پاکستان ایک نظر میں سال نیا پردکھ وہی پرانے
اگر2014 پرنظر دوڑائی جائے توخدشہ یہی ہے کہ شاید ہمارا پالا انہی مسائل سے پڑیگا جو گزشتہ ایک عشرے سےدرپیش چلے آرہے ہیں۔
گزشتہ سال بھی پیوستہ سالوں کی طرح365 دن پورے کر کے گزر گیا۔ ہر نئے سال کی آمد پر ہم ایک پر امن اور خوش حال پاکستان کے خواب آنکھوں میں سجائے اسے خوش آمدید کہتے ہیں۔ کہنا بھی چاہئے کیونکہ خواب ہیں تو امید ہے اور امید زندگی کا دوسرا نام۔ نئے سال کو ہم کس وجہ سے خوش آمدید کہیں؟
یہ وہ بنیادی سوال ہے جو حل طلب ہے ۔ اگر2014ء پر ایک طائرانہ سی نظر دوڑائی جائے تو خدشہ یہی ہے کہ شاید ہمارا پالا انہی مسائل سے پڑے گا جو گزشتہ ایک عشرے سے درپیش چلے آرہے ہیں۔ کیونکہ وہ کون سا ہمالیہ ہے جسے ہم نے سر کر لیا ہے اور اس پر اتراتے پھریں؟
سب سے پہلے ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے والے مسئلے یعنی دہشت گردی پر نظر دوڑائیں تو آپ نظر دوڑا دوڑا کے تھک جائیں گے لیکن اس میں کوئی خاطر خواہ کمی نظر نہیں آئے گی۔ حالانکہ اس سے نمٹنے کے لئے کافی تگ و دو کی گئی اور اب بھی کی جارہی ہے مگر ناجانے وہ کونسا نقطہ ہے جہاں معاملات تھم جاتے ہیں۔
دہشت گردی بعد اب آتے ہیں ایک ایسے دیرینہ مسئلے کی طرف جس کی بنیاد پر گزشتہ الیکشن لڑا گیا۔ جی ہاں! آپ بالکل صحیح سمجھے، یہاں بات ''لوڈ شیڈنگ'' کی ہورہی ہے۔ جب بھی موسم گرما کا آغاز ہوتا ہے تو لوڈشیڈنگ کا نہ ختم ہونے والا اندھیری دور شروع ہو جاتا ہے۔ عوام بجلی کے حصول کے لئے آپ کو سڑکوں پر احتجاج کرتے دکھائی دیں گے۔بعض اوقات تو احتجاجی مظاہرے باقاعدہ میدان جنگ کا روپ دھار لیتے ہیں اور غصہ پولیس پر اتررہا ہوتا ہے۔البتہ موسم سرما میں احتجاج کی نوعیت بدل جاتی ہے۔احتجاج تب بھی ہوتا ہے لیکن یہ بجلی کا نہیں بلکہ گیس کی لوڈشیڈنگ کاہوتا ہے۔
اب آتے ہیں پولیو کی طرف۔ ڈبلیو ایچ او(WHO)کے مطابق پاکستان دنیا بھر میں پولیوکیسز پھیلانے والا واحد ملک بن گیا ہے۔ اسی وجہ سے پاکستانیوں پر بیرون ملک سفر کے لئے پو لیو سرٹیفکیٹ دکھا نا لازمی قرار دیا گیا۔ عالمی ادارہ صحت نے حکومت پاکستان کو انتباہ کیا ہے کہ اگر پولیوکی روک تھام کے لئے فوری اور مثبت اقدام نہ کئے گئے تو بیرون ملک' سفر کرنے والے پاکستانیوں کی سکریننگ بھی کی جاسکتی ہے۔حکمرانوں کی نا اہلی کی بدولت تھر کا قحط بھی ایک مستقل مسئلہ بن گیا ہے۔ گزشتہ تین سالوں سے صحرائے تھر ' بارش سے محروم ہے۔دریائے سندھ سے بے شمارنہریں نکلتی ہیں لیکن کسی نہر کا پانی آج تک تھر میں نہیں گرایا گیا۔ ابر کرم برس جائے تو یہ پانی کنوؤں میں جمع کر لیا جاتا ہے جس سے تھر باسی اپنے لئے اناج اگاتے ہیں۔ بال بچوں، مال ڈنگر و دیگر ضروریات کے لئے پورا سال استعمال کرتے ہیں۔اگر بارش نہ ہو تو صحرائے تھر اپنی پیاس بجھانے کیلئے کسی کو بھی نہیں بخشتا خواہ وہ بچہ ہو، بوڑھا ہو، جوان ہو یا پھر چرند پرند۔
مہنگائی کا جِن اب تو خیر بھاری بھرکم دیوہیکل کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ اسے اب قابو کرنے کیلئے بوتل نہیں شاید ڈرم بھی کم پڑ جائے۔ حکومت خواہ جتنے بھی دعوے کرے کہ غربت میں اتنے اعشاریے کمی واقع ہوئی ہے لیکن درحقیقت یہ کمی ان ہی کے ''اعشاریوں'' میں ہوئی ہوتی ہے۔ عام آدمی تو اپنی بقا کی جنگ لڑنے کے لئے کیا کیاپاپڑ بیل رہا ہے یہ توکوئی اسی سے پوچھے؟ آئے روز ٹی وی چینلز پرایسی رپورٹس دیکھنے کو ضرور ملتی ہیں جن میں ملک کا مستقبل نوجوان طبقہ ایم اے ، گرایجویٹ کرنے کے بعد بھی آپ کو رکشہ چلاتے، پکوڑوں کی ریڑھی لگاتے اور بسوں اور ویگنوں میں اشیائے ضروریہ بیچتے نظر آئیں گے۔
بسا اوقات تو مائیں اپنے جگر گوشوں کو برائے فروخت کا لیبل لگائے کھڑی بھی دکھائی دی ہیں۔ کون سی ایسی ماں ہے جو اپنے بچے کو فروخت کرنا چاہے گی؟آپ کو ان تلخ حقائق سے حقیقت کا ادراک ہو جانا چاہئے کہ بے روزگاری کن حدوں کو چھو رہی ہے؟ہاں جی !یاد آیا سیلاب تو رہ ہی گیا تھا۔(مسائل ہی اتنے ہیں کہ رہ رہ کر یاد آرہے ہیں) اس کی تباہ کاریاں کوئی ان سے پوچھے جو ہر دوسرے سال اس کا شکار ہوتے ہیں لیکن حکومت ہے کہ انہیں اپنے مسائل سے ہی فرصت نہیں ملتی۔
یہ وہ چند مسائل ہیں جو ہمارے ساتھ سائے کی طرح چمٹے ہوئے ہیں۔ اللہ کرے جب اگلے برس کا پہلا سورج طلوع ہو تو یہ مسائل ہمیشہ ہمیشہ کے لئے غروب ہو جائیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
یہ وہ بنیادی سوال ہے جو حل طلب ہے ۔ اگر2014ء پر ایک طائرانہ سی نظر دوڑائی جائے تو خدشہ یہی ہے کہ شاید ہمارا پالا انہی مسائل سے پڑے گا جو گزشتہ ایک عشرے سے درپیش چلے آرہے ہیں۔ کیونکہ وہ کون سا ہمالیہ ہے جسے ہم نے سر کر لیا ہے اور اس پر اتراتے پھریں؟
سب سے پہلے ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے والے مسئلے یعنی دہشت گردی پر نظر دوڑائیں تو آپ نظر دوڑا دوڑا کے تھک جائیں گے لیکن اس میں کوئی خاطر خواہ کمی نظر نہیں آئے گی۔ حالانکہ اس سے نمٹنے کے لئے کافی تگ و دو کی گئی اور اب بھی کی جارہی ہے مگر ناجانے وہ کونسا نقطہ ہے جہاں معاملات تھم جاتے ہیں۔
دہشت گردی بعد اب آتے ہیں ایک ایسے دیرینہ مسئلے کی طرف جس کی بنیاد پر گزشتہ الیکشن لڑا گیا۔ جی ہاں! آپ بالکل صحیح سمجھے، یہاں بات ''لوڈ شیڈنگ'' کی ہورہی ہے۔ جب بھی موسم گرما کا آغاز ہوتا ہے تو لوڈشیڈنگ کا نہ ختم ہونے والا اندھیری دور شروع ہو جاتا ہے۔ عوام بجلی کے حصول کے لئے آپ کو سڑکوں پر احتجاج کرتے دکھائی دیں گے۔بعض اوقات تو احتجاجی مظاہرے باقاعدہ میدان جنگ کا روپ دھار لیتے ہیں اور غصہ پولیس پر اتررہا ہوتا ہے۔البتہ موسم سرما میں احتجاج کی نوعیت بدل جاتی ہے۔احتجاج تب بھی ہوتا ہے لیکن یہ بجلی کا نہیں بلکہ گیس کی لوڈشیڈنگ کاہوتا ہے۔
اب آتے ہیں پولیو کی طرف۔ ڈبلیو ایچ او(WHO)کے مطابق پاکستان دنیا بھر میں پولیوکیسز پھیلانے والا واحد ملک بن گیا ہے۔ اسی وجہ سے پاکستانیوں پر بیرون ملک سفر کے لئے پو لیو سرٹیفکیٹ دکھا نا لازمی قرار دیا گیا۔ عالمی ادارہ صحت نے حکومت پاکستان کو انتباہ کیا ہے کہ اگر پولیوکی روک تھام کے لئے فوری اور مثبت اقدام نہ کئے گئے تو بیرون ملک' سفر کرنے والے پاکستانیوں کی سکریننگ بھی کی جاسکتی ہے۔حکمرانوں کی نا اہلی کی بدولت تھر کا قحط بھی ایک مستقل مسئلہ بن گیا ہے۔ گزشتہ تین سالوں سے صحرائے تھر ' بارش سے محروم ہے۔دریائے سندھ سے بے شمارنہریں نکلتی ہیں لیکن کسی نہر کا پانی آج تک تھر میں نہیں گرایا گیا۔ ابر کرم برس جائے تو یہ پانی کنوؤں میں جمع کر لیا جاتا ہے جس سے تھر باسی اپنے لئے اناج اگاتے ہیں۔ بال بچوں، مال ڈنگر و دیگر ضروریات کے لئے پورا سال استعمال کرتے ہیں۔اگر بارش نہ ہو تو صحرائے تھر اپنی پیاس بجھانے کیلئے کسی کو بھی نہیں بخشتا خواہ وہ بچہ ہو، بوڑھا ہو، جوان ہو یا پھر چرند پرند۔
مہنگائی کا جِن اب تو خیر بھاری بھرکم دیوہیکل کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ اسے اب قابو کرنے کیلئے بوتل نہیں شاید ڈرم بھی کم پڑ جائے۔ حکومت خواہ جتنے بھی دعوے کرے کہ غربت میں اتنے اعشاریے کمی واقع ہوئی ہے لیکن درحقیقت یہ کمی ان ہی کے ''اعشاریوں'' میں ہوئی ہوتی ہے۔ عام آدمی تو اپنی بقا کی جنگ لڑنے کے لئے کیا کیاپاپڑ بیل رہا ہے یہ توکوئی اسی سے پوچھے؟ آئے روز ٹی وی چینلز پرایسی رپورٹس دیکھنے کو ضرور ملتی ہیں جن میں ملک کا مستقبل نوجوان طبقہ ایم اے ، گرایجویٹ کرنے کے بعد بھی آپ کو رکشہ چلاتے، پکوڑوں کی ریڑھی لگاتے اور بسوں اور ویگنوں میں اشیائے ضروریہ بیچتے نظر آئیں گے۔
بسا اوقات تو مائیں اپنے جگر گوشوں کو برائے فروخت کا لیبل لگائے کھڑی بھی دکھائی دی ہیں۔ کون سی ایسی ماں ہے جو اپنے بچے کو فروخت کرنا چاہے گی؟آپ کو ان تلخ حقائق سے حقیقت کا ادراک ہو جانا چاہئے کہ بے روزگاری کن حدوں کو چھو رہی ہے؟ہاں جی !یاد آیا سیلاب تو رہ ہی گیا تھا۔(مسائل ہی اتنے ہیں کہ رہ رہ کر یاد آرہے ہیں) اس کی تباہ کاریاں کوئی ان سے پوچھے جو ہر دوسرے سال اس کا شکار ہوتے ہیں لیکن حکومت ہے کہ انہیں اپنے مسائل سے ہی فرصت نہیں ملتی۔
یہ وہ چند مسائل ہیں جو ہمارے ساتھ سائے کی طرح چمٹے ہوئے ہیں۔ اللہ کرے جب اگلے برس کا پہلا سورج طلوع ہو تو یہ مسائل ہمیشہ ہمیشہ کے لئے غروب ہو جائیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔