حکومت نے اعتماد میں نہیں لیا اس لئے آئینی ترمیم کی حمایت نہیں کرسکتے مولانا فضل الرحمان
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ اصولی طور پر فوجی عدالتوں کے حق میں نہیں لیکن قومی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے اسے قبول کیا تاہم حکومت نے ملٹری کورٹس کے لئے آئینی بل پر ہمیں تاریکی میں رکھا اس لئے اس کی حمایت نہیں کرسکتے۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت سے قبل پریس کانفرنس کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ اصولی طور پر فوجی عدالتوں کے حق میں نہ تھے لیکن حکومت اور ریاستی اداروں کی جانب سے اسے غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدام کہا گیا تو اسے تسلیم کرلیا لیکن جب آئینی مسودہ تیار ہوا تو اس وقت ہمیں اعتماد میں نہیں لیا گیا، یہ شکوہ برقرار ہے کہ وزیراعظم نے حزب اختلاف کی جماعتوں کو مسودہ تیار کرنے میں شریک رکھا لیکن اپنی اتحادی جماعت کو تاریکی اور بے خبری میں رکھا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے مسودہ پڑھا ہے اور سمجھتے ہیں کہ دہشتگردی کا خاتمہ سب کا متفقہ مسئلہ ہے اور اگر صرف اس میں مذہبی اداروں کو نشانہ بنایاجاتا ہے تو یہ متنازع ہوگا اور اس وقت تمام مذہبی ادارے حکومت، فوج اور قوم کی پشت پر ہیں اورموجودہ حالات میں تعاون کرنا چاہتے ہیں لیکن حکومت بضد ہے اور انہیں تصادم کی طرف لے جاناچاہتی ہے۔
سربراہ جے یو آئی (ف) نے کہا کہ پہلے سیاسی تصور پراتفاق ہونا چاہیئے اور اگر بنیادی تصور پر اتفاق ہوجائے تو معاملات حل ہوں گے، جس پوزیشن میں قانون لایا جارہا ہے اس پر اپنا ووٹ نہیں دے سکتے اس لئے ہماری تجاویز کو بھی آئینی ترمیم میں شامل کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ چاہتے ہیں کہ حکومت کے ساتھ مدارس کے معاملات پربات کی جائے اور تجویز ہے کہ قانون سازی کے لئے آج کا دن لازم نہیں کہ چند منٹوں میں ہاں یا نہیں میں معاملات طے کرلئے جائیں اور ملک اس کا متحمل نہیں ہوسکتا کہ متنازع چیزوں کو تسلیم کیا جائے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ جی ایچ کیو، پشاور، کامرہ ایئربیس پر حملہ کرنے والوں میں کونسے مدرسے کا طالبعلم تھا یا جنہیں پھانسیاں دی گئیں ان میں سے کس کا تعلق مدرسے سے تھا، جان بوجھ کر مدارس کو خوفناک بنا کر پیش کیا جارہا ہے، پہلے یہ تو دیکھ لیا جائے کہ حملے کرنے والے مسلمان بھی ہیں یا نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مدارس قانون کے مطابق کام کر رہے ہیں اور اور ہر سال اپنا آڈٹ دیتے ہیں، اگر کوئی غیر رجسٹرڈ مدارس ہیں تو انہیں فوری بند کردیا جائے لیکن ملک میں سرگرم این جی اوز آزادی سے کام کررہی ہیں ان کا کبھی آڈٹ نہیں کیا گیا۔