں سے جائیگی۔