ضیاء محی الدین اپنے یا بیگانے پہلا حصہ

دنیا کا ہر اداکار میری رائے میں دو چیزوں کا مجموعہ ہوتا ہے، سخت شرمیلا پن اور نمود ونمائش کی خواہش۔

عجیب بات ہے کہ باوجود کوششوں کے ماضی میں ضیاء محی الدین سے کبھی مل نہ سکا۔ جب بستہ در بغل شوبز کے اسمارٹ ترین صحافی و اداکار اسد جعفری نے یقین دلایا کہ میں آپ کی ملاقات کراؤں گا، افسوس وہ اس دنیا سے چلے گئے۔ اسد جعفری کی رفاقت ضیاء محی الدین کے لیے بھنور کلی (توپ رکھنے کی گاڑی) کی تھی، وہ ضیاء کو اہل وطن سے ملانے والا عارضی پل تھا جسے دونوں نے مل کر تعمیر کیا تھاکیونکہ بقول اسد جعفری ضیاء اور وہ خود فلم ''آٓخر شب'' اور ''رہگزر'' کے بعد ''تو ہائے گل پکار میں چلاؤں ہائے دل'' کے صبر آزما شب و روز سے گزرے تھے ۔

بڑے دنوں بعد غالباً 73 ء میں وہ کراچی میٹ دی پریس میں رات کے وقت غازی صلاح الدین کے ہمراہ آئے ، صحافیوں سے سیر حاصل گفتگو کی ، جسمانی طور پر پستہ قد اور اپنے فن کے حوالہ سے بلند قامت ضیاء محی الدین نے خود ساختہ جلاوطنی میں پھر کئی سنگ میل عبور کیے مگر طعنہ زن ناقدوں نے فلم ، تھیٹر اور ٹی وی کے تناظر میں ان کے بارے میں کئی سوالات اٹھائے مگر ضیاء نے کبھی کسی سوال کا جواب نہیں دیا ، وجہ ان کے ذاتی طور پر اس شرمیلے پن کی ہے جس کا ذکر آغا ناصر صاحب نے اپنے مضمون میں کیا ہے ۔ اس مضمون میں ضیاء نے اپنے حوالے سے کہا کہ خود میں اور دنیا کا ہر اداکار میری رائے میں دو چیزوں کا مجموعہ ہوتا ہے، سخت شرمیلا پن اور نمود ونمائش کی خواہش۔ شرمیلاپن ہی انسان کو اپنی ذات کے اظہار کے لیے دوسری چیزوں کا سہارا لینے پر مجبور کرتا ہے۔

پریس کلب کی گفتگو میں انھوں نے اداکار کے لیے دو لفظوں کا فطری حوالہ دیا،ایک رعونتArrogance اور دوسرے Acceptance قبولیت ۔ بڑی زیادتی یہ ہوئی کہ اکثر لوگ اس شرمیلے پن کو ضیاء کی رعونت سے تعبیر کرتے ہیں ۔ خیر اسی عرصہ میں پی ٹی وی پر ضیاء محی الدین شو پیش ہوا تو فلمی زبان میں کھڑکی توڑ ثابت ہوا، ہوا کے رخ بدل گئے ساتھ ہی ضیا ء کی بہت ساری منزلیں سہل ہوگئیں ۔یہ شو اتنا ہی مقبول تھا جتنا اوپیرا ونفرے شو یا امیتابھ بچن کا کون بنے گا کروڑ پتی ۔ ٹی وی ناظرین کی اتنی بڑی قلب ماہیت ہوئی کہ تھیٹر سمیت فلم اور ٹی وی پر کئی نئے فنکار جلوہ گر ہوگئے ۔ جن کا ذکر آگے آئیگا، وہیں سے ضیاء کے تحت اللفظ میں شاعری ، نثر ، وائس اوور اور بیانیے کی الگ حکمرانی قائم ہوئی ۔ اس پر بھی بحث ہوگی کہ ایک منفرد باکمال اور مقبول Narrator سے لوگ کیا کیا توقعات رکھتے ہیں ۔

اس سے قبل جب کبھی ضیاء محی الدین کراچی ، لاہور اور اسلام آباد آتے تو ریڈیو پاکستان کراچی میں بطور خاص ایس ایم سلیم یا ضمیرالدین احمد صاحب ان کا انٹرویو کرتے ، ایک بار انھوں نے شیکسپیئر کے ڈرامہ کے کچھ ڈائیلاگ اپنی سحر انگیز اور چونکا دینے والی خوبصورت صداکاری میں ڈرامائیت کے ساتھ ایسے ادا کیے کہ طبیعت ہشاش بشاش ہو گئی ۔ اسی دور میں ماہنامہ ''ماہ نو'' میں ان کا ایک معلوماتی مضمون بہ عنوان '' ہمارا تھیٹر'' پڑھا ، ان دنوں مجھے ہالی ووڈ کی فلموں ، اداکاری اور تھیٹر سے چونکہ رغبت تھی، ایک جنون تھا کہ ملکی فلمی صنعت اور تھیٹر کو بھی ریاستی توجہ نصیب ہو اور ہمارے فنکار اور فلم اسٹارز کی عالمی سطح پر شناخت کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر تو ہو ۔ایک فلمی ہفت روزہ میں جز وقتی مضامین ترجمہ کرنے کا موقع ملا ۔

سیکھنے کے دن تھے ، انٹرویو کے لیے ایس اے چاؤلہ سے ملاقات کے لیے جامع کلاتھ مارکیٹ کے قریب پہنچا ، رٹز سینما کے ساتھ گلشن ٹیرس میں دفتر قائم تھا ، سامنے میجسٹک سینما تھا، اب وہاں کپڑے کی مارکیٹیں بن گئی ہیں ، دفتر میں داخل ہوا تو سامنے ایک ادھیڑ عمر پہلوان نما شخص کلف دار سفید ململ کا کرتا اور چوڑی دار پاجامہ پہنے لکھنے میں مصروف نظر آئے ، بعد میں پتا چلا کہ وہ سینئر صحافی عبدالوحید عرف خان صاحب تھے ، صاحب طرز ادیب اور بلا کے تیز رفتار مترجم تھے ۔ ان کے قریب رس گلوں کی چھوٹی سی مٹکی رکھی ہوئی تھی ، وہ لکھنے میں مصروف اور میں انھیں حسرت بھری نگاہوں سے بس دیکھتا رہا، کچھ دیر بعد انھوں نے نظر اٹھا کر مجھے دیکھا تو کہنے لگے کس سے ملنا ہے، میں نے مدعا بیان کیا تو پوچھا کہاں سے آئے ہو ، جواب دیا کہ لیاری سے، یہ سنتے ہی اچانک تیز آواز میں گویا ہوئے کہ وہاں تو ہمارے صحافی دوست رہتے ہیں اسرار عارفی، انھیں جانتے ہو؟ میں نے شرماتے گھبراتے ہوئے کہا وہ تو میرے ابّو ہیں ۔


واہ ! پھر آواز لگائی ،او شبنم جبلپوری کے بچے ، پلیٹیں لاؤ جلدی، یوں رس گلہ کھلا کر انھوں نے مجھے ہدایت کی کہ مضامین لکھتے رہو ، ترجمہ محنت سے کرو مگر سنو ، جب میں اس کتابچہ کا ترجمہ مکمل کر لوں اور اس کی ساری قسطیں چھپ جائیں تو کتاب اور میرا ترجمہ گھر لے جاکر بار بار پڑھ لو۔ وہ ترجمہ ملکہ حسن الزبتھ ٹیلر ، رچرڈ برٹن اور ریکس ہیری سن کی معرکتہ الٓارا فلم ''قلوپطرہ'' کی کہانی اور اس کی عکس بندی کی دلچسپت داستان تھی ۔تینوں اپنے عہد کے بڑے فلم اسٹار تھے۔ چاؤلہ صاحب غیر ملکی فلمی خبروں، مضامین اور رنگین تصاویر کے لیے ہالی ووڈ اور برطانیہ سے تازہ فلمی جرائد منگاتے تھے، فلم ، فلمز ان ریویو اور فلم کلچر کے ساتھ ساتھ سائٹ اینڈ ساؤنڈ بھی آتا تھا جسے برطانیہ کا موقر ترین جریدہ کہا جاتا تھا ۔ اس کی ایک اتھارٹی تھی ۔

میرا آنا جانا امریکن لائبریری اور برٹش کونسل میں لگا رہتا تھا ۔ ''اوتھیلو'' کے کردار میں لارنس اولیویئر کو سیاہ فام (حبشی) میک اپ میں دیکھا اور کئی اوراق الٹ پلٹ کیے تو معاً یہ خیال آیا کہ ضیاء نے یہ رول کب اور کس طرح کیا ہوگااس لیے کہ قادرالکلام شاعر سے ہی جس معیار کی غزل یا نظم کی امید باندھی جاسکتی اسی طرح شیکسپیئر کے کرداروں ہملیٹ ، فالسٹاف یا کنگ لیئر کے کردار کی ادائیگی کے لیے جسم و روح کے کرب واضطراب کی یکجائی عام اداکار کے وجود کا حصہ نہیں بن سکتی، وہ سب اوور یا انڈر ایکٹنگ کے زمرے میں آتے ہیں ۔ایک دن اچانک ضیاء محی الدین کے بارے میں کچھ تصاویر اور خبر نظر سے گزری یہی وہ چنگاری تھی جس نے ہمیں مسلسل اس کھوج میں لگائے رکھا کہ ضیاء محی الدین ہے کون ؟ یہ 60 ء کے وسط کا زمانہ ہے۔

غیرملکی رسائل و جرائد سے ضیاء کی برطانوی تھیٹر سے وابستگی کے بارے میں کافی مواد ملا پھر کراچی سے شایع ہونیوالے انگریزی روزنامہ ''مارننگ نیوز'' میں لندن سے ایک مکتوب ادارتی صفحہ پر چھپا جس میں شیکسپیئر کے ڈرامہ ''مرچنٹ آف وینس'' کے لالچی یہودی کردار ''شائی لاک'' میں ضیاء محی الدین کی اداکاری کی بیحد تعریف لکھی تھی اور انکشاف کیا گیا کہ انھیں برطانوی سٹیج کا پانچواں اہم نوجوان اداکار قراردیا گیا تھا ، ضیاء نے جدت یہ کی تھی کہ ینگ شائی لاک کا رول کیا ۔ان کی دوران اداکاری ایک تصویر بھی تھی ، دیگر ٹی وی اور سٹیج ڈراموں کا سلسہ جاری رہا جن کی تعداد 500 کے لگ بھگ ہے۔

ادھر میں نے اس ہفت روزہ میں ضیاء محی الدین کی رفتہ رفتہ خبریں اور باکس آئٹم تواتر سے لگانے شروع کردیے ، دو چار ہفتے بعد میری پکڑ ہوگئی ،اخبار کے مالک برہم ہوگئے کہ ضیاء محی الدین کون سے بھائی ،اس کی پبلیسٹی اتنی کیوں کررہے ہو، میں نے صفائی پیش کی کہ ضیا ء پاکستان کا سپوت ہے ہمارے لوگ ان سے صحیح واقف نہیں مگر وہ شوبز میں عالمی شناخت رکھتا ہے، ان کی شہرت شیکسپیئرین تھیٹر اور فلموں کے جانے پہچانے اداکار کی ہے ۔ اسے تو پاکستان بلا کر نیشنل تھیٹر کا سربراہ ہونا چاہیے ۔ یہ سرخیاں میں لگاتا جاتا تھا، تاہم مجھے ضیاء کے حوالہ سے مزید خبریں دینے سے روک لیا گیا ۔ بعد میں دوسرے اخبارات اور رسائل یا فلمی صفحات پر ضیاء کا ذکر ہوتا رہتا تھا، مساوات میں شمیم عالم کے کہنے پر ایک فیچر لکھا ،عنوان تھا '' جاوید جبار اور ضیاء محی الدین کی خاموش ثقافتی جنگ '' یہ وہی لمحے تھے جب ایک طرف جاوید جبار کی فلم ''مسافر'' (Beyond The last mountain)کی عکس بندی جاری تھی اور دوسری جانب ضیا محی الدین شو کا چرچا تھا ۔

یاد رہے پی آئی اے کی آرٹس اکیڈمی بھی ضیاء صاحب کی زیر نگرانی چلتی رہی ہے ، اس نے کئی غیر ملکی دورے کیے ، الغوزہ نواز خمیسو خان اور مصری خان جمالی سمیت الن فقیر ، ماہ رنگیں پری لیلیٰ فیم فیض محمد بلوچ عرف ''پشک'' ، محمد علی شہکی، عالمگیر، دیگر سنگرز ، کتھک اور فوک ڈانسر ، بانسری و ستار نواز وغیرہ اس اکیڈمی کی کہکشاں کو سجائے رہتے تھے مگر کب اس تشنہ سوال نے سر اٹھایا کہ عالمی شہرت یافتہ ضیاء محی الدین پورے ملک کی شوبز تاریخ میں صرف ایک نام کیوں؟دنیائے فلم ، تھیٹر اور ٹی وی چینلزکی باہمی مسابقت میں دوسرے نام کیوں اس افق پر جلوہ گر نہ ہوسکے ؟اس کا جواب آیندہ ملاحظہ فرمائیں۔ (جاری ہے)
Load Next Story