عوام بنیادی حقوق سے محروم کب تک

فوجی حکومتوں نے باقاعدگی سے بلدیاتی انتخابات اس لیے کرائے کہ ان کے دور میں اسمبلیاں اور ارکان اسمبلی نہیں ہوتے۔

ایک سال کی تاخیر سے ہی بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ بھی مکمل ہو گیا اور مزید تاخیر نہ ہوئی تو وہاں میئر کوئٹہ، ضلع کونسلوں، میونسپل کمیٹیوں اور ٹاؤن کمیٹیوں کے چیئرمینوں کے انتخابات بھی نئے سال کے آغاز میں ہو ہی جائیں گے اور سب سے پس ماندہ اور رقبے میں سب سے بڑا صوبہ بلوچستان عمران خان کو پیچھے چھوڑ کر بلدیاتی انتخابات سب سے پہلے کرانے کے اعزاز کے ساتھ وہ واحد صوبہ ہو گا جس پر آئین سے انحراف کا الزام نہیں آئے گا۔

سندھ، پنجاب اور کے پی کے کی سابق اور موجودہ حکومتیں آئین کی کئی سالوں سے مسلسل خلاف ورزیاں کرتی آ رہی ہیں اور خود کو جمہوری بھی قرار دیتی ہیں مگر تینوں نے عوام کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کر رکھا ہے اور بلدیاتی انتخابات جو کہ جمہوریت کی بنیاد ہیں کرانے سے مسلسل گریزاں ہیں اور سندھ اور پنجاب کی حکومتوں نے تو بلدیاتی انتخابات کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔

دونوں صوبوں میں گزشتہ اور موجودہ سال کے شروع میں بلدیاتی انتخابات کی تاریخوں کا دو بار اعلان کیا، دونوں صوبوں میں ہزاروں افراد نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے اور اربوں روپے فیس کی صورت میں جمع کرا رکھے ہیں اور ایک سال گزر جانے کے بعد دونوں صوبوں میں بلدیاتی انتخابات کی نئی تاریخ کا اعلان نہیں کیا جا رہا جب کہ بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ بھی مکمل کر لیا ہے جہاں سپریم کورٹ کے حکم پر 2013ء میں بلدیاتی انتخابات کرائے جا چکے ہیں۔سپریم کورٹ نے آیندہ سال اپریل میں کے پی کے میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا حکم تو دے رکھا ہے مگر الیکشن کمیشن اس کے لیے تیار نظر نہیں آ رہا۔ کے پی کے حکومت تو اپنے چیئرمین عمران خان کے اعلان پر بھی عمل نہیں کر سکی اور تین ماہ میں بلدیاتی انتخابات تو کیا کراتی اس نے تو سپریم کورٹ کی بھی پرواہ نہیں کی اور سپریم کورٹ کو تاریخ دینے سے بھی انکار کر دیا تھا۔

یہ تو سپریم کورٹ کی برداشت ہے کہ اس نے آئین کی مسلسل خلاف ورزی پر بھی تینوں حکومتوں کو مہلت پر مہلت دے رہی ہے اور کارروائی نہیں کر رہی۔ تینوں حکومتوں نے آئین کی خلاف ورزی ہی نہیں بلکہ سپریم کورٹ کی حکم عدولی بھی کی ہے۔ مگر تینوں حکومتوں کو کوئی پرواہ نہیں ہے اور تینوں سنگین الزامات کی مرتکب ہو چکی ہیں جس پر سپریم کورٹ تینوں حکومتوں کے خلاف کارروائی عمل میں لا سکتی ہے۔ سوال یہ اہم ہے کہ ہمارے ملک میں آخر فوجی جنرلوں نے ہی بلدیاتی انتخابات کیوں کرائے اور سیاسی حکومتیں جب بھی قائم ہوئیں انھوں نے ہمیشہ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے گریز کیا۔ کہا جاتا ہے کہ فوجی حکومتوں نے باقاعدگی سے بلدیاتی انتخابات اس لیے کرائے کہ ان کے دور میں اسمبلیاں اور ارکان اسمبلی نہیں ہوتے اور فوجی حکمرانوں کو عوامی حمایت کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے وہ اپنے فیصلوں کی تائید کے لیے بھی فوجی اقدامات کی نچلی سطح پر منتخب ہونیوالوں سے حمایت چاہتے ہیں جو ارکان اسمبلی کی طرح ہزار بارہ سو نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں منتخب ہوتے ہیں۔


جمہوریت کی بنیاد ارکان اسمبلی اور اسمبلیوں کے انتخابات نہیں ہوتے بلکہ نچلی سطح پر منتخب ہونیوالوں کو سمجھا جاتا ہے اور ارکان اسمبلی صرف صوبائی اور وفاقی حکومت کو منتخب کرتے ہیں اور اسمبلیوں میں قانون سازی کے لیے منتخب ہوتے ہیں جن کا عوام کے بنیادی مسائل حل کرانے سے کوئی تعلق ہی نہیں بنتا بلکہ یہ ارکان اسمبلی کی بھی توہین ہے کہ وہ منتخب قانون سازی کے لیے ہوں مگر سڑکیں، راستے، نالیاں، گلیاں بنانے اور ان کی صفائی کرانے، اسٹریٹ لائٹس کی تنصیب اور فراہمی و نکاسی آب کے مسائل حل کرانے کے لیے فنڈ مانگیں اور حکومت سیاسی رشوت کے لیے انھیں سالانہ ترقیاتی فنڈ فراہم کرے یا ان کی سفارشات پر ترقیاتی منصوبے بنائے اور ارکان اسمبلی کی خوشنودی کے لیے بلدیاتی انتخابات نہ کرائے کیونکہ بلدیاتی انتخابات کا سب سے زیادہ نقصان ارکان اسمبلی ہی کو پہنچتا ہے ۔ بلدیاتی انتخابات کے سب سے زیادہ مخالف بھی یہی ارکان اسمبلی ہیں جو نہیں چاہتے کہ بلدیاتی انتخابات ہوں اور انھیں ملنے والا ترقیاتی فنڈ ان کے ہاتھ سے نکل کر بلدیاتی منتخب اداروں کے پاس چلا جائے۔

یہی ارکان اسمبلی تھے جنھوں نے جنرل پرویز مشرف کے بااختیار ضلع نظام میں اپنی اسمبلیوں سے مستعفی ہوکر ضلعی اور سٹی ناظم بننے کو ترجیح دی تھی کیونکہ ضلع ناظمین مالی اور انتظامی طور پر بااختیار تھے اور ناظمین کی موجودگی میں عوام بھی ارکان اسمبلی کو اہمیت دیتے تھے نہ اپنے کاموں کے لیے ان کے پاس جاتے تھے۔ عوام کا اپنے بنیادی مسائل کے حل، کاغذات کی تصدیق و دیگر معاملات کے سلسلے میں زیادہ واسطہ ارکان اسمبلی سے نہیں بلکہ نچلی سطح پر منتخب ہونے والے ناظمین، چیئرمینوں اور کونسلروں سے پڑتا ہے۔ بلدیاتی منتخب نمایندے باہمی تنازعات بھی حل کراتے ہیں اور اپنے ووٹروں کو پولیس کی زیادتیوں سے بھی بچاتے ہیں۔ وہ اپنے علاقے اور ووٹروں سے زیادہ واقف ہوتے ہیں اور عوامی مشاورت سے ان کے بنیادی مسائل حل ہی نہیں کراتے بلکہ وہ عوام کے درمیان رہتے ہیں اور لوگ جب چاہیں ان سے مل سکتے ہیں اور انھیں راستوں میں بھی پکڑ لیتے ہیں۔

جنرل پرویز کے با اختیار ضلع نظام کے ارکان اسمبلی ہی نہیں بلکہ بیورو کریسی بھی سخت مخالف تھی کیونکہ کمشنر، صوبائی سیکریٹری اور ڈپٹی کمشنر جیسے اعلیٰ افسران بھی ضلع ناظم کے ماتحت تھے اور محکمہ بلدیات بھی ناظمین کے آگے بے بس ہونے کی وجہ سے ضلع نظام کی کامیابی نہیں چاہتا تھا۔ محکمہ بلدیات کی حیثیت ضلعی حکومتوں میں نہ ہونے کے برابر تھی۔ بلدیات کے محکمے کا وزیر مشیر یا سیکریٹری ضلع ناظمین کے آگے بے بس تھے اور من مانے احکام جاری نہیں کرسکتے تھے۔ ہر ضلع کا ڈی سی او ہر ضلع ناظم کا قانونی حکم ماننے کا پابند تھا اور ماضی کی بے لگام بیوروکریسی کو یہ سب کچھ قابل قبول نہیں تھا۔

آخر انھوں نے ارکان اسمبلی سے ملی بھگت کر کے جنرل پرویز مشرف کو مجبور کر کے 2005ء کے بلدیاتی انتخابات کے موقعے پر ضلع حکومتوں کے اختیارات کم کرا دیے مگر پھر بھی ضلع نظام جنرل ضیا کے 1979ء بلدیاتی نظام سے لاکھ درجے بہتر تھا جو موجودہ صوبائی حکومت نے نافذ کر رکھا ہے جس میں منتخب چیئرمینوں کے اختیارات محدود اور یہ محکمہ بلدیات کے ماتحت ہے اور وزرائے بلدیات کے لیے سونے کی چڑیا بنا ہوا ہے۔ موجودہ نظام میں ملازمین کو تنخواہیں بمشکل مل رہی ہیں مگر بلدیاتی افسروں اور انجینئروں کے تقرر و تبادلے لاکھوں روپے رشوت پر ہوتے ہیں اور محکمہ بلدیات اب سب سے زیادہ کمائی کا محکمہ بنا ہوا ہے اور وزرائے اعلیٰ بلدیاتی فنڈ اپنی مرضی سے خرچ کر رہے ہیں۔ جہاں یہ صورتحال ہو تو صوبائی حکومتیں بلدیاتی انتخابات کیوں کرانا چاہیں گی اور ارکان اسمبلی اپنے مقررہ کمیشن سے کیوں دستبردار ہونا پسند کریں گے۔ بنیادی حقوق کی انھیں کیا پرواہ۔
Load Next Story