امریکا کا پاک بھارت سرحدی کشیدگی پر اظہار تشویش

پاکستان کی جانب سے ہمیشہ مثبت اقدامات اور مسائل کے حل کے لیے مذاکرات پر زور دیا گیا ہے

یعنی وہی مرغے کی ایک ٹانگ۔ جب کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ سے متعلق پاکستان کی قربانیوں کی اب ایک دنیا معترف ہے، فوٹو: فائل

پاک بھارت سرحد پر بڑھتی کشیدگی اور بھارتی فوج کی جانب سے بلااشتعال فائرنگ کے واقعات کے بعد امریکی محکمہ خارجہ نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ دونوں ممالک مسائل کے حل کے لیے باہمی بات چیت کا راستہ اپنائیں گے۔ محکمہ خارجہ کی ترجمان جین ساکی نے منگل کو پریس بریفنگ میں فائرنگ کے تبادلے میں جاں بحق افراد اور زخمیوں کے سوگوار خاندانوں کے ساتھ تعزیت و ہمدردی کا اظہار کیا اور کہا کہ ماضی میں دونوں ملک وفود کا تبادلہ کرتے رہے ہیں، امریکا دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، سرحدی جھڑپیں باعث تشویش ہیں، مسائل مذاکرات سے حل کیے جائیں۔


یہ بات اب روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان کی جانب سے ہمیشہ مثبت اقدامات اور مسائل کے حل کے لیے مذاکرات پر زور دیا گیا ہے اور موجودہ وزیراعظم پاکستان اس سلسلے میں نہ صرف پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہیں بلکہ مختلف فورم پر میاں نواز شریف نے پاک بھارت بہتر تعلقات کی خواہش کا اظہار بھی کیا ہے لیکن یہ ہٹ دھرم بھارت ہی ہے جو ہمیشہ پاکستان کی مثبت پیش قدمی کے آڑے آیا ہے اور مذاکرات کو سبوتاژ کرنے میں بھی پہل بھارت کی جانب سے کی جاتی ہے۔ بھارتی حکمران جماعت بی جے پی کے ترجمان سدھا نشوتر واڑی کا بیان اس صورتحال کی صحیح عکاسی کرتا ہے کہ بھارت درحقیقت مذاکرات کے حق میں نہیں ہے، ترجمان بی جے پی کا کہنا ہے کہ جب تک اسلام آباد دہشت گردی سے متعلق اپنا مائنڈ سیٹ تبدیل نہیں کرلیتا اس وقت تک نئی دہلی امن مذاکرات کے لیے تیار نہیں ہوگا۔

یعنی وہی مرغے کی ایک ٹانگ۔ جب کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ سے متعلق پاکستان کی قربانیوں کی اب ایک دنیا معترف ہے، امریکا اور پاکستان کے درمیان انسداد دہشت گردی سمیت مختلف شعبوں میں تعاون جاری ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان نے یہ وضاحت بھی کی کہ جان کیری نے پاکستان کی جانب سے دہشت گردوں کے خلاف موثر اقدامات کا سرٹیفکیٹ جاری کیا نہ ہی کیری لوگر بل کے تحت امداد دی جا رہی ہے، پاکستان کو مالی امداد کی فراہمی کے دوسرے کئی راستے ہیں ۔ پاک بھارت سرحدی کشیدگی پر امریکا کی تشویش بجا لیکن اسے بھی اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ اس کشیدگی کے محرکات بھارت کی جانب سے ہیں، اس لیے مناسب ہوگا کہ امریکا بھارت کو اپنا طرز عمل درست کرنے پر راضی کرے۔
Load Next Story