پستول سے نکلی گولی کا فاصلہ
یہ نظام کی بات کرنے والے جانتے ہی نہیں کہ ہماری تنگ گلیوں میں کون سا نظام چلتا ہے۔
یہ کتابی باتیں کرنیوالے ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر جس جنت کے مزے لیتے ہیں وہ حقائق سے بہت دور ہے۔ یہ غریبوں کو دیکھ کر ہائے ہائے کی رٹ لگانے والوں کو معلوم ہی نہیں ہے کہ غربت کس چڑیا کا نام ہے۔ یہ نظام کی بات کرنے والے جانتے ہی نہیں کہ ہماری تنگ گلیوں میں کون سا نظام چلتا ہے۔
یہ قانون کا راگ سُنانے والے نہ سمجھتے ہیں اور نہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ دہشت کے کس ماحول میں ہم گھروں میں بھی خیریت سے رہنے کی دعائیں کرتے ہیں۔ یہ Ideal دنیا کی مثالیں دینے والے دیکھنا ہی نہیں چاہتے کہ ہماری آنکھوں میں خوف کی کتنی گہری چادر بنی ہوئی ہے۔ ہماری روح کے اندر سرایت کر جانے والا خوف۔ یہ جنیوا کنونشن، اقوام متحدہ، مغرب کے دلفریب قوانین اور اُس کی میٹھی میٹھی باتیں کرنیوالے کیا یہ جانتے ہیں کہ ہم کن درندوں کے درمیان رہتے ہیں، مت دیجیے پھانسی، مت کہیں انھیں کچھ۔ بقول شخصے نہ چھیڑ ملنگا نوں۔ اور پھر دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ جس آگ میں پاکستان کی عوام جل رہے ہیں اُس میں یہ ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر ذہنی عیاشی کرنیوالے بھی بچ نہیں پائینگے۔ آئیے صرف دو مثالیں دے کر بتاتا ہوں کہ ہم کس نظام میں رہتے ہیں۔
یہ کراچی کا وہ علاقہ ہے جس کے رہنے والے ہر وقت ہر سانس اپنے محلوں، اپنی گلیوں اور اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ وہاں سے روز آپ کو حکومت اور پولیس کا یہ دعوی نظر آتا ہو گا کہ آج ہم نے کتنے دہشتگردوں کو مار کر اپنے سینے پر تمغے سجائے ہیں۔ انھیں گلیوں میں عبدالغفور نے اپنی آنکھ آج سے پچاس سال پہلے کھولی تھی۔ یہ علاقہ غریب شاہ کے مزار کے ساتھ ہے جہاں کبھی زندگی ہر وقت مسکراتی رہتی تھی۔ جہاں ایرانی مال ہر دکان پر نظر آتا تھا جہاں کبھی رات نہیں ہوتی تھی۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں ہر نظریہ کے لوگ آپ کو مختلف چبوتروں پر بیٹھے نظر آتے تھے جہاں فٹ بال اور سیاست ہی موضوع ہوتا تھا آج اُس علاقے میں بس خوف ہے اور صرف خوف۔ جہاں پاکستان پیپلز پارٹی کا جھنڈا سب سے پہلے لگا تھا۔ جسے پیپلز پارٹی کا ناقابل تسخیر قلعہ کہا جاتا تھا۔ آج وہاں پیپلز پارٹی کا نام لینا جرم بن چکا ہے۔
اگر معلوم ہو جائے کہ وہ پیپلز پارٹی کے جلسے میں گیا ہے یا پھر اُس کا کسی طور پر بھی اس وقت پیپلز پارٹی سے تعلق ہے تو اُسے قتل کر دیا جاتا ہے۔ اپنا رات دن نچھاور کر دینے والے سیاسی لوگ اس علاقے کو چھوڑ کر جا چکے ہیں، اگر شک ہو جائے کہ اس نے کسی پولیس والے کو دور سے سلام کیا ہے تو اُسے بھی قتل کر دیا جاتا ہے۔ اگر مخالف علاقے میں اپنے رشتہ داروں سے ملاقات کے لیے چلا جائے تو گھر والوں کو یقین نہیں ہوتا کہ اب وہ بچ پائیگا۔ ایسے ماحول میں اگر پولیس کسی کو گرفتار کر لے تو کوئی گواہ نہیں ملتا اور سب کے سب ''باعزت بری'' ۔ ایسے میں کیا کیا جائے۔ غور کریں کیا ہوا۔ ایک گینگ کے لوگوں نے 55 سال کے عبدالغفور اور اُس کے بڑے بیٹے غلام مصطفی کو دن کی روشنی میں گھر سے اغوا کر لیا ۔ گھر والوں نے سب کا دروازہ کھٹکھٹایا لیکن کسی نے اُن کی فریاد نہیں سُنی اور جمعے کی رات کو ان کی لاشیں غریب شاہ روڈ سے ملیں۔
لاشوں کو سول اسپتال کراچی منتقل کیا گیا۔ چھوٹا بیٹا جمعے کی رات کو لاشوں کی پہچان کے لیے اسپتال گیا اور ایمبولینس کے ذریعہ لاشیں آ رہی تھیں کہ گھر کے سامنے چھوٹے بیٹے غلام علی کو بھی قتل کر دیا گیا۔ اب گھر میں تین لاشیں موجود تھیں اور یوں سمجھیں کی گھر کے تمام مردوں کو ایک ہی دن میں قتل کر دیا گیا۔ اب آپ ایک لمحہ کے لیے سوچیں، کیا گزری ہو گی اُس گھر پر کہ ایک ہی دن میں تین جنازے دروازے پر پڑے ہوں۔ یہ ایک دن کا رونا نہیں ہے اب اُن کے گھر والوں کی زندگی کا کیا ہو گا۔ لیاری میں یہ روز کا معمول ہے۔ اب آپ مجھے بتائیں کہ فوری طور پر وہاں کے لوگوں کو کس طرح تحفظ دیا جائے کس طرح وہاں کے لوگوں کے دل سے خوف نکالا جائے۔ کون سی عدالت میں کیس لگایا جائے۔ کون سا جی دار گواہ مل جائے گا۔ کون سا وکیل کیس لڑیگا اور کون سی پولیس اُن کو تحفظ فراہم کریگی۔ اس نام نہاد دعووں میں کیا رکھا ہے۔
عدالت میں امن و امان کے لیے کتنی سماعتیں ہو چکی ہیں؟ کتنے مظاہرے ہو چکے ہیں؟ لفظوں کی منڈی سجانیوالے اب اس کا حل بھی تو بتائیں؟ کیونکہ آپ کا تعلق لیاری سے نہیں ہے اور آپ بہت دور اپنے ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے ہیں، یہ بات بہت اچھی لگتی ہے کہ قانون پر عملدرآمد ہونا چاہیے۔ ماورائے عدالت کوئی کام نہیں ہونا چاہیے۔ فوج کو اس علاقے میں قدم نہیں رکھنا چاہیے۔ بالکل میں آپ کی بات سے متفق ہوں ایسا کچھ بھی نہیں ہونا چاہیے تو پھر آپ فوری اور مستقل حل بتا دیجیے اور تھوڑی دیر کے لیے Ideal ازم سے باہر جھانک لیجیے۔ اس مثال کو دینے کا ایک ہی مقصد تھا کہ اب آپ بتایئے جو لوگ کھل کر نفرتیں پھیلا رہے ہیں جو گھروں میں گھس کر ڈرا تے ہیں کہ آپ ہمارے ساتھ مل جاؤ ورنہ آپ کا بھی یہ ہی حال ہو گا۔ جو سر عام ریاست کو چیلنج کرتے ہیں۔ اُن کے لیے کیا حل ہے؟ جو ایک پولیو کا قطرہ تک نہیں پلا دینا چاہتے بلکہ اگر کوئی پلانے کی کوشش بھی کرے تو اُسے قتل کر دیا جاتا ہے؟ انتظامیہ کا حال دیکھیں۔ پولیو ورکر جنھیں شہید کیا گیا ان کے قاتلوں کا کیا ہوا؟آئیے ایک اور پہلو دیکھیں لوگ کس طرح اپنی رسومات کو جائز قرار دے کر قتل کو ٹھیک کہتے ہیں۔ ایک علاقائی مثال پڑھ لیں تو یہ بھی سمجھ آ جائے گا۔
قصہ حیدرآباد کا ہے اور گزشتہ ہفتے ہی پیش آیا۔ کھوسو برادری کے ایک شخص کا کسی بات پر دوسرے کھوسو سے جھگڑا ہو گیا۔ دونوں رشتہ دار ہیں۔ ایک نوابشاہ میں رہتا تھا۔ اُس دن (ش) اپنے رشتہ داروں سے ملنے کے لیے حیدر آباد آیا تھا جہاں ایک بار پھر (ر) سے جھگڑا ہو گیا اور سب کے سامنے اُس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر (ش) کا قتل کر دیا لیکن اس سے بریت کا ایک ہی طریقہ تھا کہ سب سے کمزور کو قربانی کا بکرا بنایا جائے اس لیے (ر) نے اپنی بیوی کو بھی قتل کر دیا جس کی عمر صرف 18 سال تھی۔ اور الزام یہ لگایا گیا کہ ان دونوں کو نازیبا حالت میں دیکھا تھا لیکن پولیس اور وہاں کے تمام لوگ اس بات کو جانتے ہیں کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ (ش) کو پہلے (ر) نے قتل کیا اور اُس کے بعد قانونی طور پر بچ جانے کے لیے کاروکاری کا نام دے دیا گیا۔ اب کچھ سالوں کے بعد یہ رہا ہو جائے گا اور انھیں اپنے علاقے میں ایک ہیرو کے طور پر لیا جائے گا۔ مجھے یہ بات سمجھ نہیں آ رہی کہ رسومات یا پھر مذاہب یا فرقہ کی بنیاد پر دوسروں کو قتل کرنے کی ترغیب دینے دوسروں کو قتل کرنے اور دوسروں کو نقصان دینے کے بعد وہ ہمارے ہیرو کیوں بن جاتے ہیں۔
یہ قانون کا راگ سُنانے والے نہ سمجھتے ہیں اور نہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ دہشت کے کس ماحول میں ہم گھروں میں بھی خیریت سے رہنے کی دعائیں کرتے ہیں۔ یہ Ideal دنیا کی مثالیں دینے والے دیکھنا ہی نہیں چاہتے کہ ہماری آنکھوں میں خوف کی کتنی گہری چادر بنی ہوئی ہے۔ ہماری روح کے اندر سرایت کر جانے والا خوف۔ یہ جنیوا کنونشن، اقوام متحدہ، مغرب کے دلفریب قوانین اور اُس کی میٹھی میٹھی باتیں کرنیوالے کیا یہ جانتے ہیں کہ ہم کن درندوں کے درمیان رہتے ہیں، مت دیجیے پھانسی، مت کہیں انھیں کچھ۔ بقول شخصے نہ چھیڑ ملنگا نوں۔ اور پھر دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ جس آگ میں پاکستان کی عوام جل رہے ہیں اُس میں یہ ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر ذہنی عیاشی کرنیوالے بھی بچ نہیں پائینگے۔ آئیے صرف دو مثالیں دے کر بتاتا ہوں کہ ہم کس نظام میں رہتے ہیں۔
یہ کراچی کا وہ علاقہ ہے جس کے رہنے والے ہر وقت ہر سانس اپنے محلوں، اپنی گلیوں اور اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ وہاں سے روز آپ کو حکومت اور پولیس کا یہ دعوی نظر آتا ہو گا کہ آج ہم نے کتنے دہشتگردوں کو مار کر اپنے سینے پر تمغے سجائے ہیں۔ انھیں گلیوں میں عبدالغفور نے اپنی آنکھ آج سے پچاس سال پہلے کھولی تھی۔ یہ علاقہ غریب شاہ کے مزار کے ساتھ ہے جہاں کبھی زندگی ہر وقت مسکراتی رہتی تھی۔ جہاں ایرانی مال ہر دکان پر نظر آتا تھا جہاں کبھی رات نہیں ہوتی تھی۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں ہر نظریہ کے لوگ آپ کو مختلف چبوتروں پر بیٹھے نظر آتے تھے جہاں فٹ بال اور سیاست ہی موضوع ہوتا تھا آج اُس علاقے میں بس خوف ہے اور صرف خوف۔ جہاں پاکستان پیپلز پارٹی کا جھنڈا سب سے پہلے لگا تھا۔ جسے پیپلز پارٹی کا ناقابل تسخیر قلعہ کہا جاتا تھا۔ آج وہاں پیپلز پارٹی کا نام لینا جرم بن چکا ہے۔
اگر معلوم ہو جائے کہ وہ پیپلز پارٹی کے جلسے میں گیا ہے یا پھر اُس کا کسی طور پر بھی اس وقت پیپلز پارٹی سے تعلق ہے تو اُسے قتل کر دیا جاتا ہے۔ اپنا رات دن نچھاور کر دینے والے سیاسی لوگ اس علاقے کو چھوڑ کر جا چکے ہیں، اگر شک ہو جائے کہ اس نے کسی پولیس والے کو دور سے سلام کیا ہے تو اُسے بھی قتل کر دیا جاتا ہے۔ اگر مخالف علاقے میں اپنے رشتہ داروں سے ملاقات کے لیے چلا جائے تو گھر والوں کو یقین نہیں ہوتا کہ اب وہ بچ پائیگا۔ ایسے ماحول میں اگر پولیس کسی کو گرفتار کر لے تو کوئی گواہ نہیں ملتا اور سب کے سب ''باعزت بری'' ۔ ایسے میں کیا کیا جائے۔ غور کریں کیا ہوا۔ ایک گینگ کے لوگوں نے 55 سال کے عبدالغفور اور اُس کے بڑے بیٹے غلام مصطفی کو دن کی روشنی میں گھر سے اغوا کر لیا ۔ گھر والوں نے سب کا دروازہ کھٹکھٹایا لیکن کسی نے اُن کی فریاد نہیں سُنی اور جمعے کی رات کو ان کی لاشیں غریب شاہ روڈ سے ملیں۔
لاشوں کو سول اسپتال کراچی منتقل کیا گیا۔ چھوٹا بیٹا جمعے کی رات کو لاشوں کی پہچان کے لیے اسپتال گیا اور ایمبولینس کے ذریعہ لاشیں آ رہی تھیں کہ گھر کے سامنے چھوٹے بیٹے غلام علی کو بھی قتل کر دیا گیا۔ اب گھر میں تین لاشیں موجود تھیں اور یوں سمجھیں کی گھر کے تمام مردوں کو ایک ہی دن میں قتل کر دیا گیا۔ اب آپ ایک لمحہ کے لیے سوچیں، کیا گزری ہو گی اُس گھر پر کہ ایک ہی دن میں تین جنازے دروازے پر پڑے ہوں۔ یہ ایک دن کا رونا نہیں ہے اب اُن کے گھر والوں کی زندگی کا کیا ہو گا۔ لیاری میں یہ روز کا معمول ہے۔ اب آپ مجھے بتائیں کہ فوری طور پر وہاں کے لوگوں کو کس طرح تحفظ دیا جائے کس طرح وہاں کے لوگوں کے دل سے خوف نکالا جائے۔ کون سی عدالت میں کیس لگایا جائے۔ کون سا جی دار گواہ مل جائے گا۔ کون سا وکیل کیس لڑیگا اور کون سی پولیس اُن کو تحفظ فراہم کریگی۔ اس نام نہاد دعووں میں کیا رکھا ہے۔
عدالت میں امن و امان کے لیے کتنی سماعتیں ہو چکی ہیں؟ کتنے مظاہرے ہو چکے ہیں؟ لفظوں کی منڈی سجانیوالے اب اس کا حل بھی تو بتائیں؟ کیونکہ آپ کا تعلق لیاری سے نہیں ہے اور آپ بہت دور اپنے ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے ہیں، یہ بات بہت اچھی لگتی ہے کہ قانون پر عملدرآمد ہونا چاہیے۔ ماورائے عدالت کوئی کام نہیں ہونا چاہیے۔ فوج کو اس علاقے میں قدم نہیں رکھنا چاہیے۔ بالکل میں آپ کی بات سے متفق ہوں ایسا کچھ بھی نہیں ہونا چاہیے تو پھر آپ فوری اور مستقل حل بتا دیجیے اور تھوڑی دیر کے لیے Ideal ازم سے باہر جھانک لیجیے۔ اس مثال کو دینے کا ایک ہی مقصد تھا کہ اب آپ بتایئے جو لوگ کھل کر نفرتیں پھیلا رہے ہیں جو گھروں میں گھس کر ڈرا تے ہیں کہ آپ ہمارے ساتھ مل جاؤ ورنہ آپ کا بھی یہ ہی حال ہو گا۔ جو سر عام ریاست کو چیلنج کرتے ہیں۔ اُن کے لیے کیا حل ہے؟ جو ایک پولیو کا قطرہ تک نہیں پلا دینا چاہتے بلکہ اگر کوئی پلانے کی کوشش بھی کرے تو اُسے قتل کر دیا جاتا ہے؟ انتظامیہ کا حال دیکھیں۔ پولیو ورکر جنھیں شہید کیا گیا ان کے قاتلوں کا کیا ہوا؟آئیے ایک اور پہلو دیکھیں لوگ کس طرح اپنی رسومات کو جائز قرار دے کر قتل کو ٹھیک کہتے ہیں۔ ایک علاقائی مثال پڑھ لیں تو یہ بھی سمجھ آ جائے گا۔
قصہ حیدرآباد کا ہے اور گزشتہ ہفتے ہی پیش آیا۔ کھوسو برادری کے ایک شخص کا کسی بات پر دوسرے کھوسو سے جھگڑا ہو گیا۔ دونوں رشتہ دار ہیں۔ ایک نوابشاہ میں رہتا تھا۔ اُس دن (ش) اپنے رشتہ داروں سے ملنے کے لیے حیدر آباد آیا تھا جہاں ایک بار پھر (ر) سے جھگڑا ہو گیا اور سب کے سامنے اُس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر (ش) کا قتل کر دیا لیکن اس سے بریت کا ایک ہی طریقہ تھا کہ سب سے کمزور کو قربانی کا بکرا بنایا جائے اس لیے (ر) نے اپنی بیوی کو بھی قتل کر دیا جس کی عمر صرف 18 سال تھی۔ اور الزام یہ لگایا گیا کہ ان دونوں کو نازیبا حالت میں دیکھا تھا لیکن پولیس اور وہاں کے تمام لوگ اس بات کو جانتے ہیں کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ (ش) کو پہلے (ر) نے قتل کیا اور اُس کے بعد قانونی طور پر بچ جانے کے لیے کاروکاری کا نام دے دیا گیا۔ اب کچھ سالوں کے بعد یہ رہا ہو جائے گا اور انھیں اپنے علاقے میں ایک ہیرو کے طور پر لیا جائے گا۔ مجھے یہ بات سمجھ نہیں آ رہی کہ رسومات یا پھر مذاہب یا فرقہ کی بنیاد پر دوسروں کو قتل کرنے کی ترغیب دینے دوسروں کو قتل کرنے اور دوسروں کو نقصان دینے کے بعد وہ ہمارے ہیرو کیوں بن جاتے ہیں۔