کرکٹ ورلڈ کپ پھر آسٹریلیا میں
خوشی کا وہ یاد گار لمحہ بیتے 23 برس ہو گئے ہیں مگر ذہن میں اب بھی بہت کچھ تازہ ہے۔
وہ لمحہ ہم پاکستانی کیسے بھول سکتے ہیں جب 25مارچ 1992ء کو رمیز راجہ نے عمران خان کی گیند پر رچرڈ النگورتھ کا کیچ پکڑا اور پاکستان پہلی بار کرکٹ کا عالمی چیمپئن بن گیا۔ملک آسٹریلیا تھا اور گراؤنڈ میلبورن۔ابتدائی راؤنڈ میں پاکستانی ٹیم کی حالت انتہائی پتلی تھی۔ انگلینڈ سے میچ بارش کی نذر نہ ہوتا یا آخری پول میچ میں سب سے کم پوائنٹس والی ٹیم آسٹریلیا ویسٹ انڈیز کو شکست نہ دیتی تو پاکستان سیمی فائنل میں نہیں پہنچ سکتا تھا۔
خوشی کا وہ یاد گار لمحہ بیتے 23 برس ہو گئے ہیں مگر ذہن میں اب بھی بہت کچھ تازہ ہے۔ 92 ء کا ڈے نائٹ فائنل اس لیے یاد آ گیا کہ ایک بار پھر ورلڈکپ کرکٹ ٹورنا منٹ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں کھیلا جا رہا ہے۔ 23 برس بعد پھر یہ ٹورنامنٹ فروری مارچ میں ہو گا۔ مجھے یاد ہے ماہ رمضان میں وہ ورلڈ کپ ہو رہا تھا اور قوم اپنی ٹیم کی جیت کے لیے مسلسل دعائیں مانگ رہی تھی۔ آج مجھے ہمارے گروپ ایڈیٹر عباس اطہر مرحوم کی وہ سرخی بھی یاد آ رہی ہے جو انھوں نے سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کے خلاف کامیابی کے بعد اخبار میں جمائی تھی۔ سرخیوں کے بے تاج بادشاہ شاہ جی کی مرضی یوں تھی ''پاکستان دعاؤں کی چھاؤں میں ورلڈ کپ کے فائنل میں پہنچ گیا''۔ 92ء کے عالمی کپ کا افتتاحی میچ میزبان ملکوں نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے درمیان تھا۔
نیوزی لینڈ نے یہ میچ جیتا اور پھر جیب اس کا مقدر بنتی چلی گئی جب تک کہ پاکستان نے اس کو آخری پول میچ میں نہیں ہرا دیا۔ اس کے بعد نیوزی لینڈ کی دوسری ہار بھی پاکستان کے ہاتھوں ہوئی جس میں انضام الحق کی محض 37 گیندوں پر 60 رنز کی طوفانی اننگز بھی شامل تھی۔ نیوزی لینڈ محض دو میچ ہار کر فائنل کی دوڑ سے باہر ہو گیا جب کہ پاکستان مشکل سے سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنے کے باوجود ورلڈ کپ جیت گیا۔ انگلینڈ کے خلاف جس میچ کا ذکر اوپر کیا ہے اس میں پاکستانی ٹیم 74 رنز پر آل آؤٹ ہو گئی تھی لیکن بارش مدد کو آ گئی ورنہ پاکستان کی ہار یقینی تھی۔ فائنل میں ٹاکرا پھر انگلینڈ سے ہوا تو اس بار بارش نے کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی۔ میلبورن آسٹریلیا کا سب سے بڑا کرکٹ گراؤنڈ ہے۔
ماہرین کا خیال تھا کہ 220 رنز کا ٹوٹل فائٹنگ ہو گا لیکن پاکستان پہلی باری میں 249 رنز کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ عامر سہیل اور رمیز جلد آؤٹ ہو گئے لیکن عمران خان 72اور جاوید میاندار58 کی 139 رنز کی پارٹنر شپ ' انضام الحق 42' اور وسیم اکرم33 کی طوفانی بیٹنگ نے اچھا ٹوٹل بنانے میں مد د دی۔ انگلینڈ کا آغاز بھی اچھا نہیں تھا۔ صرف 69 رنز پر چار بہترین کھلاڑی آؤٹ ہو چکے تھے۔
نیل فیئر برادر اور ایلن لیمب نے اسکور 141 رنز پر پہنچا دیا تو پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی بجنے لگی۔ کپتان نے اس موقع پر وسیم ا کرم کو آزمانے کا فیصلہ کیا جنہوں نے آتے ہی ایلن لیمب کو بولڈ کر دیا اور پھر اگلی ہی گینڈ پر کرس لوئس کی وکٹیں بھی اکھاڑ دیں۔ اس کے بعد عاقب جاوید نے فیئربرادر (62)کو وکٹ کیپر معین خان کے ہاتھوں کیچ کرایا تو پاکستان کی جیت یقینی ہو گئی۔ اس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔92ء کے ورلڈ کپ کے بیٹنگ ہیرو نیوزی لینڈ کے مارٹن کرو تھے۔ انھوں نے ٹورنامنٹ میں 456 رنز بنائے۔ وسیم اکرم 18 وکٹیں لے کر بولنگ کے ہیرو رہے۔
92ء کا ورلڈ کپ وہ پہلا ٹورنامنٹ تھا جس میں دونوں اینڈ سے نیا گیند استعمال کیا گیا۔2015ء کے ورلڈ کپ میں بھی ایسا ہی ہو گا۔ پاکستانی ٹیم اتنی مضبوط نہیں تھی کہ جس کے بارے میں کہا جا سکتا کہ یہ ورلڈ کپ کی فاتح ہو گی۔ اس سے زیادہ مضبوط ٹیمیں سیمی فائنل سے باہر ہو گئیں یا سیمی فائنل تک پہنچ ہی نہیں سکیں۔ عمران خان کی کپتانی کا ورلڈ کپ کی جیت میں انتہائی اہم کردار تھا۔ انھوں نے ٹیم کو ایک یونٹ میں ڈھال دیا اور ہر کھلاڑی کی بہترین صلاحیت کھل کر سامنے آ گئی۔ انضام الحق جیسا نیا کھلاڑی بھی کمال کر گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ قسمت کا بہت عمل دخل تھا۔ انگلینڈ کے خلاف میچ میں بارش ہمیں نہ بچاتی یا نیوزی لینڈ کے خلاف آخری پول میچ میں کامیابی ہمارا مقدرنہ بنتی تو ورلڈ کپ کوئی اور ٹیم لے جاتی۔ پلیئرز کی پرفارمنس اپنی جگہ لیکن قسمت نے وہ حالات پیدا کر دیے کہ پاکستان ٹورنامنٹ سے باہر ہونے کے قریب پہنچ کر بھی موجود رہا۔
قسمت کی بات ہو رہی ہے تو میرا دھیان وقار یونس کی طرف چلا گیا ہے۔ اپنے وقت کا تیز ترین اور شاندار بولر جب اپنے کیریئر کے عروج پر تھا تو ورلڈ کپ 92ء کے آغاز سے پہلے ان فٹ ہو گیا۔ پاکستانی ٹیم کے لیے یہ بہت بڑا سیٹ بیک تھا۔ ڈبلیوز کی جوڑی' جس کے خوف سے مخالف بیٹسمینوں کی ٹانگیں کانپتی تھیں ایک ڈبلیو کے ان فٹ ہونے سے ٹوٹ گئی۔ اتنا بڑا بولر لیکن ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کا حصہ نہیں تھا۔ یہی وقار یونس 96ء کے ورلڈ کپ میں شریک ہوتے ہیں اور انڈیا کے خلاف کوارٹر فائنل میں اجے جدیجہ ان کے آخری دو اورز میں 40 رنز بنا لیتے ہیں۔
قسمت کے ساتھ نہ دینے کا سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوا۔ 99ء کے ورلڈکپ میں وسیم اکرم کپتان تھے اور تب دونوں ڈبلیوز کے اختلافات عروج پر تھے۔ انھیں اس ٹورنا منٹ کا صرف ایک میچ کھیلنے کا موقع ملا۔ اس سے زیادہ بدقسمتی اور کیا ہو گی کہ کمزور ترین ٹیم بنگلہ دیش کے خلاف کھیلا جانے والا یہ میچ پاکستان ہار گیا۔ اس میچ کی ہار سے وقار باقی میچوںکے لیے باہر ہو گئے۔ بنگلہ دیش پاکستان سے یہ میچ جیت کر ٹیسٹ اسٹیٹس حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ بنگلہ دیشی ٹیم ورلڈ کپ کھیلنے کے بعد اپنے وطن واپس پہنچی تو پاکستان سے جیت کا جشن پلٹن میدان میں منایا گیا۔ اس وقت بھی بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد تھیں۔ پاکستان کی ہار پر ان سے زیادہ خوش اور کون ہو سکتا ہے۔ وقار یونس نے اپنے کیریئر کا آخری ورلڈ کپ 2003ء میں کھیلا۔ اس ٹورنامنٹ میں پاکستان سیمی فائنل تک بھی نہ پہنچ سکا۔
وقار یونس اس وقت قومی ٹیم کے کوچ ہیں اور پاکستان کو آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں ورلڈ کپ کھیلنے جانا ہے۔ ہم نے واحد ورلڈ کپ آسٹریلیا میں جیت رکھا ہے۔ اس لیے قوم کی امیدیں پھر وابستہ ہو گئی ہیں۔ قوم کو اپنی ٹیم کی جیت کے ساتھ ساتھ وقار یونس کی خوش بختی کی دعائیں بھی کرنا پڑیں گی۔ قسمت نے بطور کھلاڑی عالمی کپ کے مقابلوں میں وقار یونس کا ساتھ نہیں دیا' شاید بطور کوچ ان کا ساتھ دے جائے۔ پاکستان ورلڈ کپ کے مقابلوں میں آج تک انڈیا سے کوئی میچ نہیں جیتا۔ اس بار ہمارا پہلا میچ ہی روایتی حریف بھارت کے ساتھ ہے۔ پاکستان پہلا میچ جیت گیا تو یقین رکھیں وقار یونس کی قسمت بھی بدل جائے گی۔ امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا جا سکتا ' کیونکہ امید ہے تو ہم ہیں۔
ورلڈ کپ کی ٹیم کی سلیکشن ابھی باقی ہے۔ تاحال ہمارے علم میں یہ ہے کہ مصباح الحق کپتان ہیں۔ وقار یونس کوچ' نوید اکرم چیمہ منیجر اور گرانٹ فلاور بیٹنگ کوچ ہیں۔ معین خان کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے جو چیف سلیکٹر ہیں لیکن ٹیم کے ساتھ آسٹریلیا جائیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مصابح الحق ٹیم کی سلیکشن میں آزاد نہیں ہوں گے۔ عمران خان اپنے فیصلوں میں آزاد تھے۔ مصباح الحق کو یہ ورلڈ کپ اپنا آخری ٹورنا منٹ سمجھ کر کھیلنا چاہیے۔ ورلڈ کپ جیتنا ہے تو عمران خان کی طرح بولڈ فیصلے کرنا ہوں گے۔ توقع ہے ورلڈ کپ کے لیے ٹیم میرٹ پر سلیکٹ کی جائے گی۔ یاسر شاہ کو ٹیم میں ضرور شامل کیا جائے' وہ ٹرمپ کارڈ ثابت ہو سکتے ہیں۔ ہماری ٹیم آسٹریلیا میں پھر ورلڈ کپ جیت سکتی ہے۔ سوال صرف ایک ہے کہ کیا مصباح الحق بولڈ فیصلے کر سکیں گے؟۔
خوشی کا وہ یاد گار لمحہ بیتے 23 برس ہو گئے ہیں مگر ذہن میں اب بھی بہت کچھ تازہ ہے۔ 92 ء کا ڈے نائٹ فائنل اس لیے یاد آ گیا کہ ایک بار پھر ورلڈکپ کرکٹ ٹورنا منٹ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں کھیلا جا رہا ہے۔ 23 برس بعد پھر یہ ٹورنامنٹ فروری مارچ میں ہو گا۔ مجھے یاد ہے ماہ رمضان میں وہ ورلڈ کپ ہو رہا تھا اور قوم اپنی ٹیم کی جیت کے لیے مسلسل دعائیں مانگ رہی تھی۔ آج مجھے ہمارے گروپ ایڈیٹر عباس اطہر مرحوم کی وہ سرخی بھی یاد آ رہی ہے جو انھوں نے سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کے خلاف کامیابی کے بعد اخبار میں جمائی تھی۔ سرخیوں کے بے تاج بادشاہ شاہ جی کی مرضی یوں تھی ''پاکستان دعاؤں کی چھاؤں میں ورلڈ کپ کے فائنل میں پہنچ گیا''۔ 92ء کے عالمی کپ کا افتتاحی میچ میزبان ملکوں نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے درمیان تھا۔
نیوزی لینڈ نے یہ میچ جیتا اور پھر جیب اس کا مقدر بنتی چلی گئی جب تک کہ پاکستان نے اس کو آخری پول میچ میں نہیں ہرا دیا۔ اس کے بعد نیوزی لینڈ کی دوسری ہار بھی پاکستان کے ہاتھوں ہوئی جس میں انضام الحق کی محض 37 گیندوں پر 60 رنز کی طوفانی اننگز بھی شامل تھی۔ نیوزی لینڈ محض دو میچ ہار کر فائنل کی دوڑ سے باہر ہو گیا جب کہ پاکستان مشکل سے سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنے کے باوجود ورلڈ کپ جیت گیا۔ انگلینڈ کے خلاف جس میچ کا ذکر اوپر کیا ہے اس میں پاکستانی ٹیم 74 رنز پر آل آؤٹ ہو گئی تھی لیکن بارش مدد کو آ گئی ورنہ پاکستان کی ہار یقینی تھی۔ فائنل میں ٹاکرا پھر انگلینڈ سے ہوا تو اس بار بارش نے کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی۔ میلبورن آسٹریلیا کا سب سے بڑا کرکٹ گراؤنڈ ہے۔
ماہرین کا خیال تھا کہ 220 رنز کا ٹوٹل فائٹنگ ہو گا لیکن پاکستان پہلی باری میں 249 رنز کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ عامر سہیل اور رمیز جلد آؤٹ ہو گئے لیکن عمران خان 72اور جاوید میاندار58 کی 139 رنز کی پارٹنر شپ ' انضام الحق 42' اور وسیم اکرم33 کی طوفانی بیٹنگ نے اچھا ٹوٹل بنانے میں مد د دی۔ انگلینڈ کا آغاز بھی اچھا نہیں تھا۔ صرف 69 رنز پر چار بہترین کھلاڑی آؤٹ ہو چکے تھے۔
نیل فیئر برادر اور ایلن لیمب نے اسکور 141 رنز پر پہنچا دیا تو پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی بجنے لگی۔ کپتان نے اس موقع پر وسیم ا کرم کو آزمانے کا فیصلہ کیا جنہوں نے آتے ہی ایلن لیمب کو بولڈ کر دیا اور پھر اگلی ہی گینڈ پر کرس لوئس کی وکٹیں بھی اکھاڑ دیں۔ اس کے بعد عاقب جاوید نے فیئربرادر (62)کو وکٹ کیپر معین خان کے ہاتھوں کیچ کرایا تو پاکستان کی جیت یقینی ہو گئی۔ اس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔92ء کے ورلڈ کپ کے بیٹنگ ہیرو نیوزی لینڈ کے مارٹن کرو تھے۔ انھوں نے ٹورنامنٹ میں 456 رنز بنائے۔ وسیم اکرم 18 وکٹیں لے کر بولنگ کے ہیرو رہے۔
92ء کا ورلڈ کپ وہ پہلا ٹورنامنٹ تھا جس میں دونوں اینڈ سے نیا گیند استعمال کیا گیا۔2015ء کے ورلڈ کپ میں بھی ایسا ہی ہو گا۔ پاکستانی ٹیم اتنی مضبوط نہیں تھی کہ جس کے بارے میں کہا جا سکتا کہ یہ ورلڈ کپ کی فاتح ہو گی۔ اس سے زیادہ مضبوط ٹیمیں سیمی فائنل سے باہر ہو گئیں یا سیمی فائنل تک پہنچ ہی نہیں سکیں۔ عمران خان کی کپتانی کا ورلڈ کپ کی جیت میں انتہائی اہم کردار تھا۔ انھوں نے ٹیم کو ایک یونٹ میں ڈھال دیا اور ہر کھلاڑی کی بہترین صلاحیت کھل کر سامنے آ گئی۔ انضام الحق جیسا نیا کھلاڑی بھی کمال کر گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ قسمت کا بہت عمل دخل تھا۔ انگلینڈ کے خلاف میچ میں بارش ہمیں نہ بچاتی یا نیوزی لینڈ کے خلاف آخری پول میچ میں کامیابی ہمارا مقدرنہ بنتی تو ورلڈ کپ کوئی اور ٹیم لے جاتی۔ پلیئرز کی پرفارمنس اپنی جگہ لیکن قسمت نے وہ حالات پیدا کر دیے کہ پاکستان ٹورنامنٹ سے باہر ہونے کے قریب پہنچ کر بھی موجود رہا۔
قسمت کی بات ہو رہی ہے تو میرا دھیان وقار یونس کی طرف چلا گیا ہے۔ اپنے وقت کا تیز ترین اور شاندار بولر جب اپنے کیریئر کے عروج پر تھا تو ورلڈ کپ 92ء کے آغاز سے پہلے ان فٹ ہو گیا۔ پاکستانی ٹیم کے لیے یہ بہت بڑا سیٹ بیک تھا۔ ڈبلیوز کی جوڑی' جس کے خوف سے مخالف بیٹسمینوں کی ٹانگیں کانپتی تھیں ایک ڈبلیو کے ان فٹ ہونے سے ٹوٹ گئی۔ اتنا بڑا بولر لیکن ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کا حصہ نہیں تھا۔ یہی وقار یونس 96ء کے ورلڈ کپ میں شریک ہوتے ہیں اور انڈیا کے خلاف کوارٹر فائنل میں اجے جدیجہ ان کے آخری دو اورز میں 40 رنز بنا لیتے ہیں۔
قسمت کے ساتھ نہ دینے کا سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوا۔ 99ء کے ورلڈکپ میں وسیم اکرم کپتان تھے اور تب دونوں ڈبلیوز کے اختلافات عروج پر تھے۔ انھیں اس ٹورنا منٹ کا صرف ایک میچ کھیلنے کا موقع ملا۔ اس سے زیادہ بدقسمتی اور کیا ہو گی کہ کمزور ترین ٹیم بنگلہ دیش کے خلاف کھیلا جانے والا یہ میچ پاکستان ہار گیا۔ اس میچ کی ہار سے وقار باقی میچوںکے لیے باہر ہو گئے۔ بنگلہ دیش پاکستان سے یہ میچ جیت کر ٹیسٹ اسٹیٹس حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ بنگلہ دیشی ٹیم ورلڈ کپ کھیلنے کے بعد اپنے وطن واپس پہنچی تو پاکستان سے جیت کا جشن پلٹن میدان میں منایا گیا۔ اس وقت بھی بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد تھیں۔ پاکستان کی ہار پر ان سے زیادہ خوش اور کون ہو سکتا ہے۔ وقار یونس نے اپنے کیریئر کا آخری ورلڈ کپ 2003ء میں کھیلا۔ اس ٹورنامنٹ میں پاکستان سیمی فائنل تک بھی نہ پہنچ سکا۔
وقار یونس اس وقت قومی ٹیم کے کوچ ہیں اور پاکستان کو آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں ورلڈ کپ کھیلنے جانا ہے۔ ہم نے واحد ورلڈ کپ آسٹریلیا میں جیت رکھا ہے۔ اس لیے قوم کی امیدیں پھر وابستہ ہو گئی ہیں۔ قوم کو اپنی ٹیم کی جیت کے ساتھ ساتھ وقار یونس کی خوش بختی کی دعائیں بھی کرنا پڑیں گی۔ قسمت نے بطور کھلاڑی عالمی کپ کے مقابلوں میں وقار یونس کا ساتھ نہیں دیا' شاید بطور کوچ ان کا ساتھ دے جائے۔ پاکستان ورلڈ کپ کے مقابلوں میں آج تک انڈیا سے کوئی میچ نہیں جیتا۔ اس بار ہمارا پہلا میچ ہی روایتی حریف بھارت کے ساتھ ہے۔ پاکستان پہلا میچ جیت گیا تو یقین رکھیں وقار یونس کی قسمت بھی بدل جائے گی۔ امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا جا سکتا ' کیونکہ امید ہے تو ہم ہیں۔
ورلڈ کپ کی ٹیم کی سلیکشن ابھی باقی ہے۔ تاحال ہمارے علم میں یہ ہے کہ مصباح الحق کپتان ہیں۔ وقار یونس کوچ' نوید اکرم چیمہ منیجر اور گرانٹ فلاور بیٹنگ کوچ ہیں۔ معین خان کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے جو چیف سلیکٹر ہیں لیکن ٹیم کے ساتھ آسٹریلیا جائیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مصابح الحق ٹیم کی سلیکشن میں آزاد نہیں ہوں گے۔ عمران خان اپنے فیصلوں میں آزاد تھے۔ مصباح الحق کو یہ ورلڈ کپ اپنا آخری ٹورنا منٹ سمجھ کر کھیلنا چاہیے۔ ورلڈ کپ جیتنا ہے تو عمران خان کی طرح بولڈ فیصلے کرنا ہوں گے۔ توقع ہے ورلڈ کپ کے لیے ٹیم میرٹ پر سلیکٹ کی جائے گی۔ یاسر شاہ کو ٹیم میں ضرور شامل کیا جائے' وہ ٹرمپ کارڈ ثابت ہو سکتے ہیں۔ ہماری ٹیم آسٹریلیا میں پھر ورلڈ کپ جیت سکتی ہے۔ سوال صرف ایک ہے کہ کیا مصباح الحق بولڈ فیصلے کر سکیں گے؟۔