چینی دھاگے کی بڑی پیمانے پر ڈمپنگ یارن انڈسٹری کو خطرہ لاحق

غیرملکی دھاگہ 15 فیصد کم قیمت پر دستیاب، سست بارڈر سے اسمگلنگ، انڈرانوائسنگ اور مس ڈیکلریشن بھی ہو رہی ہے، ذرائع

جوتا ساز انڈسٹری کی طرح دھاگے کی صنعت بھی بند ہوسکتی ہے، وزیر ٹیکسٹائل اس شعبے پر بھی توجہ دیں، عرفان اصلی پری فوٹو: فائل

چین سے سست بارڈر کے ذریعے دھاگے کی بڑھتی ہوئی اسمگلنگ دھاگہ سازی کی مقامی صنعت کی بقا کے لیے خطرہ بن گئی ہے۔

پاکستان میں منظم اور غیرمنظم شعبے کے تحت قائم چھوٹی بڑی صنعتیں سالانہ 6 ہزار ٹن کاٹن اورپولیسٹر دھاگے کی پیداوار کرتی ہیں جس میں 50 فیصد سے زائد دھاگہ تولیہ ساز، لیدر اینڈ ریڈی میڈ گارمنٹس، ہوزری سمیت ہوم ٹیکسٹائل کے برآمدی صنعتوں میں استعمال ہوتا ہے اور باقی ماندہ 40 تا 50 فیصد دھاگے سے ملکی ضروریات کو پورا کیا جاتا ہے۔

ذرائع نے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ مقامی پیداوار کا 10 فیصد پولیسٹر دھاگہ سست بارڈ سے مستقل بنیادوں پر اسمگل ہورہا ہے جو مارکیٹ میں مقامی طور پر تیارہونے والے دھاگے کی نسبت 15 فیصد کم قیمتوں پر فروخت کیا جارہا ہے تاہم چین سے اسمگل ہونے والا دھاگہ صرف چند رنگوں پر مشتمل ہے جس کی مقامی مارکیٹ میں زیادہ کھپت ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ غیرملکی تیار دھاگے کی درآمد پر اگرچہ 25 فیصد کسٹم ڈیوٹی اور 15 فیصد سیلز ٹیکس عائد ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان میں چینی پولیسٹر دھاگے کی وسیع پیمانے پر ڈمپنگ کی جارہی ہے۔

اس ضمن میں منظم شعبے کی بڑی دھاگہ ساز کمپنی کے سربراہ اور فیڈرل بی ایریا ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری کے سابق چیئرمین محمد عرفان اصلی پری نے ''ایکسپریس'' کے استفسار پر بتایا کہ مقامی دھاگہ انڈسٹری بالواسطہ طور پر برآمد کنندہ ہے لیکن وفاقی وزارت ٹیکسٹائل کی جانب سے تاحال اس اہم شعبے کو آرگنائزسیکٹر میں شامل نہیں کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ اس شعبے کی نمو ہوم ٹیکسٹائل اور ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل سیکٹر کی ترقی سے مشروط ہے لیکن سال 2005 سے ویلیو ایڈڈ سیکٹر کی نمو روکنے کی وجہ سے مقامی دھاگہ انڈسٹری کی افزائش بھی جمود کا شکار ہوگئی ہے۔


انہوں نے بتایا کہ منظم شعبے کے تحت پاکستان میں صرف چند صنعتیں قائم ہیں جو 5 مختلف معروف برانڈز کے دھاگے تیار کررہی ہیں جبکہ گھریلو، چھوٹی ودرمیانے درجے کی 1000 سے زائد صنعتیں بھی ہر قسم کا دھاگہ تیار کررہی ہیں۔

محمد عرفان نے بتایا کہ ہوم ٹیکسٹائل کی بین الاقوامی مارکیٹ میں شیڈ میچنگ کے رحجانات میں تبدیلیوں کا رحجان غالب ہے لیکن پاکستان میں اسکل ورکرز ڈیولپمنٹ کے فقدان اور فیشن ڈیزائننگ کے اداروں میں عالمی رحجانات کے تحت نصاب تبدیل نہ کرنے کی وجہ سے دھاگے کی صرف چند صنعتیں ان ضروریات کو پورا کر رہی ہیں جبکہ باقی ماندہ گھریلواور چھوٹی صنعتیں روزمرہ استعمال کے دھاگے کی مینوفیکچرنگ کررہی ہیں۔

ایک سوال پر محمد عرفان نے اس امر کی تصدیق کی کہ سست بارڈر سے چینی پولیسٹر دھاگے کی اسمگلنگ اور انڈرانوائسنگ و مس ڈیکلریشن کی وجہ سے پاکستانی مارکیٹس میں چینی پولیسٹر دھاگے کی وسیع پیمانے پر ڈمپنگ ہورہی ہے جس سے خطرہ ہے کہ جوتاساز صنعت کی طرح اب دھاگہ سازصنعت بھی بند ہوجائے گی۔

انہوں نے وفاقی وزیرٹیکسٹائل انڈسٹری عباس خان آفریدی پر زور دیا کہ وہ نئی ٹیکسٹائل پالیسی میں مقامی دھاگہ انڈسٹری کے فروغ وترقی کے لیے بھی اقدامات بروئے کار لائیں تاکہ ملکی برآمدات میں اہم کردار ادا کرنے والا یہ شعبہ بھی آرگنائز سیکٹر میں شامل ہوکر محصولات کی صورت میں اپنے کردار کو توسیع دے سکے۔
Load Next Story