دشمن
علما اور بیگمات میں ایک ہی خوبی ہے کہ وہ اپنے معاملات دشمنی کی حد تک لے گئے ہیں۔
لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز اور سول سوسائٹی کی بیگمات آمنے سامنے ہیں۔ آرمی اسکول پشاور پر حملہ کرکے سیکڑوں بچوں کو شہید کرنے والوں کی مذمت کے حوالے سے تنازعے نے جنم لیا ہے۔ ہم نے 26-11-2014 کے کالم ''علما اور بیگمات'' کا اختتام ان الفاظ میں کیا تھا کہ آنے والے دنوں میں بھی ہم زوردار مباحثے دیکھیں گے۔ دونوں طبقات کے درمیان ابھی کالم کی اشاعت کو تین ہفتے ہی گزرے تھے کہ خطیب لال مسجد اور لبرل طبقہ ایک دوسرے کے مقابل ہیں۔
ہم نے تاریخ بیان کی تھی کہ کس طرح وزیراعظم محمد علی بوگرہ کی دوسری شادی کے تنازعے نے آگ پکڑی۔ ایوب دور میں مولانا احتشام الحق تھانوی اور بیگم شاہ نواز کا اختلاف کس مقام تک پہنچا۔ فیملی لاء متعارف کرانے کے زمانے میں کس طرح ''ملا اور مغرب زدہ'' کی اصطلاحیں سامنے آئیں۔ ضیا دور میں حدود آرڈیننس پر کس طرح ٹکراؤ ہوا اور مشرف دور میں اس قانون کے خاتمے کے لیے کس طرح علما اور بیگمات ایک دوسرے کے مقابل تھے۔ دونوں طبقات صرف پریشر گروپ کیوں ہیں اور انھیں وسیع تر عوامی حمایت کیوںکر نہ مل سکی؟ مقبولیت کے لیے دو خوبیاں لازمی ہوتی ہیں۔ ان دو طبقات میں صرف ایک خوبی ہے کہ یہ ایک دوسرے کے مقابل آنے کا کوئی موقع ضایع نہیں کرتے۔ برصغیر میں جناح، بھٹو، مجیب، الطاف، عمران اپنی دونوں خوبیوں کے سبب کامیاب ہوئے۔
علما اور بیگمات میں ایک ہی خوبی ہے کہ وہ اپنے معاملات دشمنی کی حد تک لے گئے ہیں۔ انگریزوں کے زمانے میں جب مردم شماری، انتخابی سیاست اور ووٹنگ کے معاملات سامنے آئے تو پتہ چلا کہ ایک مسلمان کے سامنے تین ہندو ہیں۔ کس طرح اسمبلی میں پہنچیں گے؟ کس طرح مسلم سماج کو ترقی دینگے؟ ان مسائل کے حل میں کانگریس نے دلچسپی نہ لی تو دشمنی پیدا ہوئی۔ بھٹو نے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے خلاف پرجوش تقاریر کرکے انھیں اپنا دشمن قرار دیا۔ جالب کی شاعری کہ: ''کھیت وڈیروں سے لے لو۔ ملیں لٹیروں سے لے لو'' گویا بھٹو کا منشور تھا۔ مجیب نے مغربی پاکستانیوں اور پنجابیوں کو اپنے دکھوں کا ذمے دار قرار دلواکر بنگالیوں کو جوش دلایا۔ الطاف حسین نے مہاجروں کے دکھوں کی وجہ دوسرے طبقات کو قرار دے کر مقبولیت حاصل کی۔
اسی طرح عمران خان نے پارلیمنٹ میں موجود پارٹیوں کو عوام کی بھوک، ننگ، بیروزگاری اور لوڈ شیڈنگ کا سبب قرار دلواکر ان کے خلاف بیزاری پیدا کی۔ علما اور بیگمات تو بھٹو، مجیب، الطاف اور عمران سے قبل ہی میدان میں سیاست میں ہیں ان کا حلقہ اثر ہے اور میڈیا ان کی جنگ کو زیادہ کوریج دیتا ہے۔ عوام میں بھی کسی ایک طبقے کے لیے حمایت و پسندیدگی موجود ہے۔ بین الاقوامی سطح پر بھی دونوں کے حامی موجود ہیں۔ پھر ان کی حیثیت صرف پریشر گروپس کی ہی کیوں ہے؟ اس لیے کہ ان میں دوسری خوبی موجود نہیں۔ دوسری خوبی کیا ہے؟ یہ خوبی نہ ہونے کے سبب کچھ مذہبی و سیاسی پارٹیاں فرقہ پرست تنظیمیں، این جی اوز اور سول سوسائٹی ناکام رہے ہیں۔
پیٹ کا مسئلہ دنیا کے بڑے مسئلوں میں سے ایک ہے۔ علما اور بیگمات نظریاتی طورپر بڑے موثر ہیں۔ علمی و ادبی لحاظ سے دونوں طرف کے دلائل بڑے مستحکم ہوسکتے ہیں۔ دونوں میں ایک کمی ہے کہ ان کا میدان عمل مختلف ہے۔ ان میں سے کسی کو کسی کے سبب معاشی نقصان نہیں پہنچتا۔ کوئی عالم اور کوئی بیگم عوام کو یہ نہیں بتاسکتے کہ مخالف گروہ کس طرح تمہارے پیٹ پر لات مار رہا ہے۔ اب ہم اپنے ملک کی تاریخ کے ایک بہت بڑے اور چار بڑے لوگوں کی سیاست کا تجزیہ کریں تو ہمیں ایک چیز دکھائی دیتی ہے۔ یہ دشمن کے علاوہ یہ بتاتے ہیں کہ وہ تمہاری روزی روٹی پر رکاوٹ ڈالے بیٹھا ہے اور اگر تم نہ اٹھ کھڑے ہوئے تو تمہیں مزید غریب کردے گا۔
قائداعظم نے مسلمانوں کو بتایا کہ انگریزوں کے جانے کے بعد اسمبلیوں میں مسلمانوں کو نمایندگی نہیں ملے گی۔ اس طرح ان کے لیے ہر ہر مقام پر تمام تر ترقی کے دروازے بند ہوجائیںگے۔ بھٹو کا نعرہ روٹی، کپڑا، مکان خالصتاً معاشی نعرہ تھا۔ مجیب کے چھ نکات سو فیصد ایک معاشی پروگرام تھا۔ وہ مشرقی بنگال کی خود مختاری کا نعرہ لیے میدان میں آئے۔ انھوں نے کہاکہ اسلام آباد کی سڑکوں سے پٹ سن کی بو آتی ہے۔ الطاف حسین نے نوکریوں کے لیے کوٹہ سسٹم کے خاتمے اور تعلیمی اداروں میں میرٹ پر داخلے کی بات کی۔ یہ سندھ کے شہری علاقوں کی آواز تھی جس پر انھوں نے لبیک کہا۔ عمران خان نے ملک کے معاشی تنزل کا ذمے دار حکمران طبقے اور ایلیٹ کلاس کی کرپشن کو ٹھہرایا۔ انھوں نے بڑے بڑے لیڈروں کے غیر ملکی اکاؤنٹس اور اربوں ڈالرز کی بات کرکے 2013 کے انتخابات میں 75 لاکھ سے زیادہ ووٹ حاصل کیے یہ ہوتی ہے دوسری وجہ جس کے سبب سیاسی پارٹیاں مقبولیت کی انتہا کو پہنچتی ہے۔ پہلی مشترکہ دشمن اور دوسری کہ وہ معاشی ڈور تنگ کررہا ہے۔
ایک چوہدری کا واقعہ ہے کہ اس نے اپنے تمام دشمنوں کو ختم کردیا۔ اس کے ساتھی خوش تھے اور بھنگڑے ڈال رہے تھے۔ چوہدری صاحب کونے میں اداس بیٹھے تھے۔ لوگوں نے کہاکہ آج تو خوشی کا دن ہے۔ بوڑھے نے کہاکہ اب میں دشمنی کس سے کروںگا؟ پھر اس بوڑھے چوہدری نے اپنے مقبول دشمن کی خفیہ شادی کا پتہ لگاکر اس کے بیٹے کو اس کی جائیداد دی۔ کہاکہ جب یہ بڑا ہوگا تو ہماری جنگ اس سے ہوگی۔ سیاسی پارٹیوں اور این جی اوز کو بھی ہر وقت ایک دشمن کی ضرورت ہوتی ہے۔ اپنے کارکنوں کے لہو کو گرم رکھنے کے لیے۔ پلٹنے، جھپٹنے کے لیے اور جھپٹ کر پلٹنے کے لیے۔ اپنے آقاؤں اور پے ماسٹرز کو خوش کرنے کے لیے۔
ادارتی صفحے تک آنے والے قارئین کو ملکی سیاست میں دلچسپی لینے والا سمجھا جاتا ہے۔ عزم نو'' میں کئی مرتبہ ان کو پاکستان کا سمجھ دار طبقہ قرار دیا ہے۔ ممکن ہے ان کی تعداد صرف پندرہ بیس فیصد ہو لیکن یہ بڑے اہم ہیں۔ انھیں علم ہونا چاہیے کہ کوئی جلسہ جلوس کیوں کر کھیل رہا ہے۔ سلجھے ہوئے پاکستانیوں کو باخبر ہونا چاہیے کہ ملک میں موثر طبقات کی ڈوریاں کہاں سے ہلائی جارہی ہیں۔ ہمارے قارئین چاہے لبرل طبقے کو پسند کرتے ہوں یا مذہبی طبقے کو، ان کا تعلق چاہے کسی صوبے یا مسلک سے ہو۔ انھیں با خبر رہنا چاہیے کہ کون سا لیڈر کس وقت کون سا بیان کیوں کر دے رہا ہے، بین الاقوامی ادارے ہماری کس شخصیت کو نواز رہے ہیں۔
W کے عنوان سے انگریزی کے پانچ حروف یعنی کیوں، کب، کہاں، کون، کیا اور چھٹا کیسے کو ہمارے تجزیے میں رہنا چاہیے۔ ہر مذہبی و سیاسی پارٹی اور ہر این جی او کی کارروائی کا جائزہ ہمیں کھلے ذہن سے لینا چاہیے۔ برصغیر کی پانچ سو سالہ تاریخ میں سیاسی تحریکوں کی کامیابی و ناکامی کی وجوہات ہمارے علم میں ہونی چاہیے۔ ہر لیڈر کے بیان پر آنکھ بند کرکے یقین کرنے کی بجائے اسے حقائق کی روشنی میں پرکھنا چاہیے۔ ہمیں علما و بیگمات کی کشمکش کی تاریخ سے واقف ہونا چاہیے۔ ہمیں علم ہونا چاہیے کہ کوئی پریشر گروپ کبھی کسی تحریک کا روپ نہیں دھارسکتا۔ جو عوام کے معاشی مسائل سے بحث نہیں کرتا تو عوام بھی انھیں زیادہ عرصہ زیر بحث نہیں لاتے۔ دم توڑتی سیاسی پارٹیوں، فرقہ وارانہ تنظیموں، این جی اوز کے علاوہ سول سوسائٹی کو بوڑھے چوہدری کی طرح ہمیشہ چاہے ایک دشمن، اپنی بقا کے لیے وقتی طور پر بھی سہی درکار ہوتا ہے۔ ایک کمزور دشمن۔
ہم نے تاریخ بیان کی تھی کہ کس طرح وزیراعظم محمد علی بوگرہ کی دوسری شادی کے تنازعے نے آگ پکڑی۔ ایوب دور میں مولانا احتشام الحق تھانوی اور بیگم شاہ نواز کا اختلاف کس مقام تک پہنچا۔ فیملی لاء متعارف کرانے کے زمانے میں کس طرح ''ملا اور مغرب زدہ'' کی اصطلاحیں سامنے آئیں۔ ضیا دور میں حدود آرڈیننس پر کس طرح ٹکراؤ ہوا اور مشرف دور میں اس قانون کے خاتمے کے لیے کس طرح علما اور بیگمات ایک دوسرے کے مقابل تھے۔ دونوں طبقات صرف پریشر گروپ کیوں ہیں اور انھیں وسیع تر عوامی حمایت کیوںکر نہ مل سکی؟ مقبولیت کے لیے دو خوبیاں لازمی ہوتی ہیں۔ ان دو طبقات میں صرف ایک خوبی ہے کہ یہ ایک دوسرے کے مقابل آنے کا کوئی موقع ضایع نہیں کرتے۔ برصغیر میں جناح، بھٹو، مجیب، الطاف، عمران اپنی دونوں خوبیوں کے سبب کامیاب ہوئے۔
علما اور بیگمات میں ایک ہی خوبی ہے کہ وہ اپنے معاملات دشمنی کی حد تک لے گئے ہیں۔ انگریزوں کے زمانے میں جب مردم شماری، انتخابی سیاست اور ووٹنگ کے معاملات سامنے آئے تو پتہ چلا کہ ایک مسلمان کے سامنے تین ہندو ہیں۔ کس طرح اسمبلی میں پہنچیں گے؟ کس طرح مسلم سماج کو ترقی دینگے؟ ان مسائل کے حل میں کانگریس نے دلچسپی نہ لی تو دشمنی پیدا ہوئی۔ بھٹو نے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے خلاف پرجوش تقاریر کرکے انھیں اپنا دشمن قرار دیا۔ جالب کی شاعری کہ: ''کھیت وڈیروں سے لے لو۔ ملیں لٹیروں سے لے لو'' گویا بھٹو کا منشور تھا۔ مجیب نے مغربی پاکستانیوں اور پنجابیوں کو اپنے دکھوں کا ذمے دار قرار دلواکر بنگالیوں کو جوش دلایا۔ الطاف حسین نے مہاجروں کے دکھوں کی وجہ دوسرے طبقات کو قرار دے کر مقبولیت حاصل کی۔
اسی طرح عمران خان نے پارلیمنٹ میں موجود پارٹیوں کو عوام کی بھوک، ننگ، بیروزگاری اور لوڈ شیڈنگ کا سبب قرار دلواکر ان کے خلاف بیزاری پیدا کی۔ علما اور بیگمات تو بھٹو، مجیب، الطاف اور عمران سے قبل ہی میدان میں سیاست میں ہیں ان کا حلقہ اثر ہے اور میڈیا ان کی جنگ کو زیادہ کوریج دیتا ہے۔ عوام میں بھی کسی ایک طبقے کے لیے حمایت و پسندیدگی موجود ہے۔ بین الاقوامی سطح پر بھی دونوں کے حامی موجود ہیں۔ پھر ان کی حیثیت صرف پریشر گروپس کی ہی کیوں ہے؟ اس لیے کہ ان میں دوسری خوبی موجود نہیں۔ دوسری خوبی کیا ہے؟ یہ خوبی نہ ہونے کے سبب کچھ مذہبی و سیاسی پارٹیاں فرقہ پرست تنظیمیں، این جی اوز اور سول سوسائٹی ناکام رہے ہیں۔
پیٹ کا مسئلہ دنیا کے بڑے مسئلوں میں سے ایک ہے۔ علما اور بیگمات نظریاتی طورپر بڑے موثر ہیں۔ علمی و ادبی لحاظ سے دونوں طرف کے دلائل بڑے مستحکم ہوسکتے ہیں۔ دونوں میں ایک کمی ہے کہ ان کا میدان عمل مختلف ہے۔ ان میں سے کسی کو کسی کے سبب معاشی نقصان نہیں پہنچتا۔ کوئی عالم اور کوئی بیگم عوام کو یہ نہیں بتاسکتے کہ مخالف گروہ کس طرح تمہارے پیٹ پر لات مار رہا ہے۔ اب ہم اپنے ملک کی تاریخ کے ایک بہت بڑے اور چار بڑے لوگوں کی سیاست کا تجزیہ کریں تو ہمیں ایک چیز دکھائی دیتی ہے۔ یہ دشمن کے علاوہ یہ بتاتے ہیں کہ وہ تمہاری روزی روٹی پر رکاوٹ ڈالے بیٹھا ہے اور اگر تم نہ اٹھ کھڑے ہوئے تو تمہیں مزید غریب کردے گا۔
قائداعظم نے مسلمانوں کو بتایا کہ انگریزوں کے جانے کے بعد اسمبلیوں میں مسلمانوں کو نمایندگی نہیں ملے گی۔ اس طرح ان کے لیے ہر ہر مقام پر تمام تر ترقی کے دروازے بند ہوجائیںگے۔ بھٹو کا نعرہ روٹی، کپڑا، مکان خالصتاً معاشی نعرہ تھا۔ مجیب کے چھ نکات سو فیصد ایک معاشی پروگرام تھا۔ وہ مشرقی بنگال کی خود مختاری کا نعرہ لیے میدان میں آئے۔ انھوں نے کہاکہ اسلام آباد کی سڑکوں سے پٹ سن کی بو آتی ہے۔ الطاف حسین نے نوکریوں کے لیے کوٹہ سسٹم کے خاتمے اور تعلیمی اداروں میں میرٹ پر داخلے کی بات کی۔ یہ سندھ کے شہری علاقوں کی آواز تھی جس پر انھوں نے لبیک کہا۔ عمران خان نے ملک کے معاشی تنزل کا ذمے دار حکمران طبقے اور ایلیٹ کلاس کی کرپشن کو ٹھہرایا۔ انھوں نے بڑے بڑے لیڈروں کے غیر ملکی اکاؤنٹس اور اربوں ڈالرز کی بات کرکے 2013 کے انتخابات میں 75 لاکھ سے زیادہ ووٹ حاصل کیے یہ ہوتی ہے دوسری وجہ جس کے سبب سیاسی پارٹیاں مقبولیت کی انتہا کو پہنچتی ہے۔ پہلی مشترکہ دشمن اور دوسری کہ وہ معاشی ڈور تنگ کررہا ہے۔
ایک چوہدری کا واقعہ ہے کہ اس نے اپنے تمام دشمنوں کو ختم کردیا۔ اس کے ساتھی خوش تھے اور بھنگڑے ڈال رہے تھے۔ چوہدری صاحب کونے میں اداس بیٹھے تھے۔ لوگوں نے کہاکہ آج تو خوشی کا دن ہے۔ بوڑھے نے کہاکہ اب میں دشمنی کس سے کروںگا؟ پھر اس بوڑھے چوہدری نے اپنے مقبول دشمن کی خفیہ شادی کا پتہ لگاکر اس کے بیٹے کو اس کی جائیداد دی۔ کہاکہ جب یہ بڑا ہوگا تو ہماری جنگ اس سے ہوگی۔ سیاسی پارٹیوں اور این جی اوز کو بھی ہر وقت ایک دشمن کی ضرورت ہوتی ہے۔ اپنے کارکنوں کے لہو کو گرم رکھنے کے لیے۔ پلٹنے، جھپٹنے کے لیے اور جھپٹ کر پلٹنے کے لیے۔ اپنے آقاؤں اور پے ماسٹرز کو خوش کرنے کے لیے۔
ادارتی صفحے تک آنے والے قارئین کو ملکی سیاست میں دلچسپی لینے والا سمجھا جاتا ہے۔ عزم نو'' میں کئی مرتبہ ان کو پاکستان کا سمجھ دار طبقہ قرار دیا ہے۔ ممکن ہے ان کی تعداد صرف پندرہ بیس فیصد ہو لیکن یہ بڑے اہم ہیں۔ انھیں علم ہونا چاہیے کہ کوئی جلسہ جلوس کیوں کر کھیل رہا ہے۔ سلجھے ہوئے پاکستانیوں کو باخبر ہونا چاہیے کہ ملک میں موثر طبقات کی ڈوریاں کہاں سے ہلائی جارہی ہیں۔ ہمارے قارئین چاہے لبرل طبقے کو پسند کرتے ہوں یا مذہبی طبقے کو، ان کا تعلق چاہے کسی صوبے یا مسلک سے ہو۔ انھیں با خبر رہنا چاہیے کہ کون سا لیڈر کس وقت کون سا بیان کیوں کر دے رہا ہے، بین الاقوامی ادارے ہماری کس شخصیت کو نواز رہے ہیں۔
W کے عنوان سے انگریزی کے پانچ حروف یعنی کیوں، کب، کہاں، کون، کیا اور چھٹا کیسے کو ہمارے تجزیے میں رہنا چاہیے۔ ہر مذہبی و سیاسی پارٹی اور ہر این جی او کی کارروائی کا جائزہ ہمیں کھلے ذہن سے لینا چاہیے۔ برصغیر کی پانچ سو سالہ تاریخ میں سیاسی تحریکوں کی کامیابی و ناکامی کی وجوہات ہمارے علم میں ہونی چاہیے۔ ہر لیڈر کے بیان پر آنکھ بند کرکے یقین کرنے کی بجائے اسے حقائق کی روشنی میں پرکھنا چاہیے۔ ہمیں علما و بیگمات کی کشمکش کی تاریخ سے واقف ہونا چاہیے۔ ہمیں علم ہونا چاہیے کہ کوئی پریشر گروپ کبھی کسی تحریک کا روپ نہیں دھارسکتا۔ جو عوام کے معاشی مسائل سے بحث نہیں کرتا تو عوام بھی انھیں زیادہ عرصہ زیر بحث نہیں لاتے۔ دم توڑتی سیاسی پارٹیوں، فرقہ وارانہ تنظیموں، این جی اوز کے علاوہ سول سوسائٹی کو بوڑھے چوہدری کی طرح ہمیشہ چاہے ایک دشمن، اپنی بقا کے لیے وقتی طور پر بھی سہی درکار ہوتا ہے۔ ایک کمزور دشمن۔